ہرنی کی دُعا

یہ اس زمانے کی بات ہے جب الپتگین نام کا بادشاہ خراسان کا حاکم تھا ، اس کا کوئی بیٹا نہیں تھا ، جو اس کے تخت کا جانشین بنتا ۔اس نے اپنے داماد سبکتگین کے عمدہ اخلاق ، فراست اور دانشمندی کو دیکھتے ہوئے خراسان کے ایک صوبے کا حاکم مقرر کردیا۔اسکی رعایا اپنے سردار کی شفقت اور سلوک سے بہت خوش تھی ۔

ایک رات سبکتگین نے خواب میں دیکھا کہ گھر کے درمیان میں ایک درخت اُگ آیا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک بہت بڑا اور گھنا درخت بن گیا ہے اور اس نے ساری دنیا کو اپنے سائے میں ڈھانپ لیاہے۔

دوسرے دن سبکتگین اپنا خواب اپنے وقت کے کسی عالم کے سامنے بیان ہی کررہا تھا کہ اسے اپنے یہاں بیٹے کی پیدائش کی خبر ملی ، یہی بچہ بڑا ہوکر سلطان محمود غزنوی کے نام سے مشہور ہوا ، محمود کی پرورش تلواروں کی چھاﺅں میں ہوئی تھی ۔ اسے بچپن ہی سے شکار کا بڑا شوق تھا اور وہ چھوٹی عمر ہی میں تنہا درندوں کا شکار کرنے نکل جاتا تھا۔

ایک روز محمود کا باپ سبکتگین اسے اپنے ساتھ شکار کھیلنے کے لئے لے گیا، محمود کی عمر اسوقت آٹھ سال کے قریب تھی ۔ کافی دوڑ دھوپ کے بعد سبکتگین نے جنگل میں ایک ہرنی دیکھی جس کے ساتھ ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا ۔ اس نے شکار کی غرض سے اپنا گھوڑا اس کے پیچھے لگادیا۔

موت کو اپنے سامنے دیکھ کر ہرنی چوکڑیاں بھرنی لگی اور سبکتگین کے گھوڑے کی زد سے دور نکل گئی۔ لیکن اس کا بچہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے زیادہ تیز نہ بھاگ سکا اور اسے سبکتگین نے کمند پھینک کر زندہ ہی پکڑ لیا۔ محمود کو ہرنی کا بچہ بہت ہی پیارا لگا اس نے باپ سے کہا کہ یہ بچہ مجھے دیدیں میں اسے پالوں گااور اپنے ساتھ لے جاﺅں گا۔ لہٰذا سبکتگین نے کمند سے بچے کو آزاد کرکے اسے محمود کے حوالے کردیا۔محمود نے اس باندھ کر اپنے ساتھ گھوڑے پر ڈال لیا ، اسے پاکروہ بے حد خوش تھا۔

جب یہ واپس لوٹ رہے تھے تو اچانک سبکتگین کی نظر پیچھے کی جانب اٹھ گئی اسے یہ دیکھ کربڑی حیرت ہوئی کہ مامتاکی ماری ہرنی آنکھوں میں آنسو لئے بے چینی سے ان کے پیچھے پیچھے چلی آرہی تھی ۔ ہرنی کو اس حالت میں دیکھ کر سبکتگین کے دل پر چوٹ لگی ۔ اُسے مامتا کی ماری ہرنی پر بڑا رحم آیا۔ اُس نے اپنے بیٹے محمود سے کہا ”محمودبیٹے! وہ دیکھو اس بچے کی ماں غم اور آس لئے ہمارے پیچھے پیچھے چلی آرہی ہے ۔ اس کی حالت سے ظاہر ہورہا ہے کہ وہ اپنے بچے کے بغیر بے چین ہے۔ بے زبان ہے ، اگر اس کی زبان ہوتی تو یہ ضرور فردیاد کرتی۔ روتی اور چیختی چلّاتی ۔ لہٰذا محمود بیٹے اس کے بچے کو آزاد کردو۔محمود نے ہرنی کے بچے کو پیار کرتے ہوئے کہا ، نہیں ابّا جان میں اسے اپنے ساتھ لے جاﺅں گا اور اسے پالوں گا ۔

سبکتگین نے محمود کی ضد کو دیکھ کر پیار سے کہا بیٹے فرض کرو اگر کوئی ظالم تمہیں ، تمہارے ماں باپ سے زبردستی طاقت کے زور پر چھین کر لے جائے توتمہارے دل پر کیا گزرے گی ۔ اور تمہارے ماں باپ کی حالت کیا ہوگی۔ جس طرح یہ ہرنی بے چین اور پریشان ہے بالکل اسی طرح وہ بھی بے چین اور پریشان ہونگے ۔ دیکھو بیٹے یہ بے زبان ہے۔ اس پر رحم کرنا بڑے ثواب کی بات ہے ۔ جب ماں کو اس کا بچہ مل جائے گا تو وہ تمہیں ڈھیر ساری دعائیں دے گی۔

یہ بات سن کر محمود کو بھی ہرنی کی حالت پر رحم آگیا اور اس نے ضد کرنے کے بجائے اپنے باپ سے کہا ۔ ابّا جان واقعی جیسے میری امّی مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو پیار کرتی ہیں ایسے ہی ہرنی بھی اپنے بچے کو پیار کرتی ہوگی۔ بابا جان جانوروں پر رحم کرنے سے اللہ میاں بھی خوش ہوتے ہیں ، مولوی صاحب نے مجھے بتایا تھا۔ اس لئے آپ اس بچے کو آزاد کردیں۔

سبکتگین بیٹے کے مان جانے سے بہت خوش ہوا اور اُس نے جلدی سے ہرنی کے بچے کو آزاد کردیا۔ بچہ آزاد ہوتے ہی چوکڑیاں بھرتے ہوئے اپنی ماں کے پاس چلا گیا۔ ہرنی اسے چاٹنے لگی ، پھر اس نے ایک نظر مشکور نگاہوں سے سبکتگین اور محمود کی طرف دیکھا اور منہ آسمان کی طرف اُٹھا دیا جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اللہ کے حضور ان کے حق میں دُعائے خیر کررہی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے بچے کو لیکر جنگل میں چلی گئی۔

چند ہی دنوں بعد اس کے آقا سلطان الپتگین کا انتقال ہوگیا جس کے کوئی اولاد نہیں تھی ، لہٰذا تمام سرداروں نے بادشاہ کا داماد ہونے کی وجہ سے سبکتگین کو غزنی کا حکمران تسلیم کرلیا۔

اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بے زبان جانوروں کو تنگ نہ کریں ، ان کوبلاوجہ قید کرکے ان کی آزادی سلب نہ کریں ۔ بلکہ ان پر رحم کریں ، کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ بے حد خوش ہوتا ہے۔ہماری طرح یہ بے زبان جانور بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 322944 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.