بیوقوفوں کی دنیا

مالداری کے لئے بیوقوف بننا
ایک ادیب کسی دیوانے کے پاس سے گزرا جو منہ سے کچھ بڑبڑا رہا تھا، اس نے اس کی باتوں میں غور کیا تو وہ اسے اصول پر مبنی مضبوط اور ٹھوس گفتگو معلوم ہوئی، اس نے پوچھا’’یہ آپ خواہ مخواہ بیوقوف کیوں بنے ہوئے ہیں؟‘‘ اس نے جواب میں دوشعر کہے:
۱﴾ میں نے مالدار بننے کے لئے خود کو دیوانہ بنایا، کیونکہ اس دور میں عقل محرومی کا ذریعہ ہے۔
۲﴾ اے مجھے ملامت کر نیوالے! اس احمق کو جس کا آپ مذاق اُڑا رہے ہو مت ملامت کیجئے،کیونکہ حماقت کے بھی کئی رنگ ہیں۔﴿ ابن حبیب:عقلائ المجانین،ص ۴۳﴾

سلامتیٔ عقل کے باوجود بیوقوف بننا
مالک بن دینار(رح)کہتے ہیں کہ میں نے’’شام‘‘کی سرحدوںمیںواقع شہر’’مصیصۃ‘‘ میںایک شیخ کودیکھا جس کی گردن میں طوق اور زنجیر تھی، بچے اس پر پتھر پھینک رہے تھے، اور وہ یہ شعر پڑھ رہا تھا:
’’وہ لوگ جنہیں میں انسان کی صورت میں دیکھتا ہوں اگر ان کی﴿ اخلاقی، معاشی اور اندرونی﴾حالتِ زندگی کی چھانٹ پھٹک ہو تو وہ انسان کہلانے کے قابل نہ رہیں۔‘‘
میں آگے بڑھا اور ان سے کہا:’’ کیا آپ مجنون ہیں؟ ‘‘ انہوں نے جواب دیا:’’ حلیہ سے میں مجنون لگتا ہوں پر دلی اعتبار سے مجنون نہیں ہوں‘‘ پھر چلتے ہوئے انہوں نے مزید اشعار پڑھے۔
﴿۱﴾ میں نے لوگوں سے اپنا معاملہ دیوانگی﴿کے پردہ﴾ میں چھپایا تاکہ میں اپنے اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت میں مشغول ہو جائوں۔
﴿۲﴾ لوگوں کے متعلق میری کہی ہوئی باتوں سے تعجب کر نیوالو! میں نے کیا کہا ہے؟ اور کیا میری بات سمجھ سے بالا تر ہے؟﴿ابن حبیب: عقلائ المجانین ِص۲۳﴾

کڑک مرغی کی طرح لڑکا
ایک آدمی کا بچہ گم ہو گیا، گھر والوں نے گویا طوفان کھڑا کر دیا اور بچے کی خاطر سر پیٹنے لگے اسی حال میں کئی دن گذرگئے،ایک دن اس کاباپ گھرکی چھت پرچڑھا، بالکونی سے جھانکا اس نے گھر کے ہی ایک کونے میں اپنا بچہ بیٹھا دیکھا تو کہا:’’بیٹا! تو زندہ ہے؟ تو دیکھ نہیں رہا ہم کس قدر مصیبت میں مبتلا ہیں؟ بیٹے نے کہا:’’ مجھے سب معلوم ہے، لیکن یہ انڈہ دیکھئے، میںاس پرمرغی کی طرح بیٹھا ہوں اور اپنی جگہ سے نہیں ہٹوںگا، مجھے پرندوں کے چھوٹے بچے بہت پسندہیں،مجھے وہ پیدا کرنے ہیں ‘ ‘
باپ نے دوسری طرف اہل خانہ سے کہا:’’میرا بچہ زندہ سلامت مل گیا ہے،لیکن تم اپنا نوحہ بندنہ کرو، وہ بد ستور جاری رکھو﴿کیونکہ بیٹا اپنی جگہ سے نہیں اُٹھ رہا تو اس کا ملنا نہ ملنابرابرہوا﴾﴿ابن الجوزی:اخبارالحمقیٰ و المغفلین ، ص ۰ ۶ ۱﴾

بیوقوف لڑکا
ایک ادیب تھے جن کاایک بیوقوف لڑکاتھا،وہ بولتا بہت تھا ،ایک دن باپ نے اس سے کہا ’’بیٹا! جب تم صحیح نہیں بول سکتے تو بہتر یہ ہے کہ تم مختصر بات کیا کرو‘‘
’’ جو حکم جناب کا‘‘ بیٹے نے جواب دیا،ایک دن وہ کہیں سے آیا تو باپ نے پوچھا:
باپ:’’من این اقبلت یابنی؟‘‘ ﴿بیٹا! کہاں سے آرہے ہو؟﴾
بیٹا:’’من سوق‘‘ ﴿بازار سے﴾
باپ:’’یہاں اختصارنہ کرو، الف لام کا اضافہ کرو‘‘ ﴿یعنی من السوق کہو﴾
بیٹا:’’فی سوقال‘‘۔
باپ:’’الف لام کا اضافہ شروع میں کرو۔‘‘
بیٹا:’’الف لام سوق‘‘
باپ:’’کیا تم من السوق نہیں کہہ سکتے،بخدا میں چاہتا ہوں کہ تم اختصار کرو مگر تم کلام کو لمبا کر دیتے ہو‘‘۔
پھر ایک دن بیٹے نے باپ سے کہا’’اباجان! مجھے جباعہ سی دیجئے‘‘
’’جباعہ کون سا لباس ہے‘‘ باپ نے پوچھا
بیٹے نے کہا:’’کیا آپ نے مجھے بات مختصر کرنے کے لئے نہیں کہا تھا؟ جباعۃ سے میرا مطلب جبۃ اور دراعۃ﴿ آگے سے کھلا ہوا کوٹ﴾ ہے۔﴿ دونوں کو مختصر کرنے سے جباعۃ بنا﴾﴿ابن الجوزی: اخبار الحمقی و المغفلین، ص۷۶۱﴾

بیوقوف اور گدھے
ایک بیوقوف دس گدھے ہانک رہاتھا، ایک پروہ سوار اور باقیوں کو گنا تو وہ نو گدھے نکلے،وہ گدھے سے نیچے اتر آیا اور پھر شمار کیا تو وہ پورے دس تھے، اس نے کہا:’’ میں پیدل چلوں اور گدھے پورے رہیں یہ اس سے بہتر ہے کہ میں سواری کروں اور ایک گدھے کا خسارہ اُٹھائوں۔‘‘ چنانچہ وہ بیچارہ چلتا رہا، جب اپنی بستی پہنچا تو چل چل کر ادھ مواہو چکا تھا۔﴿العمری: من کل واد حجر،۶۴۱﴾

نعوذ باللہ
شیخ نصرالدین جو حلقۂ عوام میں’’ جحا‘‘ کے لقب سے مشہور ہیں بڑے انسان تھے، عقل و دانش اور ہنسی مذاق ان کی فطرت میں تھا، مزاح و سنجیدگی سے اپنی مجلس کو گرماتے رہتے اور کھلم کھلا خودساختہ عمدہ لطیفے سناتے تھے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ تیمور لنگ کی اس سے ملاقات ہوئی،اس نے کہا:’’نصر الدین!مجھے پہلے خلفائ کے ناموں پر بڑا تعجب ہوتا ہے جو لفظ’’ اللہ‘‘ پر جا کر ختم ہوتے تھے، مثلاً واثق باللہ، مظفر باللہ اور مستنصر باللہ، میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی میرے لئے اس طرح کا کوئی نام تجویز کریں، نصرالدین نے سر اُٹھا کر تیمور لنگ کو دیکھا،ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی اور کہا:’’میں نے آپ کا نام سوچ لیا ہے،’’نعوذ باللہ‘‘ کیسا رہے گا آپ کا یہ نام؟تیمور لنگ مسکرایا مگر کچھ بولنے کہنے کی ہمت نہ کر سکا۔﴿العربی: کانون:۲،۶۸۹۱﴾

اللہ کا مال کھانا
اصمعی کہتے ہیں:ایک امیر نے عوامی خدمت کا کوئی عہدہ ایک بدو کے سپرد کیا، بدو نے اس میں خیانت کی تو اس نے اسے معزول کر دیااور عدالت میں اس کو پیش کیا گیا.
امیر نے اس سے پوچھا: اللہ کے دشمن ! تونے اللہ کا مال کھایا؟ ‘‘ بدو نے کہا:’’ اللہ کا مال نہ کھائوں تو کس کا مال کھائوں ؟بخدا! میںنے ہزار بار شیطان سے خواہش ظاہر کی کہ مجھے ایک پیسہ تو دیدے مگر اس نے ایک پیسہ بھی نہ دیا۔‘‘﴿ الدیاغ: ادب المعدمین،ص ۳۱﴾
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 155655 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More