وزیر اعظم بجلی،زرداری سے وفاداری اور ”قومی غیرت“

سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود صدر مملکت آصف علی زرداری کے بنک اکاﺅٹس کے حوالے سے سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سپریم کورٹ سے تیس سیکنڈ کی سزا پانے کے بعد سپریم کورٹ سے ہی نااہل قرار پاتے ہوئے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہاتھ دھو ، بیٹھے۔ اس طرح یوسف رضا گیلانی نے ملک و قوم کے مفاد پر صدر آصف زرداری کی وفاداری کو ترجیح دی۔ پیپلز پارٹی نے اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے بعد مخدوم شہاب الدین کو نئے وزیراعظم کے طورپر سامنے لایا لیکن کرپشن کے مقدمات میں ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری ہونے پر متوقع وزیراعظم کا نام تبدیل کیا گیا ۔ حزب اختلاف جماعت مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نوازشریف نے اپنی جماعت کی ہائی کمان کے اجلاس کے بعد مطالبہ کیا کہ ملک میں نئے انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے عبوری حکومت قائم کی جائے تاہم مسلم لیگ (ن) کے جذباتی کارکنوں کی توقع کے برعکس مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جس سے نئے انتخابات اور عبوری حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کے دور کو پاکستان کی تاریخ کا ”سیاہ ترین“ دور قرار دیا جارہاہے۔ ان کے بیٹے موسیٰ گیلانی اور قادر گیلانی عرف ”بنی“ کرپشن سمیت کئی الزامات کی زد میں ہیں۔ آزادکشمیر کے عوام کو یاد ہوگا کہ آزادکشمیر میں چیف جسٹس ریاض اختر چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے بعد شروع ہونے والی ”کشمکش“ میں بھی ایسے ہی حوالے میںوزیراعظم گیلانی کے فرزند کا نام بھی آیا تھا۔
اتفاق سے راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بن گئے ہیں۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہونے سے متعلق ان کے اعلانات سب کو یاد ہیں۔ کئی نجی ٹی وی چینل وڈیو میں محفوظ راجہ پرویز اشرف کے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے سے متعلق وعوے یاد دہانی کے لئے دکھا رہے ہیں۔گوجر خان سے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بن کر معیاد حکومت کے باقی ماندہ چند ماہ میں بجلی بحال کرا دیں گے یا کوئی اور مسائل حل کرنے پر توجہ دیں گے،ایسا سوچنا خود کو بیوقوف بنانے کے علاوہ اور کچھ نہ ہو گا۔آصف علی زرداری سے وفاداری نبھانا ہی ان کا واحد ٹارگٹ ہو سکتا ہے۔تاہم دیکھنا یہ ہے کہ وہ صدر زرداری کا اسی طرح دفاع کر سکیں گے جس طرح یوسف رضا گیلانی کرتے رہے ہیں۔

کئی حلقے نئے عام انتخابات کو موجودہ مسائل کے حل سے تعبیر کر رہے ہیں لیکن پیٹ کے بجائے دماغ سے سوچنے والے جانتے ہیں کہ نئی حکومت بھی روائیتی طور طریقوں سے ہی معاملات چلائے گی۔موجودہ صورتحال کے مطابق آئندہ عام انتخابات کا منظر نامہ یوں نظر آتا ہے کہ جہاں موجودہ بڑی جماعتوں کا پارلیمانی حجم کچھ کم ہو گا،تحریک انصاف کی صورت ایک نیا پارلیمانی گروپ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے کم ہوتے حجم میں اپنی جگہ بنائے گا۔اس طرح انتخابات کے بعد پانچ ،سات گروپ سامنے آئیں گے۔انتخابات سے پہلے ان گروپوں کے درمیان اتحاد ہوتانظر نہیں آتا،الیکشن کے بعد حکومت سازی کے لئے گروپ تو بن جائیں گے لیکن مفادات کی کھینچا تانی جاری رہے گی۔یوں گروپوں کی سیاست اور حکومت کے ماحول میں فیصلہ سازی کا توازن پھر سے مقتدر قوتوں کے ہاتھ آ جائے گا۔جس گروپ سے زیادتی ہو گی وہ اپنی شکایت لیکر اسی دربار جائے گا۔ ظاہری طور پر پیپلز پارٹی سابق مشرف حکومت کی طرح بدنامیوں کے ریکارڈ توڑتی جا رہی ہے اور اس پیپلز پارٹی کو دوبارہ حکومت میں نہ آنے کی بات کی جارہی ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب بھی وفاق میں پیپلز پارٹی کی ہی حکومت ہے۔1970ءسے اب تک ہونے والے انتخابات کے اعداد و شمار کے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بھٹو کے پہلے الیکشن سے 2007ءکے الیکشن تک پیپلز پارٹی نے ہر الیکشن میں 30سے 32فیصد ووٹ لئے جبکہ باقی تمام جماعتوں نے 60،64فیصد ووٹ لئے۔اب اس تناسب میں کمی کے باوجود آئندہ انتخابات میں دوبارہ پیپلز پارٹی ہی اقتدار میں آتی نظر آتی ہے(اگر حالات جوں کے توں رہتے ہیں)آئندہ عام انتخابات میںکسی ڈرامائی تبدیلی کی توقع کو ایک ’سہانا سپنا‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔عام انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ(ق ) کا ہو گا جس کا پارلیمانی حجم بہت زیادہ کم ہو جائے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرف دور میں کرائے گئے گزشتہ عام انتخابات کے وقت مسلم لیگ(ق) پنجاب میں حکومت کر رہی تھی اور شہروں کی مقامی برادریاںپنجاب میں حکومت میں ہونے کی وجہ سے ق لیگ کے ساتھ تھیں۔پھر مسلم لیگ(ن) نے پنجاب کی حکومت حاصل کی تو یہی مقامی برادریاں’ دھڑا دھڑ‘مسلم لیگ(ن) میں شامل ہو گئیں۔ان مقامی برادریوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہیں اپنے مفادات سے غرض ہے اور وہ ہر حکومت کے ساتھ مل جانے کو ہی عقلمندی تصور کرتی ہیں،یوں اگر ’بال ٹھاکرے ‘بھی حکومت میں آ جائے تو یہ اس کے بھی حمایتی بن جائیں گے۔

اسی دوران پیپلز پارٹی کی طرف سے 21 جون کو بے نظیر بھٹو مرحومہ کا یوم پیدائش منایا گیا ۔ پاکستان میں وفاقی حکومت میں ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی نے یہ دن ایک ”سیاسی حربے“ کے طور پر منایا۔ آزادکشمیر میں حکومت کی طرف سے بینظیر بھٹو مرحومہ کے یوم پیدائش کے حوالے سے ایک خصوصی سرکاری اشتہار اخبارات میں شائع کرایا گیا۔ اگر آزادکشمیر حکومت کے عہدیداروں کو مرحومہ بے نظیر بھٹو سے اتنی ہی ”عقیدت“ ہے تووہ اپنے ذاتی اخراجات سے اخبارات میں اشتہار شائع کرا سکتے تھے لیکن اس کے بجائے انہوں نے بینظیر بھٹو مرحومہ سے اپنی عقیدت کا اظہار سرکاری پیسے سے کرنے میںہی افادیت جانی۔ مسلمان کہلائے جانے والے لوگوں میں شخصیت پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ آزادکشمیر کے قدرتی آفات کے شکار ، بنیادی سہولیات سے محروم پسماندہ و غریب علاقے میں اپنے لیڈروں کی نمودونمائش کے لئے سرکاری و سائل کو استعمال کرنا خلاف قانون و خلاف ضابطہ ہی نہیں بلکہ ظلم اور زیادتی بھی ہے ۔ اس طرح کے اقدامات کرنے والی حکومت کو عوامی حکومت کے بجائے مجاور حکومت کہنا ہی مناسب معلوم ہوتاہے۔ اس حوالے سے یہ بات نہایت دلچسپ ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی برخاستگی کے ساتھ ہی آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی طرف سے شائع ہونے والے خیرمقدمی اشتہارات سے سید یوسف رضا گیلانی کی تصویر فوری طور پر ہٹا دی گئی ہیں۔ آزاد کشمیر میںپیپلز پارٹی کی طرف سے وفاداری کے یہ انداز نہایت دلچسپ ہیں۔

اس تمام صورتحال کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں اقتدار کی کھینچا تانی بدستور جاری ہے۔ ہماری رائے میں ناقابل برداشت مہنگائی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سے سسکتی عوام کو کم از کم معمول کی روزمرہ زندگی کا ماحول فراہم کرنے کے لئے ناگزیر ہے کہ ملک بھر میں ہنگامی طورپر بلاتخصیص کرپٹ عناصر کے خلاف وسیع پیمانے پر مہم شروع کی جائے ورنہ لوٹ مار ، عیاشیوں اور بربادیوں کا سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ملک میں عوام کو ظلم ،زیادتی،نا نصافی کا نشانہ بناتے ہوئے امریکہ،بھارت وغیرہ کے سامنے ”قومی غیرت“ کے ساتھ ڈٹ جانے کے دعوے قابل یقین معلوم نہیں ہوتے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699025 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More