پاکستان میں جمہوری ارواحوں نے
تمام نظام کو آجگڑا ہے ، کبھی گزرے سیاستدانوں کی سالگرہ منائی جاتی ہیں تو
کبھی ان کیلئے زندہ ہے زندہ ہے کے نعرے بلند کیئے جاتے ہیں ۔ آخر ماضی کے
سیاستدانوں کی ارواحیں عالم برزخ کیوں نہیں جاتیں؟ہم نے تو اپنے بزرگوں ،
اساتذہ کرام اور عالم دین سے سن رکھاہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ بعد موت
تمام انسانوں کی ارواح کو عالم برزخ میں ٹھہراتا ہے جو قیامت تک وہیں رہیں
گی، ہاں البتہ کچھ ایسے بھی واقعات پڑھنے ، سننے اور دیکھنے کو ملے کہ وہ
انسان جو پلید رہا ہو اور گنہگار اس قدر ہو کہ جس پر اللہ نے بے پناہ عذاب
عائد کیا ہو اور اسے سبق انسانیت کیلئے نہ زمین کو قبول کرنے کا حکم دیا
اور نہ آسماں کی جانب روانگی کا ایسی روح نہ صرف بھٹکتی پھرتی ہے بلکہ دنیا
کے انسانوں کو پریشان بھی کرتی ہے اُن میں ظالم و قاتل اور خود کشی کرنے
والوں کا ذکر ملتا ہے بحرحال میں نہ تو کوئی عالم و فاضل ہوں اور نہ
مولانا،میں تو طفلِ مکتب ہوں۔ دنیا واقف ہے کہ پاکستان میں جتنے بھی سربراہ
آئے کوئی ولی ذات نہ تھا ہاں البتہ قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی
خان اُن سربراہوں میں ضرور شمار کیئے جاتے ہیں جنھوں نے نہ کبھی مال دولت
جمع کی اور نہ عوام کو جھوٹے وعدﺅں میں مبتلا کیا حقیقت تو یہ ہے کہ انھوں
نے پاکستان اور ملت اسلام کو یکجا کرنے اور ملت پاکستان کو ایک نگاہ سے نہ
صرف دیکھا بلکہ یکساں سب کے مسائل حل کرنے میں کوشاں رہے یہی وجہ ہے کہ
انہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے پر سکون با عزت موت سے نواز وہ زندہ جاوید
ہوگئے۔سپہ سالار ہوں یا سربراہان مملکت تاریخ اسلام میں ایسی شخصیات کے نام
سامنے آتے ہیں جنھوں نے دنیا کے بڑے بڑے علاقوں میں ریاست کا نظام چلایا
لیکن اُس نظام کو مکمل دین اسلام سے منسلک رکھتے ہوئے نہ صرف حکومت کی بلکہ
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کیلئے منتخب لوگوں میں شمار ہوئے۔ ان میںطارق بن
زیاد، نورا لدین زنگی، محمود غزنوی، محمد بن قاسم جیسے حاکموں نے ثابت
کردیا کہ سب سے اعلیٰ حاکم مسلمان ہوتے ہیں ۔ان حاکموں کی ارواحیں نہ صرف
اعلیٰ مقام حاصل کرچکی ہیں بلکہ وہ رہتی دنیا کیلئے ایک اعلیٰ حاکم کا نقش
بھی چھوڑ چکی ہیں ، مسلم حکومتوں کے حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ ریاست کے
نظام کو سمجھنے اور عمل کرنے کیلئے اس مسلم حکمرانوں کے نظام کا مطالعہ
لازمی رکھیں تاکہ ایک کامیاب حاکم کا منصب پا سکیں۔ پاکستان جو خالصتاً دین
اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا لیکن اس کی سب سے بڑی بد قسمتی رہی ہے کہ
اس کے حکمران شراب و شباب میں غرق یا پھر ایسے عائد ہوئے جن کی زبانوں پر
اللہ اور ہاتھوں پر تسبیح تو تھی مگر منافقت کا لبادہ بھی اوڑھے ہوئے تھے ۔جب
سے پاکستانی عوام نے دین سے دوری کا عمل اپنایا تب سے غیر مسلم حکمرانوں نے
انہیں آدبوچا۔۔۔ دین اسلام کے مخالف یہود و نصارا اور بدھ پرست کو کیونکر
پسند کہ دنیا اسلام میں پاکستان ایک مستحکم ، آزاد اور خود مختیار ملک قائم
رہے ظاہر ہے غیر مسلموں نے اُن لوگوں کا انتخاب کیا جن کے ایمان کمزور تھے
اور پاکستان میں آج بھی قادیانی ، احمدی، گوہر شاہی اور نجانے کتنے ایسے
گروہ سرگرم عمل ہیں جنھوں نے نہ صرف اسلام بلکہ پاکستان کو شدید نقصان
پہچانے کے ہر ممکن وار کیئے۔ اس کیلئے انہیں پاکستانی قوم کو آپس میں تقسیم
کرانا مقصود تھا گو کہ ایسا ہی ہوا۔ اگر پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کیا
جائے تو شروع کے چند سال بعد ہی ریاست پاکستان میں سیاسی و عسکری انارکی
سازشوں کے ساتھ پھیلی نظر آئے گی۔ کہتے ہیں کہ اگر کوئی ایک نیکی کی بات
بتا دی جائے تو اُس شخص کو ثواب اُس وقت تک ملتا رہے گا جب تک وہ شخص عمل
کرتا رہے گا اور اگر وہ دوسرے ، تیسرے کو یہی نیکی بتا دے تو گویا صدقہ
جاریہ کے عمل میں آجائے گاتو لا متناہی ثواب کا سلسلہ ، اسی طرح اگر کوئی
گناہ کی بات بتاتا ہے اور وہ گناہ پے در پے تقسیم ہوتا ہوا بڑھتا جائے تو
اس گناہ میں سب شمار ہوتے چلے جائیں گے ۔۔۔۔ کیا پاکستان میں حاکم اعلیٰ
مکمل اسلام سے رغبت رکھنے والا گزرا ہے ؟؟ ممکن ہے عوام کے سامنے اس کا
کوئی جواب نہ ہوگا ، شائد نہیں !! ابھی تک قطعی نہیں !! آج ریاست پاکستان
میں حکم بننے والے خالصتاً اپنی پارٹیوں اور ورکنوں کی مد میں محدود سوچ
رکھتے ہیں نہ انہیں مملکت پاکستان سے کوئی واستہ ہے اور نہ پاکستانی عوام
کی پرواہ۔ لیکن اگر فکر ہے تو اپنے سابقہ پارٹی کے فاﺅنڈروں کی کیونکہ وہ
ان کی نظر میں زندہ ہیں اور زندہ!! ان کی بعد موت سالگرہ بھی جاری ہیں تو
ساتھ ساتھ عرس بھی ؟؟ عجیب تماشا ہے پاکستان کی سیاست کا!!کچھ ایسے بھی
حکمراں اور سیاسی پارٹیوں کے اعلیٰ ترین شخصیات ہیں جو ابھی زندہ ہیں لیکن
ان کے انتقال پر بھی گزشتہ سیاسی حکمرانوں کی طرح شائد زندہ ہے زندہ ہے کے
نعرے جاری رہیں گے۔ ان سے جب صحافی حضرات بعد موت زندہ رہے کی بات کرتے ہیں
تو ان کاموقف ہوتا ہے کہ ان کی یادیں ، احکامات ان کے ورکنوں میں خون کی
طرح دوڑ رہی ہوتی ہیں اس پر جب صحافی کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ نے اپنے اور
اپنے حبیبﷺ کیلئے قرآن میں ذکر کیا ہے کہ قطعی مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک
اپنی جان سے بھی زیادہ اللہ اور اس کے حبیب ﷺکو پیارا نہ رکھے اور کھبی بھی
دین اس نیت و عمل کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا !! تو پھر ان حکمرانوں کو کیا
آپ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے برابر کھڑا کررہے ہیں؟؟ کیا یہ عمل اسلام سے
خارج نہیں کرتا ؟؟ اللہ ہر جگہ قائم ہے وہ قادر و مطلق ہے اسی طرح اللہ کے
حییب ﷺ کا کرم و فیض ساری کائنات میں جاری و ساری ہے اور رہیگا۔۔۔ یہ سیاسی
حکمران اور ان کے کارکنان جو الحمد للہ مسلمان بھی ہیں اور پاکستان بھی !!
کیا یہ تحمل و برباری کے ساتھ وہ دین اسلام کے طریقہ کو اپنا نہیں سکتے جو
ہمیں اسلام کے ساتھ خلفائے راشدین اور دیگر مسلم سپہ سالار نے نظام ریاست
دیا ہے اگر ذرہ برابر اُن طریقہ کار کو اپنالیا جائے تو یقینا نظام ریاست
پاکستان کا درست ہوجائیگا اور بعد موت ان کی ارواحیں پر سکون رہیں گی۔ورنہ
بڑی بڑی عمارتوں پر سنگ مرمر و دیگر جواہرات سجانے سے ان کی ارواحیں قطعی
نہیں اللہ کے غضب اور عذاب سے بچ پا سکیں گی، یقینا اللہ اور اس کے حبیب ﷺ
کے احکامات پر پیروی ہی نجات دہندہ ہے۔ پاکستان مین ایسے بھی سیاسی حکمران
ہیں جو مذہب اسلام سے حقیقی انداز میں نہ صرف محبت کرتے ہیں بلکہ اس کی
ترویج میں کاربند بھی رہتے ہیں مگر نجانے وہ اس عمل کو دیگر سیاسی معاملات
سے بالاتر کیوں نہیں رکھتے!! آخر وہ کون سے دباﺅ ہیں جس بناءپر یہ کھلم
کھلا نظام اسلام کے رائج پر خاموشی اختیار کر بیٹھتے ہیں جبکہ نام نہاد
تنظیموں نے اسلام کے نام پر اس عوام کو مسلسل نہ سر لوٹا بلکہ گمراہ بھی
کیا۔ ۔۔۔!!
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی |