کسی چیز کے متعلق فقط جان لینا یہ کوئی
مشکل کام نہیں لیکن تحقیق کے مناہج سے گزر کر ،کھوچ و تلاش و بسیار کے بعد
نتائج کا حصول یقینا ایک لائق تحسین امر ہے ۔جیسا کہ میں اپنے گزشتہ کالم
میں بھی آپ کے ذوق ِ مطالعہ کی نظر کر چکاہوں کے مسلمانوں نے صرف مسجد و
منبر تک ہی کام نہیں کیا بلکہ دیگر میدانوں کے ساتھ ساتھ سائنس کے میدان
میں بھی اپنا لوہا منوایا۔آج جہاں دیگر شعبہ جات ہیں وہاں ایک شعبہ علم
النباتات بھی یونیورسٹیز میں قائم ہے جس میں طلباءوطالبات ایم ایس سی کررہے
ہیں ۔مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ اس شعبہ میں بھی اپنوں نے
کارہائے نمایاں سرانجام دیے ۔ملاحظہ ہوں ۔
علمُ النباتاتاکے موضوع پر الدینوری (895ء) کی چھ جلدوں پر مشتمل ’کتابُ
النبات‘ سائنسی دُنیا میں سب سے پہلا ضخیم اور جامع Encyclopaedia Botanica
ہے۔ یہ مجموعہ اُس وقت تحریر کیا گیا جب یونانی کتب کا عربی ترجمہ بھی شروع
نہیں ہوا تھا۔
ایک مغربی سائنسی مورخ Strassburg لکھتا ہے :
"Anyhow it is astonishing enough that the entire botanical literature of
antiquity furnishes us only two parallels to our book (of Dinawari). How
was it that the Muslim people could, during so early a period of its
literacy life, attain the level of the people of such a genius as the
Hellenic one, and even surpassed it in this respect."
(Zeitschrift fuer Assyriologie, Strassburg, vols. 25,44)
ترجمہ ’’الغرض یہ ایک اِنتہائی حیران کن بات ہے کہ زمانۂ قدیم میں لکھا
جانے والا علمِ نباتات کا مواد ہمیں الدنیوری کی کتاب جیسی صرف دو مثالیں
پیش کرتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اپنی تعلیمی زندگی کے اُس اِبتدائی دَور
میں مسلمانوں نے قدیم یونان جیسے دانشور و محقق لوگوں کا درجہ حاصل کرلیا
تھا بلکہ وہ اِس معاملے میں تو اُن سے بھی آگے نکل گئے تھے‘‘۔
پروفیسر آرنلڈ کے مطابق دُنیا بھر سے مسلمانوں کے مکہ و مدینہ کی طرف حج
اور زیارت کے لئے سفر کرنے کے عمل نے biological science کو خاصی ترقی دی
ہے۔ الغفیقی اور الادریسی نے اندلس (Spain) سے افریقہ تک سفر کر کے سینکڑوں
پودوں کی نسبت معلومات جمع کیں اور کتابیں مرتب کیں۔
ابنُ العوام نے 585 پودوں کے خواص و اَحوال پر مشتمل کتاب مرتب کی اور علمُ
النباتات (botany) کو ترقی کی راہوں پر گامزن کیا۔
پروفیسر Hitti بیان کرتا ہے :
"In the field of natural history especially botany, pure and applied, as
in that of astronomy and mathematics, the western Muslims (of Spain)
enriched the world by their researches. They made accurate observations
on the sexual difference (of various plants)."
(Ameer Ali, The Spirit of Islam. pp. 385-387)
ترجمہ : ’’قدرتی تاریخ کے میدان میں خاص طور پر خالص یا اطلاقی علم نباتات
میں فلکیات اور ریاضیات کی طرح اندلس کے مغربی مسلمانوں نے اپنی تحقیقات کے
ذریعہ سے دُنیا کو مستفید کیا۔ اِسی طرح مختلف پودوں میں پائے جانے والے
جنسی اِختلاف کے بارے میں اُن (ابو عبداللہ التمیمی اور ابو القاسم
العراقی) کی تحقیقات بھی علمُ النباتات کی تاریخ کا نادِر سرمایہ ہیں‘‘۔
اِسلامی سپین کے فرمانروا عبدالرحمن اوّل نے قرطبہ (Cordoba) میں ایک زرعی
تحقیقاتی اِدارے ’’حدیقہ نباتاتِ طبیہ‘‘ کی بنیاد رکھی، جس سے نہ صرف علمِ
نباتات (botany) کو مستحکم بنیادوں پر اُستوار کرنے کے مواقع میسر آئے بلکہ
علمُ الطب (medical sciences) میں بھی تحقیق کے دَر وَا ہوئے۔ چنانچہ اندلس
کے ماہرینِ نباتات نے پودوں میں جنسی اِختلاف کی موجودگی کو بجا طور پر
دریافت کرلیا تھا۔ اِس دریافت میں جہاں اُنہیں ’’حدیقہ نباتاتِ طبیہ‘‘ میں
کی گئی تجربی تحقیقات نے مدد دی وہاں اللہ ربّ العزت کے فرمان ’’خَلَقَ اﷲُ
کُلَّ شَیْئٍ زَوْجًا‘‘ (اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو جوڑا جوڑا بنایا) نے بھی
بنیادی رہنمائی عطا کی۔
عبداللہ بن عبدالعزیز البکری نے ’کتاب اَعیان النبات و الشجریات الاندلسیہ‘
کے نام سے اندلس کے درختوں اور پودوں کے خواص مرتب کئے۔ اشبیلیہ کے
ماہرِنباتات (botanist) ابنُ الرومیہ نے اندلس کے علاوہ افریقہ اور ایشیا
کے بیشتر ممالک کی سیاحت کی اور اُس دوران ملنے والے پودوں اور جڑی بوٹیوں
پرخالص نباتی نقطۂ نظر سے تحقیقات کیں۔ اِس کے علاوہ ابنُ البیطار، شریف
اِدریسی اور ابنِ بکلارش بھی اندلس کے معروف ماہرینِ نباتا ت میں سے ہیں۔
محترم قارئین :آپ کا ساتھ رہا تو میں آپ تک امانتادیانتااپنوں کے کارنامے
پہنچاتارہوں گا۔مجھے تعصب پسند مسلمان نہ سمجھیے گا۔کہیں یہ وہم آپ کے
دماغ میں جنم لےلے کہ جب بھی بات کرتاہے مسلمان ،قران ،اسلام ۔بس یہی رٹ
لگائی ہوئی ہے ۔آپ میرے مقابلہ میں کسی غیر مذہب سے ملیں گئے تو وہ بھی
اپنے مذہب کی بات کرے گا۔اپنوں کے کارنون کے گن گائے گا۔یہ اس کا حق ہے
۔اسلام کا سرفخر سے بلند کرنا یہ میرا حق ہے مجھے میراکام کرنے دیجیے
گا۔جہاں مجھے خطاپر پائیں ضرور اصلاح کیجیے گا۔ |