راشد علی پاکستانی

راشد علی نہ صرف قادر القلام شاعر اور ادیب ہے بلکہ ایک اچھا سوشل ورکر اور محب وطن پاکستانی بھی ہے۔راشد خوش لباس اور خوش اخلاق تو ہے مگر خوش خوراک نہیں۔ وہ خوراک کے معاملے میں بے حد احتیا ط کرتا ہے ۔ راشد کا کہنا ہے کہ لقمے اور نطفے میں صرف بائیولوجیکل ڈفرنس ہے۔ دونوں یا تو حلال ہوتے ہیں یا پھر حرام اور دونوں ہی صورتوں میں خاندانی، قومی اور ملکی سطح کے ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح کے اثرات مرتب کرتے ہیں اسلیے احتیاط ضروری ہے۔ کھاتا پیتا وہ اپنی حلال کی کمائی سے ہے اور جہاں جاتا ہے اپنی خوبصورت بیوی اور گول مٹول بیٹے کوبتا کرجاتا ہے۔ گھر کے معاملات ایک ڈسپلن کے تحت چلاتا ہے اور سلف ڈسپلن کا عادی ہے ۔ اگر مجبوری نہ ہو تو رات ۹ بجے ہر حال واپس گھر چلا جاتا ہے اور دس بجے سو جاتا ہے ۔ صبح جلدی جاگتا ہے ، ایک گھنٹہ واک کرتا ، کچن کی صفائی کرتا ہے اور بیوی کو جگا کر دونوں ملکر ناشتہ کرتے ہیں ۔

راشد علی اچھا میزبان ہے مگر مہمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ صبح جلدی جاگے ، راشد کیساتھ واک پر جائے اور جب تک راشد ناشتہ تیار کر کہ میز پر لگائے مہمان نہادھو کر اسکے ساتھ ناشتے پر حاضر ہو جائے۔ راشد علی شاعر، ادیب اور بزنس مین ہے اسلیے ان تینوں طبقات کی خامیاں اور خوبیاں اس میں موجود ہیں۔میں نے خامیوں کا ذکر پہلے کیا چونکہ یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ راشد میں خوبیاں زیادہ ہیں یا خامیاں ۔

میرا اندازہ ہے کہ راشد کی خامیاں قابل برداشت ہیں چونکہ اس کی ازدواجی زندگی میں کوئی خلل نہیں راشد کی دوخامیاں میں نے نوٹ کی ہیں اور اسے ہلکی سی وارننگ بھی دی ہے مگر وہ ان خامیوں کو اپنی کمزوری اور مجبوری کے تحت چھوڑنہیں سکتا۔ راشد علی کی پہلی خامی یہ ہے کہ جو ایک بار اس سے مل لے وہ اسے اپنا لیتا ہے اور ایسے خیال رکھتا ہے جیسے لوگ اپنے بچوں یا پھر بہن بھائیوں کا خیال رکھتے ہیں۔وہ اپنے ملنے والوں کی خوشی غمی میں شریک کرتا ہے اور جہاں ضرورت ہو مالی مدد بھی کر تا ہے۔ راشد کی دوسری خامی دوستوں کی طویل فہرست ہے جن کا حال احوال پوچھنااسکے فرائض میں شامل ہے۔ گاؤں کے ٹاٹ سکول سے لیکر پنجاب یونیورسٹی ، لندن سکول آف اکنامکس اور سپین سے اوسلو تک راشد نے جہاں جہاں تعلیم حاصل کی یا پھر چھوٹے موٹے کام اور کاروبار کئیے وہاں دوستوں کی ایک معقول تعداد چھوڑ آیا۔حیرت کی بات ہے کہ ان سب دوستوں سے راشد کا مسلسل رابطہ ہے اور ان کے دکھ درد میں شمولیت اسکا فرض ہے۔

چند ماہ پہلے میں جرمنی گیا تو راشد اگلے ہی روز مجھے ملنے آگیا۔ کہنے لگا کے یہ ممکن نہیں کہ تم یورپ میں قیام کرو اور میں تمہارے ساتھ نہ رہوں ۔ میں نے تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں ، کچھ نئے دوستوں سے ملانا ہے اور اپنی آنے والی کتاب کے مسودے پر رائے لینی ہے اسلیے بہتر ہے کہ تم میرے ساتھ اوسلو چلو۔ اگلے روز میں اوسلو میں تھااور راشد علی کے گھر میں تھا۔ گھر وہ ہی تھا جہاں راشد اسکی بیگم اور خوبصورت بیٹا ایک قائدے اور قانون کے تحت رہتے ہیں ۔ جن کمروں میں کوئی نہیں رہتا وہاں راشد کی کتابیں رہتی ہیں اور جو راشد کے گھر آتا ہے وہ ان کتابوں کا مہمان بن جاتا ہے۔راشد کے گھر ہر موضوع اور مزاج کی کتاب موجود ہے۔ راشد کا ایک مشغلہ کتابوں کے ترجمے کرناہے اسلیے انگریزی ، فرانسیسی ، جرمن ، رشین اور اٹالین سے لیکر سیکنڈ ے نیوین ریاستوں کی مقامی زبانوں کی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ اس کی لا ئیبریری میں موجود ہے۔ زیادہ کتابیں پنجابی ،اردو، فارسی اور عربی زبان میں ہیں جن کے کچھ حصوں کا وہ مقامی زبانوں میں ترجمعہ کرتاہے ۔راشد کا کہنا ہے کہ اہل یورپ جب تک ہماری ادبی اور ثقافتی تاریخ سے واقف نہیں ہونگے ان کے دلوں میں شبہات جنم لیتے رہینگے اور ہمارے باہمی روابط اور تعلقات میں شکوک کی خیلج حائل رہے گی۔ اپنی زبان ، کلچر ، ادب اور روا یات کیساتھ ساتھ ملکی پیداوار سے دوسری قوموں کو روشناس کروانے کا نام سفارتکاری ہے۔ جب تک لوگ ہماری تاریخ و تمدن اور زمینی پیداوار سے واقف نہیں ہونگے ہم ان کی قربت اور اعتماد حاصل نہیں کر پائینگے ۔ راشد علی کے مطابق پاکستان میں ستر سے زیادہ ایسے مقامات ہیں جو یورپین سیاحوں کی دلچسپی کا باعث بن سکتے ہیں اور دوسو سے ذیادہ ایسی اشیا ہیں جو یورپ کے لوگ خریدنا چاہتے ہیں ۔ راشد کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک سے جتنے شاعر ، گلوکار اور پیر یورپ کا چکر لگاتے ہیں اگر اس سے آدھے چھوٹے تاجر ، گھریلو صنعت کار،کاری گر ،ہنرمند اور دستکارآئیں اور ہمارے سفارتخانے مقامی تاجروں اور صنعت کاروں کی مدد سے نمائیش کا انتظام کریں تو یورپین خریداروں کی بڑی تعداد پاکستانی مضوعات سے متعارف ہوگی۔

چند سرکاری شاعروں اور ادیبوں کے بجائے اگر لوک فنکاروں کے پروگرام ارینج کروائے جائیں تو یورپین عوام کو ہماری ثقافت سمجھنے میں آسانی رہے گی۔ بدقسمتی سے ہمارے سفارتخانوں پر بھی مفاد پرستوں کا غلبہ ہے۔ ریٹایئرڈجرنیلوں اور سفارشی سفارتکاروں کو سوائے ڈالر کمانے اور اپنے خاندانوں کی فلاح و بہبود کے دوسرا کا م آتا ہی نہیں ۔ یہ لوگ سفارتکاری کے بجائے سیاحت ہر ذیادہ توجہ دیتے ہیں اور ذیادہ تر وقت گھومنے اور موجیں مارنے میں گزاردیتے ہیں۔

راشدفکر مند ہے کہ کہیں پاکستان کے ساتھ کوئی بڑا حادثہ نہ ہو جائے۔وہ کہتا ہے کہ پاکستان گریٹ گیم کا مرکزی نقطہ ہے جس کی ابتداء جنرل مشرف سے ہوئی۔ گریٹ گیم کے کھلاڑیوں نے نواز شریف کا تجزیہ کیا اور موصوف کو عالمی حالات کی سدھ بدھ سے عاری پایا ۔ نواز شریف کا تجزیہ کرنے کے بعد ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ وہ جنرل مشرف کو آرمی چیف کے عہدے پر تعینات کرے اور مشرف نوازشریف کی چھٹی کروادے ۔ میاں نواز شریف میں اگر سیاسی اور اخلاقی جرات ہوتی تو کارگل کے سانحہ پر سابق جرنیلوں اور ججوں پر مشتمل ایک کمیشن بنایا جاتا اور ان کی رپورٹ پر جنرل مشرف کا ٹرائیل ہوتا۔ میاں نواز شریف میں اتنی صلاحیت بھی نہیں تھی کہ وہ عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کی روشنی میں کوئی پالیسی بناتے ۔میاں صاحب کا تھینک ٹینک چوہدری نثار، مشاہد حسین سید اور نذیر ناجی تک محدود تھا۔ چوہدری نثار کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے جنرل مشرف کو آرمی چیف لگایا اور مشاہد حسین کے کہنے پر مشرف کو بھونڈے انداز میں ہٹانے کا ڈرامہ کیا اوراپنی ناؤ کو خود ڈبو دیا۔

میا ں صاحب چوہدری نثار اور مشاہد حسین کے بجائے اگر کسی ریٹائرڈ صوبیدار سے ہی مشورہ کر لیتے تو ملک آج اس حال میں نہ ہوتا۔ راشد علی کے مطابق جنرل مشرف جس جگہ کا روائی کے متعلق وزیراعظم کو بریفنگ دے رہا تھا وہ جگہ کارگل میں نہیں بلکہ آذادکشمیر میں تھی ۔ جب بڑا آپریشن شروع ہوااور بات میڈیا تک پہنچ گئی تو میاں صاحب مکمل کنفیوژن کا شکار ہو چکے تھے وہ اس پوزیشن میں نہ تھے کہ آپریشن رکوا سکتے ۔ میاں صاحب کا المیہ ہے کہ وہ حالات سے بے خبر ہی نہیں بلکہ بلائینڈبھی رہتے ہیں۔ وہ نہ اخبار پڑھتے ہیں اور نہ ہی کوئی کتاب۔ وہ بادشاہوں کی طرح اپنے نورتنوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔وہ بغیر سوچے سمجھے بیان دیتے ہیں اورپھر ان کے حواری ان کے فرمودات کی الٹی تشریح کرتے ہیں۔

میاں صاحب اگر مشرف کو ہٹانا ہی چاہتے تھے تو بجائے اسے ذلیل و خوار کرنے کے اس کے اعزاز میں ایک دعوت کرتے اور اس کی ریٹائرڈ منٹ کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی اگلے سینئر جرنیل کو آرمی چیف کے عہدے پر تعینات کر دیتے۔ میاں صاحب کے مشیروں نے جو خود آرمی بیک گراونڈرکھتے ہیں یہ بھی نہ بتاسکے کہ فوج آڈیننس ، سپلائی ،میڈیکل ، انجیرنگ اور دیگر امدادی شعبوں کے جرنیلوں کو بطور چیف قبول نہیں کرتی۔ یہ لوگ جتنے بھی قابل ہوں انھیں فرنٹ لائین پر لڑنے کا تجربہ نہیں ہوتا۔ آرمی چیف انفٹری ، آرمڈ اور آٹلری کا جرنیل ہوتاہے اور یہ پاکستانی فوجی کی روائت ہے۔

اس روائت کی بنیاد بھی ایک جرنیل نے رکھی جسکا نام جنرل اکبر خان ریکروٹ تھا۔ پاکستان بننے کے بعد جب انگریز افسر چلے گئے تو پاک فوج کا سینئر ترین جرنیل اکبر خان ریکروٹ تھا۔ جنرل صاحب کا تعلق آرمی سروس کو ر جسے عرف عام سپلائی کہا جاتا ہے سے تھا۔ جنرل صاحب کو جب سی این سی بننے کی آفر دی گئی تو آپ نے معذرت کرلی۔ آپ نے فرمایا کہ میرا تعلق لڑاکا فوج سے نہیں اسلیے لڑاکا فوج کے افسر اور جوان دل سے میری عزت نہیں کرینگے۔

جنرل ضیاالدین بٹ نے ٹیلی ویژن انٹرویو میں اپنی تعلیم اور قابلیت کا ذکر تو کیا مگر یہ نہ بتایا کہ بطور آرمی چیف وہ فوج کو قابل قبول نہ ہوتے۔ راشد علی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب پر منحصرہوتا تو مشاہد حسین کے کہنے پروہ کسی ڈاکٹر جرنیل کو بھی چیف لگا نے سے نہ کتراتے۔

راشد علی پاکستان کی سلامتی کے متعلق بے حد فکر مند ہے۔راشد کہتا ہے کہ پاکستان اندرونی اور بیرونی سازشوں کی گرفت میں ہے اور عالمی استعماری طاقتیں پاکستان کے حصے بخرے کرنے کے در پے ہیں ۔ سیاستدان لوٹ مار اور ذاتی مفاد کی خاطر کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ گیلانی، قریشی اور ہاشمی جمہوریہ ملتان، میاں برادران لاہور ، چوہدری گجرات، زرداری لاڑکانہ اور نوابشاہ ، الطاف حسین کراچی اور پرویز اشرف ریاست راولپنڈی پر اکتفا کرنے کو تیار ہیں ۔ پختونخواہ اور بلوچستان پہلے ہی علیحدگی کا فیصلہ کر چکے ہیں اور دونو ں کی مدد کے لیے غیر ملکی فوجیں افغانستان میں اورامریکی بحری بیڑہ گوادر سے چند میل دور پاکستانی سمندری حدود میں موجود ہے۔فوج زرداری جمہوریت کی نگہبان ہے اور عدلیہ کرپٹ حکمرانوں اور مفاد پرست عناصر کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ خواص عیاشیوں اور ریشہ دوانیوں میں مصرو ف ہیں اور عوام بے حس اور بیکار ہجوم بن کر اپنی برباوی کا آپ تماشہ دیکھ رہے ہیں۔

راشد کہتا ہے کہ پاکستان دن بدن آسان ھدف بنتا جا رہاہے۔ میمو گیٹ اگر حقیقت ہے تو اسکا مطلب یہی ہے کہ پاکستان کے حکمران ٹولے نے امریکہ کو کھلی دعوت دی ہے کہ وہ زرداری کا اقتدار بچانے کے لیے پاکستان پر فوج کشی کر سکتا ہے ۔ بلوچی قوم پرست بھی یہی چاہتے ہیں جبکہ پختونخواہ کو پختونستان میں بدلنے کا جو خواب اسفندیارولی کے بزرگوں نے سویت یونین کی مدد سے دیکھا تھا اگر اب اس کی تعبیر امریکہ کر دے تو اے این پی کو کوئی اعتراض نہ ہو گا۔

پاکستانی میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے راشد علی پاکستانی نے کہا کہ میڈیا آذاد نہیں بلکہ شتر بے مہار ہے۔ غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں نے میڈیا پر بھاری انوسٹمنٹ کر رکھی ہے اور میڈیا کے ذریعے منفی پراپیگنڈہ عروج پر ہے ۔ فوج ، عدلیہ اور عوام میڈیا کے ھدف ہیں ۔فوج اور عدلیہ کو بد نام کر کے دفاعی پوزیشن پر لایا جارہا ہے اور عوام کو ڈی مورال کرنے کے تمام حربے استعمال ہورہے ہیں ۔ قوم پرستی ، فرقہ واریت ، علاقائیت اور لسانیت کی بنیادوں پر ملک کو تقسیم کیا جا رہا ہے اور لیڈر لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک منتقل کرنے میں مصروف ہیں۔

کالا باغ ڈیم کو فائیلوں تک محدود کر دیا گیا ہے اور بھاشا ڈیم پر ڈرامہ بازی کی گئی ہے۔ پی آئی اے ، ریلوے اور دیگر اداروں اور کارپوریشنوں کو جی بھر کر لوٹا گیا اور انہیں تباہ و برباد کر دیا گیا ہے مگر عوام ٹس سے مس نہ ہوئے اور نہ ہی کسی لیڈر نے انہیں زرداری گیلانی ٹولے کی لوٹ مار کے خلاف متحرک کرنے کی کوشش کی ہے۔ نواز شریف نے فوج دشمنی کی ضد میں کرپٹ حکومت کو سہارا دیے رکھا جبکہ عمران خان کا سونامی مذاق بن گیا ہے۔راشد علی کہتا ہے کہ آج ساری دنیا کی نظر یں بلوچستان پر لگی ہیں ۔ بلوچستان قدرتی خزانوں سے لبریز ہے اور ہر کوئی اسے لوٹنے کی کوشش میں ہے۔ راشد کی پریشانی اور فکر مندی حقائق پر مبنی ہے اور یقیناًہر باشعور پاکستانی کے لیے فکر کا باعث ہے۔
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 76492 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More