کچھ کرلیں

ڈاکٹرظہوراحمد دانش
ادارہ :میڈیا ریسرچ انسٹیٹیوٹ
جدید تحقیق

ہم صبح اُٹھتے ہیں تو اک نئی خبر ایک اک نیا واقعہ اک نئی تحقیق اک نئی ٹیکنالوجی کی باتیں سماعتوں سے ٹکراتی ہیں ۔حیران و ششدر رہ کر انگشت بدنداں ہوجاتے ہیں ۔ہیں ؟نہیں یار؟ایساکیسے ہوسکتاہے ؟وغیرہ ہماری گفتگو ہوتی ہے ۔جبکہ ترقی کرنے والے ملک ریسرچ میں مصروفِ عمل ہیں ۔ہم ہیں کہ جب دنیا اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے پھینک دیتی ہے تو ہم درباری دربان کی طرح اسے تبرک سمجھ کر تھام لیتے ہیں۔

دوستو!ہرکوئی اسی دوڑمیں ہے کہ نت نیا کرکے دکھائے ۔لیکن ہم ہیں کہ پرانے پر ہی متفق ہیں ۔غلطی سے لگتاہے کسی نے ہماری قوم کو بتادیا تھا کہ old is goldلیکن افسوس وہ محاورے کو سمجھ نہیں سکے۔خیر انٹرنیٹ اور موبائل فون کی بدولت روابط آسان ہو گئے ہیں، لوگ ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے پوری دنیا سے بات کر سکتے ہیں۔ انفو کم کمیونیکیشن سروس جگہ بیٹھے بیٹھے پوری دنیا سے بات کر سکتے
ہیں۔ انفو کمیونیکیشن سروسز کی دنیا میں ٹیکنولوجی نے انقلاب برپا کر دیا ہے۔

وطن عزیز پاکستان نے بھی ٹیلی کوم کی دنیا میں ترقی کے بیشتر منازل طے کئے ہیں۔ پاکستان کی نوجوان نسل ٹیکنولوجی میں خاصی دلچسپی لیتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ اور موبائل فون صارفین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد ایک کروڑ پچیاسی لاکھ جبکہ موبائل فون صارفین کی تعداد دس کروڑ چالیس لاکھ ہے اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں تقریباً ہر جوان، بوڑھے اور بچے کے پاس موبائل فون موجود ہے۔ ہمارے ملک میں ٹیلی کمیونیکیشن کی طرف کم توجہ دی جاتی تھی تاہم گزشتہ چند سالوں میں انفورمیشن ٹیکنولوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری پر زور دیا گیا ہے جس کے موئثر نتائج حاصل ہوئے ہیں۔

دنیا کی طرح پاکستان میں بھی انفو ٹیلی کمیونیکیشن سروسز کو مزید بہتر کرنے کے لئے نئی ٹیکنولوجی کا استعمال شروع کیا جا رہا ہے، اس نئی ٹیکنولوجی کو تھرڈ جنریشن یعنی تھری جی ٹیکنولوجی کہا جاتا ہے۔ تھری جی ٹیکنولوجی کی بدولت انٹر نیٹ کی رفتار دس گنا زیادہ ہو جاتی ہے، اسکے علاوہ ویڈیو کالنگ موبائل فون پر ٹیلی ویژن نشریات کا مزہ لیا جاسکتا ہے جبکہ گانے، فلموں اور گیمز کو مزید بہتر رفتار سے ڈان لوڈ کیا جاسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ایک سو تیئس ممالک تھری جی سروسز کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

پاکستان کی موبائل مارکیٹ کو دنیا کی بڑی مارکیٹوں میں شمار کیا جاتا ہے، بیشتر بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان کے ٹیلی کوم شعبے میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ اس وقت ملک میں پانچ بڑی موبائل کمپنیاں کام کررہی ہیں جن میں موبی لنک، یو فون، وارد، ٹیلی نار اور زونگ شامل ہیں۔

مالی سال 10-2009 کے دوران ٹیلی کام سیکٹر میں مجموعی طور پر ایک عشاریہ تیرہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی جس میں سے سینتیس کروڑ چالیس لاکھ ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری تھی۔ اس اعدادوشمار سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں تھری جی ٹیکنولوجی کے باعث وسیع سرمایہ کاری کے مواقع فراہم ہوں گے۔ تھری جی نیٹ ورکس، ڈیوائسس اور سروسز کے متعارف ہونے سے نجی اور سرکاری شعبوں کے معیار میں بہتری آ رہی ہے اور وسیع تر معاشی مواقع بھی میسر ہو رہے ہیں۔

تھری جی سروسز کا انعقاد ملک میں بھاری سرمایہ کاری لائے گا۔ تھری جی سروسز کے استعمال کے لئے عام موبائل فون استعمال نہیں کیا جا سکتا اس لئے تھری جی سروسز کے آغاز کے ساتھ ہی کم سے کم آٹھ کروڑ سے زائد تھری جی موبائل فونز فوری درکار ہوں گے۔ اس سلسلے میں تھری جی موبائل فون بیرونی ممالک سے درآمد کرنے کے بجائے اگر خود تیار کئے جائیں تو زیادہ فائدہ ہو گا۔ اس اہم بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان خود اپنے تیار کردہ موبائل فون متعارف کروا سکتا ہے۔ امپورٹڈ موبائل فون کی نسبت مقامی طور پر تیار کردہ موبائل فون سستا بھی پڑے گا کیونکہ امپورٹڈ موبائل پر ٹیکسز کی بھرمار ہوتی ہے ۔

پی ٹی اے کے چیئر مین ڈاکٹر محمد یٰسین کا تھری جی کے حوالے سے کہنا ہے کہ دنیا بھر میں مو با ئل سیلولر صا رفین کی تعد اد ترپن بلین ہو گی جن میں سےنو سو چالیس ملین تھری جی سروسز کے صارفین بھی شامل ہیں۔پی ٹی اے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سالوں کے دوران ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں متحدہ عرب امارات دو ارب ڈالر، امریکا انا سی کروڑ ڈالر، نوروے تریسٹھ کروڑ نوے لاکھ ڈالر جبکہ چین اٹھاون کروڑ بیس لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔

موبائل فون کمپنیاں تھری جی موبائل فون ٹیکنولوجی کے آغاز کیلئے تیاریاں مکمل کر چکی ہیں نمبر پورٹیبلٹی کی سہولت کو آسان بناکر نیٹ ورک کی تبدیلی کا دورانیہ بیس دن سے کم کرکے دو دن کیا جاچکا ہے۔ حکومت نے تھری جی سروسز موبائل ٹیلی فون لائسنسوں کے اجراء کیلئے پالیسی تشکیل دینے کی غرض سے کابینہ کی ایک کمیٹی قائم کی ہے ۔ جوملک میں تھری جی سروسز 2011ء کے اختتام تک دستیاب ہونے کی امید ہے۔

میں آپ کوبتاتا چلوں کہ پاکستان ٹیلی کوم شعبے پر ہر سال مزید ٹیکسز لگا رہی ہے جس سے ملک کو کثیر زرمبادلہ تو حاصل ہو رہا ہے مگر ساتھ ساتھ سرمایہ کاری میں کمی آ رہی ہے۔ رواں سال ٹیلی کوم شعبے میں ایک ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر ٹیکسز کی شرح میں یوں ہی اضافہ ہوتا رہا تومزید سرمایہ کاری میں کمی آئے گی۔ پاکستان کو ٹیلی کوم ٹیکسسز کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان جلد سے جلد تھری جی لائسنس کا اجراء کرے تاکہ پاکستان میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو۔

دنیا کے دیگر ممالک خصوصاً بھارت، ترکی اور اٹلی کی موبائل کمپنیوں نے تھری جی سروسز فراہم کرنا شروع کر دی ہیں اور وہ اس نئی ٹیکنولوجی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، ہمارے ملک کے ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے نے کم وقت میں ایک خاص مقام حاصل کر لیا ہے اور متعدد ممالک پاکستان ٹیلی کوم کے شعبے میں سرمایہ کاری کے خواہش مند ہیں۔ہمارا کروڑوں روپیہ ہمارے گھر سے دوسروں کو جارہا ہے ۔ہم ٹیکنالوجی کو استعمال بھی کررہے ہوتے ہیں لیکن کبھی جرت نہیں ہوئی کہ کیا ہی اچھاہوکہ صانع بھی ہمارا ہو اور صارف پوری دنیا ہو تو پھر دیکھیں کہ وطن عزیز کی غربت و افلاس دیکھنے کو نہ ملے گی۔

محترم قارئین:آپ طالبِ علم ہیں یا استاذ ،آپ جس بھی شعبہ زندگی سے وابستہ ہیں اپنے سے منسلک لوگوں کو مثبت اور زمانہ ساز سوچ تقسیم کریں تاکہ ترقی و عروج ہمارا مقدر بن جائے۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 546383 views i am scholar.serve the humainbeing... View More