بہلول کا قصہ

بہلول اور قاضی
کہا جاتا ہے کہ جب بہلول کے والد کی وفات ہوئی تو انہوں نے چھ سو درہم کا ترکہ چھوڑا، قاضی نے حفاظت کی غرض سے درہم اپنی تحویل میں لے لئے، بہلول ان کے پاس آئے اور کہا:’’ اللہ قاضی کو تندرست و سلامت رکھے، آنجناب بزعم خودیہ سمجھتے ہیں کہ میری عقل کمزور ہے﴿ اور میں مال ضائع کردوں گا﴾ سواب مجھے بھوک لگی ہے، آپ مجھے دوسودرہم دے دیں،میں بازارمیں ان سے خریدو فروخت کروں گا،اگر آپ کو میری عقل درست معلوم ہو تو آپ باقی ماندہ رقم بھی میرے سپرد کر دیں اور اگر میں یہ رقم ﴿اپنی نادانی اور کم عقلی کے سبب﴾ ضائع کردوں تو ﴿گھبرانے اور فکر کرنے کی بات نہیں کیونکہ﴾ ضائع کردہ رقم باقی ماندہ رقم سے بہت ہی کم ہے، قاضی کو ان کی یہ تجویز پسند آئی، انہوں نے تھیلی منگوائی اور دوسودرہم نکال کر ان کے حوالے کر دئیے، بہلول نے درہم لئے اور حیرہ چلے گئے، ساری رقم وہاں خرچ کر ڈالی، پھر لوٹ کر دوبارہ قاضی کے پاس آئے، اس وقت وہ عدالت میں بیٹھے تھے، قاضی نے پوچھا:’’بہلول! پیسوں کا کیا ہوا؟‘‘ انہوں نے جواب دیا:’’ اللہ آپ کا مرتبہ بلند کرے میں نے وہ خرچ کر دئیے ہیں، قاضی کو چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی مال میں سے دو سودرہم لے کر میری تھیلی میں رکھ دے تا کہ تھیلی میں پہلے کی طرح چھ سو درہم ہو جائیں‘‘،قاضی نے کہا:’’ آپ نے جو دوسودرہم لئے ہیں کیا آپ اس کا انکار کر رہے ہیں؟‘‘ بہلول نے کہا:’’ ہرگز نہیں! لیکن میں نے آپ کے روبرواس رقم میں تصرف کرنے کی اپنی اہلیت دو گواہوں سے ثابت نہیں کی تھی‘‘ قاضی نے کہا:’’ آپ نے سچ کہا‘‘ اور دوسودرہم لے کر واپس بہلول کی تھیلی میں رکھ دئیے۔﴿ ابن حبیب: عقلائ المجانین،ص۹۷﴾

باپ بیٹے کی حماقت
ایک بیوقوف باپ نے اپنے بیوقوف بیٹے سے پوچھا:’’ ہم نے مسجد الرصافہ میں نماز جمعہ کب پڑھی تھی؟ بیٹے نے جواب دیا:’’میں دن بھول گیا ہوں لیکن اب یاد پڑتا ہے کہ وہ دن منگل کا دن تھا‘‘ باپ نے کہا:’’ تو صحیح کہتا ہے، واقعی ہی منگل کا دن تھا۔‘‘﴿ ابن العدیم:کتاب الدراری: ص،۳۳﴾

دو بیوقوف
دو بیوقوف ایک ساتھ راستے میں چلے، ایک نے کہا:’’ آئیے! ہم کچھ آرز واور تمنا کر لیں، کیونکہ باتوں سے سفر جلدی طے ہو جاتا ہے، ‘‘ ایک بیوقوف نے کہا:’’ میری آرزو یہ ہے کہ میرے پاس بکریوں کے ریوڑ ہوں، ان کے دودھ، گوشت اور اون کو میں کام میں لائوں ،میرا کجاوہ سر سبز و شاداب ہو اور میرے اہل خانہ کا پیٹ ان کے گوشت سے بھر جائے‘‘ دوسرے نے کہا:’’میری آرزو یہ ہے کہ میرے پاس بھڑوں﴿کاٹنے والی مکھیاں﴾کا ریوڑ ہو،میں انہیں آپ کی بکریوں پر چھوڑوں تاکہ آپ ان تک پہنچ ہی نہ سکیں،‘‘پہلے بیوقوف نے کہا:’’تیرا ناس ہو، ہمراہی کا یہی صلہ ہے؟‘‘ دونوں میں شدید قسم کی ہاتھا پائی ہو گئی، بالآخر یہ طے ہوا کہ جو شخص پہلے نمودار ہو گا وہ ان میں فیصلہ کرائے گا، تھوڑی ہی دیر میں ایک بڑے میاں گدھے پر سوار نمودار ہوئے، گدھے کے دونوں طرف شہد کے دو مشکیزے لٹک رہے تھے، وہ قریب آئے تو دونوں نے اسے اپنی اپنی داستاں سنائی، ‘‘ وہ گدھے سے نیچے اترے،مشکیزوں کا منہ کھولا اور مٹی میں انہیں بہا دیا، پھر کہا:
اگر تم دونوں بیوقوف نہیں تو اللہ میرا خون اسی طرح بہائے جیسے یہ شہد بہا ہے۔

مجنون سعدون کا بارش طلب کرنا
عطائ سلمی کہتے ہیں کہ بصرہ میں بارشیں رک گئیں، ہم صلوٰۃ الاستسقائ کے لئے نکلے، راستے میں مجنون سعدون سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے جب مجھے دیکھا تو فرمانے لگے:’’عطائ! کہاں؟‘‘میں نے کہا:’’نماز استسقائ کے لئے نکلے ہیں:‘‘ انہوں نے پوچھا:’’ایمان سے آباددلوں کے ساتھ یا ویران دلوں کے ساتھ؟ میں نے کہا:’’آباد دلوں کے ساتھ،‘‘ اس پر انہوں نے فرمایا:

تکبر نہ کر،کیونکہ پر کہنے والے کی نظر﴿اللہ کی نظر﴾ بڑی تیز ہے۔‘‘

میں نے کہا:’’ بات جو تھی وہ میں نے آپ سے کہہ دی ہے، اب آپ ہمارے لئے بارش کی دعا فرمائیں،‘‘ انہوں نے سر آسمان کی طرف اُٹھایا اور کہا:’’اے اللہ! میں آپ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ ہم پہ بارش نازل فرمائیں ،پھر یہ اشعار پڑھے۔
﴿۱﴾ اے وہ ذات جسے جب پکارا جائے وہ ہماری پکارپر لبیک کہتی ہے اور جس کے جلال سے بادل اُٹھتے ہیں۔
﴿۲﴾ اے وہ ذات! جس نے اپنے موسیٰ علیہ السلام کو شرف کلام بخشا اور’’ حق‘‘ کا الہام کیا۔
﴿۳﴾ اے وہ ذات! جس نے یوسف علیہ السلام کو مصیبت و مشقت کے بعد منتخب لوگوں پر﴿بادشاہ بنا کر﴾ لوٹایا۔
﴿۴﴾اور اے وہ ذات!جس نے اپنے چنائو سے احمد ö کو مخصوص کیا اور انہیں رسالت اور کتاب﴿ قرآن کریم﴾ عطا فرمائی۔
ہمیں بارش سے سیراب فرما.!

عطائ سلمی کہتے ہیں:’’مشکیزے کے منہ کی طرح موٹی موٹی بوندیں برسنے لگیں،‘‘ میں نے کہا:’’ اور دعا کریں،‘‘ انہوں نے فرمایا’’یہ اس خرمن کا کیل نہیں ہے‘‘﴿ابن حبیب: عقلائ المجانین،ص،۴۳﴾
٭.٭.٭
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 166648 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More