بچہ استاد کیلئے بذات خودایک
ایسا سبق ہے جس کی تیاری اسے ہر لحظہ درکار ہے چہ جائیکہ مقرر کردہ نصاب کے
مطابق روزانہ کی تدریس کیلئے سبق کی منصوبہ بندی کرنا۔
تعلم کی مثلث استاد،طالبِ علم اور نصاب پر مشتمل ہے۔ہر جسم اپنے مرکز کی
بناءپر متوازن رہتا ہے۔تعلیمی عمل میں بچے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جس کے
گرد تدریسی عمل کا پہیہ گھومتا ہے۔
ایسی تدریس جو طالب علم کے رجحانات اور میلانات کے تقاضوں کو پورا کر سکے
وہی معاشرتی ارتقاءمیں بھی ممد ہو گی۔جیسا کہ جان ڈیوی کے خیال میں۔"تعلیم
ایک معاشرتی عمل ہے اور معاشرے کے ارتقاءمیں معاون ہے اس لئے تعلیم کو
معاشرے سے ہم آہنگ ہونا چاہیے اور تعلم میں معاشرتی رجحانات کی شمولیت از
حد ضروری ہے۔"
تعلیم حاصل کرنے کے بعد معاشرتی زندگی بچے کیلئے وہ میدان ہے جہاں اس کو
اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرکے معاشرتی اکائیوں میںاپنا کردار ادا کرتے ہوئے
اپنی اور معاشرے کی ضروریات کو پورا کرنااس کا مقصد ہوتا ہے۔لہٰذا ایسی
تعلیم مفید ہے جو بچے کی معاشرتی زندگی میں اہم کردار ادا کرے۔
سر سید کے خیال کے مطابق۔"کسی شخص کو تعلیم دینے کا مقصد یہ ہے کہ اس کی
فطری صلاحیتوں کا تجزیہ کر کے اس کو صحیح راستہ پر ڈالا جائے۔تعلیم دینا
درحقیقت کسی چیز کا باہر سے ڈالنا نہیں بلکہ بچے میں کائنات و فطرت کی سمجھ
کے ساتھ ساتھ بصارت بھی پیداکرنا ہے اور اسے اس قابل بنانا ہے کہ وہ زندگی
میں اپنی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکے۔"
لہٰذا تعلیم کے یہ مقاصد حاصل کرنے کیلئے تدریس میں سبق کی منصوبہ بندی
ضروری ہے۔استاد کیلئے سبق کا ازبر ہونا سبق کی تیاری تو کہا جا سکتا ہے
لیکن ایسا لائحہ عمل اختیار کرناجس کے ذریعے سبق نہ صرف طلبہ کو واضح طور
پر سمجھ آجائے اور ذہن نشین ہو جائے بلکہ متعلقہ عنوان کی استعداد بھی پیدا
ہو،سبق کی منصوبہ بندی کہلائے گا۔
بارآور تعلم کیلئے سبق کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔سبق کی منصوبہ بندی کی کیا
اہمیت اور فوائد ہیں ۔ذیل میں اس کا اجمالی خاکہ پیش کیا جاتا ہے۔
(1)مقصد کا تعین:
سبق کی منصوبہ بندی سے سبق کا مقصد واضح ہو جاتا ہے اور استاد گم گشتہ
گلیوں میں گھومنے کی بجائے اپنے ٹریک (Track)پر رہ کر متعین مقاصد کو حاصل
کرنے کی سعی کرتا ہے۔
اور تدریس کے مقاصد کو حاصل کر لینا ہی کامیاب تعلم کی علامت ہے۔
(2)خود اعتمادی:
سبق کی منصوبہ بندی سے استاد دورانِ تدریس آمدہ تدریسی مشکلات کااندازہ لگا
کر ان کا حل تلاش کر لیتا ہے جس سے وہ طلباءکے ا ذہان میں اُٹھنے والے
سوالات کا خود اعتمادی سے جواب دے سکتا ہے اور سبق سے متعلقہ ابہام کا بھی
ازالہ کر سکتا ہے۔سبق سے متعلقہ امور پر غور و فکر کرتا ہے اور غیر متعلقہ
چیزوں سے اجتناب کرتا ہے۔
(3)تدریسی معاونات کی تیاری:
ٓانسان مشاہدے سے بہتر طور پر سیکھتا ہے۔جیسا کہ ارشادِباری ہے" تمہارے رب
کی طرف سے تمہارے پاس بصیرت افروز دلائل آ گئے ہیں اب جس نے آنکھ کھول کر
دیکھا اس نے اپنا بھلا کیا اور جو اندھا بن گیا اس نے اپنا نقصان کیا اور
میں تمہارا نگہبان نہیںہوں"(سورہ انعام آیت 104)۔۔۔قرآن نے بھی اسی لئے
کائنات میں غورو فکرکی دعوت دی ہے۔سمعی بصری معاونات کا استعمال بچوں کیلئے
سیکھنے میں کافی مدد گار ہوتا ہے۔ سبق کی منصوبہ بندی کا یہ فائدہ ہے کہ
پیش کیے جانے والے سبق کے لئے سمعی بصری معاونات تیار کر لیتا ہے۔
(4)اسباق میں ربط:
سبق کی منصوبہ بندی سے تدریسی عمل میں تسلسل برقرار رہتا ہے۔کلاس ٹیچر کی
غیر موجودگی میںمتبادل استاد آسانی سے سبق پڑھا سکتا ہے۔اور اس طر ح
طلباءکے وقت کا ضیاع نہیں ہوتا۔
(5)تخیل اور اختراع:
دیے گئے نصاب کو ہو بہو رَٹا دینے سے تعلیم کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا
لہٰذا ضروری ہے کہ نصاب کی حدود میں رہ کربچے میں متعلقہ عنوان کے بارے میں
استعداد پیدا کی جائے۔استاد اپنی سوچ کا گھوڑا دوڑا کر نئی سرگرمیاں متعارف
کروا سکتا ہے۔تاکہ بچے سبق کو جلدی سمجھ سکیں ۔جائزے کیلئے ایسے سوالات
تیار کر سکتا ہے جس سے ان کے فہم کا ادراک ہو۔ سبق کے اہم نکات کی نشاندہی
کرسکتا ہے تاکہ بچوں کو سبق کا مقصد سمجھا سکے۔
اساتذہ خودبھی سبق کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں ۔علاوہ ازیں محکمہ تعلیم
حکومتِ پنجاب نے پرائمری تک ٹیچر گائیڈز مہیا کی ہیں ان سے استفادہ کیا جا
سکتا ہے۔ |