دانش ہے جس کا نام خلل ہے دماغ کا

عجیب بات ہے کہ قومیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے نظاموں کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہیں مگر ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے ۔ہم گزشتہ خامیوں کو دور کرنے کی بجائے اپنے مختلف نظاموں کو گُنجلک سے گُنجلک تر بناتے جا رہے ہیں۔نظام تعلیم ہی کو لیجیے بجائے اس کے کہ طبقاتی تفریق اور دیگر مسائل کو کم سے کم تر کیا جاتا ہم انہیں روز افزوں بڑھاوا دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔گزشتہ چند سالوں سے وزیر اعلٰی المعروف خادمِ اعلٰی جہادی روح کے ساتھ دانش سکولوں کے قیام کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔حالیہ بجٹ میں بھی آٹھ دانش سکولوں کے لیے رقم مختص کی گئی ہے۔آئیے ان سکولوں کو قومی مفاد کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔

ایک دانش سکول کم از کم ایک ارب کی لاگت سے تعمیر ہوا ہے روزافزوں مہنگائی نے اس کی لاگت میں بھی یقینی طور پر اضافہ کیا ہے ۔۱۰۰ ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ایک سکول مبینہ طور پر غریبوں کے بچوں کے لیے بنایا گیا ہے۔جناب خادمِ اعلٰی صاحب جوش خطابت میں دانش سکولوں کو اپنا بڑا کارنامہ گرداننے کے ساتھ ساتھ ہر گلی اور ہر محلے میں دانش سکول کھولنے کا عذم ظاہر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان سب سیاسی باتوں سے قطع نظر ٹھنڈے دل ودماغ سے اس منصو بے کو سودوزیاں کے ترازو میں تولا جائے اور زمینی و امکانی حقائق کو مد نظر رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو ایک سوال فوراً ذہن میں آتا ہے کہ حکومتِ پنجاب تو اپنی سر پرستی میں سرکاری نظامِ تعلیم چلا رہی ہے جسے ہم سرکار کا نظامِ تعلیم کہتے ہیں اس کے ہوتے ہوئے پنجاب سرکار کو کیا ضرورت پیش آئی کہ اس نے اپنے ہی بنائے ہوئے تعلیمی ڈھانچے کے مدِ مقابل ایک محلاتی نظامِ تعلیم کھڑا کر دیا جس میں غیر ملکی انگلش میڈیم نصاب ہمارے غریب بچو ں کو پڑھایا جا رہا ہے ۔پہلے امیر اور غریب کے درمیان تفریق تھی مگر اب غریبوں کو بھی دو طبقات میں بانٹا جا رہا ہے ایک غریب وہ جو حکومت کے نا گفتہ بہ سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں اور دوسرے وہ جو ان محلاتی سکولوں میں پڑھتے ہیں۔سرکار خود ہی دو نظام ہائے تعلیم کو چلاتی ہے ایک جنت نما نظام ،تمام مادی سہولتوں سے آراستہ نظام اور دوسرا چار دیواریوں ،بیت الخلاؤں،کمروں،ٹاٹوں اور بجلی سے محروم نظام۔ایک کی تشہیر کے لیے ذرائع ابلاغ پر کروڑوں روپے کے اشتہارات دیے جاتے ہیں اور ملٹی میڈیا پروجیکٹر کے ساتھ دانش سکولوں کی مختلف ٹیمیں کم تر درجے کے سرکاری سکولوں میں جا کر دانش سکولوں کی افادیت ،مسحور کن مادی وسائل اور خود ساختہ مدح وستائش کا ڈھنڈورا پیٹتی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب سرکار ان دونوں نظاموں میں سے ایک کو کامیاب اور دوسرے کو ناکام کرنا چاہتی ہے۔جہاں بھی دوہرا نظام قائم کیا جائے گا وہاں غالب امکان ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک ناکام ہو جائے اور یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ دونوں ہی ناکام ہو جائیں۔سوچنے کی بات ہے کہ پنجاب میں تیس ہزار سے زائد سرکاری سکول پانی،بجلی اور بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ان کے مدِ مقابل اتنی خطیر رقم اور اتنے وسیع و عریض رقبے پر الگ سے ایک نظام قائم کر دینا عقل و خرد کا ماتم نہیں تو اور کیا ہے؟آخر ان تیس ہزار سے زائد سکولوں میں بھی تو غریبوں کے ہی بچے پڑھتے ہیں اس سوال کا جواب سرکار کے کچھ نمائندے اس طرح سے دیتے ہیں کہ دانش سکولوں کی کل رقم سے تو تمام تیس ہزار سے زائد سکولوں میں بنیادی سہولیات فراہم نہیں کی جا سکتیں اگر اس بودی سی بات کو صحیح تصور بھی کر لیا جائے تو اس سے الگ سے دانش سکولوں کے قیام کا جواز کیسے بن سکتا ہے ؟ اس رقم سے چلیں جتنے بھی سرکاری سکولوں میں سہولیات میسر آ سکتیں وہ تو دینی چاہئیں تھی ایک سال میں نہ سہی آنے والے چند سالوں میں ان تمام سکولوں کی حالت بہتر بنائی جا سکتی تھی۔ایسا نہ کرنا حکومتِ پنجاب کی نیت پر براہِ راست سوالیہ نشان ہے۔

ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ اگر پنجاب سرکار نے نئے سکول بنانا ہی تھے تو پہلے سے موجود سرکاری تعلیمی ڈھانچے کے تحت کیوں نہیں بنائے گئے؟پچاس سے ساٹھ لاکھ روپے میں ایک پانچ کمروں پر مشتمل پرائمری سکول بنایا جا سکتا تھا اس سے بھی زیادہ پیسے خرچ کریں تو ایک کروڑ روپے میں ایک بہترین پرائمری یا مڈل سکول بنایا جا سکتا تھا۔اس طرح ایک دانش سکول کے بدلے میں سو نئے سرکاری سکول بن سکتے تھے اس طرح روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے ہزاروں نئے سکولو ں کا اضافہ ہو جاتا اور لاکھوں بچوں کے لیے ان کے گھر کے قریب حصولِ تعلیم کا عمل آسان ہو جاتا ۔خادمِ اعلٰی صاحب اور ان کے حاشیہ بردار ان سکولوں کے جواز کی ایک اور سطحی اور گمراہ کن دلیل دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سکول ایچی سن جیسے اشرافیہ کے اداروں کے تعلیمی میعار کو مدِ نظر رکھ کر بنائے گئے ہیں جس سے غریبوں کو بھی میعاری تعلیم حاصل کرنے کا بھی موقع ملے گا۔اس کاجواب دینے سے پہلے "میعاری تعلیم "کی جو پنجاب سرکار رٹ لگاتی ہے اس کی اصل حقیقت کو آشکار ا کرنا ضروری ہے اگر اس بات کو درست مان لیا جائے کہ ایچی سن ،بیکن ہاؤس،گرامر سکولز اور اس قبیل کے دوسرے اشرافیہ کے سکولوں میں اگر واقعی میعاری تعلیم دی جاتی ہے تو یہاں سے سائنسدان ،انجینیئرز،ڈاکٹرز ،مصنفین،شعراوادبا کیوں نہیں نکلتے؟کسی ایک شخصیت کا نام بتا دیجیے جس نے ملک و قوم کے لیے کوئی تخلیقی کام کیا ہو ؟یہ ادارے تو صرف اشرافیہ کے الّلے تللوں کی تکمیل کے لیے اور انگریز کے غلاموں کی ایک نسل تیار کرنے کے لیے ہیں جنہیں سامراج قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک پالتا پوستا آیا ہے۔ یہ انہی کے حقِ حکمرانی کو مستحکم کرنے کے لیے ہیں ۔انہیں کس ماہرِتعلیم نے میعاری ادارے قرار دیا ہے سوٹ بوٹ ، ٹائی اور ایئر کنڈیشن کمرے کس طرح کے تعلیمی میعار کی عکاسی کرتے ہیں؟کس طرح انگریزی میں لکھی اور پڑھی ہوئی چیز میعاری ہے اور لوگوں کی اپنی زبان میں غیر میعاری ؟دنیا کے بہترین ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان،ڈاکٹر ثمر مبارک مند،ڈاکٹر عبدالکلام (بھارت) اور ساہیوال کے ڈاکٹر غلام سرور(فرانس)جیسے اعلٰی پائے کے سائنسدان اردو میڈیم اور ٹاٹ سکولوں کی پیداوار ہیں۔میعار تو ان کے سکولوں کو قرار دینا چاہیے ۔حقیقت یہ ہے کی اس وقت حکومتِ پنجاب خاص طور پر میعارِ تعلیم کے نام سے لوگوں میں بہت بڑی گمراہی پھیلا رہی ہے۔اس گمراہی کی اشاعت کے لیے تمام سامراجی طاقتوں کی آشیرباد،تائید اور امداد حاصل ہے ۔میعار تعلیم کی تعریف دنیا بھر کے ماہرینِ تعلیم سامراجی آقاؤں کے ان حاشیہ برداروں سے یکسر مختلف کرتے ہیں۔"نصاب اور تمام تر دوسری تعلیمی سر گرمیوں کا مرکزومحور بچہ ہوتا ہے"یہ بین الّاقوامی طور پر مسلمہ اصول ہے اسی اصول کو ماہرین اس طرح سے بھی بیان کرتے ہیں کہ بچے کو ہر چیز ماحول سے مربوط کر کے پڑھانا چاہیے ۔ظاہر بات ہے ماحول میں زبان ،لباس تہذیبی اور سماجی اقدار اور ان سے متعلق دوسرے معاشرتی عوامل ہوتے ہیں۔اس اصول کی بنیاد پر غیر زبان،غیر تہذیب اور غیر لباس کے گرد گھومتا ہوا تعلیمی نظام قطعی طور پر غیر میعاری ٹھہرتا ہے۔مقامِ افسوس ہے کہ کتنی ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ باور کرایا جا رہا ہے یہاں پر طاہر فراز کا ایک شعر پڑھنے کو جی چاہتا ہے
ًًٍٍٍجب کریلا نیم پہ پہنچا تو میٹھا ہو گیا
جھوٹ اُس نے اِس قدر بولا کہ سچا ہو گیا

جس کام میں مشاورت نہ ہو وہ یا تو آمرانہ سوچ کا حامل ہوتا ہے یا پھر اس کی منصوبہ بندی کے ڈانڈے مینڈے دیگر اکثریتی منصوبوں کی طرح سامراجی مفادات سے جا ملتے ہیں عوام اپنے ہاتھوں منتخب کردہ خادمِ اعلی اور اس کے حواریوں سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ دانش سکولوں کی منصوبہ بندی کہاں ہوئی ؟کون لوگ مشاورت میں شامل ہیں ؟ان کی دیانتداری اور حب الوطنی کا میعار کیا ہے ؟ان کی علمی اور تحقیقی خدمات کا پس منظر کیا ہے ؟ان کی کتابیں اور مقالہ جات کہاں ہیں ؟یہ اور اس طرح کے دیگر سوالات کے جوابات نہ آج ہیں اور نہ کبھی ہو نگے اس لیے کے یہ ایک سازشی منصوبہ ہے۔دولتِ انگریزیہ ہی اس کی خالق ، مالک اور رازق ہے۔جتنا بھی جھوٹ بول لیا جائے ایسے سامراجی منصوبوں کو جواز کا جامہ پہنانا مشکل ہے ۔اس منصوبے کا سب سے بڑا مقصد لا دین ،غلام اور تہذیب و تمدن سے عاری نسل تیار کرنا ہے جو آ نے والی کئی صدیوں تک غلامی اور بھیک پر قانعِ رہ سکے ۔دولتِ برطانیہ کا نصاب انہی کا لباس انہی کی عطا کی ہوئی غذا اور انہی کے آلات و اشیا سے مزین یہ سکول کس طرح ہمارے بچوں کی آزادی اور خود مختاری کے ضامن ہو سکتے ہیں یہ تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے پنجاب میں سب سے بڑے اڈے ہیں جنہیں خادمِ اعلی اور ان کی حاشیہ بردار ٹیم کی جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ سوچ کی چھتری کے نیچے چلایا جا رہا ہے۔ان سکولوں میں براہِ راست انگریز آتے ہیں اور تعلیم و تدریس کے نام نہاد جدید طریقے سکھانے کی آڑ میں نسلِ نو کی رگوں میں غیر محسوس طریقے سے زہر انڈیل رہے ہیں اور نجانے ان کو بیس کیمپ بنا کر ملک کے اندر مزید کیا کیا تباہی کے منصوبے ان سے وابستہ ہیں۔ان کو فورا بند کرنا ہی ملک وملت کے فائدے میں ہے۔ تجارت کے بہانے بر صغیر میں آ نے والے انگریز دو سو سال بعد بھی نہ جا سکے۔جو قوم تاریخ بھول جاتی ہے تا ریخ بھی اس کو بھلا دیتی ہے۔

ان سکولوں کے افتتاح کے موقع پر خادمِ اعلی پنجاب ان سکولوں کے قصیدے پڑھتے ہوئے یہ جملے بار بار دوہراتے نظر آتے ہیں کہ ان سکولوں سے پڑھ کر نکلنے والے غریب بچے جب اپنے گاؤں اور بستیوں میں جائیں گے تو ان علاقوں کی تقدیر بدل جائے گی۔یہ بات بھی دیوانے کی بڑ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی کیونکہ جن ایچی سن اور بیکن ہاؤس وغیرہ کو نمونہ بنا کر انہیں بنایا گیا ہے ان سے پڑھ کر نکلنے والوں نے ملک میں کیا گل کھلائے ہیں یہ اب کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ ان کی وجہ سے ہی ملک کا بچہ بچہ پانی، بجلی۔، گیس، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم کر دیا گیا ہے ۔یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے کہ دانش سکول ایک ہزار سال تک بھی چلتے رہیں تو ان سے ایک بھی قابلِ قدر شخصیت نہیں پیدا ہو سکتی جو ملک کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا دینے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہو۔یہ بات بھی بالکل واضح اور واشگاف الفاظ میں کہی جا سکتی ہے کہ پنجاب میں ایسے سامراجی منصوبو ں کو چلانے والی مسلم لیگ کو اپنا نام بدل کر انگریزی لیگ رکھ لینا چا ہیے جو کہ ان کے موجودہ کردار کی بالکل صحیح عکاسی کرتا ہے ۔بقولِ شاعر
؂محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانی جمہور ورے ہے
تھامے ہوئے ہے دامن یہاں پہ جو خودی کا
مر مر کے جیئے ہے کبھی جی جی کے مرے ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
اشتیاق احمد
About the Author: اشتیاق احمد Read More Articles by اشتیاق احمد: 52 Articles with 168967 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.