سبحان الذی اسری ۔۔۔۔ کے معارف و حکمتیں

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔

تاریخِ اِرتقائے نسلِ اِنسانی میں مُعجزہ معراج ایک بنیادی پتھر کی حیثیّت رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسا سنگ میل ہے جسے بوسہ دیئے بغیر اِرتقاء کی کوئی منزل طے نہیں ہوسکتی۔ عروجِ آدمِ خاکی کا کوئی خواب شرمندہئ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ سفرِمعراج دراصل سفرِاِرتقاء ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ عظیم مُعجزہ ہے جس پر اِنسانی عقل آج بھی اَنگشت بدنداں ہے۔ اِنتہائی قلیل وقت میں مسجدِ حرام سے بیت المقدس تک کی طویل مسافت طے ہو جاتی ہے۔ قرآن اِس کا ذکر اِن اَلفاظ میں کرتا ہے :
سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُO
(بنی اِسرائیل، 17 : 1)

وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہئ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo

اِس آیتِ مقدّسہ پر غور و تدبر کریں تو شکوک و شبہات کے تمام راستے خودبخود مُقفّل ہو جاتے ہیں، کسی اِلتباس کی گنجائش رہتی ہے اور نہ کسی اِبہام کا جواز باقی رہتا ہے۔ عقلی اور نقلی سوالات آنِ واحد میں ختم ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ کا ہر پہلو روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے اور حقیقت اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ ذہنِ اِنسانی پر مُنکشف ہو جاتی ہے۔ اِیمان میں مزید اِستحکام پیدا ہوتا ہے، اِیقان کو مزید پختگی نصیب ہوتی ہے، نصِ قرآن سے بڑھ کر تو کوئی رِوایت نہیں ہو سکتی۔ جب باری تعالیٰ خود فرما رہا ہے کہ میں اپنے بندے کو رات کے ایک قلیل عرصے میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اَقصیٰ تک لے گیا۔ اِس پر بھی عقلِ اِنسانی اِستعجاب کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ذہنِ اِنسانی میں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ وہ سفر جو ہفتوں اور مہینوں کا تھا، وہ رات کے ایک تھوڑے سے وقت میں کیسے مکمل ہو سکتا ہے؟ اِس کا جواب یہی ہے کہ اِس کا اِنحصار تو لے جانے والے کی طاقت اور قوّت پر ہے۔ اُس سفر کا سارا اِنتظام ربِّ کائنات کی طرف سے ہو رہا ہے، وہ جو ہر چیز پر قادِر ہے۔ طاقت اور قُدرت اُس ذات کی کار فرما ہے جو اِس کائنات کا خالق و مالک ہے، کائنات کا ذرّہ ذرّہ جس کے حکم کا پابند ہے۔ وہ ربّ جو إِنَّ اللَّہ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ کا مالک ہے۔ وہ ربّ جو اَمرِ کُن فَیَکُونُ کی طاقت رکھتا ہے اور اُس کے لئے کوئی چیز ناممکن اور محال نہیں۔ اِنسانی عقل اُس کی قُدرتِ مُطلقہ کے ساتھ بے بس اور عاجز ہے۔ اگر یہ نکتہ ذِہن نشین کر لیا جائے تو سفرِ مِعراج کی ساری حقیقت عیاں ہو جاتی ہے۔ جبرئیلِ اَمین کو اُس نے بھیجا کہ جاؤ! میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے آؤ۔ برّاق اور رفرف بھی مِن جانبِ اﷲ بھیجے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سماوِی سفر کس رفتار سے طے کیا اور کیسے کیا، زمان و مکان کی قیودات سفرِ مِعراج پر اَثر اَنداز ہوئیں یا نہ ہوئیں، کیا برّاق اور رفرف کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تھی؟ اِن تمام سوالات کے جوابات لفظِ سُبْحٰنَ الَّذِیْ میں مضمر ہیں۔
قُدسیوں نے یہ سرِ عرش منادی کر دی
سیدہ آمنہ (رض) کا ماہِ تمام آتا ہے

مُستند جس کا ہر اِک نقشِ قدم ہونا ہے
آج کی شب وہ رسولوں کا اِمام آتا ہے

لفظِ سُبْحَان کے معارف و حکمتیں
لفظِ سُبْحَان، پاکیزگی اور تقدیس کے معنوں میں اِستعمال ہوتا ہے۔ قرآنِ حکیم علم، حِکمت اور دانائی کی آخری آسمانی دستاویز ہے۔ یہ لفظ اپنے اَندر معانی کا ایک سمندر لئے ہوئے ہے۔ اِس کے اِستعمال میں اَن گنت حِکمتیں پوشیدہ ہیں۔ اُن میں سے بعض ضروری حِکمتوں کا بیان ذیل میں کیا جاتا ہے تاکہ اِس آیتِ مقدّسہ کا مفہوم اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ ذہنِ اِنسانی میں روشن ہو سکے۔

پہلی حِکمت
روز مرّہ زِندگی میں ہم یہ مُشاہدہ کرتے ہیں کہ عام تحریر کا اُسلوب یہ ہے کہ جب کسی شخص کی کوئی خاص فضیلت یا اُس کا کوئی خاص وصف بیان کیا جانا مقصود ہو تو حرفِ آغاز میں اُسی کا نام لیا جاتا ہے۔ اِس اُصول اور ضابطے کے مطابق آیتِ مذکورہ کا آغاز نبء آخرالزّماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِسمِ گرامی سے ہونا چاہئے تھا لیکن پروردگارِ عالم نے اپنے ذِکر سے اِس آیت کا آغاز فرما کر اِنسان کو غورو فکر اور تدبر کی دعوت دی ہے، اِس لئے کہ وہ خالقِ کائنات ہے اور اُس کی ذاتِ لاشریک ہر قسم کے وہم و گمان سے بالاتر اور ہر قسم کے نقص و عیب سے اِس قدر پاک ہے کہ اِنسانی ذِہن میں اُس کا تصوّر بھی محال ہے۔ اللہ ربّ العزّت نے سلسلہ اَنبیاء کے آخری رسول جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی محبوبیت کی خِلعتِ فاخرہ عطا کی، اَنوارو تجلیات کے جلو میں آپ کو منصبِ رسالت سے نوازا، اُس کا لطف و کرم ہر لمحہ شاملِ حال رہا، ہر لمحہ اُس نے اپنے محبوب کی دستگیری فرمائی اور ہر طرح سے نبء رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دِلجوئی کی۔ معراج اُن نوازشاتِ پیہم کی نسبت عظیم تر نعمت تھی اور عظیم تر اِحسان تھا۔ خدائے علیم و خبیر کے علم میں تھا کہ کفار و مُشرکین واقعہ معراج کو بھی تسلیم کرنے سے اِنکار کر دیں گے کیونکہ اِس عظیم سفر کا ہر ہر پہلو حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں اور رِفعتوں کا آئینہ دار ہے۔ مُشرکینِ مکہ جو پہلے ہی اِسلام اور پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف سازشوں کا جال بچھا رہے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رِفعت کی بات کو وہ کیسے قبول کریں گے! دستورِ زمانہ ہے کہ جو شخص پسند نہ ہو اُس کے حسن و جمال کا کوئی پہلو بھی گوارا نہیں کیا جاتا بلکہ کمالات کو بھی تضحیک و تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور حقیقت کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ کر بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ کفار و مُشرکین کا یہی رویہ اللہ کے نبی کے ساتھ تھا۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صادق و اَمین تسلیم کرنے کے باوجود اآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیماتِ مقدّسہ کا تمسخر اُڑانے میں مصروف تھے۔ اِس کے برعکس اپنی کسی محبوب شخصیت کے عیوب بھی وجہِ کمال بن کر نظر آتے ہیں اور محبوب کے حسن و جمال کی تعریفوں میں مُبالغہ آرائی کی اِنتہا کر دی جاتی ہے، خواہ محبوب کے یہ اَوصاف معمولی سے ہی کیوں نہ ہوں۔

ربِّ کائنات کے علم میں تھا کہ مکہ میں بسنے والا ہر شخص اَبوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نہیں، ہر شخص عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی آنکھ نہیں رکھتا، ہر شخص عثمان رضی اللہ عنہ جیسا اَہلِ اِیمان نہیں، ہر شخص علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ جیسا جاں نثار نہیں۔ یہاں اَیسے بدبخت اور بدطینت بھی موجود ہیں جو حضور پُرنور کو اَبوجہل کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ اِسی طرح اَہلِ مکہ میں آپ کے حاسِد بھی ہوں گے۔ ذاتِ باری تعالیٰ کو یہ گوارا نہیں تھا کہ اُس نے مُعجزہئ معراج سے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جن عظمتوں اور رِفعتوں سے ہمکنار کیا ہے، کفار و مُشرکین اپنے تمام تر حسد کے باوجود اُس پر اُنگلی اُٹھا سکیں۔ اللہ ربّ العزّت کی منشاء یہ تھی کہ حاسِدین اور مُنکرین بھی اس پر اِعتراض نہ کر سکیں۔ اِس لئے آیتِ مذکورہ کا آغاز اَپنے نام سے کیا کیونکہ کفار و مُشرکین کسی نہ کسی صورت میں خدائے واحد کا تصوّر رکھتے تھے۔ فرمایا کہ وہ ذات جس نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مِعراج کی نعمت سے سرفراز فرمایا، وہ ذات جو نقص اور عیب سے پاک ہے، جس کی کوئی اِبتدا ہے اور نہ کوئی اِنتہاء ، وہ ذات جسے جو چاہتی ہے عطا کرتی ہے۔ اِس ساری بحث کو اِن اَلفاظ میں سمیٹا جا سکتا ہے گویا ذات باری تعالیٰ کہنا یہ چاہتی ہے کہ جو سفرِ معراج کا مُنکر ہے وہ اللہ کی قُدرتِ کاملہ کا مُنکر ہے۔ گویا یہ اللہ کے خلاف اِعلانِ جنگ ہے اور اُس سے پوچھئے کہ تو نے یتیمِ عبداللہ کو اِتنی بڑی نعمت کیوں عطا کی! یہ کتنی بڑی حِکمت ہے کہ مِعراج کا دعویٰ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما ہی نہیں رہے۔ دعویٰ تو خود اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے۔ گویا مِعراج کا اِنکار اللہ ربّ العزّت کی قُدرتِ کاملہ کا اِنکار ہے۔ آیتِ مذکورہ میں وُہی اُسلوب اِختیار کیا گیا ہے جو خدائے بزرگ و برتر نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دِلجوئی کے لئے قرآن میں مختلف مقامات پر اِختیار کیا ہے کہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دستگیری بھی فرمائی اور دُشمنانِ اِسلام کے ناپاک منصوبوں پر اُنہیں وعید بھی سنائی۔

ایک دفعہ چند روز کے لئے وحی کا نزول بند ہو گیا تو کفار و مُشرکین نے اُس بندش کو اُچھالتے ہوئے طعن و تشنیع کی بارِش کر دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ربّ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منہ موڑ لیا ہے۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ناراض ہو گیا ہے۔ اِس پر اِرشاد ہوا :
مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلَیO
(الضحی، 93 : 3)

آپ کے ربّ نے (جب سے آپ کو مُنتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہےo

بعض اُجڈ، گنوار اور جاہل دیہاتی حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِسمِ گرامی کو بگاڑ کر اَدا کرتے اور اپنے طور پر تضحیک و تحقیر کا پہلو نکالتے۔ اُن جہلاء کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا بلکہ دفاعِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خود ربّ ُالعالمین نے فرمایا :
عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِکَ زَنِیمٍO
(القلم، 68 : 13)
(وہ شخص) سرکش ہے اور پھر یہ کہ اُس کی اَصل بھی خراب ہے (یعنی حلال زادہ نہیں)

ایک اور مقام پر اللہ ربّ العزّت کی طرف سے اپنے جلیل القدر نبی اور رسول کا دِفاع اِن اَلفاظ میں کیا جا رہا ہے :
تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّO
(اللہب، 111 : 1)
اَبو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اُس نے ہمارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہاتھ اُٹھانے کی کوشش کی ہے)

وہ ذاتِ لاشریک خود فرما رہی ہے کہ اَبو لہب! تو میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت میں پیش پیش رہتا ہے، تو آمنہ کے لال کی راہ میں کانٹے بچھاتا ہے، تو میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خِلاف سازشوں کے جال بُنتا ہے، تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں۔

سُبْحَان کا لفظ اِس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ ربِّ کائنات تمہارے ہر اِعتراض سے پاک ہے۔ گویا اللہ ربّ ُالعزّت کفار و مُشرکین کو خبردار کر رہے ہیں کہ ہم نے اپنے بندے اور رسول کو عظمتِ معراج سے نوازا ہے اور عالمِ بیداری میں رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیکرِ بشری کے ساتھ آسمانوں کی سیر کرائی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس عظمت کا اِنکار کرنا اور نہ اِس پر کوئی اِعتراض کرنا کہ یہ دعویٰ کرنے والے خود ہم ہیں اور ہماری ذات عیب و نقص سے پاک ہے۔

دُوسری حِکمت
لفظ سُبْحَان سے آیتِ مقدسہ کا آغاز کرنے میں ایک حِکمت یہ بھی پوشیدہ ہے کہ معترض اور مُنکر واقعہئ معراج کو عقلِ ناقص کی کسوٹی پر پرکھنے کی حماقت نہ کرے۔ وہ ظاہر کی آنکھ سے نہیں قلب کی چشمِ بینا سے ربّ ُالعالمین کی قُدرتِ مُطلقہ کا مُشاہدہ کرے۔ سفرِ معراج ایک مُعجزہ ہے اور مُعجزہ ہوتا ہی وہ ہے جو عقلِ اِنسانی کو عاجز اور بے بس کر دے۔ یہ تو اُس ذاتِ پاک کی قُدرتوں کا کرِشمہ ہے جو خود بھی عقلِ ناقص کے دائرہئ پرواز سے باہر ہے۔ اِرشاد ہوتا ہے :
سُبْحَانَ اللَّہِ عَمَّا یَصِفُونَO
(المؤمنون، 23 : 91)
اللہ اُن باتوں سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیںo

دعویٰ اُسی کا ہے جو ربِّ کائنات ہے اور کائنات کی ہر چیز جس کے حکم کی پابند ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے اَپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آسمانوں کی سیر کرائی۔ ۔ ۔ اِس لئے مادّی دُنیا کے قواعد و ضوابط کا اِطلاق نبیوں اور رسولوں کے مُعجزات پر نہیں ہوتا کیونکہ اُس کی قُدرتِ کاملہ کا کلی اِدراک عقلِ اِنسانی کے بس کی بات ہی نہیں۔ پاسبانِ عقل کا دِل کے ساتھ رہنا درُست ہی سہی لیکن کبھی کبھی دِل کو تنہا بھی چھوڑ دینا چاہئے۔ عشق کے کسی معاملے کی توجیہہ عقل سے ممکن ہی نہیں، اِس لئے واقعہئ معراج کو بھی اُسی تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ یہ کرمِ خدائے وحدہ لاشریک کا کرم ہے، جس کی بارگاہ میں لب کشائی کا تصوّر بھی کفر ہے۔

تیسری حِکمت
جب کوئی کام ہماری پہنچ یا دسترس سے باہر ہوتا ہے تو عموماً خیال کر لیا جاتا ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اِنسان کی قوّت اور اُس کا دائرہئ عمل محدود ہے۔ کارخانہئ قُدرت میں اُسے ایک معمولی سی اِکائی کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں لفظِ سُبْحَان اِستعمال کر کے اللہ ربّ ُالعزّت نے مُنکرین کا منہ بند کر دیا ہے کہ یہ اَمر عقل کے حیطہ اِدراک میں آ ہی نہیں سکتا۔ عقل یہ تسلیم نہیں کرتی کہ کوئی شخص اَپنے جسدِ خاکی کے ساتھ بیداری کی حالت میں حرمِ کعبہ سے مسجدِ اَقصیٰ تک کا سفر طے کرے اور پھر لامکاں کی وُسعتوں کو چیرتا ہوا قَابَ قَوْسَیْن کی بلندیوں پر جلوہ اَفروز ہو اور آنِ واحِد میں زمین پر واپس بھی آ جائے۔ عقل ناقص ہے اور اِنسان کمزور و ناتواں، وہ کسی چیز کو ردّ کرنے یا اُسے تسلیم کرنے میں اپنی ناقص صلاحیتوں کا سہارا لیتا ہے۔ اِس سے آگے کا سوچنا اُس کی عقلِ ناقص کے دائرہئ عمل میں نہیں آتا، اِس لئے ذہنِ اِنسانی میں شکوک و شبہات کی گرد اُٹھتی ہے اور غبارِ تشکیک اُس کی سوچوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے لیکن ربِّ کائنات کی ذات لامحدود ہے۔ مشیتِ اَیزدی جو چاہتی ہے ویسا ہی ہو جاتا ہے۔ ناممکن یا محال کے لفظ کا اِطلاق اللہ ربّ ُالعزت کی قُدرتِ کاملہ پر ہوتا ہی نہیں۔ وہ قادرِ مُطلق ہے اور ہر چیز پر قادِر ہے۔ سفرِ معراج بھی اُسی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

چوتھی حِکمت
تاریخِ اَنبیاء میں جابجا مُعجزات کا ذِکر ملتا ہے۔ خرقِ عادت واقعات جن پر عقلِ اِنسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ لفظِ سُبْحَان کے اِستعمال میں یہ حِکمت بھی پوشیدہ ہے کہ مُنکرین کو یہ باوَر کرا دِیا جائے کہ اُسے اپنی عقلِ ناقص کے پیمانے پر نہ پرکھیں۔ مِعراج ایک مُعجزہ ہے اور مُعجزات کی مادّی توجیہہ بعض اَوقات اِنسان کو گمراہیوں کی دلدل میں لے جاتی ہے اور وہ صراطِ مُستقیم سے دُور ہونے لگتا ہے۔ ظاہری اَسباب کے بغیر رُونما ہونے والے واقعات اگر ہر کسی کی محدُود عقل کے دائرے میں سمانے لگیں تو پھر مُعجزہ مُعجزہ نہیں رہے گا۔

پانچویں حِکمت
جب ہم اپنی کسی محبوب ترین ہستی کا ذِکر کرتے ہیں تو اُس کی کسی اَدا پر سبحان اﷲ کہہ کر اپنی محبت کا اِظہار کرتے ہیں۔ یہ حرفِ تحسین ہماری چاہت کا بھی آئینہ دار ہوتا ہے اور محبوب کے کمال کا مظہر بھی ہوتا ہے۔ والدین اپنے بچوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ بچہ اپنے قدموں پر چلنے کی کوشش کرے یا اپنی توتلی زبان سے کوئی لفظ اَدا کرے تو ماں باپ بے ساختہ سبحان اللہ کے حرفِ تحسین کے ساتھ بچے کی ننھی منھی اَداؤں پر اِظہارِ مسرّت و محبت کرتے ہیں۔ اِسی طرح حلقہئ اَحباب میں دوستوں کے کمالِ فن کا اِعتراف یہی لفظ اَدا کر کے کیا جاتا ہے۔ یہ کلمات ایک طرف اِظہار محبت پر دلالت کرتے ہیں تو دُوسری طرف اپنے محبوب کے حسن و جمال کے کسی پہلو کو سندِ جواز بھی عطا کرتے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبوبِ کبریا ہیں، اَقلیمِ اَنبیاء کے آخری تاجدار ہیں، خدا کے بعد مخلوقات میں سے سب سے بزرگ و برتر، سفرِ مِعراج آپ جیسے جلیل القدر پیغمبر کے لئے بھی کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ یہ عظیم سعادت حاصل ہو رہی ہے تو قُدرتی طور پر دِل میں یہ خواہش کروٹیں لیتی ہے کہ کاش اِس موقع پر کوئی سبحان اللہ کہہ کر حصولِ عظمت کے اِس واقعہ کی پذیرائی کرے۔ یہ لفظ وُہی اَدا کر سکتا تھا جو عمر، علم، عمل اور عظمت میں بڑا ہوتا۔ عمر میں بڑا ہونے کا اِعزاز آپ کے والدین کو حاصل تھا اور وہ اُس وقت دُنیا میں موجود نہ تھے اور جن شخصیتوں نے آپ کی پرورش کی وہ بھی اللہ کو پیاری ہو چکی تھیں، اِس لئے سبحان اللہ کہنے والا کوئی بڑا بظاہر موجود نہیں تھا۔ اَب ربِّ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی یہ لفظ اَدا کر سکتا تھا کہ سب تعریفوں کے لائق وُہی ذاتِ وحدہ لاشریک ہے۔ گویا ربِّ کائنات نے اپنے سب سے بڑے شاہکار یعنی اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفرِ معراج کے آغاز پر یوں فرمایا : اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یہ حرفِ تحسین اَدا کرنے کے لئے اگر کوئی اور موجود نہیں تو کیا ہوا۔ پیارے کمالِ شفقت اور محبت کے ساتھ یہ حرفِ محبت ہم اَدا کئے دیتے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 355173 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.