کاروبار میں برکت کا وظیفہ (آخری حصہ)

قارئین کرام
آج کے اس کالم میں ایسا وظیفہ بتا جائے گا جو کہ مستند ہو گا اور احادیث کی رو سے ہوگا تا کہ بے جا اعتراض کی نوبت ہی نہ آئے اور یہ بات یا د رہے کہ یہ عام وظائف نہيں ہیں کہ یہ کسی عامل نے یا کسی بابا نے دیے ہوں اور ان میں کسی کمی کا کوتاہی کا پہلو باقی رہے بلکہ یہ وہ وظائف ہیں کہ جو رب تعالی نے اپنے حبیب علیہ الصلوۃ و السلام کی زبان مبارک سے ہمیں عطا فرمائے ہیں اور ہمیں کاروبار و تجارت میں برکت پیدا کرنے کا طریقہ سکھلادیا ہے
اب ہر کسی کی اپنی مرضی ہے کہ وہ چاہے تو ایک عام انسان یا عامل کی بات پر عمل کرے اور برکت کا خواہاں ہو یا رب تعالی کے بتائے طریق پر چل کر برکت حاصل کرے

کاروبار میں برکت کا طریقہ اورآداب تجارت
(۱) خریدو فروخت میں سچائی سے کام لے (۲)اگر چیز میں کوئی عیب (خرابی) ہو تو وہ بھی بیان کردے
(۳) حسن اخلاق کو اپنائے خاص کرنرمی کو لازم جانے (۴)قسم کھانے سے پرہیز کرئے اگرچہ سچا ہو
(۵)منافع کی شرح کا حد سے زیادہ نہ ہونا (۶) صدقات کی کثرت کرئے
(۷) دوران خریدوفروخت بھی حقوق اﷲ کاخاص خیال رکھے (۸)قرض دے یا لے تو اس کو لکھ لے اور اس پر گواہ بھی بنالے


(۱) خریدو فروخت میں سچائی سے کام لے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک تجار قیامت کے دن فجار(بدکار) اٹھائے جائیں گے
مگر وہ تاجر جو اﷲ سے ڈرے اور( لوگوں پر )احسان کرئے اور سچ بولے (یہ نیک لوگوں میں شامل ہونگے)
(سنن الترمذی حدیث نمبر۱۲۱۰دار الفکر بیروت)

نبی کریم ﷺ نے خریدو فروخت میں جھوٹ بولنے سے سختی سے منع فرمایا ہے چنانچہ
حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیںکہ
رسول اکرم ﷺ ہم تجار حضرات کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ
اے گروہ تجار تم خاص کر جھوٹ سے بچو ۔
[الترغیب والترہیب جلد ۲ صفحہ۳۶۹ مکتبہ محمودیہ]


عبد الرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ کوفرماتے سناکہ
بے شک تاجر فجار(بدکار) ہیں لوگوں نے عرض کی یارسول اﷲ کیا اﷲ نے خرید و فروخت کو
جائز نہیں فرمایا ؟
فرمایا ہاں کیوں نہیں لیکن تاجر قسمیں کھاتے ہیں پس گناہگار ہوجاتے ہیں اور بات بڑھا چڑھا ک
ر بیان کرتے ہیں تو جھوٹ بول جاتے ہیں۔
[الترغیب والترہیب جلد ۲ صفحہ۳۶۶ مکتبہ محمودیہ]


حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ
تمام کمائیوں میں سب سے پاکیزہ کمائی ان تاجروں کی ہے جب وہ بات کریں توجھوٹ نہ بولے
جب ان کے پاس مانت رکھوئی جائے تو وہ خیانت نہ کریں اور جب وعدہ کریں تو اس کے خلاف نہ کریں
اور جب کوئی چیز خریدیں تو اس کی مذمت نہ کریں (عیب نہ نکالیں)اور جب کوئی چیزفروخت کریں
توانکی تعریف میں مبالغہ آرائی نہ کریں اور ان پر کسی کا آتا ہو تو دیر نہ کریں اور جب ان کا کسی پر آتا ہو تو سختی نہ کریں
(الآداب للبیہقی حدیث نمبر۷۸۷ا)

اب ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم کاروبار میں چیز بیچتے وقت اور خریدتے وقت سچ بولتے ہیں یا اپنی چیزوں کی بے جا مبالغہ آرائیوں کے ساتھ تعریفات کے پل باندھتے ہیں اور دوسرے دوکاندار کی چیزوں کے بلا وجہ عیب بیان کرتے ہیں تو ہما را مشاہدہ ہے کہ اکثر دوکاندار ان برائیوں میں مبتلاء ہیں اب رزق میں برکت کے اس پہلے اصول کو یاد رکھیں کہ جب اپنی کسی چیز کو فروخت کریں توسچ کو لازم جانیں اور اس چیزکی صحیح تعریف کریں بے جا تعریفات اور مبالغہ آرائیوں سے اجتناب کریں اور جب کسی چیز کو خرید نے کا ارادہ ہو تو بلا وجہ عیب نہ نکالیں اور نہ جھوٹ بولیں کہ فلا ں دوکاندار تو یہ مجھے اتنی کی دے رہا تھا یہ توہلکا مال ہے وغیرہ جملے بول کر دوکاندار کا دل نہ توڑیں بلکہ جو آُ کی گنجائش ہے اور چیز سمجھ میں آتی ہے تو لے لیں خوامخواہ عیب نہ نکا لیں

(۲)اگر چیز میں کوئی عیب (خرابی) ہو تو وہ بھی بیان کردے

نبی کریم ﷺ سے عرض کی گئی کہ سب سے پاکیزہ کمائی کونسی ہے
فرمایا کہ بندے کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور دھوکے سے پاک خرید وفروخت کرنا
السنن الکبری للبیہقی حدیث نمبر۱۰۷۰۱)

وَاثِلَۃَ بْنِ الأَسْقَع رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ نے کو فرماتے
سناکہ جس نے عیب والی چیز کو فروخت کیا اور عیب کو ظاہر نہ کیا وہ ہمیشہ اﷲ تعالی کی
ِ ناراضی میں ہے یا فرمایا کہ ہمیشہ فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۳۳۲)

عقبہ بن عامررضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے سناکہ
ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور جب مسلمان اپنے بھائی کے ہاتھ کوئی چیز بیچے
جس میں عیب ہو تو جب تک بیان نہ کرئے اسے بیچنا حلال نہیں ۔
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۳۳۱ا)

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ ایک غلہ کی ڈھیری کے
پاس سے گزرے اس میں ہاتھ ڈال دیا حضور ﷺ کوانگلیوں میں تری محسوس ہوئی ارشاد
ِ فرمایا اے غلہ والے یہ کیا ہے اس نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ اس پر بارش کا پانی پڑ گیا
تھا ارشاد فرمایا کہ تو نے بھیگے ہوئے کو اوپر کیوں نہیں کردیا کہ لوگ دیکھتے جو دھوکہ دے
وہ ہم میں سے نہیں
(الصحیح المسلم حدیث نمبر۲۹۵)

ملاوٹ کرنے والوں اور خراب مال بیچنے والوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ جس سے رب العالمین ناراض ہو فرشتے اس پر لعنت کرنے والے ہوں نبی علیہ السلام اس سے دوری اختیار فرما رہے ہوں تو کس طرح اس کے کاروبار میں برکت ہوگی اور کس طرح وہ مصائب و آلام سے بچا ہوا ہوگا اللہ تعالی عقل سلیم عطا فرمائے لہذا اول تو کسی بھی طرح کی ملاوٹ نہ کریں اور اگر بالفرض مال خراب ہے یا کسی اور نے ملاوٹ والا مال آپ کو دیا ہے تو آپ حدیث پر عمل کرتے ہوئے خریدار کو وہ بتا دیں ویسے بھی عموما لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ کس مال میں کیا ملاوٹ ہے اور کیا خرابی ہے کہ لوگوں سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے مثلا دودھ میں پانی ،لال مرچ میں کلر ،چینی میں چاول کے ٹکڑے،گوشت میں پانی کاپریشر،دال میں کنکر وغیرہ لہذا جب لوگوں کے علم میں یہ بات ہے کہ دوکاندارزیادہ تر جھوٹ بولتے ہیں اور دھوکہ دیتے ہیں تاکہ ان کا مال بکے تو حدیث پر عمل کریں اور بتا دیں اس سے انشاء اﷲ آپ کے کاروبار میں برکت ہوگی نیزوہ آپ کی سچائی کو دیکھ کر ہمیشہ آپ سے ہی چیز خریدے گا

(۳) حسن اخلاق کو اپنائے خاص کرنرمی کو لازم جانے
دوکاندار اور خریدار دونوں کو ہی بوقت خریداری حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے بلکہ اسلام نے تو ہمہ وقت ہی ہر ایک سے حسن اخلاق کے ساتھ پیش آنے کا درس دیا ہے اگر گاہک کی کوئی بات برئی بھی لگے تو بجائے غصہ کرنے کے اس سے درگزر فرمائیں انشاء اﷲ اس عمل سے کاروبار میں برکت پیدا ہوگی کہ اﷲ تعالی غصہ پینے والے اور درگزر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے

الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں اور غصہ پینے والے
اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں
سورہ العمران آیت۱۳۴

(۴)قسم کھانے پرہیز کرئے اگرچہ سچا ہو
کسی شئے کو فروخت کرنے کے لئے یا خرید نے کے لئے سچی قسم بھی کھانے سے منع فرمایا ہے کہ اس سے کاروبار میں سے برکت اٹھ جاتی ہے بلکہ بوقت خرید و فروخت آواز کے ساتھ ذکر واذکار کرنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتےسناکہ
قسم کھانے سے سامان تو بک جاتا ہے لیکن برکت ختم ہوجاتی ہے
سنن ابی داؤدحدیث نمبر۳۳۳۷)

(۵)منافع کی شرح کا حد سے زیادہ نہ ہونا

بیچنے والے کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی چیز کو کتنی ہی قیمت پر فروخت کرئے لیکن اگر وہ کم منافع پر کسی چیز کو فروخت کرئے توایسے شخص کے لئے شریعت مطھرہ نے جنت کی خوشخبری دی ہے جوخریدار پر کسی شئے کی خرید پر آسانی کرئے کہ نیز جو آج دنیا میں مسلمانوں پر کسی بھی طرح آسانی کرئے گا تو اﷲ تبارک وتعالی اس کے لئے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی آسانیاں پیدا فرمائے گا

حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالی
اس شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا جو خریدو فروخت میں آسانی پیدا کرئے گا
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۲۰۲)

حضرت جابر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا
کہ اﷲ تعالی نرمی کرنے والے بندے پر رحم فرماتا ہے کہ جب وہ کوئی چیز بیچے
تو نرمی کرئے اور جب خریدےتو نرمی کرئے اور جب فیصلہ کرئے تو نرمی کرئے۔
(الصحیح البخاری حدیث نمبر۲۰۷۶)

سبحان اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جنت میں جانے کا طریقہ بیان فرمادیا ساتھ ہی ساتھ ئی بھی بتا دیا کہ اگر یہ چاہتے ہو کہ تمہارے لئے دنیا و آخرت میں آسانیاں ہو یعنی مشکلات نہ ہو تنگی رزق یا کسی بھی قسم کی کوئی مصبیت تم کو نہ پہنچے تو تم بھی اللہ کی مخلوق پر آسانیاں کرو تمہارے ساتھ بھی آسانی کی جائے گی

(۶) صدقات کی کثرت کرئے
تجارحضرات کو چاہیے کہ کاروبار میں خیر وبرکت پانے کے لئے وہ بیوہ ،یتیم بچوں،مسجد ومدرسہ وغیرہ کی صدقہ و خیرات کی صورت میں مدد کرتے رہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے تجارت کرنے والوں کو صدقہ کثرت سے ادا کرنے کی تعلیم ارشاد فرمائی ہے

اے گروہ تجار بیشک خریدوفروخت میں لغو بات (جھوٹی اور فضول بات)
اور قسم ہوجاتی ہے پس تم اس کے ساتھ صدقہ ملا لیا کرو
(سنن ابی داؤد حدیث نمبر۳۳۲۸)

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ
مسکینوں اور بیواؤں پر خرچ کرنے والا اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثل ہے
اورپوری رات قیام کرنے والے اور دن میں روزہ رکھنے والے کی مثل ہے
َ(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۱۴۰)

حضرت انس رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
کہ صدقہ رب عزوجل کے غضب کو بجھاتاہے اور بری موت کو دفعہ کرتاہے
رواہ ترمذی [۱۸۱۴،مرآۃ المناجیح ، ج: ۳، ص: ۱۱۴]

(۷) دوران خریدوفروخت بھی حقوق اﷲ کاخاص خیال رکھے
جب نماز کا وقت ہوجائے تو سب کام چھوڑ کر اپنے پروردگار عزوجل کی عبادت کرنے مسجد جائے اور آرام واطمینان سے نماز ادا کرئے یہ توکل(یقین) رکھتے ہوئے کہ میں جس کی عبادت کررہا ہوں وہی رزاق ہے(سب کو رزق دینے والا ہے) وہ مجھے بہتر اور کشادہ ور برکت والا رزق عطا فرمائے گا۔
نیز جب صاحب زکوۃ (جو حاجت اصلیہ سے زائد ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم کا مالک ہو) پر ایک پورا سال ہوجائے تو وہ فورا سے اپنی زکوۃ کو خود مستحقین تک پہنچائے۔

قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّہْوِ وَ مِنَ التِّجَارَۃِ۱ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ
تم فرماؤ وہ جو اللہ کے پاس ہے کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ کا رزق سب سے اچھا
[سورہ جمعہ آیت۹]

(۸)قرض دے یا لے تو اس کو لکھ لے اور اس پر گواہ بھی بنالے

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلآی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہ
اے ایمان والوں جب تم ایک مقرر مدت تک کسی دین کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو
(سورہ بقرہ آیت۲۸۲)

اور قرض لیتے یا دیتے وقت گواہ بھی بنا لینے چاہیے اور اس کو لکھ بھی لینا چاہیے تاکہ کوئی بھول نہ جائے نیز اگر طویل عرصہ کے لئے ادھار دیا جارہا ہو جیسے کہ دوکان کرائے پر لی جاتی ہے تو ایڈوانس کے نام پر ادھار دیا جاتا ہے تو بہتر یہ ہے کہ کسی مستحکم کرنسی (مثلا پاؤنڈ ،ڈالر وغیرہ) میں دیں اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ بیس سال بعد بھی آپ اپنی رقم واپس لیں گے تو اس سے ویلیو (قوت خرید) زیادہ کم نہیں ہوگی اور اگر روپے میں آپ ادھار دیں گے تو آج آپ پچاس ہزار دیں گے تو اس کی مارکیٹ ویلیو(قوت خرید) کچھ اور ہوگی اور بیس سال بعد اس پچاس ہزار کی مارکیٹ ویلیو(قوت خرید) کچھ اور ہوگی یعنی بہت زیادہ تفاوت ہوگا جبکہ اگر ڈالر میں یہ رقم دی گئی ہو تو زیادہ فرق نہیں آئے گا۔اورقرضدار اگر تنگ دست یا نادار ہو تو اس کو مہلت دینا یاقرض کا جزو یا کل معاف کردینا سبب اجرِ عظیم ہے

وَ اِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اور اگر قرضدار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک
اور قرض اس پر بالکل چھوڑ دینا تمہارے لئے اور بہترہے اگر جانو
(سورہ بقرہ آیت۲۸۰)

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جو تنگدست پر آسانی کرئے گا اﷲ تعالی اس کے لئے دنیا وآخرت دونوں میں آسانی کرئے گا
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۴۱۷)

حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جو یہ
ٍ چاہتاہے کہ اس کی دعائیں مقبول ہوں اور اس کی تکالیف دور ہوں پس اسے چاہیے
کہ وہ تنگدست کے لئے آسانی کرئے
(مسند احمد حدیث نمبر۴۸۵۲)

(۱)۱ا مختصر سوالات وجوابات (۲)خیر وبرکت کے وظائف

سوال نمبر ۱ :کسی چیز کونقد کم قیمت پر اور ادھار زیادہ قیمت پر بیچنا کیسا ہے
الجواب :نقد اور ادھار قیمتوں میں میں فرق کو فقہاء کرام نے درست بیان فرمایا ہے یعنی بیچنے والے کو اختیا ر ہے کہ وہ نقد چیز کم پیسوں میں ادھار زیادہ ہ پیسوں میں فروخت کرئے لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ خریدار کے جدا ہونے سے پہلے بیچنے والا ایک رقم مقرر کردے اور یہ شرط نہ لگائے کہ اگر تم نے پیسوں میں تاخیر کی تو تم پر کچھ جرمانہ لگایا جائے گا نیز ادھار بیچنے میں سود کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص دو ماہ کے ادھار پر کوئی چیز ۲۰۰ کی خریدے اور پھر دو ماہ گزر جانے کے بعد وہ یہ کہے کہ تم مجھ سے ۲۰۰ کے بجائے ۴۰۰ لے لینا مگر اب میں تمہیں اب مزید دو ماہ بعد قیمت ادا کروں گا

سوال نمبر ۲: ڈاکٹر حضرات کو جو دوائیں اس طور پر دی جاتیں ہیں کہ وہ بغیر معاوضہ لئے مریضوں کو لگائے یا دے انہیں بیچنا کیسا ہے
الجواب ناجائز ہے کہ مذکورہ کپنی نے ڈاکٹر کو بغیر معاضہ کے دوا دینے کا وکیل بنایا ہے لہذا ڈاکٹراسے بیچ کر اس سے نفع حاصل نہیں کرسکتا

سوال نمبر ۳:سنار کو دو تولہ کی ۶چوڑیا ں دیں اوراس کے بدلے میں دو تولے کے ہی دوکڑے لئے اور کچھ پیسے بھی دیئے تو کیا یہ جائز ہے
الجواب یہ ناجائز و سود ہے سونے کو سونے سے یا چاندی کی چاندی سے خرید وفروخت ہو توبرابر برا بر اور نقد ہونی چاہیے کہ کمی بیشی اور ادھار دونوں ناجائز ہے

. یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبآوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً۱ وَّ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ وَ اتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْٓ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ
اے ایمان والو سود دونا دون نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اُس امید پر کہ تمہیں فلاح ملے اور اُس آگ سے بچو جو کافروں کے لئے تیار رکھی ہے (سورۃ العمران آیت ۱۳۰)

قاعدہ: جب دونوں اشیاء ایک جنس ہو(سونے کی سونے ، چاندی کی چاندی اورگندم کی گندم سے خریدو فروخت ہو یعنی دونوں ایک ہی طرح کی چیز ہو) اور قدر بھی ایک ہو(یعنی وہ دونوں اشیاء یا توماپ سے یا وزن سے بکنے والی ہو) تو ادھار بیچنا اور کمی بیشی کے ساتھ بیچنا دونوں ہی ناجائز ہے
اور اگر جنس ایک ہو مگر قدر ایک نہ ہو مثلا عدد کے سا تھ بکنے والی اشیاء جیسے انڈے کو انڈے سے فروخت کرنا تو کمی بیشی جائز ہے مگر ادھار ناجائز ہے یعنی دس انڈوں کو پندرہ انڈوں سے ہاتھوں ہاتھ خریدنا جائز اور ادھار ناجائز ہے
اور اگر جنس اور قدر دونوں مختلف ہوں تو کمی بیشی اور ادھار دونوں جائز ہیں جیسے کہ گندم کو سونے سے خریدنا یا ڈالر کو روپیہ سے خریدنا تو جنس بھی مختلف ہیں اور قدر(ماپ یا وزن) بھی مختلف یا سرے سے قدر ہے ہی نہیں(یعنی نہ ماپ سے اور نہ ہی وزن سے بکنے والی ہو)
لہذا اس اصول کو یاد رکھا جائے

سوال نمبر ۴ :نوٹ کی نوٹ کے بدلے کمی بیشی کے ساتھ خریدو فروخت جائز ہے
الجواب جائز ہے مگر ادھار ناجائز ہے کہ جنس ایک ہے اور اگر جنس مختلف ہو ں تو کمی بیشی اور ادھار دونوں جائز ہیں مثلا ڈالر کو روپوں سے ادھار خریدنا جائز ہے

سوال نمبر ۵: جانور مر گیا اس کی چمڑی بیچنا جائز ہے یا نہیں
الجواب اگر اس کی چمڑی کی دباغت کردی پھر بیچا تو جائز ہے ا ور اگر کھال بھی نہیں اتاری یا کھال اتار تو لی ہے مگر اس کی دباغت نہیں کی تو یہ دونوں صورتیں ناجائز ہیں دباغت یہ ہے کہ چمڑے کو سکھا لیا جائے خواہ دھوپ میںیا نمک لگا کر سکھا لیا جائے یا کسی بھی طریقے سے چمڑے کو سکھا لیا جائے اور اس کی تمام رطوبت ختم ہو جائے اور بدبو بھی جاتی رہے

سوال نمبر ۶: بیع (خرید وفروخت)نہ ہونے کی صورت میں بیعانہ ضبط کرنا کیسا ہے
الجواب بیعانہ ضبط کر لینا حرام وناجائز کام ہے یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ
29. اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضامندی کا ہو(سورہ النساء آیت ۲۹)

سوال نمبر ۷: کھڑی فصل اس شرط پر خریدنا کہ جب تک فصل تیار نہ ہوجائے کاٹی نہیں جائے گی
الجواب بیع فاسدہے کہ بیع (خریدوفروخت) میں ہر وہ شرط کہ عقد جس کا تقاضہ نہ کرئے( ایسی شرط کہ بیچنے والے یا خریدنے والے میں سے کسی ایک کا فائدہ ہو) وہ شرط فاسد ہے نبی کریم ﷺ نے بیع اور شرط کو جمع کرنے سے منع فرما یا ہے لہذا اس کے جواز کاطریقہ یہ ہے کہ پہلے فصل کو خرید لیا جائے پھر یا تو مالک زمین خود اپنی رضا سے فصل کو زمین پر رہنے دے یا پھر زمین کو کرایے پر لے لے

سوال نمبر ۸: سرسوں کے بیج اس طرح خریدے کہ ان کی قیمت پہلے ادا کردی اور مال دو ماہ بعد ملے گا کیا یہ جائز ہے
الجواب یہ بیع سلم کی صورت ہے کہ جس میں ثمن(یعنی قیمت) پہلے ادا کردی جاتی ہے اور مبیع(جو چیز خریدی جارہی ہے یعنی سامان)کچھ مدت بعد دی جاتی ہے تو اگر بیع سلم کی تمام شرائط پائی گئیں تو یہ جائز ہے ورنہ ناجائز ہے ۔ بیع سلم کی شرائط (۱)جنس کو بیان کرنا یعنی کیا خریدنا ہے گندم ، جو،باجرا ،سرسوں کے بیج وغیرہ(۲)نوع کو بیان کرنا مثلا سرخ گیہوں یا سفید گیہوں(۳)بیان صفت مثلا اچھی گیہوں یا خراب گیہوں(۴)قیمت بیان کرئے اور چیز کی مقدار بھی بیان کرئے کہ اتنے من گیہوں اتنے روپے میں لوں گا (۵) مدت بیان کرئے کہ کتنے ماہ میں چاہیے اور مدت ایک ماہ سے کم نہیں ہونی چاہیے (۶)اس جگہ کو بھی بیان کرئے جہاں پر وہ سامان بیچنے والا خریدار کو دیگا اور یہ اس وقت ہے جبکہ سامان ایسا ہو کہ جس کی بار برداری صرف کرنی پڑتی ہو (۷)اسی مجلس میں خریدار اس مال کی تمام قیمت بھی ادا کردے

سوال نمبر ۹:کیااس طرح کاروبار کے لئے مال دینا جائز ہے یا نہیں کہ مجھے دس ہزار روپے ہر ماہ دیتے رہنا اور اس کے علاوہ جتنا بھی نفع ہو وہ تمہارا ہے
الجواب ایسا کرنا جائز نہیں کہ یہ حرام وسود کی صورت ہے

سوال نمبر ۱۰:زید نے ایک لاکھ روپے کی بیسی(کمیٹی)ڈالی جس میں ماہانہ ۴ہزار روپے دینے ہیں زید کی بیسی کا نمبر ۱۸ ہے اور بکر کی بیسی کا نمبر ۲ ہے زید کو ابھی کاروبار کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے لہذ اس نے بکر کو کہا کہ آپ مجھے دوسر ا نمبر دیدو اور میرا نمبر آپ لے لیں اور میں آپ کو ۵ہزار روپے زائد دوں گا کیا یہ جائز ہے
الجواب یہ ناجائز و سود ہے کہ یا تو زید نے بکر سے یہ رقم قرض کے طور پرلی ہے اور قرض پر نفع لینا سود ہے یا روپوں کی روپوں سے خریدو فروخت کی ہے اور جب جنس ایک ہو تو ادھار ناجائز ہوتی ہے اور یہاں پر ادھارہے لہذا یہ ناجائز ہے

سوال نمبر ۱۱ ایک موٹر سائیکل کی اسکیم ہے کہ ۵۰ لوگ اس کے ممبر ہوتے ہیں اور آپ۲۵ماہ تک ہر مہینے ۲ ہزار روپے جمع کرواتے رہیں اور ہر ماہ کے آکر میں قرعہ اندازی ہوگی جس کی پرچی نکل آئی وہ باقی ماہ لاٹری نہیں بھرے گا اور اسے اسی وقت بائیک دیدی جاتی ہے اوراس طر ح اسے دو ہزار میں بائیک مل گئی پھر دوسرے ماہ بھی اسی طرح پرچی ڈالی جاتی ہے جس کا نام نکلتا جائے گا س کو بائیک ملتی جائے گی اور وہ لاٹری بھرنا چھوڑ دے گا اس طرح ۲۵ ماہ تک ہوتا ہے پھر جب ۲۵ ماہ مکمل ہوجاتے ہیں تو سب کو بائیک دیدی جاتیں ہیں اور انہیں یہ بائیک ۵۰ہزار کی پڑتی ہے کیا یہ طریقہ درست ہے

الجواب مذکورہ طریقہ ناجائز ہے کہ اس میں مبیع (بائیک) کی قیمت مجہول (معلوم نہیں )ہے کہ کسی کو ۵۰ ہزار کی پڑتی ہے اورکسی کو ۲ ہزار کی اور اگریہ مان بھی لیا جائے کہ بیچنے والے نے سب کو اس کی قیمت بتا دی ہے کہ میں تم کو یہ چیز ۵۰ ہزار میں فروخت کروں گا اور پھر جس کا پرچی میں نام نکل آتاہے اسے باقی رقم معاف کردیتا ہوں تو بھی یہ درست نہیں ہے کیونکہ یہ ادھار بیع ہے اور ادھار بیع کا حکم یہ ہے کہ مبیع(سامان،بائیک) کو خریدار کے فورا حوالے کرنا لازم ہے اور یہاں پر اکثر کو۲۵ ماہ سے پہلے بائیک نہیں ملتی ہے لہذا یہ طریقہ جائز نہیں ہے ۔

کاروبار اور اپنی روزی میں برکت کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم رزاق وقہار عزوجل کے بتائے ہوئے تجارتی اصولوں کو اپنائے اور یہ ہی کاروبار اور روزی میں برکت کا وظیفہ ہے اور ناصرف کاروبا ر و روزی میں برکت کا وظیفہ ہے بلکہ زندگی کے ہر گوشہ میں کامیابی کا وظیفہ ہے ان اصولوں پر عمل کرنے کے بعد کسی اضافی وظیفے کی حاجت نہیں رہے گی ان شا ء اللہ عزوجل لیکن پھر بھی کوئی شخص خیر میں اضافہ چاہتا ہے تو ان اصولوں کو اپنانے کے بعد وہ یہ وظیفہ پڑھے گا تو انشا ء اللہ کاروبار میں مزید برکت ہوگی

یا رزاق فجر کی نماز اور عصر کی نماز پڑھنے کے بعد ۱۰۰ مرتبہ اول آخر درود پاک کے ساتھ پڑھیں

اور سورہ اخلاص و سورۃ الفلق اور سورۃ الناس درست قواعد کے ساتھ گھر میں داخل ہونے کے فورا بعد ایک ایک مرتبہ پڑھیں

والسلام مع الاکرام
ابو السعد مفتی محمد بلال رضا قادری
mufti muhammed bilal raza qadri
About the Author: mufti muhammed bilal raza qadri Read More Articles by mufti muhammed bilal raza qadri: 23 Articles with 74724 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.