پاکستان اس وقت بجلی کے شدید
بحران سے دوچار ہے۔آبی ذخائر میں کمی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت تباہی کے
دہانے پر پہنچ گئی ہے جبکہ گھریلو صارفین بھی لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں شدید
پریشان ہیں۔منگلا اور تربیلا ڈیموں کی تعمیر کے بعد پاکستان کی معیشت میں
جو انقلاب آیا اس کو دیکھتے ہوئے آبی ذخائر کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھنا
ناگزیر تھا لیکن بدقسمتی سے ایسے تمام منصوبے ہماری منفی سیاست کی بھینٹ
چڑھ گئے۔
تمام سیاسی جماعتیں کالا باغ ڈیم سمیت ملک میں آبی ذخائر کی اشد ضروریات کو
وسیع تر قومی مفاد میں دیکھیں کیونکہ اگر اب بھی ہم نے آبی ذخائر تعمیر نہ
کئے تو قوم ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ڈیموں پر سیاست چمکانے والے حقیقت معلوم
ہونے کے باوجود حقائق سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ وہ ملک کے خیر خواہ نہیں۔ہمیں
صرف کالاباغ ڈیم ہی نہیں بلکہ 2020ءتک تین بڑے ڈیموں کو ضرورت ہوگی۔ اگر ہم
نے ابھی سے حکمت عملی طے نہ کی اور اس اہم قومی معاملے کو نظر انداز کئے
رکھا تو قوم اور تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
جس تیزی سے ملکی آبی ذخائر میں کمی واقع ہورہی ہے اگر چند سالوں میں تین
چار بڑے ڈیم تعمیر نہ کئے گئے تو آئندہ چند سالوں میں پاکستان ایک شدید
بحران سے دوچار ہوسکتا ہے۔زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت
حاصل ہے لیکن پانی کی کمی کی وجہ سے اسے ٹوٹنے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ دوسری
انڈسٹری کا دارومدار بجلی پر ہے اور سب کو معلوم ہے کہ ہائیڈرو پاور بجلی
کی پیداوار کا سب سے سستا ذریعہ ہے لیکن مناسب آبی ذخائر کی عدم موجودگی
میں بجلی کی پیداوارمیں کمی آئے گی جس کا ہماری صنعت وحرفت پر براہ راست
منفی اثر پڑے گا۔تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے بجلی اور پانی کی طلب
میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی آبادی تقریباََ ساڑھے تین کروڑ تھی جو ساٹھ
سالوں میں سولہ کروڑ تک جا پہنچی ۔ جو آئندہ پندرہ سالوں یعنی 2020ءتک
22کروڑ ہوجائے گی۔ آبادی میں اس قدر اضافے سے خوراک اور دیگر ضروریا ت میں
بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔واپڈا نے حال ہی آبی وسائل کے بارے میں جاری کردہ
ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر جلد ہی چھوٹے بڑے ڈیموں کے بارے میں فیصلہ نہ
کیا گیا تو اگلے پانچ برسوں بعد ملک خشک سالی کا شکار ہو جائے گا۔ واپڈا کی
رپورٹ کے مطابق پاکستان صرف 9 فیصد پانی سٹور کر رہا ہے جوکہ اس کی بڑھتی
ہوئی آبی ضرورت سے کم ہے اور اس کا یہ قیمتی آبِ حیات یونہی سمندر میں گر
کر ضائع ہو رہا ہے۔ پانی کے اس ضیاع کو اور بھی کم کرنے کے لئے نیشنل
پروگرام آف واٹر کورس کے تحت ملک بھر میں واقع تمام کھالوں کو پختہ کرنے کا
منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ 22 ارب روپے کے اس قومی منصوبے میں سے 18.5 ارب
روپے صرف سندھ میں ہی خرچ کئے جائیں گے۔
پانی کی کمی سے ہماری زرعی پیداوار کا گراف مسلسل زوال کا شکار ہے۔جس سے
اندازہ لگایا جا سکتا ہے پاکستان آئندہ چند سالوں میں زمینوں کے بنجر پن
اور قحط سالی کے عفریت سے دوچار ہوسکتا ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو کوئی
پاکستانی قیادت جو ملک کے لئے سنجیدہ یا ہمدرد ہو گی اس سے مسئلے کو نظر
انداز نہیں کرسکتی ۔دنیا بھر پانی کا ضیاع روکنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے
ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ دنیا کا بہترین نہری نظام رکھنے کے باوجود آبی ذخائر کی
تعمیر کو متنازع بنا کر اوسطاً 38ملین ایکٹرفٹ پانی ضائع کر رہے ہیں۔ اگر
ہم نے دس سال قبل کوئی بڑا ڈیم تعمیر کر لیا ہوتا تو آج ہمارے مسائل اتنے
زیادہ سنگین نہ ہوتے جتنے اب نظر آ رہے ہیں۔پاکستان کی 70فیصد افراد زراعت
کے پیشے سے منسلک ہیں۔ جس کا ادراک کرتے ہوئے ہمیں بڑے ڈیم کی تعمیر کا
فوری فیصلہ کر لینا چاہئے ۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے معاشی ترقی کے بے شمار مواقع میسر آئیں گے۔ اس سے
غذائی اجناس کی پیدا وار میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ کثیر مقدار میں بجلی
پیداکی جاسکے گی جو ہماری معیشت کے لئے ایک ستون کا کام دے گا۔ اس ڈیم سے
جہاں پانی کی ضروریات پوری ہوں گی وہاں پاکستان کو سستی بجلی بھی حاصل ہو
گی اور قیمتوں میں استحکام آئے گا۔عوام کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اس ڈیم
سے ملک کو کتنا زیادہ فائدہ ہو گا۔ اگر کچھ تھوڑا سا نقصان بھی ہو‘ تب بھی
زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے تھوڑا نقصان برداشت کر لینا چاہئے ۔اس مجوزہ
ڈیم سے بلوچستان کو سب سے زیادہ فائدہ ہو گا۔ کچھی کینال جس میں اس وقت سال
میں صرف تین ماہ پانی ہوتا ہے‘ ڈیم بننے سے سارا سال اس میں پانی چلتا رہے
گا اور ان نہری علاقوں میں پانی سے بھر پور زندگی شروع ہو جائے گی۔ اور ہر
طرف ہریالی کا دور دورہ ہو گا اور خوشحالی آئے گی۔
اس وقت دنیا میں بہت سے ڈیم کام کر رہے ہیں اور کئی ممالک میں ان کی تعمیر
پر کام جاری ہے۔ جبکہ پڑوسی ملک بھارت بھی پاکستان کے تمام تراعتراضات کے
باوجود متنازعہ بگلیہار ڈیم پر کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ جس کی تعمیر کے خلاف
پاکستان نے عالمی بنک سے رجوع کر رکھا ہے۔ عالمی ادارہ کی رپورٹوں کے مطابق
آئندہ سالوں تک دنیا کی پیشتر آبادی کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو گا
اور پاکستان بھی ان ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔اس وقت نہ صرف کالا باغ ڈیم
بلکہ چھوٹے چھوٹے بہت سے ڈیم دریائے سندھ پر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ کم سے
کم ریت تربیلا ڈیم میں جائے۔ نہ صرف مذکورہ ڈیموں سے بجلی پیدا ہو گی بلکہ
روزگار کے مواقع حاصل ہوں گے۔ علاوہ ازیں جن علاقوں کے ندی نالوں سے پانی
گزر کر آتا ہے وہاں پانی سٹور کر کے نہ صرف ڈیم بنا کر پانی کو کنٹرول کیا
جا سکتا ہے بلکہ جگہ جگہ مچھلی فارم اور پکنک پوائنٹ بن سکتے ہیں اور
بیروزگاری کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو سیروتفریح کے مواقع بھی میسر آ
سکتے ہیں۔
وقت کا یہی تقاضا ہے کہ جذبات اور تعصبات سے بالا تر ہو کر ملک و قوم کی
ترقی اور خوشحالی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس حقیقت کو برملا تسلیم کیا جائے
اور ملکی اور قومی ترقی کے معاملات کو محض تعصبات اور ذاتی مفادات کی بھینٹ
نہ چڑھایا جائے اور کالا باغ اور دوسرے آبی ذخیروں کی تعمیر میں صدرِ مملکت
کا ساتھ دیا جائے۔ |