دل جیتنے کا راز
(DR ZAHOOR AHMED DANISH, NAKYAL KOTLE AK)
انسان کتنا سرکش ہے یہ زمین کے
ٹکڑوں پر لڑلڑکر انسانیت سے وہ گھنأونا مزاح کرتاہے کہ بس آنکھیں شرم سے
جھک جائیں ۔امن کا ٹھیکیدار امریکہ و دیگر طاغوتی قوتیں اس وقت اس دنیا میں
کرہئ ارض کے چپہ چپہ پر اپنی دھاک بٹھانا چاہتی ہیں لیکن ان کم عقلوں کو
کوئی یہ سمجھائے تم حکمرانی ،گیدڑ، چمگادڑ، تیتر بٹیر یا پھر درندوں
شیر،چیتاوغیرہ پر کروگئے ۔یہ کس کے حقوق کی جنگ لڑرہے ہو۔اگر جواب ملتاہے
کہ انسانوں کے ۔تو یہ سراسر جھوٹ کے گاجر مولی کی طرح کٹتے انسانوں ،مظلوموں
،بے چاروں کے خون سے کھیل کر کس حق انسانیت کے علمبردار بنتے پھررہے ہو۔
انسان تو تم سے متنفر ہیں وہ تم سے نفرت کرتے ہیں ۔کیا صرف زمینی رقبہ
بڑھانے ،ذخائر میں اضافہ کرنے کے لیے یہ سب کچھ کررہے ہوتو تم سے بڑا احمق
بھلاکون ہوسکتاہے ۔ان ذخائر ،ان اثاثوں کو کون استعمال کرے گاجب انسان ہی
انسان کے مقابلہ میں کٹ کٹ کے مرجائے گا۔
آؤ!میں آج تمام دنیا کو یہ بتاناچاہتاہوں جہاں جہاں تک دین کے اس ادنیٰ
داعی کی دعوت پہنچ سکے ،کہ اگر کسی کو دیرپاکامیابی چاہیے تو وہ میرے پیارے
نبی ؐ کی سیرت کا مطالعہ کرے اور اسے اپنی زندگی میں نافذ کرلے ۔
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کو دیکھا ہے کہ حجام آپ کی حجامت بنا رہا تھا اور آپ کے اصحاب آپ کے
اردگرد موجود تھے۔ وہ چاہتے یہ تھے کہ ایک بھی بال گرے تو کسی نہ کسی کے
ہاتھ میں جائے(مسلم ، المستند صفحہ٩)۔
عشاق جان لٹانے سے دریغ نہ کرتے ،دیوانے ،مستانوں نے حاصل زندگی اس ہستی کی
اتباع کو جانا۔
اب یہاں ایک سوال پیداہوتاہے ۔کیا نبی کریم ؐ اپنی افرادی قوت اور روحانی
طاقت کے ذریعے زمین رقبہ زیادہ سے زیادہ فتح نہیں کرسکتے تھے ۔لیکن حضورؐنے
مکاں نہیں مکیں فتح کیے ۔کیونکہ انسان کا انسان سے واسطہ ہے ۔درندوں سے
،نباتات سے ،جمادات سے نہیں ۔
اتنی ٹھاٹھ کے باوجود آپ نے کبھی خدائی دعویٰ نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کو اﷲ
کا بندہ کہلانا پسند فرمایا۔ ایک مرتبہ ایک دیہاتی نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم سے معجزہ طلب کیا۔ آپ نے اسے فرمایا کہ اس درخت سے کہو تمہیں
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بلا رہے ہیں۔ وہ درخت دائیں بائیں جھکا اور
آگے پیچھے جھکا حتیٰ کہ اسکی جڑیں ٹوٹ گئیں۔ پھر زمین کو چیرتا ہوا ، اپنی
جڑیں گھسیٹتا ہوا ، گرد اڑاتا ہوا آگیا حتیٰ کہ رسول اﷲ ا کے سامنے آکر
کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا السلام علیک یا رسول اﷲ۔ دیہاتی نے کہا اسے حکم
دیں کہ اپنی جگہ پر واپس چلا جائے۔ وہ واپس چلا گیا ، اپنی جڑیں گاڑ دیں
اور سیدھا ہو گیا۔ دیہاتی نے عرض کیا۔ مجھے اجازت دیجئے میں آپکو سجدہ
کروں۔ فرمایا اگر میں کسی انسان کو سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو بیوی کو حکم
دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ اس نے کہا چلیے مجھے اپنے ہاتھ اور پاؤں
چومنے کی اجازت دیجئے۔ آپ ا نے اجازت دے دیـ (الشفاء ، المستند
صفحہ٤٠۔٤١)۔یہ ہے ان کی عاجزی ، بندگی اور حقیقت پسندی۔
محترم قارئین !یہ تہیہ کرلیں کے دلوں کو فتح کریں گئے ۔جب دلوں پر ہماری
گرفت ہوگی تو ہم سے مانوس انسان ہماری بات کو ترجیح دینگے ۔اپنے کردار
گفتار میں اس قدر اجلے ہوجاؤکے کوئی ایک لمحہ کے لیے یہ گمان بھی نہ کرے کے
فلاں ایساقبیح کام کرسکتاہے ۔ یہ سب ہمیں محسنِ انسانیت ؐ کی سیرت سے
ملا۔یہ سب جاننے کے باوجود خاموش !!!!نہیں نہیں ابھی ابھی صدقِ دل سے نیت
کرلیجیے کہ ہم اپنی ذات سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گئے ۔چہ جائے
کہ وہ کافر ہیں کیوں نہ ہو۔بلکہ ہم کردار کہ کوہ ہمالیہ بن جائیں کہ اپنے
تو اپنے پرائے بھی کردار کی بلندی پر اش اش کراُٹھیں ۔ |
|