الَّذِیْ اور بِعَبْدِہِ کے اَسرار و رُموز

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔

لفظِ سُبْحَان کی تشریح و توضیح کے بعد اَب ہم آیتِ کریمہ کے اگلے اَلفاظ الَّذِیْ اور بِعَبْدِہِ کے مفہوم کو متعین کرتے ہوئے اِن اَلفاظ کے اَسرار و رُموز اور اُن میں پوشیدہ حِکمتوں کے بارے میں اِظہارِ خیال کریں گے۔
الَّذِیْ بمعنی وہ عربی لُغت اور اَدب کے اِعتبار سے اِسمِ موصول ہے۔ ضابطہ اور قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی ذات کا ذِکر مقصود ہو تو الَّذِیْ کا لفظ اِستعمال کیا جاتا ہے۔ عَبْد کا معنی بندہ ہے لیکن جب اِسے وسیع تر معنوں میں لیا جائے تو کائنات کی ہر ذِی شعور اور غیر ذِی شعور، ہر جاندار اور غیر جاندار گویا کائنات کی ہر شئے پر اِس لفظ کے مفہوم کا اِطلاق ہو گا، اِسی لئے کہا جاتا ہے کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اپنے خالق کی حمد بیان کر رہا ہے۔ گویا ہر چیز فریضہئ بندگی کی اَدائیگی میں مصروف ہے۔ اِس میں اِنسان، حیوان، چرند اور پرند حتی کہ بے جان اَجسام کی بھی کوئی تخصیص نہیں۔ اِرشادِ خداوندی ہے :
إِن کُلُّ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلاَّ آتِی الرَّحْمَنِ عَبْدًاO
(مریم، 19 : 93)
آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی (آباد) ہیں (خوہ وہ فرشتے ہیں یا جن و اِنس) وہ اللہ کے حضور محض بندہ کے طور پر حاضر ہونے والے ہیںo

اللہ ربّ ُالعزّت نے سفرِ معراج کا ذِکر کرتے وقت اپنا نام لیا اور نہ اپنے محبوب کا۔ ۔ ۔ اِشارے کِنائے میں بات کی ہے۔ قرآنِ مجید کا یہ اُسلوب اِظہار کی دِلکشی اور بیان کی رعنائیوں کا آئینہ دار ہے۔ پاک ہے وہ ذات (اللہ) جس نے سیر کرائی اپنے بندہئ خاص کو۔ اِشارے اور کِنائے میں بات کرنا شدید محبت اور اَپنائیت کی علامت ہوتا ہے۔ گویا الَّذِیْ کہنے میں اُس کے چاہنے اور عَبْدِہِ میں اُس کے چاہے جانے کی طرف اِشارہ ہے۔ الَّذِیْ اور عَبْدِہِ میں بھی پوشیدہ حِکمتوں سے علم و دانش کی پرتیں کھلتی ہیں۔ اَسرار و رُموز، حقائق کی روشنی میں آتے ہیں اور تفہیم کی بے شمار صورتیں صفحہئ قرطاس پر بکھر جاتی ہیں۔

1۔ نہ کوئی زمیں پہ جواب ہے نہ فلک پہ کوئی مِثال ہے:
عربی زبان کے قواعد و ضوابط کے مطابق الَّذِیْ اور عَبْد کے اَلفاظ اپنے اِطلاق کے اِعتبار سے تخصیص کی بجائے عمومیت کے حامل ہیں، یعنی قادرِ مطلق کے علاوہ بھی کوئی شخص الَّذِیْ ہو سکتا ہے۔ دُوسری طرف تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ بھی کائنات کی ہر شئے عَبْد ہے۔ بالفاظِ دیگر ہر ذات، ہر وُجود الَّذِیْ تو ہے لیکن الَّذِیْ نقص اور عیب سے مبرّا نہیں، یعنی اُس میں عیب بھی ہوتا ہے، نقص بھی پایا جاتا ہے، اُس میں کمی اور کجی بھی ضرور ہوتی ہے۔ جبکہ یہ الَّذِیْ کامل الَّذِیْ ہے، اِس میں کوئی نقص ہے اور نہ کوئی عیب۔ یہ ہر قسم کی کمی اور کجی سے بھی پاک ہے۔ فرمایا پاک ہے وہ الَّذِیْ ہر عیب، نقص، کمی اور کجی سے۔ اِسی طرح ہر شئے عَبْد ہے اور ہر عَبْد اپنی عبدیت میں ناقص اور عاجز ہے لیکن جس عَبْد کا ذِکرِجمیل اِس آیتِ کریمہ میں ہو رہا ہے وہ کوئی عام عَبْد نہیں ہے۔ یہ اُس رحیم و کریم خدا کا خاص عَبْد ہے جس عَبْد کی عبدیت پر اُسے ناز ہے۔ جس عَبْد کو اُس نے کل جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا، جس عَبْد کے سرِ اَقدس پر ختمِ نبوّت کا تاج سجایا، اُسے عظمتوں اور رِفعتوں سے ہمکنار کیا اور جسے مُعجزہئ معراج عطا کر کے آسمانوں کی سیر کرائی کہ پوری دنیا ورطہئ حیرت میں ڈُوب گئی۔ یہ رسول عبدیت میں کامل و اَکمل، کوئی نقص اور نہ کوئی عیب، کسی قسم کی کوئی کمی نہ کجی، اپنی عبدیت میں یکتا و تنہا۔ فرمایا کہ پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے خاص بندے کو، گویا اِشارے کِنائے میں بات اِس لئے کی تاکہ واضح ہو جائے۔ ایک ذات ربِّ کائنات کی ہے اور ایک رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی۔ ۔ ۔ وہ اُلوہیت میں یکتا تو یہ عبدیت میں یکتا۔ ۔ ۔ اُس جیسا کوئی ربّ نہیں، وہ ربوبیت میں بے مثال و بے نظیر۔ ۔ ۔ اِن جیسا کوئی عَبْد نہیں، یہ اپنی بندگی میں بے مثال و بے نظیر ہے۔

2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بشری و تہذیبی وُجود سلامت رہا:
معراجِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَصل میں معراجِ بندگی ہے۔ عظمتوں اور رِفعتوں کے اُس سفر میں اللہ ربّ ُالعزّت نے اپنے محبوب بندے اور رسول کو اَن گنت اِنعامات و اِعزازات سے نوازا۔ معراج اِتنا بڑا واقعہ ہے کہ اُس میں آقائے دوجہاں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ قَابَ قَوْسَیْن پر فائز کیا گیا۔ قُرب اپنی اُس اِنتہا کو پہنچا کہ ہمیں اُس کا اِدراک حاصل ہو سکتا ہے اور نہ شعور۔ فاصلے مٹتے چلے گئے، دُوریاں ختم ہوتی چلی گئیں، حجابات اُٹھتے چلے گئے لیکن اُس مقام پر پہنچ کر بھی بندہ بندہ ہی رہا۔ درجات کی اُس عظیم الشّان بلندی پر جلوہ اَفروز ہو کر بھی عاجزی و اِنکساری کا پیرہن اُس رسولِ عظیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے باعثِ اِعزاز بنا رہا۔ کرہئ اَرضی پر واپسی ہوئی تو سیاحِ لامکاں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بشری و تہذیبی وُجود سلامت تھا۔

3۔ مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی:
کامل بندگی کی منزل مردِ مومن کی وہ آرزو ہے جس کے حصول کے لئے وہ اپنی زِندگی کا ہر لمحہ حکمِ خدا کے تابع کر لیتا ہے، اِس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ پروردگارِ عالم کی کامل بندگی اِیمان میں کامل ہوئے بغیر نہیں ملتی اور اِنسان اِیمان میں کامل اُس وقت ہوتا ہے جب وہ سرتاپا عشقِ اِلٰہی میں ڈُوب جاتا ہے۔ جب بندگی اُس کے سر کا تاج ٹھہرتی ہے اور اُس کا دِل توحیدِ اِلٰہی کا مرکز بن جاتا ہے۔ قرآنِ پاک میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَالَّذِینَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّہِ.
(البقرہ، 2 : 165)
اور جو لوگ اِیمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔
اپنے ربّ سے ٹوٹ کر محبت کرنا ہی بلندء درجات کا باعث بنتا ہے۔ توحید کا پرچم سینوں میں بھی لہرائے تو بات بنتی ہے۔ اِرشادِ ربانی ہے :
وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ إِلَیْہِ تَبْتِیلًاO
(المزمل، 73 : 8)
اور آپ اپنے ربّ کے نام کا ذِکر کرتے رہیں اور (نماز میں) سب سے الگ ہو کر اُسی کے ہو رہیں۔

مقامِ بندگی کا حصول اُسی وقت ممکن ہے جب اِنسان ہر شئے سے منہ موڑ کر اپنے خالق سے لَو لگا لے۔ اَپنے دِل سے ہر کسی کی محبت کو نکال دے اور اپنے مولا سے رِشتہ جوڑ لے کہ اُس کی چوکھٹ بندے کی منزلِ مقصود ہے۔ اپنے مالکِ حقیقی کی بندگی کا کیف ہر کیف پر محیط ہے۔ اِقبال نے کہا تھا :
متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی

بندے کو اگر مقامِ بندگی عطا ہو جائے تو پھر وہ ہر منصب سے بے نیاز ہو جاتا ہے، ہر چیز کو ہیچ گردانتا ہے، لہٰذا اَپنے عبد کو آسمانوں کی سیر کرانے اور اُسے عظمتوں اور رِفعتوں سے ہمکنار کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ جس بندے کو اِعزازِ معراج سے نوازا گیا وہ کوئی عام بندہ نہ تھا بلکہ وہ اللہ کا آخری رسول تھا، جو ہر شئے سے کٹ کر اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ رشتہئ بندگی کو اَپنی اِنتہاؤں تک لے جا چکا تھا۔ جو ساری ساری رات اللہ کے حضور قیام کرتا کہ پاؤں سُوجھ جاتے اور اُن میں وَرم آ جاتا لیکن مقامِ بندگی کی حلاوتوں میں کچھ اور اِضافہ ہو جاتا۔ کیف و مستی کی کیفیتوں میں دِل ڈُوب جاتا اور جبینِ اَقدس میں سجدوں کا سرُور سما جاتا، بندگی کا حسن خدا کو چاہنے سے ہی قائم رہتا ہے۔ گویا آسمانوں کا یہ سفرِ عظیم محض حسنِ اِتفاق نہ تھا بلکہ یہ سفر ایک چاہت کا سفر تھا۔ محبت و مؤدّت کا سفر تھا۔ عظمت و رِفعت کا سفر تھا۔ ایک آرزو کی تکمیل اور ایک خواہش کے اِتّمام کا سفر تھا۔ وہ سفر کہ جس کے بعد تاریخِ اِرتقائے نسلِ اِنسانی کا یہ سفر اُس سفر کی گردِ پا کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا کر اِعتبار کی سند حاصل کیا کرے گا۔

4۔ سب کچھ عطا کیا ہے خدا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
کائنات کی کوئی شئے الذّی کے دائرے سے باہر نہیں، یہ ہر شئے پر محیط ہے۔ اسی طرح کائنات کی ہر شئے عَبْد ہے اور عَبْد بھی ہر شئے پر محیط ہے۔ آیتِ مقدسہ میں الذّی سے مراد خالقِ کائنات کی ذاتِ والا صفات ہے اور عَبْد سے مراد سردارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس ہے۔ ہم نے دیکھا کہ الذّی کائنات کی ہر شئے پر محیط ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی ذات اپنی خالقیت، مالکیت، منتہائیت، معبودیت اور قدرت کے اعتبار سے کائنات کی ہر شئے پر حاوی اور محیط ہے۔ قرآن حکیم میں ہے :
أَلَا إِنَّہُ بِکُلِّ شَیْء ٍ مُّحِیطٌ.
(حم السجدہ، 41 : 54)
خبردار! بے شک وہ (اپنے علم و قدرت سے) ہر چیز کوگھیرے ہوئے ہے۔

اسی طرح چونکہ کائنات کا ذرہ ذرہ عبد ہے اور عبد یعنی ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی کائنات کی تمام اشیاء حتی کہ ایک ایک ذرے پر محیط ہے۔ گویا کائنات کا ایک ذرہ بھی عبد کامل یعنی تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن رحمت سے خارج نہیں۔ ارشاد خداوندی ہے :
وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِینَO
(الانبیاء ، 21 : 107)
اور (اے رسول محتشم! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہےo

اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات خالق کائنات ہے، وہ کل جہانوں کا پالنے والا ہے، وہ لائق بندگی ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ اپنی خلاقیت کے اعتبار سے ہر شئے پر محیط ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں۔ تمام عالمین آپ کے دامن رحمت میں آ کر اپنے وجود کو معتبر بناتے ہیں۔ رحمت کے اعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر شئے پر محیط ہیں، اس لئے اگر کسی کو وجود کی حاجت ہو تو وہ اپنے وجود کی رحمت آپ کی ذات اقدس سے طلب کرتا ہے۔ ہر خیرات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے ملتی ہے۔ فرمایا کہ اللہ دیتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔ چنانچہ جسے اپنی بقا کی حاجت ہو، وہ بقا کی رحمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چشمہ حیات سے لیتا ہے۔ وہ شخص جسے کمال کی ضرورت ہو وہ کمال کی رحمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال سے حاصل کرتا ہے۔ اللہ نے اپنے محبوب رسول کو سب کچھ عطا کیا ہے۔ وہ عطا ہی عطا ہیں، وہ سخا ہی سخا ہیں، کائنات کی ہر شئے دامن خیرالبشر میں ہے۔

5۔ حقیقت محمدی
بادء النظر میں الذی اور عبد کا مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ کون الذی اور کون عبد؟ دونوں لفظوں میں ابہام پایا جاتا ہے اور جب تک نشاندہی نہ کی جائے ابہام دور نہیں ہوتا۔ مثلاً جب الذی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ کس ہستی کی بات ہو رہی ہے اور جب عبد کا لفظ زبان سے نکالا جاتا ہے تو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کس بندے کی بات کی جا رہی ہے۔ الذی کے اس ابہام کا معنی یہ ہے کہ اس مقام پر الذی ایک ایسے مکمل حسن کا نام ہے جو اپنے حسن و جمال کے اعتبار سے ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی، لیکن عقل کے دائرہ اختیار سے باہر اور اس کی نظروں سے اوجھل ہے۔ کوئی آنکھ ربّ کائنات کے جلووں کا نظارہ نہیں کر سکتی۔ اسے جاننے کی قوت کوئی نہیں رکھتا۔ ارشاد ربانی ہے :
لاَّ تُدْرِکُہُ الْأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الْأَبْصَارَ.
(الانعام، 6 : 103)
نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ لفظ عبد میں بھی ابہام پایا جاتا ہے کہ کون عبد؟ اس ابہام کا مطلب بھی یہ ہو گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کا جلوہ بھی عام ہے۔ ہر آنکھ دیکھنے والی نہیں مگر ہر کسی نے اپنی بصارت کے مطابق اکتساب نور کیا۔ ظاہر ہونے کے باوجود بھی اس حسن کی حقیقت سمجھ سے بالا اور آنکھ سے اوجھل ہے۔ کوئی مقام محمدی کو پا سکا ہے اور نہ حقیقت محمدی جان سکا ہے۔
چپ کر مہر علی ایتھے جا نئیں بولن دی

6۔ ہر حسنِ کائنات تری رہگذر میں ہے
یہ جو کائنات کی وسعتوں میں ہر لمحہ رنگ و نور کی بارش ہو رہی ہے، کہکشاؤں کے جھرمٹ اپنے ہی ہالہ نور میں سمٹ رہے ہیں، ہر لحظہ عجائبات کا ظہور ہو رہا ہے اور قدم قدم پر امکانات کی نئی دنیاؤں کا انکشاف ہو رہا ہے، کارکنان قضا و قدر ہر آن مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں، کرہ ارضی نجانے کب سے اپنے محور پر محو خرام ہے۔ زمین پر سبزے کی نرم و گداز چادر نجانے کب سے اولاد آدم کے قدموں کی پذیرائی کا اعزاز حاصل کر رہی ہے۔ گھٹائیں پانی کی چھاگلیں بھر بھر کر بنجر زمینوں کی طرف رواں دواں ہیں، پھول رعنائیوں کے پیکر جمیل میں لپٹے ہوئے ہیں۔ الغرض حسن و جمال کا جو بھی مرقع ہے وہ یا تو خدائے عظیم و کریم کے حسن قدرت کی جلوہ گاہ ہے یا تاجدار ارض و سما جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن رحمت کی خیرات ہے اس لئے کہ الذی اور عبدہ الگ الگ ہر شئے پر محیط ہیں۔ ہر شئے پر حاوی ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہر حسن، ہر جمال اور ہر کمال نور کے انہی دو سرچشموں سے سیراب ہوتا ہے۔ آب خنک کا ہر جرعہ انہی شاداب موسموں کی عطا ہے۔ یہ حسن کسی کو دکھائی دے یا نہ دے یہ اس کی بصارت کی کجی ہے ورنہ حسن تو ہر آن موجود ہے۔ کائنات کی ہر شئے انہی دو ذاتوں الذی (اللہ ربّ العزت) اور عبدہ (حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے حسن و جمال کی آئینہ دار ہے۔ کارخانہ قدرت کی ہر چیز اور آئینہ خانے کا ہر عکس اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا دریوزہ گر ہے۔ کائنات کا ہر حسن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہگزر میں آنکھیں بچھا رہا ہے۔

7۔ اے کہ ترے وجود پر خالق دو جہاں کو ناز
آسمان سے اترنے والا ہر لفظ اور قلب اطہر پر نازل ہونے والا ہر پیغام، علم و حکمت اور دانائی کا حرف آخر ہے۔ آیت مقدسہ میں اگر ذات باری چاہتی تو اس مقام پر عبدہ کی جگہ نبیہ یا رسولہ کے الفاظ بھی استعمال کر سکتی تھی کہ پاک ہے وہ ذات جو اپنے نبی یا رسول کو سیر کے لئے لے گئی۔ ربّ کائنات نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر جمیل بندہ کہہ کر کیا تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتبہ نبوت اور مقام رسالت کو اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے جدا نہیں کیا جا سکتا مگر سدرۃ المنتہیٰ سے بھی آگے بلایا جانا بندگی کی شان کے ساتھ ہے کیونکہ دونوں کے فرائض جدا جدا ہیں۔ نبی یا رسول خالق سے مخلوق کی طرف آتا ہے۔ وہ خود ہی خدا کے قرب و وصال کی لذتوں سے آشنا ہونے کا خواہش مند نہیں ہوتا بلکہ اپنے ساتھ مخلوق کو بھی یہ لذتیں اور حلاوتیں عطا کرتا ہے جبکہ اس کے برعکس عبد مخلوق سے خالق کی طرف جاتا ہے۔ وہ خدا کی محبت اور اس کے مشاہدہ جمال میں غرق ہوتا ہے۔ اسی کے ذکر و فکر میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کی عبدیت اس وقت درجہ کمال کو پہنچتی ہے جب وہ اللہ کی ذات میں گم ہو جاتا ہے۔ گویا عبد مخلوق سے جتنا دور ہوتا ہے اتنا ہی خالق کے نزدیک ہوتا ہے۔ اسی لحاظ سے اس کا مرتبہ عبدیت بھی اتنا ہی بلند ہو گا تو چونکہ معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلق سے خالق کی طرف گئے لہٰذا اس مقام پر عبد کا لفظ ہی استعمال کیا گیا کہ اس میں قرب اور وصل کی حلاوتیں اپنی انتہا کو پہنچی ہوتی ہیں۔

8۔ عالم بشریت کی زد میں
عربی زبان کے محاورے اور گرائمر کے قواعد و ضوابط کی رو سے لفظ عبد اگر کسی زندہ شخص کے لئے مستعمل ہو تو اس سے جسم اور روح کا مجموعہ مراد ہو گا۔ اگر جسم زمین پر ہی رہے اور تنہا روح پرواز کر جائے تو اسے اسریٰ بروحہ کہا جائے گا، اسری بعبدہ نہیں ہوتا۔ گویا لفظ عبد کے استعمال سے بتانا یہ مقصود تھا کہ ربّ ذوالجلال نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم بیداری میں جسم اور روح کے ساتھ سفر معراج کی عظمتوں سے ہمکنار کیا اور اقلیم رسالت کے اس آخری تاجدار معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معجزہ معراج عطا کر کے اس خلعت فاخرہ سے نوازا جس کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے اور آخری حقدار ٹھہرے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک یہ معجزہ کسی دوسرے نبی کو عطا نہیں ہوا۔ یہ اعزاز صرف اور صرف نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصے میں آیا کہ انہیں ان کے ربّ نے روح و جسم کے ساتھ آسمانوں کی سیر کرائی اور انہیں فضیلت کی ساری دستاروں کے لئے مختص کر دیا۔
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں

9۔ شاہکارِ صنّاعِ اَزل
حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس صناع ازل کا شاہکار بے مثال کہ نہ کوئی نظیر نہ کوئی مثیل۔ جس طرح خدائے لم یزل اپنی ربوبیت میں یکتا و تنہا اسی طرح یتیم عبداللہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اقلیم رسالت میں یکتا و تنہا۔ پوری کائنات رسول ازل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا تصدق، تمام روشنیاں انہی کی زلف معنبر کا عکس جمیل، نہ کوئی نقص نہ کوئی عیب، نہ کوئی کجی نہ کوئی کمی، کسی بھی زاویہ نگاہ سے دیکھیں کسی بھی پیمانے یا کسوٹی پر پرکھیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدائے لاشریک کی تخلیق بے مثال، شاہکار لازوال، رسول اول و آخر، نبی امروز و فردا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ تخلیق کار بہت سی چیزیں تخلیق کرتا ہے لیکن اس کی ہر تخلیق شاہکار نہیں ہوتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قدرت کا وہ شاہکار بے مثال ہیں جس پر ربّ کائنات بھی مفتخر ہے اور اس پر خالق کائنات اور ملائکہ بھی درود بھیجتے ہیں۔ بلاتمثیل و بلا مثال اس مقام پر اللہ ربّ العزت نے یہ فرمانے کی بجائے کہ جس نے بندے کو سیر کرائی بلکہ یوں فرمایا کہ جس نے اپنے بندے کو سیر کرائی گویا فرمایا جا رہا ہے کہ خبردار! یہ میرا کوئی عام بندہ نہیں۔ اپنے میں جو اپنائیت ہے، جو چاہت ہے، وہ محبوبیت کے ہزار رخ آشکار کر رہی ہے۔ ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ بندہ تو ہر کوئی ہے لیکن ہر بندہ ایسا بندہ نہیں ہوتا کہ اس پر فخر کیا جا سکے اور ڈنکے کی چوٹ پر کیا جائے۔ میرے اس بندے کو ہر پہلو سے دیکھو، ہر حوالے سے جانچو، تمہیں کوئی نقص نظر نہیں آئے گا، کوئی کجی دکھائی نہیں دے گی کہ یہ میرے حسن تخلیق کا شاہکار ہے۔ کسی تخلیق کو اپنانا اسے اپنے تعارف میں پیش کرنا یقینا غیر معمولی بات ہے۔ بقول علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
عبد دیگر عبدہ چیز دگر
ایں سراپا انتظار اُو منتظر
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 371088 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.