حب شہر سماجی و سیاسی سرگرمیوں
کے حوالے سے لسبیلہ کا اہم مرکزہے جہاں پرمختلف اوقات پر مختلف سرگرمیاں
دیکھنے کو ملتی ہے ، مگر ان سرگرمیوں میں جو لسبیلہ کے حقیقی مسائل ہیں ان
کے پائیدار حل یاان پر سحر حاصل بحث و مباحثے کے لیے بہت کم پروگرام ترتیب
دیے جاتے ہیں ، لسبیلہ میں سول سوسائٹی بیلہ سے لے کر حب تک بہت سرگرم ہے ،
سول سوسائٹی کی تنظیموں کی طرف سے لسبیلہ کے سماجی،سیاسی اور معاشی مسائل
پرموبلائزیشن اور ایڈوکیسی کے حوالے اکثر اوقات مختلف پروگرام دیکھنے کو
ملتے ہے۔
لسبیلہ بھر میں قدر تی وسائل کے ضیائع ،ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل روز بہ
روز زیادہ ہوتے جارہے ہیں، ان مسائل میں فضائی و صنعتی آلودگی،گھروں سے
پھینکا جانے والا کچرا ،ہوا میں اڑنے والی تھیلیاں، فضا میں پھیلنے والا
دھواں ،فیکٹروں سے نکلنے والا صنعتی فضلہ،درختوں کی کٹائی ،سمندی آلودگی
جیسے پیچیدہ مسائل شامل ہیں اور یہی مسائل مستقبل میں لسبیلہ کی کمیونٹی کے
لیے بہت غمگیر صورتحال اختیار کرلینگے جن کی وجہ انسانی رندگیوں کو شدید
خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے ۔ماحولیاتی مسائل پر موضوع بحث بناتے ہوئے
گزشتہ دنوں پانچ جون کو ماحولیات کے عالمی دن کے حوالے سے حب کی مقامی
سماجی تنظیم سوسائٹی ایکشن فار انوائرمنٹ SAFE کے زیراہتمام ایک سیمینارکا
انعقاد کیاگیا جس میں لسبیلہ کی سماجی و سیاسی رہنماؤں سمیت خواتین و حضرات
کی بڑی تعداد نے شرکت کی ،اس موقع پر سیمینار کے آرگنائز رغلام رسول رونجھو
نے ماحولیات کے عالمی دن کے حوالے سے دنیا بھر میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے
اٹھائے جانے والے اقدامات اور علاقائی سطح پر ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے
بریفنگ دی اور سیمینار کے مقاصد سے اگاہ کیا۔
اس موقع پر تقریب سے سماجی تنظیم شیڈو کے گلزار گچکی ،شہری ایکشن کمیٹی کے
امان اﷲ لاسی ، کمک ویلفئیر ایسوی ایشن حب کے ہمزہ مری ،سماجی رہنما غلام
رسول لاسی، مہیڑھ ڈویلپمنٹ سوساہٹی حب کے زاہد موندرہ، سماجی تنظیم سیف کے
صدر غلام رسول رونجھو لسبیلہ سول سوسائٹی نیٹ ورک کے کوآرڈنیٹر عظیم رونجھو
،اسماعیلانی ویلفئیر ایسوایشن کے اسلم عدیل ،وومین ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی
نسیمہ رند اور سماجی تنظیم وانگ لسبیلہ کے عبدالقدیر رونجھو نے خطاب کیا،ان
تمام مقررین نے علاقائی سطح پر موجود ماحولیاتی مسائل پر تفصیلی روشنی ڈالی
بلکہ لسبیلہ بھر میں قدرتی وسائل کے بے دریخ استعمال و ضیائع پر کھل کر
اظہار کیا،گو کہ مدعو کرنے کے باوجود حسب روایت محکمہ جنگلات ،اور
ماحولیاتی تحفظ کے صوبائی اداروں کے کسی اہلکاروں نے شرکت نہیں کی مگر
سماجی ترقی کے عمل میں شریک رہنماوں کی ماحولیات کے مسلہ پر کسی فورم کا
انعقاد کرنا مستقبل کے لیے ایک نیک شگون ہے اور ماحولیاتی بگاڑ پیداکرنے
والوں کے لیے ضرور ایک تنبہ ہے کہ لسبیلہ کے سماجی سوچ رکھنے والے لوگ
بیدار ہیں،
اس پروگرام سے قبل مجھے گزشتہ ماہ غیر سرکاری تنظیم LEAD پاکستان کے
زیراہتمام کراچی کی ایک مقامی ہوٹل میں ایک تین روز ورکشاپ میںشریک ہونے کا
موقع ملا ،ورکشاپ کا بنیادی مقصد موسمی تغیرات کی وجہ سے پیش آنے والے
مسائل کا جائزہ لیناتھا اور میڈیا کے ذریعے ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے جو
موسمی تبدیلیاں آرہی ہیں ان کو عوام والناس کے سامنے پیش کرنے کے شرکا ءکی
صلاحیتوں میں اضافہ کرنا تھا ورکشاپ میں پشاور ،،اندرون سندھ ،کوئٹہ اور
بلوچستان کے دیگر علاقوں سے صحافی حضرات اور قلم کاروں نے شرکت کی ،اس تین
روزہ ورکشاپ میں شرکاءکو محتلف ریسورس پرسنز نے دنیا بھر خاص کر پاکستان
میں ماحولیاتی آلودگی اور موسمی تغیرات کی وجہ پیش آنے والے مسائل کے بارے
میں آگاہ کیا اور اس سے منسلک مسائل کے بارے میں مضمون نگاری کے بارے میں
ٹریننگ فراہم کی گی اس تمام تر سیکھنے کے عمل میں جناب جاوید جبار ،جناب
طاہر قریسی ،جناب پرویز جناب مری ،مس افیا اور محترم جناب رضوان کے سیشن
قابل لرننگ رہے ،ان پروگرامز میں شرکت اور اپنے خیالات کے اظہار کے بعد
مجھے لسبیلہ میں ماحولیات جیسے مسائل کو بہت گہرائی سے سمجھنے کا موقع ملا
کہ لسبیلہ بلوچستان ان اضلا ع میں سرفہرست ہے جہاں ماحولیاتی آلودگی کے
شدید مسائل ہیں حب شہر ایک صنعتی شہر ہونے کی وجہ سے شد ید صنعتی آلودگی کا
موجب بن رہاہے یہاں پر صنعت کار لوگوں کو روز گار دینے کے بجائے لوگوں میں
طرح طرح کی بیماریاں پھیلارہے ہیں ،ہمارے ہاں حب میں آلودہ پانی کے استعمال
،زہریلی گیسوں کے اخراج اور دیگر اقسام کی آلودگیوں کے باعث ہرسال لاکھوں
افراد مختلف بیماریوں کا شکارہوجاتے ہیں یہی وجہ سے بلوچستان بھر میں
ہیپاٹائٹس کے زیادہ مریض حب میں زیادہ ملیں گے گزشتہ سال جام کالونی کے
قریب سات نوزائیدہ بچوں کی اموات بھی ایسی صنعتی آلودگی کا خمیازہ تھا اس
کے طرح حب شہر کے وسط سے گزرنے والے گندے پانی کے نالے میں کیمکل شدہ فضلے
بہانے سے نالے کے گرد آبادی کا جینا بھر دور کردیا ہے ،گڈانی شپ یارڈ میں
جہاز وں سے بہے جانے والے تیل نے سمندری حیات اور ساحل کے قدرتی حسن کے
خاتمے میںکوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ،ڈام میں مچھلیوں کے گنداور وندر کے
سٹرکوں کے کنارے قائم فیکٹریوں سے مقامی آبادی اور مسافروں کو سانس کی
بیماریوں میں مبتلا کرنے میں اہم کردار کیاہے،بیلہ،اوتھل ،وندر اور حب کی
قریبی ندیوں سے بڑے پیمانے سے ریتی بجری اٹھانے کی وجہ سے ان شہری آبادی کا
زیرزمین واٹرٹبیل مذید نیچے جارہاہے ،لاکھڑا کنراج بیلہ اور اوتھل کے
علاقوں سے جنگلات کی کٹائی سے قدرتی وسائل کو بے پنا ہ ضیائع یہ پیغام دے
رہاہے کہ مستقبل میں انسانی زندگی کو اجیران بنایا جارہاہے ،بیلہ اور اوتھل
کے لالچی زمیندار زراعت کے مقاصد کے لیے ہر جگہ بورنگ کرکے زیر زمین پانی
کو ختم کرنے پر طولے ہوئے ہیںاور زرعی ادویات کا پے پنا ہ استعمال کرکے نہ
تو شہدکے مکھیوں کو زندہ چھوڑا ہے اور نہ ہی زمین کو دوبارہ کاشت کے قابل
چھوڑ رہے ہیں،انسان کس طرح کی حرکتیں کرتاہے اس پرہم سب نے اس شحض کی کہانی
تو ضرورپڑھی ہوگی جو درخت کی ایک شاخ پر بیٹھا اسے کاٹ رہاتھا اور یہ سننے
کو تیار نہ تھا کہ اس کا نتیجہ کیاہوگا ،ایک عالمی ادارے کی تازہ رپورٹ یہ
ظاہر کرتی ہے کہ آج کا انسان بھی کہانی کے اس مخص اس کرادار جیسا ہے اور
مطلق پروانہیں ہے کہ اپنے کیے پر مستقبل پر اسے کیا بیتنے والی ہے، جنگلی
جیات کے تحفظ کے ادارے WWFکی حالیہ روپورٹ میں کہاگیا ہے کہ انسان ہر سال
قدرتی وسائل کو کی اتنی مقدر استعمال کررہاہے جیسے دوبارہ پیدا کرنے میں
زمین کو ڈیڑھ سال لگتاہے وسائل کے بے دریخ استعمال سے کراہ ارض کی شکل
تبدیل ہورہی ہے جس کی وجہ سے زمین پر موجود نباتات حیات میں جو تنوع و
رنگینی تھی اب اس میں تیس فی صد کم ہوچکی ہے ، فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا
کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہاہے جس سے موسم تبدیل ہورہے ہیں غیر متوقع
شدید بارشیں ہورہی ہیں گلیشیر پگھل رہے ہیں بھیانک سیلاب آرہے ہیں خشک سالی
پیداہورہی ہے سمندر کی سطح بلند ہورہی اور زراعت تباہی کا شکار ہورہی ہے اس
عوامل کی وجہ سے بڑے پیمانے پر معاشی نقصان ہورہاہے
ہمارے ہاں عوام میں علاقائی اور ملکی سطح پر ماحولیاتی مسائل کے بارے میں
آگاہی نہ ہونے کے برابر ہیں عالمی حدت میں اضافہ یعنی درجہ حرارت کے بڑھنے
سے موسم اور آب و ہوا میں تغیراور تبدیلی رونما ہورہی ہے یہ عمل بہت تیز ہے
اور ہمارے ہاں لوگ براست متاثر ہورہے ہیں اس لیے لازمی ہوگا ہے کہ شعور
اگاہی اور معلومات کو لوگوں تک پھیلانے کا دائرہ ہنگامی طور پر وسیع
کیاجائے کیونکہ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں
اضافے کے نتیجے میں آنے والی موسمیاتی شدتوں کو روکنا تو شائد آئندہ
چندبرسوں میں ممکن نہ ہوسکے تاہم بروقت شعور و اگاہی اور حکمت عملی سے حیات
انسانی پر ان تغیر ات کے مضر اور جان لیوا اثرات کو کو اگر مکمل طور پر ختم
نہیں کیاتو کم کیا جاسکتاہے - |