بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ
الرَّحِیمِ:سُبحَانَ الَّذِی اَسرَا بِعَبدِہ ۔(القرآن)”پاک ہے وہ ذات جو
اپنے بندے کو لے گیا ۔“
لے جانے والا رب العالمین اور لے جائے جانے والے رحمة اللعالمین ﷺ۔حضور
بارگاہِ الہٰیﷺ میں کس ادب و احترام سے بار یاب ہوئے ۔بڑھے تو لیکن جھجکتے
،ڈرتے ،ادب سے رکتے ،حیا سے جھکتے ۔
آیت بالا میں حضور اکرم ﷺ کو عبدہ کے شرف سے نوازا گیا ۔شاعر مشرق علامہ
اقبال نے عبدہ کی تفسیر یوں کی ہے ۔
عبد دیگر عبدہ چیزے دگر
ایں سراپا انتظار او منتظر
عبد اور ہے اور عبدہ کا مقام اور ہے ۔ عبد کسی کا منتظر ہے اور عبدہ کا
کوئی انتظار کرتا ہے ۔
لیکن رضا نے ختم سخن اس پہ کر دیا
خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے
اور سورہ نجم میں حضور ﷺکی معراج سے واپسی کا ذکر ہے مگر بڑے پر عظمت انداز
سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَالنَّجمِ اِذَا ھَوَا ۔ ”اس (پیارے ) چمکتے
تارے )محمد ﷺ) کی قسم ! جب وہ (معراج سے) اترے۔“
اگر چہ نجم کی تفسیر میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں ،مگر سب سے خوبصورت
تفسیر یہ ہے کہ نجم سے حضور ﷺکی ذاتِ ستودہ صفات مراد ہے ۔ پھر حضورﷺ مقام
دنیٰ فتدلیٰ میں باریاب ہوئے تو بارگاہِ الہیٰ سے ندا آئی :
بڑھ اے محمد ! قریب ہوا حمد !قریب آسرور!(ﷺ)
نثار جاﺅں یہ کیا ندا تھی یہ کیا سماں تھا یہ کیا مزے تھے
حضور ﷺمعصوم ہیں:
مَا ضَلَّ صَاحِبُکُم وَمَا غَوٰی۔”تمہارے صاحب نہ بہکے نہ بے راہ چلے۔“
صاحب سے حضور کی ذات مراد ہے ۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ آپ ہمیشہ حق و ہدایت
کی اعلیٰ منزل پر رہے ، صراط مستقیم سے کبھی عدول نہ کیا ،آپ کے دامن عصمت
پر کبھی اور کسی حال اور کسی وقت میں بھی کسی امر مکر وہ کی گرد نہ آئی
۔ہمیشہ حق فرمایا اور حق پر ہی رہے ۔ اعتقادفاسد کا شائبہ بھی کبھی آپ کے
حاشیہ بساط تک نہ پہنچا۔ قبل اظہار نبوت بھی حضورﷺ معصوم تھے اور اظہار
نبوت کے بعد بھی معصوم ۔
وَمَا یَنطِقُ عَنِ الھَوَا اِن ھُوَ اِلَّا وَحی یُّوحٰی۔”حضور ﷺکوئی بات
اپنی خواہش سے نہیں کہتے ۔وہ نہیں کہتے مگر وحی جو انہیں کی جاتی ہے ۔“
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ حضور ﷺکا بہکنا اور بے راہ چلنا ممکن ہی نہیں
ہے ۔ یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کہ حضور ﷺاپنی خواہش کے تقاضوں سے
متاثرہو کر کچھ کہیں ۔وہ جو کچھ فرماتے ہیں وحی الہٰی ہوتی ہے یعنی زبان
حضور ﷺکی اور طاقت خدا کی ۔ اسی آیت سے حضور ﷺکے خلقِ عظیم اور مرتبہ کی
بلندی کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ نفس کا سب سے اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ وہ اپنی
خواہش کو ترک کر دے ۔(تفسیر کبیر )
اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ حضور علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات
اور افعال میں فنا کے اس اعلیٰ مقام پر فائز ہیں کہ اپنا کچھ باقی نہ رہا
۔انوار و تجلیات الہٰی کا آپ کی ذات پر ایسا کامل و مکمل غلبہ ہوا کہ آ پ
جو کچھ فرماتے ہیں وحی الہٰی ہوتی ہے ۔
حضور کا بولنا وحی الٰہی ہے :آیت بالا کا جملہ ”اِن ھُوَ اِلَّا وَحی یُّو
حٰی“میں ”ھو“کی ضمیر نطق رسول کی طرف لوٹتی ہے ۔جس کا ذکر ”وما ینطق“ میں
کیا گیا ہے ۔اس آیت میں کوئی اشارہ بھی موجود نہیں ہے کہ نطق رسول کو صرف
قرآ ن کے ساتھ مخصوص کیا جائے ۔یہاں تو ہر اس بات کو وحی الٰہی قرار دیا
گیا ہے جس پر نطق رسول کا اطلاق کیا جا سکتا ہے ۔جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے
کہ حضور ﷺکا نطق (بولنا) خالص وحی ہے ۔اور اس میں حضور ﷺکی خواہش کو قطعاً
دخل نہیں ہوتا ۔
قرآن حکیم نے یہ تصریح اس لئے کی تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ رسول ﷺ کی
ہر بات وحی ہے ۔کیونکہ اگر کسی ایک بات میں بھی یہ شبہ ہو جائے کہ رسول
کریم ﷺ خواہش نفس سے بولتے ہیں اور اس کا نطق خدا کی وحی سے نہیں ہے تو پھر
تو رسالت پر سے اعتماد اٹھ جائے گا ۔ اس لئے قرآن کریم نے واضح کر دیا کہ
حضورﷺ کا ہر قول و عمل وحی الہٰی ہے ۔اسی آیت سے حضور علیہ السلام کی بشریت
کی عظمت پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ ایک وہ بشر جس پر اللہ کی وحی آتی ہے ۔ جس
کا بولنا ،وحی الہٰی قرار پاتا ہے اور ایک وہ بشر جو اس شرف سے محروم ہے
۔دونوں کیسے برابر ہو سکتے ہیں ۔
عَلَّمَہ شِدِیدُ القُوٰی:”سخت قوتوں والے طاقتور نے (حضور )کو سکھایا“
حضرت حسن بصری تابعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :شِدِیدُ القُوٰی۔سے اللہ
تعالیٰ کی ذات اقدس مراد ہے ۔معنی آیت یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو
بے واسطہ تعلیم دی ۔ اب جسے رب العلمین جو کہ عالم الغیب و الشہادہ ہے
،تعلیم دے اس کے علم و فضل کا کون اندازہ کر سکتا ہے ´
جبریل امین سدرہ پر ہی رہ گئے :فَاستَوٰی وَھُوَ بِالاُفُقِ الاَعلیٰ:پھر
اللہ نے قصد فرمایا اور وہ آسمانِ بریں کے بلند کنار اپر تھا ۔“
مفسر شہیر امام رازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور سرور عالم ﷺ شب
معراج آسمان بریں کے بلند کناروں پر پہنچے تو تجلی الہٰی متوجہ نمائش ہوئی
۔
صاحب تفسیر روح البیان نے فرمایا کہ فاستوی کے معنی یہ ہیں کہ حضور سید
عالم ﷺ نے افق اعلیٰ یعنی آسمانوں کے اوپر جلوہ فرمایا ۔حضرت جبرائیل امین
سدرة المنتہیٰ پر رک گئے ،آگے نہ بڑھ سکے ۔بارگاہِ نبوت میں عرض کیا کہ اگر
میں ذرا بھی آگے بڑھوں تو جلالِ الہٰی اور تجلیات ربانی مجھے جلا ڈالیں
۔پھر حضورﷺ آگے بڑھے حتیٰ کہ عرش سے بھی گزر گئے ۔
تھکے تھے روح الامیں کے بازو چھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
رکاب چھوٹی امید ٹوٹی نگاہ حسرت کے ولولے تھے
حریم حق میں حضورﷺ کی رسائی :
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی ،فَکَانَ قَابَ قَوسَینِ اَو اَدنیٰ۔”پھر وہ جلوہ
نزدیک ہوا ۔پھر خوب اتر آیا تو اس جلوے اور اس محبوب میں دو ہاتھ کا فاصلہ
رہا بلکہ اس سے بھی کم ۔“
معنی آیت یہ ہیں کہ حضور سید عالم ﷺ اللہ تعالیٰ کے قرب سے مشرف ہوئے ،یا
یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺکو اپنے قرب سے نوازا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے
لطف و کرم کے ساتھ اپنے محبوب رسولﷺ کے قریب ہوا اور اس قرب میں زیادتی
فرمائی ۔(روح البیان)
فَاَو حیٰ اِلٰی عَبدِہ مَا اَوحٰی:”اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی
فرمائی ۔“
شب معراج جب حضور سرور عالم ﷺ بارگاہ الہٰی میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے آپ
پر وحی فرمائی ۔حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”یہ وحی بے
واسطہ تھی اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺکے درمیان کوئی نہ تھا۔“ اسی لئے
فرمایا:”ما اوحیٰ“وحی فرمائی ۔راز و نیاز کی گفتگو ہوئی ۔اسرار و رموز سے
آگاہی فرمائی۔ جسے اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے پوشیدہ رکھا ۔اس وحی کا
تعلق احکام و شرائع سے نہ تھا ،اس لئے یہ وحی قرآن حکیم میں نہیں ہے ۔یہ تو
صرف سینہ مصطفی ﷺ میں ہے ۔(جمل و روح البیان)
مَاکَذَبَ الفُوَادُ مَا رَاٰی ۔”دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔“
اس آیت میں حضور اکرم ﷺ کے قلب منور کی عظمت کا بیان ہے کہ شب معراج آپ ﷺ
کی مقدس آنکھوں نے جو انوار و برکات الہٰی دیکھے حتیٰ کہ رب العالمین جل
مجدہ کے دیدار پر انوار سے مشرف ہوئے تو آنکھ نے جو دیکھا دل نے اس کی
تصدیق کی ۔یعنی آنکھ سے دیکھا دل سے پہچانا اور اس دیکھنے میں شک ،تردد اور
وہم نے راہ نہ پائی ۔صحابی رسول حضرت عکرمہ ،حضرت انس بن مالک اور حضرت حسن
رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں :”شب معراج حضور ﷺنے اپنی سر کی آنکھوں سے اللہ
تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ فرمایا۔“
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :”اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم
علیہ السلام کو خلعت ،حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلام اور حضور سید
المرسلین علیہ السلام کو اپنے دیدار کا اعزاز بخشا۔“
حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ
السلام سے دوبار کلا م فرمایا اور حضور اقدس ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دو مرتبہ
دیکھا ۔(ترمذی)
حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا:رَاَیتُ رَبِّی بِعَینِی۔”میں نے اپنے رب کو
اپنی آنکھ سے دیکھا ۔ “(بخاری و مسلم)
اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس غیب الغیب ہے جب حضور سرور عالم ﷺ نے غیب الغیب کا
مشاہدہ فرما لیا تو غیب کی کوئی بات آپ سے کیونکر چھپی رہ سکتی ہے ؟حق یہ
ہے کہ ذات الہٰی کے مشاہدہ حقیقی کے بعد نگاہ مصطفےٰ ﷺ سے کائنات کی کوئی
چیز پوشیدہ نہ رہی ۔
اور کوئی غیب بھلا کیا ہو تم سے نہاں
جب خدا ہی نہ چھپا تم پہ کروڑوں درود
مَا زَاغَ البَصَرُوَ مَا طَغیٰ۔”آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔“
اس آیت میں حضور اکرم ﷺ کی مقدس آنکھوں کی خصوصیت کا بیان ہے کہ شب معراج
حضور اکرم ﷺ اس مقام پر پہنچے جہاں سب کی عقلیں حیرت زدہ ہیں ۔جس نور حق کا
دیدار مقصود تھا اس سے بہز اندوز ہوئے ۔داہنے بائیں کسی طرف ملتفت ہوئے ۔نہ
مقصود حقیقی کی دید سے آنکھ پھیری اور نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح بے
ہوش ہوئے ۔
لَقَد رَاٰی مِن اٰیٰتِ رَبِّہِ الکُبرٰی۔”بیشک آپ نے اپنے رب کی بہت بڑی
نشانیاں دیکھیں۔“
اس آیت میں حضور اکرم ﷺ کی مقدس آنکھوں کے مرتبہ و مقام کی کیفیت یہ بتائی
گئی ہے کہ شب معراج آپ نے اللہ تعالیٰ کی بڑی نشانیاں ،ملک و ملکوت کے
عجائب کو ملاحظہ فرمایا اور تمام معلومات غیبیہ ملکوتیہ کا آپ کو علم حاصل
ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں مقام مصطفےٰ ﷺ سمجھنے کی توفیق دے ۔آمین |