تحریر : محمد زاہد اللہ
ہماری اس گفتگو کا تعلق موبائل کے جواز و عدم جواز سے نہیں ، بلکہ ہماری
گفتگو کا تعلق اس سے ہے کہ طالب علم کی طالب علمی کے لیے موبائل کا استعمال
کیسا ہے؟
میرے ہمسفر ساتھیو! اس سے کسی کو انکار نہیں کہ موبائل اس زمانے کی ایک اہم
اور مفید ایجاد ہے، لیکن طالب علم کے لیے اس کا استعمال کیسا ہے؟۔ اس سوال
کا جواب دینے سے پہلے ہمیں اس بات کا تھوڑا سا جائزہ لینا چاہیے کہ اس سفر
میں ہمارا زادِ راہ، اور ا س تجارت میں ہمارا سرمایہ کیا ہے۔ اور ہمارے
بزرگ اس سرمائے کی کیسی حفاظت کرتے تھے اور کیا خیال رکھتے تھے۔ سو جاننا
چاہیے کہ ہماری کل جمع پونجی تین چیزیں ہیں۔ تقویٰ، یکسوئی، اور وقت۔
تقویٰ کی ضرورت اور اہمیت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ہم نے مدارس میں آکر
بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ہمارا دنیوی مستقبل بظاہر تاریک ہے۔ ہم جو محنت مدارس
میں آکر کرتے ہیں صبح تا دوپہر، ظہر تا عصر، مغرب تا نصف اللیل پڑھنا، اور
گھر بار چھوڑ کر پڑھنا اگر اتنی یا اس کی نصف محنت ہم کالجوں اور
یونیورسٹیوں کی پڑھائی میں کرتے تو لاکھوں کی تنخواہیں، بڑے بڑے عہدے،
گاڑیاں اور کوٹھیاں وغیرہ کوئی بھی چیز مشکل نہیں تھی، لیکن ہم نے ان سب کو
لات ماردی۔ آٹھ، دس سال پڑھ کر ہمیں جو سند ملے گی اس کی دنیوی مارکیٹوں
میں کوئی ’’ویلیو‘‘ نہیں ہوگی۔ پھر ہم نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟ تاکہ ہم آخرت
کی بہترین کمائی کرسکیں۔ دنیا تو گئی ہے، ہمارے ہاتھ سے، اگر آخرت بھی گئی
تو خسرانِ مبین میں کیا شک ہے۔ ’’خسرالدنیا‘‘ تو ہم پہلے ہی سے ہیں اگر ’’والآخرۃ‘‘
بھی ہوگئے تو پھر ’’ذلک ہوالخسران المبین‘‘ ہی ہوجائے گا اور کیا ہوگا؟ اس
لیے میرے بھائیو! تقویٰ ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ بہت ہی اہم۔ اس سے علم وہبی
اور علم لدنّی حاصل ہوتا ہے جو کبھی نری محنت اور مطالعے سے حاصل نہیں
ہوسکتا۔ اس سے بیٹھے بیٹھے ایسے ایسے نکتے اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں ڈال
دیتے ہیں جو راتوں کے مطالعے سے اور کتابوں کے کھنکالنے سے ہاتھ نہیں آتے۔
ہاں ہاں! ہمارے بزرگوں کی زندگیوں میں یہ چیز بڑی واضح نظر آتی ہے۔ اللہ
تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرمائے۔﴿آمین﴾
یکسوئی ہماری بڑی قیمتی متاع ہے۔ غیرضروری تعلقات کو ختم کرکے تن، من، دھن
کے ساتھ پڑھائی کی طرف متوجہ ہوجانا، علم کے لیے بہت ضروری اور ہمارے اکابر
کا شیوہ ہے۔ امام ابویوسف(رح) فرماتے ہیں ’’العلم لایعطیک بعضہ حتیٰ تعطیہ
کلک‘‘ کہ علم اس وقت تک آپ کو اپنا کچھ حصہ بھی نہیں دے گا جب تک کہ آپ
اپنے آپ کو مکمل طور پر اس کے سپرد نہ کریں۔ سوچئے تو سہی یہ وہ شخص کہہ
رہا ہے جو اپنے استاد کے ساتھ ان کی حیات تک سائے کی طرح رہا۔ جس نے تقریباً
انتیس سال تک فجر کی نماز اپنے استاد کی مسجد میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھی۔
یعنی سپیدۂ سحر طلوع ہونے سے پہلے یا طلوع ہوتے ہی یہ اپنا کشکول لے کر
آستانہ نعمانی پر حاضر ہوجاتے اور چشمۂ صافی سے سیرابی حاصل کرتے تھے۔
ایسے حاضر باش جس نے اپنے جگر گوشے کی تجہیز و تکفین تک کو چھوڑ دیا۔ یہ
ایسے شخص کا قول ہے جو نعمان جیسے استاذ الفقہائ سے پڑھتا رہا۔ ہم چاہتے
ہیں آٹھ سال میں صرف، نحو، معانی، بیان، بدیع، فقہ، اصول فقہ، تفسیر، اصول
تفسیر، حدیث، اصول حدیث، منطق، فلسفہ، فلکیات اور میراث سب کچھ پڑھ لیں اور
پڑھیں بھی اس طرح کہ تعلقات کی وسعت پر کوئی زد نہ پڑے بلکہ تعلقات وسیع سے
وسیع تر ہوتے جائیں اور پھر چاہتے ہیں کہ علم بھی آئے۔
ایں خیال است و محال است و جنون
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب (رح) لکھتے ہیں ’’ایک دفعہ میرا
نیا جوتا اٹھ گیا تھا، تو جہاں تک یاد ہے چھ ماہ تک دوسرا جوتا خریدنے کی
نوبت نہیں آئی تھی۔ اس لیے کہ جمعہ بھی مدرسہ قدیم میں ہوتا تھا، اور
دارالطلبہ بھی اس وقت تک نہیں بنا تھا، اور بیت الخلائ میں بوسیدہ جوتے پڑے
رہا کرتے تھے۔ اس لئے مجھے چھ ماہ تک باہر نکلنے کی نوبت ہی نہیں آئی‘‘۔
اسی سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ان حضرات نے اپنی ضروریات، تعلقات وغیرہ کو
کس حد تک کم بلکہ تقریباً ختم کردیا تھا۔ اسے کہتے ہیں علم کو اوڑھنا،
بچھونا بنانا۔ سیر و تفریح تو کیا وہاں تو ضروریات تک کے ساتھ یہ معاملہ
تھا۔ اس پر مزید تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے
اکابر علم کے لئے یکسوئی کو کیا قیمت دیتے تھے اور اسے حاصل کرنے کے لئے
کیا کیا قربانیاں دیتے تھے۔
خدا یاد آئے جن کو دیکھ کر وہ نور کے پتلے
نبوت کے یہ وارث ہیں یہی ہیں ظل رحمانی
یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر
انہیں کے اتقائ پر ناز کرتی ہے مسلمانی
انہیں کی شان کو زیبا نبوت کی وراثت ہے
انہیں کا کام ہے دینی مراسم کی نگہبانی
رہیں دنیا میں اور دنیا سے بالکل بے تعلق ہوں
پھریں دریا میں اور ہرگز نہ کپڑوں کو لگے پانی
قاری صدیق احمد باندوی(رح) صاحب’’آداب المتعلمین‘‘ میں لکھتے ہیں ’’امام
ثعلب(رح) فرماتے ہیں کہ پچاس برس سے برابر میں ابراہیم حربی(رح) کو اپنی
مجلس میں حاضر پاتا ہوں کبھی انہوں نے ناغہ نہیں کیا‘‘۔ جی ہاں یہ ہے عملی
تفسیر ’’طلب العلم من المہد الی اللحد‘‘ کی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کا
کچھ حصہ نصیب فرمائے ﴿آمین﴾
نیز وہ مذکورہ کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’’شیخ شرف الدین یحییٰ منیری(رح) کے
حالات میں صاحب دعوت و عزیمت لکھتے ہیں کہ اپنے وطن سے سفر کرکے پڑھنے کے
لیے گئے تو زمانۂ طالب علمی میں جو خطوط پہنچتے تھے ان کوآپ کسی خریطہ میں
ڈالتے جاتے تھے اور اس خیال سے نہ پڑھتے تھے کہ طبیعت میں انتشار اور تشویش
پیدا ہوگی۔
ہماری تاریخ اس نوع کے قصوں سے بھری پڑی ہے۔ میں مضمون کو طوالت نہیں دینا
چاہتا اس لئے اسی پر اکتفائ کرتا ہوں۔ مقصد ان قصوں سے یہ تھا کہ ہمارے
بزرگوں کے ہاں یکسوئی کی بہت بڑی قیمت تھی۔ اور وہ اس کے لیے بڑے بڑے
مجاہدے کیا کرتے تھے۔
تیسری چیز ہمارے سرمائے میں سے ’’وقت‘‘ ہے۔ اور وقت کے بارے میں کہا جاتا
ہے ’’الوقت ہو الحیاۃ‘‘ یعنی وقت ہی تو زندگی ہے۔ ہمارے اکابر کے ہاں وقت
کی بہت بڑی قیمت تھی اور وہ اپنی زندگی کے سیکنڈوں اور منٹوں کو تول، تول
کر خرچ کیا کرے تھے۔ اس باب میں بھی ان کے سینکڑوں واقعات ہیں۔ اور اس پر
کئی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ ہمارے اکابر وقت کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ کوشش
کرتے تھے کہ کوئی وقت فارغ نہ گزر جائے۔ حافظ ابن حجر (رح) کے بارے میں آتا
ہے کہ جب وہ قلم کا قط بناتے تھے تو اسی اثنائ میں ذکر کرتے تھے تاکہ یہ
وقت ضائع نہ ہو۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب(رح) بیت الخلائ میں قضائے حاجت
کے وقت بیت الخلائ کے لوٹے کو صاف کیا کرتے تھے کہ اتنی دیر ان سے فارغ
بیٹھا نہیں رہا جاتا تھا۔ یہ اور اس طرح کے اور بھی سینکڑوں واقعات ہیں جو
وقت کی اہمیت پر دلالت کرتے ہیں۔
اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف کہ طالب علم کے لئے موبائل کا استعمال کیسا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ موبائل بذات خود اس زمانے کی ایک مفید ایجاد ہے اگر
اس کا جائز، صحیح اور مناسب استعمال کیا جائے تو یہ انسان کے بہت سے کاموں
میںبہترین معاون و مددگار ہے۔ اس میں گھڑی ہے۔ اس میں الارم ہے۔ اس میں
ریمائنڈر ہے۔ اس میں تقویم ہے، اس میں کیلکولیٹر ہے ، اس میں روشنی﴿لائٹ﴾
ہے۔ یہ بلاشبہ اس کے مفید پہلو ہیں لیکن اس کے غلط اور نامناسب استعمال کے
عام ہونے کی وجہ سے یہ مساجد کے سکون کا غارت گر، نمازوں کے خشوع کا قاتل
بن گیا ہے۔ خاص طور پر ہم طلبہ کے حق میں یہ ہمارے سرمائے کا لٹیرا، یکسوئی
کا قاتل، وقت کا چورو ڈاکو اور بعض دفعہ تقویٰ کا دشمن بن گیا ہے۔ کہاں وہ
زمانہ کہ خطوط گھڑے میں ڈالے جارہے ہیں تاکہ یکسوئی میں خلل نہ آئے اور
کہاں آج کا زمانہ کہ ’’سب کہہ دو‘‘ اور ’’تم ہی تو ہو‘‘.؟ کالوں پہ کالیں
آرہی ہیں اور ایس ایم ایس پر ایس ایم ایس چل رہے ہیں۔ ہر طرف سے خبریں آرہی
ہیں۔ دوستیوں اور تعلقات کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ظاہر ہے یہ سب ہمارے علم کے
مزاج کے خلاف ہے۔
میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ جواز و عدم جواز کی بات ہی نہیں ہورہی ہے۔
کیونکہ وہ واضح ہے کہ جائز استعمال جائز، اور ناجائز استعمال ناجائز ہے۔
اگر ہر جائز کو ہم محض جواز کی وجہ سے استعمال کریں گے تو پھر اتنی
قربانیاں کیوں؟ دنیوی قربانیاں بھی، جس کا ذکر ہوچکا ہے اور دینی قربانیاں
بھی. جی ہاں ہم نے مدرسہ آکر بہت سی دینی قربانیاں بھی دی ہیں۔ کیا والدین
کو محبت بھر ی نگاہ سے دیکھنے سے مقبول حج کا ثواب نہیں ملتا؟ رشتہ داروں
کے ساتھ صلہ رحمی، بیمار پرسی، جنازوں میں شرکت وغیرہ وغیرہ کیا یہ سب ثواب
کے کام نہیں ہیں؟ اور کیا ہم نے مدرسہ آکر ان تمام کاموں کی قربانی نہیں دی؟
جب اتنا کچھ ہم نے کیا، تو ہم اپنے سرمایہ﴿تقویٰ،یکسوئی اور وقت﴾ کو لٹتے
ہوئے کیسے برداشت کریں؟؟ اس لئے میرے بھائیو!
موبائل کا عام لوگوں کی طرح استعمال ہمارے لیے کسی بھی طرح مناسب نہیں۔
اگرموبائل پر مدرسے کی طرف سے پابندی ہے پھر تو اس پابندی پر عمل کرنا
چاہیے اور اگر پابندی نہیں ہے تو پھر بھی ’’موبائل برائے رابطہ‘‘ کا
استعمال بالکلیہ ترک کردیا جائے۔ یہ ’’موبائل برائے رابطہ‘‘ کی اصطلاح کا
مطلب یہ ہے کہ موبائل کئی کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گھڑی، الارم،
کیلکولیٹر، لائٹ، رابطے، ریمائنڈر وغیرہ وغیرہ اس میں اگر اصل مقصود کال
اور ایس ایم ایس ہیں جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے اور باقی فوائد تابع ہیں
تو اسے کہتے ہیں ’’موبائل برائے رابطہ‘‘ اور اس کے ترک کا مطلب اور طریقہ
یہ ہے کہ موبائل کے لئے نیا نمبر لے لو جو صرف آپ کے گھر والوں کو معلوم ہو
اور بس اور انہیں تاکید کرو کہ یہ نمبر کسی اور کو نہ دیں اور یہ کہ
بلاضرورت مجھے کوئی کال یا ایس ایم ایس نہ کریں۔ ہفتہ دو ہفتوں میں چھٹی کے
دن ایک آدھ رابطہ کافی ہے۔ باقی موبائل کے مفید پہلوئوں کو علم کا خادم بنا
کر استعمال کریں مثلاً بروقت اٹھنے کے لیے الارم، بوقت ضرورت مطالعے کے لئے
لائٹ، حساب کے لئے کیلکولیٹر، اور دیگر مفید پہلو۔ اگر ان پہلوئوں کا صحیح
اور مناسب استعمال کیا جائے تو موبائل کے ایسے استعمال میں نہ صرف یہ کہ
کوئی حرج نہیں بلکہ نظام الاوقات اور علمی اشتغال میں ممد و معاون ہونے کی
وجہ سے مستحسن ہے۔ ہاں رنگین موبائل سے بہر صورت بچیں، اور موبائل گیم سے
بھی اپنے آپ کو بچائے رکھیں۔ اللہ تعالیٰ عمل کرسنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
﴿آمین﴾ |