کہتے ہیں سیاستدان ہمارے ہاں
کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا ۔پھر سیاستدان بھی گوجر خان کے راجہ پرویز
اشر ف جیسا۔جب وزیر اعظم گیلانی ابھی اپنے بیٹوں کو کرپشن کی ابتدائی تعلیم
دے رہے تھے اور حج اور ایفیڈرین سکینڈل کا ابھی کہیں نام تک نہ تھا۔انہی د
نوں میں اپنے یہ ممدوح ملک کی ساری بجلی رینٹل پلانٹس والوں کو بیچ کے اور
اپنی تجوریاں بھر کے مزے سے وزارت کی مالا گلے سے اتار،آرام سے گھر بیٹھ
گئے تھے۔ایسا آدمی جب ایک ایسی وزارت قبول کرتا ہے جس کا انجام سورج کی
روشنی کی مانند دو عالم پہ واضح ہے تو زیادہ نہ سہی ہر شخص جو راجہ صاحب کو
نہیں جانتا حیران ضرور ہوتا ہے۔گیلانی کسی کرپشن یا بد انتظامی کے الزام
میں راندہ ِ درگاہ نہیں ہوئے بلکہ وہ قانون کو ایک طرف رکھ کے پارٹی اور
شخصیت کے ساتھ وفا نبھاتے ملتان کی راہوں کے راہی ہوئے ہیں۔وہ کارگر اور
کاریگر آدمی تھے کہ انہوں نے تقریباََ ڈھائی سال تک ایک ایسے مقدمے کو طول
دیا جس کا فیصلہ چٹکیوں میں ہو سکتا تھا۔اس دفعہ لیکن عدالت نے بھی گیلانی
صاحب کے ساتھ وہی کیا جو اکثر سیاستدان عدالت کے ساتھ کرتے پائے جاتے
ہیں۔عدالت نے بھی انہیں ہر وہ مہلت دی جس کا شاید ہی کبھی گیلانی صاحب نے
سوچا بھی ہو۔وہ شہادت کے متمنی تھے لیکن عدالت نے انہیں ممی بنا کے سیاست
کے قبرستان میں دفن کر دیا۔
اب راجہ صاحب بھی تاریخ کے کچرہ دان میں ڈلنے کو تیار سہی لیکن کیوں! جو
لوگ پوٹھوہار کی سیاست سے ذرا بھی واقفیت رکھتے ہیں،یہ بات اچھی طرح جانتے
ہیں کہ گوجر خان سے اگلے پنج سالے میں راجہ صاحب کا جیتنا نا ممکنات میں سے
ہے۔اب وزیر اعظم بننے کے بعد اگر وہ ووٹوں کی کوئی لمبی فصل کاشت کر بھی
لیں تو اسے کاٹنے کو ان کا ولی عہدموجود ہے۔خود وہ ہفتے عشرے میں ہی نااہل
ہونگے اور پھر ساری زندگی سابق وزیر اعظم کا پروٹوکول بھی انجوائے کریں گے
او ر چند روزہ وزارتِ عظمیٰ کی بدنامی کے عوض ملنے والا تاوان بھی۔جسے
اسمبلی نے ابھی پچھلے دنوں ہی پاس کیا ہے۔ اس کے باوجود میں کہتا ہوں کہ
راجہ صاحب نے گھاٹے کا سودا کیا۔نواز شریف کا بھی یہی خیال ہے۔عمران خان کا
بھی یہی کہنا ہے۔وکلاءاور سول سوسائٹی کا بھی یہی اصرار ہے۔اور تو اور راجہ
رینٹل اور راجہ بجلی کے نام تو عوام کے عطاکردہ ہیں۔اشرافیہ کا ایک حصہ
چونکہ اس شخص کے ساتھ ہے اس لئے کل اسمبلی میں انہیں ۴۱۲ ووٹ ملے۔مولٰنا
فضل نے حسب روایت حقیقت پسندی اور اصول پسندی کا مظاہرہ کیا اور انہوں نے
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کی سیاست کی ایک اور سیڑھی بڑی حکمت
کے ساتھ طے کر لی۔اب اس اصول پسندی کا صلہ انہوں نے کس رنگ میں وصولنا
ہے۔یہ کچھ دنوں بعد ہی معلوم ہو سکے گا۔
پیپلز پارٹی کی تو خیر رہنے دیجئیے کہ ان کی تو آنکھوں پہ پردہ اور کانوں
پہ مہر ہے لیکن ق لیگ ،ایم کیو ایم ،اے این پی کیا یہ عوامی نمائیندے
نہیں۔کیا انہوں نے کل دوبارہ عوام کے پاس نہیں جانا۔کیا یہ واقعی عوام کے
جذبات سے بے بہرہ ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ رائے عامہ واقعی زرداری کے ساتھ
ہو۔اگلی باری پھر زرداری کا نعرہ واقعی سچ ہے۔کہیں یہ سب ڈرامہ بازی تو
نہیں یا نام نہاد اپوزیشن کی نورا کشتی۔ہمیں جنہیں قانون کی بالادستی ،انصاف
کی حکمرانی اور اس طر ح کے دوسرے نعرے پریشان کرتے ہیںیہ ضرور سوچنا چاہیے
کہ اگر اس ملک کے بیس کروڑ لوگوں کے نمائیندوں کی اکثریت ہی یہ چاہتی ہے کہ
راجہ رینٹل جیسے لوگ ان کے وزیر اعظم ہوں تو پھر ہمیں بھی اس وقت تک صبر
کرنا چاہئیے جب تک عوام الناس کا ذہن اس برائی کو برائی سمجھنا شروع کر
دیں۔ |