گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
صوفیاء کے نزدیک تاجدار کائنات حضور نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
معراج کے لئے اس کرہئ ارضی کی پستی سے عالم بالا کی طرف جانا اتنا بڑا
معجزہ نہیں جتنا کہ مقامات علو سے دامن کش ہو کر جہان آب و گل کی پستی کی
طرف لوٹ آنا ہے۔ اسی سبب سے والنجم کہہ کر ربّ کائنات قسم کھا رہا ہے اس
چمکتے ہوئے ستارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو اس کی حریم ذات کے
قرب وصال کی رفعتوں سے ہمکنار ہونے کے بعد نوع انسانی کی بھلائی، اولاد آدم
کی بہبود اور انسانی ہدایت کی خاطر واپس زمین پر تشریف لے آئے۔
شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر صوفیاء کے دو مراتب کا
ذکر کیا ہے۔
1. مرتبہئ عروج
2. مرتبہئ نزول
1۔ مرتبہئ عروج
عروج وہ مرتبہ ہے جس میں روح اپنے اصل وطن کی طرف لوٹ جاتی ہے اور لذت وصال
سے ہمکنار ہو کر ہجر و فراق کے مرتبہ کی طرف لوٹ آتی ہے۔ عرفاء کے نزدیک
عروج کا درجہ نزول کے درجے سے کم ہے اس لئے کہ عروج تکمیل کا سفر ہے جبکہ
نزول اپنے تکمیل کے بعد دوسروں کی تکمیل کا متقاضی ہے اور یہ مرحلہ پہلے
مرحلے کی نسبت آزمائش طلب، پرکٹھن اور صبر آزما ہوتا ہے۔ شیخ گنگوہی رحمۃ
اللہ علیہ کے ارشاد کے مطابق حضور سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کا کمال تھا کہ وہ اس رفعتِ أَوْ أَدْنَی سے واپس لوٹ آئے۔ فرماتے ہیں کہ
اگر مجھے وہاں جانا نصیب ہوتا تو واپس آنے کا کبھی نام نہ لیتا۔ مطلب یہ ہے
کہ ایک تو مجھ میں اتنی روحانی توانائی نہ ہوتی کہ میں اپنی جسمانی اکائی
کو برقرار رکھ سکتا۔ دوسرے اپنی ذات میں اس قدر مگن ہو جاتا اور خود غرضی
مجھ پر اس قدر غالب آ جاتی کہ میں عالم انسانیت کو بھول کر صرف اپنا ہی ہو
کر رہ جاتا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت یہ ہے کہ وہ اتنی
بلندیوں پر پہنچنے کے بعد لوٹ آئے۔ شعور بندگی اور احساس بندگی ہر قدم پر
دامن گیر رہا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظمتوں کی خلعت فاخرہ عطا
ہونے کے بعد بھی اپنی ذات میں گم نہیں ہوئے بلکہ انہیں ہر لمحہ ہم گنہگاروں
کی ہدایت اور اصلاح کا خیال رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنی روحانی
قوتوں کے مالک تھے کہ انوار و تجلیات کی مسلسل بارش میں اپنی ذات کی اکائی
کو سلامت رکھنے میں کامیاب و کامران رہے اور واپس زمین کی طرف بھی لوٹ آئے
کہ اس کرہئ ارضی پر بسنے والے انسانوں کو اصنام پرستی کے تاریک غاروں سے
نکال کر توحید پرستی کے حلقہئ انوار میں داخل کرنا تھا۔ یہ وہی زمین تھی
جہاں پتھروں کی بارش میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پرچم توحید
اٹھائے رکھا۔ جہاں قدم قدم پر آپ کے خون کے پیاسے آپ کے خلاف سازشوں میں
مصروف تھے۔ شان رسالت یہی تھی کہ اللہ کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے اور اس
کی تائید و نصرت پر کامل یقین رکھتے ہوئے دلوں کے قفل توڑے جائیں اور ان کے
سینوں کو توحید کے نور سے منور کیا جائے۔
پیکرِ جود و کرم کا احسان
اگر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں
یہ عرض گزارتے کہ باری تعالیٰ میں نے منزل مقصود کو پا لیا۔ اس سے آگے کی
منزل کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اب دنیا میں جا کر مجھے کیا لینا، بس
تیرے انہی جلووں میں گم ہو جانا چاہتا ہوں، مولا! واپسی کا کوئی ارادہ نہیں،
تو کیا وہ مہربان خدا جس نے اپنے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
عظمتوں اور رفعتوں سے ہمکنار کیا ہے، اپنے قرب کے اعزاز لازوال سے نوازا
تھا، اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کو رد کر سکتا تھا؟ ہرگز
ہرگز نہیں، لیکن آقا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم غلاموں کو دشت بے
اماں میں بھٹکنے کے لئے تنہا نہیں چھوڑا اور واپس ہمارے درمیان تشریف لے
آئے۔ جہاں ہم نے نفرت کی دیواریں کھینچ رکھی تھیں۔ کفر و شرک کے حصار میں
مقید اولاد آدم خدا پرستی کی ہر ادا کو بھول چکی تھی، جہاں زندگی شرمندگی
کا روپ اختیار کر کے ضمیر مردہ کا کفن اوڑھ چکی تھی۔
اقلیم تصوف میں روحانیت اور طریقت میں معراج عروج پر ختم ہو جاتی ہے کیونکہ
اس میں مقصود اپنی ذات کا کمال ہوتا ہے مگر یہاں تو امت کو باکمال کرنا
مقصود تھا لہٰذا باری تعالیٰ کے پیار بھرے سوال کا جواب انتہائی عاجزی سے
عرض کیا کہ باری تعالیٰ واپس جانا چاہتا ہوں۔ اس طرح معراج مصطفوی کا سفر
عروج کی بجائے نزول پر ختم ہوا کیونکہ اگر نزول نہ ہوتا تو امت بے وسیلہ ہو
جاتی اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض نہ پا سکتی لیکن آقائے
نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری بہتری اور بھلائی مقصود تھی۔ یہ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امت اجابت (امت مسلمہ) پر ہی نہیں پوری
امت (بشمول امت دعوت) پر احسان عظیم ہے کہ انہوں نے عالم انسانیت کو ایک
ایسی محرومی سے بچا لیا جس کی تلافی حشر تک ممکن نہ ہوئی۔
وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی کا تیسرا معنی۔ ۔ ۔ پورے سفر معراج کی قسم
سطور بالا میں ہم نے آیت مقدسہ کے دو معانی تفصیلاً بیان کئے ہیں۔ اس آیت
مقدسہ کا تیسرا مفہوم یہ ہے کہ ربّ کائنات نے پورے سفر معراج کی قسم کھائی
ہے۔ عربی زبان و لغت کے قواعد کے مطابق کسی چیز کے اوپر جا کر نیچے آنے کے
پورے عمل کو بھی ھوی کہتے ہیں۔ اس معنیٰ کی رو سے اللہ ربّ العزت اپنے
محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پورے سفر معراج کی قسم کھا رہا ہے۔ اب اس
آیت مقدسہ کا مفہوم یوں ہو گا کہ قسم ہے ستارے کی طرح چمکتے ہوئے وجود
مبارک کی جو شب معراج اوپر گیا اور اپنی منزل مقصود پا کر پھر واپس آ گیا
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آسمانوں کی سیر اور عظمتوں سے ہمکنار
ہونے کے بعد دوبارہ عالم انسانیت میں نزول فرمایا۔
قرآنی قسموں کی حکمتیں
قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کئی مقامات پر قسم کھائی ہے۔ قسم کسی
خاص واقعہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور ذہن انسانی میں اس کا نقش بٹھانے کے
لئے اٹھائی جاتی ہے۔ اللہ ربّ العزت کے اپنے پیارے رسول کی قسم کھانے میں
کئی حکمتیں، احوال اور رمزیں ہیں، کئی اسرار و رموز ہیں جن پر سے پردہ
اٹھانا مقصود ہے۔ یہاں ہم بیشمار حکمتوں میں سے ایک پہلوئے محبت کو لے رہے
ہیں، وہ یہ کہ اس آسمانی سفر پر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود
نہیں گئے بلکہ اللہ ربّ العزت کی طرف سے جبرئیل امین بلاوا لے کر آئے تھے
کہ اے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج میں چاہتا ہوں کہ مقام قاب قوسین
میں اپنے حسن مطلق کی جلوہ گاہ میں بٹھا کر تجھے دیکھوں اور تو میرے محبوب!
جی بھر کر میرے حسن مطلق کے نظارے کرے۔ محبوب میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ آج
قاب قوسین پر میرے سوا تجھے تکنے والا کوئی نہ ہو اور تیری نگاہوں کے سوا
میرے حسن مطلق کے جلوے کرنے والا کوئی دوسرا نہ ہو، تو تو ہو اور میں میں
ہوں اور تیسرا کوئی نہ ہو۔ چونکہ خدائے لم یزل کی طرف سے حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کو مقام قاب قوسین پر لے جایا جا رہا تھا اس لئے فرمایا :
وَالنَّجْمِ إِذَا ہَوَی۔
دستور محبت بھی ہے اور ضابطہئ وفا بھی کہ جو لوگ عشق و محبت کی لذتوں،
حلاوتوں اور سرشاریوں سے آشنا ہوتے ہیں، وہ اس حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں
کہ اگر کسی سے محبت ہو اور محبوب ملنے کے لئے آ رہا ہو تو اس کا ملنے کے
لئے آنا بھی اتنی بھلی، پسندیدہ اور دل کو موہ لینے والی ادا ہوتی ہے کہ
محب دیکھ کر لطف اندوز ہوتا رہتا ہے اور اس کے جسم کا بال بال ٹھنڈک محسوس
کرتا ہے اور زبان حال سے یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ قربان جاؤں کہ کتنی پیاری
ادا کے ساتھ تو میری طرف آ رہا ہے اور حرف تحسین بے ساختہ اس کے لبوں پر
مچل اٹھتے ہیں۔ محب اپنے محبوب کی ہر ادا پر مچل اٹھتا ہے، نثار ہو ہو جاتا
ہے، اس کا انگ انگ ان لمحات مسرت میں سراپا دید بن جاتا ہے اور جب محبوب
واپس ہونے لگتا ہے تو اشتیاق سے اسے دیکھتا ہے۔ دیکھو میرا محبوب جب آیا تو
اس کی چال میں کتنا وقار تھا، اب جا رہا ہے تو اس کی چال میں کتنی تمکنت
ہے۔ یہ تو ہمارے پیمانہ ہائے محبت ہیں۔ بلاتمثیل وتشبیہہ اللہ ربّ العزت
بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور واپسی کی قسمیں کھا رہا
ہے۔ قسم ہے تیری اے چمکتے ہوئے ستارے! إِذَا ہَوَی، جب تو میرے بلاوے پر
میرے حسن مطلق کی جلوہ گاہ میں آیا۔ تیرا آنا کتنا بھلا لگ رہا تھا اور اے
میرے دمکتے ستارے! تیری قسم جب تو قاب قوسین پر ان عظمتوں اور رفعتوں سے
ہمکنار ہو کر میری ذات و صفات کے انوار وتجلیات کو اپنے دامن میں سمو کر
واپس جا رہا ہے۔ تیرے واپس جانے کی شان، ڈھنگ، انداز اتنا دلکش تھا کہ تیرے
لوٹ کر جانے پر بھی پیار آ رہا تھا۔ تیرا آنا اور جانا دونوں لاجواب تھے۔
قسم اس سرزمین کی جس نے تیرے قدموں کو بوسہ دیا
جب انسان قسم اٹھاتا ہے تو اس کی یہ قسم عشق کی حلاوتوں اور شیرینیوں پر
دلالت کرتی ہے اور جب اللہ ربّ العزت قسم اٹھاتا ہے اور وہ بھی اپنے محبوب
بندے اور رسول کی تو اس کی اہمیت کا اندازہ لگانا بھی بندوں کے لئے ممکن
نہیں ہوتا۔ اگر راز محبت درمیان میں نہ ہو تو خدا کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنے
بندے کی جو اس کی تخلیق ہے کے آنے جانے کی قسم کھائے۔ یہ وہی محبت اور شفقت
کے راز ہائے سربستہ ہیں جن کا قرآن میں ذکر مذکور ہے کہ اے محبوب! مجھے قسم
ہے اور شہر دلنواز کی جس کی گلیوں میں تو چلتا پھرتا ہے۔
لَا أُقْسِمُ بِہَذَا الْبَلَدِO وَأَنتَ حِلٌّ بِہَذَا الْبَلَدِO
(البلد، 90 : 1 - 2)
میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوںo (اے حبیبِ مکرّم!) اس لئے کہ آپ اس
شہر میں تشریف فرما ہیںo
فرمایا جا رہا ہے کہ محبوب میں شہر مکہ کی قسم اس لئے کھاتا ہوں کہ یہ تیرا
شہر ہے ورنہ مجھے کیا پڑی کہ میں کسی شہر کی قسم کھاتا پھروں۔ میں تو ساری
زمین کا مالک و مختار ہوں۔ میں تو زمینوں، آسمانوں، سورج، چاند، ستاروں سب
کا خالق ہوں، میں کرہئ ارضی کے کسی خاص ٹکڑے کی قسم کیوں کھاؤں۔ میں کسی
چاند یا ستارے کی قسم کیوں کھاؤں، یہ تو سب میری مخلوقات ہیں۔ کائنات کا
ذرہ ذرہ میری حمد بیان کرتا ہے، میری ذات کے گرد مصروف طواف رہتا ہے۔ اگر
سرزمین مکہ میں کعبہ ہے تو کیا ہوا، یہ تمہارے لئے باعث برکت ہوسکتا ہے،
میرے لئے تو یہ محض مخلوقات میں سے ایک ہے۔ اگر شہر مکہ میں صفا اور مروہ
ہے تو بھی کیا ہوا! حضرت حاجرہ علیھا السلام کے نقوش پا ہی کو چومنے سے ان
کو یہ عظمت ملی۔ یہ تمہارے لئے مقدس پہاڑیاں ہو سکتی ہیں لیکن میرے لئے ان
کی حیثیت ریت کے ٹیلوں سے زیادہ نہیں۔ اگر شہر مکہ میں چاہ زم زم ہے تو یہ
بھی میرے لئے ایک کنواں ہی ہے جو تمہارے لئے باعث فضیلت ہو سکتا ہے۔ میری
ذات تو ان چیزوں سے ماوراء ہے۔ حطیم اور غلاف کعبہ تمہارے لئے خیر و برکت
کا موجب ہیں لیکن میری ذات تو کسی چیز کی محتاج نہیں۔ مگر میں پھر بھی اس
شہر کی قسم اٹھاتا ہوں، اس کی وجہ کعبہ ہے نہ مطاف و زمزم، یہاں ہزاروں
انبیاء کے مزارات ہیں لیکن یہ بھی میری قسم کا سبب نہیں بن سکتے۔ آ محبوب!
تجھے بتاؤں کہ میں شہر مکہ کی قسم کیوں کھاتا ہوں۔ محبوب! اس لئے کہ یہ
تیرا شہر ہے۔ اس سرزمین نے تیرے قدموں کو بوسہ دینے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔
یہ ریگ رواں تیرے تلوؤں کا دھوون پینے کی سعادت سے سرفراز ہوئی ہے۔ اس شہر
کی قسم اس لئے کھاتا ہوں کہ محبوب تو ان گلیوں میں چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔
مجھے یہ گلیاں پیاری لگتی ہیں کہ یہ تیری پذیرائی کے لئے چشم براہ رہتی
ہیں۔ محبوب! تو چلتا ہے تو یہ تیری راہ میں عقیدت کا آنچل بچھا دیتی ہیں۔
اس شہر میں محبوب تیرا گھر ہے۔ یہ تیرے پیدا ہونے کی جگہ ہے۔ اسی شہر مکہ
میں صبح میلاد ثویبہ نے تیری آمد کا مژدہ سنا کر رہائی پائی تھی کہ آج ساری
انسانیت کا نجات دہندہ پیدا ہوا ہے۔ ان ہواؤں نے طشت تمنا میں تیری سانسوں
کے گلاب سجائے ہیں۔ ان فضاؤں نے تیرے قدموں کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ
بنایا ہے۔ اسی شہر کے در و دیوار نے تیرے جلوؤں کی تابانی کو اپنا جھومر
بنایا ہے۔ اس شہر میں تیرا بچپن گزرا، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا گزرا۔
محبوب! ان فضاؤں میں تیری سانسوں کی خوشبو رچی بسی ہے۔ تیرے لب شیریں کی
صدائیں گونج رہی ہیں۔ یہ فضائیں محبوب! تیرے پسینے کی خوشبوؤں سے مہک رہی
ہیں۔ ان ہواؤں نے تیرے دامن کو آنکھوں سے لگایا ہے۔ اے شہر مکہ! تو مجھے
محبوب ہے اس لئے کہ تو میرے محبوب کا شہر دلنواز ہے۔
وَالنَّجْمِ اذَا ھَوٰی کا چوتھا معنی : سفر معراج کی سرعت رفتاری
ھویٰ تیزی اور سرعت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے، سفر معراج انتہائی
تیز رفتار سفر تھا۔ براق برق کی کی جمع ہے۔ سورج کی روشنی تقریباً 9 منٹ
میں زمین پر پہنچتی ہے، روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار
سے سفرکرتی ہے، یہ سفر براق اور رفرف پر طے ہوئے۔ ہزاروں لاکھوں روشنیوں کو
اگر جمع کر لیا جائے تو براق اور رفرف کی رفتار اس سے بھی تیز ہو گی یعنی
سفرِ معراج وہ سفر تھا جو پلک جھپکنے میں نہایت تیزی اور نہایت سُبک رفتاری
سے طے ہو گیا۔ اگر ھویٰ سے مراد سُرعت اور تیزی لیا جائے تو آیتِ مقدسہ کا
ترجمہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ قسم ہے اِس ستارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی جو زمین سے اور مکاں کی ساری وسعتیں اور منزلیں طے کرکے اِتنی تیزی اور
تیز رفتاری سے زمین کی طرف واپس پلٹا کہ وہ سفرجو کروڑوں سالوں میں بھی طے
نہیں ہوتا آنِ واحد میں اِس طرح مکمل ہوا کہ جب وہ (حضور تاجدارِ کائنات
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس آیا تو اُس کے دروازے کی کنڈی اُسی طرح ہل
رہی تھی اور غسل و وضو کا پانی اُسی طرح بہہ رہا تھا۔ والنجم قسم ہے چکمتے
ہوئے ستارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذا ھویٰ تیری تیز رفتاری کی
کہ تو حطیمِ کعبہ سے اٹھا، پہلے تو نے غسل کیا، وضو کیا، تیرا سینہ مبارک
شق ہوا پھر میرے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو براق پر سوار ہوا،
فرشتے تیرے ہمرکاب تھے پھر تیری سواری بیت المقدس پہنچی، تو نے موسیٰ علیہ
السلام کو اپنی قبرِ انور میںنماز پڑھتے ہو ئے بھی دیکھا۔ پھر بابِمحمد صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام پر جبرئیل علیہ السلام نے انگلی سے براق کو
باندھنے کی جگہ کی نشاندہی کی، محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر تو براق
سے نیچے اترا، آدم علیہ السلام سے عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء صف
باندھے تیرے منتظر تھے، تو آیا تو نماز میں انبیاء کی امامت کی کہ تو امام
الانبیاء ہے، سردارِ مرسلین ہے۔
بیت المقدس کی زیارت کرنے اور ابنیاء کی امامت کرنے کے بعد تیرا آسمانوں
کاسفر شروع ہوا، تیرے آنے پر محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے آسمان کا
دروازہ کھولا گیا۔ انبیاء اور ملائکہ نے نہ صرف خوش آمدید کہا بلکہ تیرے
دیدار سے بھی مشرف ہوئے۔ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر تیرا نزول
دوسرے آسمان پر ہوا، وہاں بھی انبیاء اور ملائکہ دیدہ و دل فرشِ راہ کئے
ہوئے تھے، تیسرے اور چوتھے حتیٰ کہ تو ساتویں آسمان پر پہنچا پھر تو محبوب!
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرشِ معلی کی سیر کرتا رہا، آسمانوں نے تیری قدم
بوسی کا اعزاز حاصل کیا، ملائکہ تیری راہوں میں آنکھیں بچھا رہے تھے، تمام
قدسیوں نے میری بارگاہ میں التجا کرکے تیرا بے حجاب دیدار کیا، جبرئیل سدرۃ
المنتہیٰ پر رک گیا کہ ایک قدم بھی بڑھتا تو جل جاتا، اب محبوب صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم تجھے اکیلے ہی آنا تھا جہاں فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں،
محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو وہاں بھی تجلیات میں نہا گیا، پھر رفرف
کو تجھے اپنا شہسوار بنانے کی سعادت نصیب ہوئی، پھر آگے بہت آگے سدرۃ
المنتہیٰ سے بھی آگے تو لامکاں کی حدود میں داخل ہو گیا۔
قف یا محمد ان ربک یصلی
(الیواقیت والجواہر، 2 : 35)
حبیب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھوڑی دیر کیلئے ٹھہر جا تیرا رب تیرے قریب
آرہا ہے۔
محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تیرے استقبال میں درود پڑھتا رہا، پھر
تو آگے بڑھا، میں اِستقبال میں اپنے شایان شان آگے بڑھا، پھر میں نے تجھے
اپنے دامنِ قرب میں لے لیا، محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر میں نے
تجھے اپنی لذتِ وصال سے ہمکنار کیا، پھر تجھ پر وحی اتاری، محبوب! صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم تو آسمانوں پر آیا تو میں نے تجھ سے دریافت کیا کہ محبوب!
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارلے لئے کیا تحفہ لائے ہو؟ تو نے کہا کہ باری
تعالیٰ اپنی بندگی اور امت کے گناہوں کا تحفہ لایا ہوں، محبوب! صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم تیرے اِس جواب پر میں نے تجھ پر سلامتی بھیجی، میں نے تجھے
پچاس نمازوں کا تحفہ دیا، پھر رازو نیاز کی باتوں کے بعد تو واپس لوٹا،
چھٹے آسمان پر موسیٰ علیہ السلام سے ملا، موسیٰ نے کہا یارسول اللہ ! صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس جائیے، آپ کی امت اِتنی نمازیں ادا نہ کرے گی،
محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو لوٹ کر میرے پاس آیا، میں چاہتا تو تو
پینتالیس نمازیں بیک وقت معاف کر کے پانچ نمازوں کا تحفہ دے کر تجھے بھیج
دیتا اور چاہتا تو شروع ہی میں تجھے دیتا ہی پانچ نمازوں کا تحفہ لیکن بار
بار تجھے بھیجتا رہا، موسیٰ سے مل کر تو واپس آتا رہا، محبوب! صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم حکمت یہ تھی کہ نمازیں بخشوانے کے لئے تو بار بار آتا رہے
اور محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تجھے تکتا رہوں۔ اِس طرح بار بار
تیرا آنا جانا رہا، پھر تو آسمانوں کی سیر، جنت اور دوزخ کا نظارہ کرتا ہوا
سدرۃ المنتہیٰ کو پیچھے چھوڑتا ہوا آسمان کی بلندیوں سے نیچے کرہئ ارض پر
آیا، پھر بیت المقدس کی سمت سے تو مکہ مکرمہ پہنچا تو محبوب! صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم راستے میں تو نے اونٹوں کے قافلے دیکھے اور جب تجھے پیاس محسوس
ہوئی تو تو نے پیالے سے پانی پیا۔
میرے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنا طویل سفر طے کیا، اِتنی طویل
سیر کی، اِتنی طویل گفتگو کی لیکن قسم ہے تیرے سفر کی تیزی کہ کے جب تو
واپس آیا تو تیرے وضو کا پانی بھی بہہ رہا تھا، تیرے دروازے کی کنڈی بھی ہل
رہی تھی اور تیرا بستر بھی گرم تھا۔ عظمتوں اور رفعتوں کے اِس سفر میں حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اَن گنت عجائبات بھی دکھائے گئے، اللہ کے فضل و
کرم کی گھٹائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہمرکاب رہیں، کارخانہ
قدرت میں کارکنان قضا و قدر نے وقت کی طنابیں کھینچ لیں، حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی سرعت رفتار کا یہ عالم تھا کہ ایک ہی جست میں تمام
مسافتیں طے ہو گئیں، فاصلے سمٹ گئے اور وقت اُسی نقطے پر ٹھہر گیا جہاں
صاحبِ معراج اِسیچھوڑ کر گئے تھے، ایک ہی لمحہ خدا جانے کتنے کروڑ سالوں پر
محیط ہوگیا، کائنات پر ایک پل بھی نہ گزار کہ سیاحِ لامکاں صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سب زمانی و مکانی مسافتیں طے کرکے واپس بھی لوٹ آئے، یہ بے نظیر
و بے عدیل سفر باوجود اپنی پنہائیوں اور بے کرانیوں کے رات کے ایک پل میں
اِس طرح تمام ہو گیا کہ جانے اور واپس آنے میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہ
ہوئی۔
اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب کہا ہے۔
عشق کی ایک جَست نے طے کر دیا قصّہ تمام
اِس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
خالق کائنات نے نبض ہستی کو روک دیا اور کارخانہ، عالم کی حرکت پذیری کو
موقوف رکھا اس وقت تک جب تک اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات
کا یہ سفر تمام نہ ہوا۔
معجزہئ معراج میں رفتارِ نبوی کا بیان
وقت کی رفتار روک دی گئی، کارخانہ عالم کی ہر شے ساکت کر دی گئی کہ آج میرا
محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمانوں کی سیر کو آرہا ہے۔ سفر معراج تیز
رفتاری میں اپنی مثال آپ ہے کہ ایک قلیل عرصے میں اپنے اختتام سے بھی
ہمکنار ہو گیا۔ سدرۃ المنتہیٰ کو عالم ملکوت کی آخری سرحد کہا جاتا ہے،
ملائکہ کے لئے اس کو عبور کرنا ممکن نہیں۔ سدرۃ المنتہی تک حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے براق پر سفر طے کیا، یہ تیز رفتاری براق کا کمال تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفر معراج کے ذاتی کمالات کا اظہار تو
سدرۃ المنتہی کی حدکو عبور کر جانے کے بعد ہوا جب براق کی برق پائی اور
جولانء رفتار جواب دے گئی۔ سدرۃ المنتہی سے ماورا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے سفر کی عظمت رفتار سے عالم امر کی مخلوق یعنی براق کی تیز رفتاری
کو دور کی نسبت بھی نہیں۔ براق کی رفتار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
رفتار کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔ اِسی طرح براق کے مقابلے میں انبیاء
کرام کے روحانی تصرفات و کمالات کہیں بڑھ کر ہیں اور سرتاج انبیاء علیہ
السلام کے کمالات جملہ انبیاء کرام سے بدرجہا زیادہ ہیں۔ بیت المقدس کے سفر
میں اثنائے راہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گذر حضرت موسیٰ کی قبر
مبارک کے پاس سے ہوا۔ ارشاد گرامی ہے۔
وہو قائم یصلی فی قبرہ.
اور وہ (موسیٰ) اپنی قبر میں نماز ادا کر رہے تھے۔
1. الصحدح لمسلم، 2 : 268، کتاب الفضائل، رقم : 165
2. سنن النسائی، 3 : 216، رقم : 1633. 1637
3. مسند احمد بن حنبل، 5 : 59
4. شرح السنہ، 13 : 351، رقم : 3760
5. صحدح ابن حبان، 1 : 242، رقم : 50
6. مصنف ابن ابی شدبۃ، 14 : 308، رقم : 18324
عربی لغت کے مطابق یصلی کا لفظ درود وسلام کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا
ہے۔
عظمتِ رفتارِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اگر یہاں یصلی کے یہ معانی لئے جائیں تو ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ
السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گذر گاہ میں سراپا انتظار بنے تھے،
جونہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے انہوں نے نبی آخرالزماں صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
استقبال کیا، جب تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد الحرام سے
مسجدِ اقصیٰ پہنچے تو اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام سمیت تمام انبیاء حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشوائی کے لئے موجود تھے، جبرئیل علیہ السلام
نے اذان دی، حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امامت کے لئے مصلے پر
کھڑے ہوئے، آدم علیہ السلام سے عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء نے صفیں
درست کیں اور سیاحِ لامکاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِقتدا
میں نماز ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ہم بیان کر رہے ہیں کہ حضرت موسیٰ
علیہ السلام نے سردارِ کائنات جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
استقبال کرتے ہوئےِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں
درودوں کے گجرے اور سلاموں کی ڈالیاں پیش کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ عالمِ
بالا میں آیاتِ اِلٰہیہ کا مشاہدہ کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کا ورودِ مسعود چھٹے آسمان پر ہوا تو بخاری کی حدیث کے اور اَحادیث کی دیگر
معتبر کتب کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی پیشوائی کے لئے بنفس نفیس موجود تھے۔ ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے
کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مختلف مقامات پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے پہلے تشریف لے آنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ
السلام کی رفتار اور روحانی تصرفات آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی رفتار اور روحانی تصرفات سے زیادہ تھے، مثلاً سفرِ معراج کے پہلے مرحلے
میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قبر
میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیتِ
المقدس تشریف لے گئے تو باقی تمام انبیاء کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا استقبال کرنے اور اُن کی اِقتدا میں نماز اداکرنے والوں میں حضرت
موسیٰ علیہ السلام بھی شامل تھے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفرِ معراج براق کے ذریعہ طے پا رہا تھا۔ ایک نبی
کی طاقت کا براق کی طاقت سے زیادہ ہونا اک مسلّمہ امر ہے لیکن چونکہ افضلیت
کے اِعتبار سے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام نبیوں اور رسولوں
سے اَفضل ہیں اِس لئے عظمتِ رفتارِ مصطفوی تک پہنچنا کسی دوسرے نبی یا رسول
کے لئے ممکن نہیں۔ یہاں اِس اَمر کی طرف اِشارہ کرنا ضروری ہے کہ جب سدرۃ
المنتہیٰ پر جبرئیل علیہ السلام نے بھی آگے بڑھنے سے معذوری کا اِظہا ر کر
دیا اور براق کی تیز رفتاری بھی ختم ہو گئی اور اُس کے بعد براق کے لئے ایک
قدم اٹھانا بھی ممکن نہ رہا تو لامکاں کی بے کراں وسعتوں میں آگے کا سفر
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے روحانی کمالات کا مرہون
منت تھا جن کا اندازہ اور تصور بھی ذہنِ انسانی کے لئے ممکن نہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |