پنجاب پولیس کے سربراہ حاجی حبیب
الرحمن نے اپنی پولیس کو الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ اپنی توندیں فوری طور پر
38انچ تک لے آئیں ورنہ انہیں ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔توندوںمیں
کمی کی معیاد یکم جولائی تک رکھی گئی ہے۔ اخباری خبر کے مطابق یہ انکشاف
پولیس کی خاتون ترجمان نے غیر ملکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا، خبر
میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آئی جی صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر میں کم
کھانا کھا سکتا ہوں تو آپ کیوں نہیں کھا سکتے؟یہ بھی اطلاع آئی ہے کہ اس
الٹی میٹم کے بعد پولیس کی ’دوڑیں‘ لگ گئی ہیں۔
یہ خبر ہر لحاظ سے پریشان کن ہے، اول اس لئے کہ آخر اتنی بڑی توند کو صرف
دو ہفتوں میں اتناکم کرنا شاید ممکن ہی نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ سربراہ پولیس
نے اخبارات میں وہ باتصویر اشتہار پڑھ لیا ہو جس میں توند کو صرف تین
گھنٹوں میں چھ سے تین انچ تک چھوٹا کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے، یہ بھی بتایا
گیا ہے کہ درد، کٹ کے بغیر، مضراثرات سے پاک ، بے ہوش کئے اور خون بہے بغیر،
ہمیشہ کے لئے موٹاپے سے چھٹکاراحاصل ہوجائے گا۔ تاہم آئی جی صاحب ایک
مہربانی کردیں کہ توند بردار پولیس والوں کو اس کا کوئی جادوئی ٹوٹکا عنایت
کردیں، جس سے یہ کام راتوں رات ہوجائے، یا متعلقہ پولیس والے بھی اخبارسے
ایسے اشتہار تلاش کرلیں جو رات بھر کی بجائے صرف تین گھنٹوں میں ان کا کام
کردیں۔
پریشانی کی دوسری وجہ یہ کہ کم کھانے کا مشورہ دینا تو پولیس والوں کو گالی
دینے کے مترادف ہے، کھائے پیئے بنا تو ان کی زندگی ادھوری ہے، وہ کھانا ہو،
یارشوت ہو، یا مظلوموں کا خون ہو۔ کھانے پینے سے منع کرنا ان کے لئے سب سے
بڑی اور بامشقت قسم کی سزا ہے۔ صاحب ! انہیں جو چاہے سزادے دیجئے ، مگر یہ
کھانا کم کھانے کا مشورہ نہ دیجئے ، زندگی کو بے مزہ نہ کیجئے۔ سوم ؛
پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سابقہ حکومت نے بھی توند بردار پولیس
والوں کو اپنی توندیں کم کرنے کا حکم دیا تھا ، جس پر عمل نہیں ہوسکا تھا،
اس کی شاید وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ جن اہلکاروں نے توندیں ناپنی ہیں وہ بھی
تو ان کے پیٹی بھائی ہی ہونگے، کون اپنے پیٹی بھائی کی نوکری ختم کروا کے
ان کے پیٹ پر لات مارے گا؟
سچ تو یہ ہے کہ اب پولیس والے توند کے بغیر جچتے ہی نہیں، توند ان کی شخصیت
کا لازمی حصہ بن چکی ہے، بسیار خوری کے ساتھ ساتھ بے کار بیٹھنے سے بھی
توند بڑھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ عام طور پر پولیس کی ملزمان کے پیچھے
بھاگ دوڑ کی کہانی کم ہوچکی ہے، اب پولیس کی زیادہ نفری پروٹوکول اورمحافظ
کے طور پر حکمرانوں ، وزیروں، مشیروں، ٹاسک فورسوں کے نام نہاد چیئرمینوں
اور دیگر عوام دشمن وی آئی پیز کی حفاظت پر مامور ہوتی ہے، انہیں صرف اپنے
وی آئی پی کے ساتھ ہی بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے، جو کہ ورزش کے زمرے میں نہیں
آتی، بلکہ جہاں وی آئی پی صاحب کی دعوت ہوتی ہے وہاں مذکورہ پولیس والے بھی
کھانے کی الگ میز پر بیٹھ کراپنے صاحب کی حفاظت کا فریضہ نبھا رہے ہوتے
ہیں۔ خبر سے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ جن کی توندیں مطلوبہ ٹارگٹ سے کم ہیں
وہ کیا کریں، کیا وہ اپنی توندکو بڑھانے کے لئے دن رات ایک کردیں۔
آئی جی پولیس جہاں بھی تشریف لے جاتے ہیں ، وہاں وعظ بھی لازمی فرماتے ہیں،
غنیمت ہے کہ پولیس سربراہ اس قسم کی گفتگو کرے، اللہ کرے ان کی یہ نصیحتیں
رنگ لائیں اور ہماری پولیس جو سخت جانی کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتی
ہے، راہ راست پر بھی آجائے۔ آئی جی صاحب کوئی ایسا فارمولا بھی ترتیب دیں
کہ پولیس اپنے روایتی ہتھکنڈوں سے دستبردار ہوجائے، تشدد ، گالی گلوچ اور
بے گناہوں کو چھتر کے زور پر اپنے مطالبے منوانا ان کا روز کا معمول ہے۔
توندیں چھوٹی کرنا زیادہ مشکل ہے ، مگر اخلاق بہتر کرنے پر تو نہ محنت آتی
ہے ، نہ خرچہ ہوتا ہے اور نہ ہی اخلاق بہتر کرنے کے لیے کم کھانا پڑتا ہے،
دعا ہے کہ آئی جی صاحب کی محنتیں کارگر ثابت ہوں اور سمارٹ اور بااخلاق
پولیس قوم کی خدمت کرتی نظر آئے۔ |