انسان کے پورے جسم کے بارے میں
سوچا جائے تو عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں کہ ہر عضو صحیح طریقے سے ،ہر وقت کام
کرتا ہے، اور ذرہ برابر بھی اس میں کوتاہی نہیں کرتا، چاہے وہ آنکھ ہو یا
کان ، ناک ہو یا زبان ۔یہ کیوں اپنے کاموں میں کوتاہی نہیں کرتے،اس کی وجہ
صاف ہے کہ اس کی تخلیق اﷲ عزوجل نے کی ہے اور اﷲ عزوجل کی تخلیق کردہ
اشیاءمیں کوئی اونچ نیچ نہیں ہوتی،سارے وقت پر صحیح کام کرتے ہیں۔زبان ہی
کی مثال لیجئے ،یہ ایک گوشت کا ٹکڑا ہے لیکن اس کے اندر ایسی حیرت انگیز
اور فکر انگیز صلاحیتیں پائی جاتی ہے کہ انسانی عقل آج تک اس بات پر حیران
ہے، کہ زبان کے اوپر صرف ایک شے رکھنے کی دیر ہوتی ہے باقی وہ اپنا کام خود
کرتا ہے ،فورا پتہ دیتا ہے کہ اس کے اوپر رکھے جانے والی شے کیسی ہے یعنی
اس کا ذائقہ بتا دیتا ہے کہ کڑوا ہے ، میٹھاہے یا ترش۔حالانکہ یہ ایک گوشت
کا ٹکڑا ہے لیکن ذائقہ پہنچاننے کی صلاحیت بھر پور رکھتا ہے۔صرف یہ ہی نہیں
کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی شے کے ذائقے کی نشاندہی کریگا بلکہ بیک وقت جتنی
چیزیں بھی زبان پر ہوگی ان سب کا ذائقہ بھی الگ الگ ہو تب بھی الگ الگ
ذائقے کی تمیز کریگا اور و ہ بھی ایک ہی وقت میں۔آخر اس میں ایسا کیا ہے کہ
جو ان تمام اشیاءکی بیک وقت امتیاز کرتا ہے؟اصل معاملہ تو اﷲ عزوجل ہی کو
معلوم ہے اور ظاہری طور پر جو چیز ہمارے سامنے ہے اور جس سے ہم اندازہ لگا
سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ زبان کے اوپری حصے پر ایک جالی دار تہہ چھڑی ہوتی ہے
جس کے اندر چھوٹے چھوٹے لاتعداد سوراخ ہوتے ہیں،یہی سوراخ لعاب بناتے ہیں
اور جب کوئی شے ان سوراخون پر آجاتی ہے تو لعاب فورا اس پرچپک جاتا ہے اور
زبان نشاندہی کردیتا ہے کہ یہ چیز میٹھی ہے یا کڑوی۔اور وہ لعاب منہ کے
اندر پھیل جاتا ہے جس سے پورا منہ میٹھا یا کڑوا ہوجاتا ہے۔
زبان محض چکھنے کا کام ہی نہیں کرتا بلکہ بولنے میں بھی اس کا کمال ہے بغیر
زبان کے انسان صحیح طرح سے بولنے کے قابل نہیں رہتا۔یعنی زبان ذائقہ ، بول
چال اور لعاب بنانے میں مدد دیتا ہے،یہی نہیں اﷲ عزوجل نے لعاب کے اندر ایک
قسم کا انٹیبائیٹک ایسیڈ بھی رکھا ہے جو منہ کے اندر ہر قسم کے زخم میں
کافی حد تک کار آمد ہوتا ہے۔جب منہ کے اندر زخم ہوجاتا ہے تو بسا اوقات ہم
اس کے لیے کوئی دوا وغیرہ استعمال نہیں کرتے مگر وہ زخم کچھ عرصے بعد خود
بخود ٹھیک ہوجاتا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ لعاب کے اندر زخم ٹھیک کرنے
کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے۔
اﷲ عزوجل نے منہ کے اندر زبان کو دانتوں کے درمیان اس لحاظ سے رکھا ہے کہ
باتوں کے دوران ،سونے کے دوران اور کھانے کے دوران زبان دانتوں کے نیچے
نہیں آتی۔یہ بھی ایک فکر انگیز نعمت اس میں موجود ہے کہ گفتگو کے دوران
زبان دانتوں کے مختلف جگہوں سے ٹھکراتی ہے اور پل بھر میں ایک جگہ سے دوسری
جگہ منتقل ہوتی ہے اور اس کے منتقل ہونے میں ایک راز ہے اور وہ یہ ہے کہ
زبان کی اس منتقلی کی وجہ سے ہی ہم منہ سے مختلف قسم کے الفاظ نکالنے کے
قابل ہوتے ہیں۔یعنی وہ الفاظ جس کا تعلق زبان سے ہوتا ہے جس کو عربی میں
لسانی حروف کہتے ہیں۔کیونکہ زبان ہلائے بغیر بات کرنا صحیح طریقے سے ممکن
نہیں ،بول چال کی خوبصورتی بھی زبان کے استعمال کرنے کی وجہ سے آئیگی اور
زبان کا مختلف جگہوں سے ٹھکرانا یہ ہمارے ان الفاظ کے ادا کرنے کا باعث ہے
جن کا تعلق زبان سے ہوتا ہے۔یہاں پر ایک سوال ذہن میں آرہا ہوگا کہ کھانے
کے دوران تو زبان کبھی کبھار دانتوں کے درمیان آجاتی ہے۔اورزخمی بھی ہوجاتی
ہے۔تو آسان جواب یہ ہے کہ یہ ہماری بے احتیاطی کا نتیجہ ہے۔کیونکہ اگر
احتیاط سے کھانا کھایا جائے تو کبھی بھی زبان دانتوں کے درمیان نہیں آئیگی،
اورجب کوئی اپنی زبان دانتوں سے کاٹ لے تو اس کے بعد وہ خود کہتا ہے کہ بے
دھیانی یا بے احتیاطی کی وجہ سے زبان دانتوں کے نیچے آگئی۔
زبان کے اندر موجود صلاحیت جن چیزوں سے متاثر ہوتی ہے ان میں گرم کھانا،
سخت ٹھنڈا پانی پینا ، زبان پے برف رکھنا ،زیادہ مرچوں والا سالن مسلسل
استعمال کرنا اس سے معدہ بھی خراب ہوگا اور آخر میں جو چیز زبان کے لئے حد
درجہ خطرناک ہے اس میں چالیہ اور گٹکہ قابل ذکر ہیں یہ چیزیں واقعی بہت جلد
زبان پر اثر انداز ہوتی ہے اور آخر کار منہ کے کینسر کا سبب بن جاتی ہے۔
زبان کی صلاحیت بھی اﷲ عزوجل کی ان نعمتوں میں سے ہے جن کانعم البدل پھر
میسر نہیں ہوتا، لہذا اگر ایک بار ضائع ہوجائے تو واپسی ظاہرا ناممکن ہے۔یہ
قدرت کا عجیب نمونہ ہے۔لہذا اس کی مکلمل حفاظت کرنی چاہیے۔اﷲ عزوجل نے جتنی
بھی نعمتیں دی ہیں ان سب کا خیال رکھنا فرض ہے اور اگر خدانخواستہ کچھ
نقصان ہوجائے تو فورا کسی اچھے ڈاکٹر سے رجوع کرو تاکہ اس کا بروقت علاج
ممکن ہوسکے،تاکہ کسی نعمت کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ |