جہاز ہوامیں اڑتاہے ،ٹنوں ،منوں وزنی جہاز
پانی میں سفر کرتاہے ،۔بلڈنگز میں لگی لفٹ جو پل بھر میں ایک منزل سے دوسری
میں پہنچادے کبھی گردو نواح میں ہونے والی ترقی پر ،تحقیق پر ،تیکنیک پر
غور کیا؟ میرے خیال میں اکثریت کا جواب نفی میں ہوگا۔پہلا جواب تو یہی ہوگا
کہ وقت نہیں دوسرا یہ کہ مجھے دلچسپی نہیں ۔حالانکہ یہ دونوں جواب غیرمناسب
ہیں ۔خیر میں اپنے اصل کی موضوع کی طرف آرہاہوں ۔کہ آپ ذراتوجہ کیجیے گاکہ
اِسلام کا فلسفہ زندگی دیگر اَدیانِ باطلہ کی طرح ہرگز یہ نہیں کہ چند
مفروضوں پر عقائد و نظریات کی بنیادیں اُٹھا کر اِنسان کی ذِہنی صلاحیتوں
کو بوجھل اور بے معنی فلسفیانہ مُوشگافیوں کی نذر کر دِیا جائے اور حقیقت
کی تلاش کے سفر میں اِنسان کو اِس طرح ذِہنی اُلجھاؤ میں گرفتار کر دِیا
جائے کہ اُس کی تمام تر تخلیقی صلاحیتیں مفلوج ہو کر رہ جائیں۔ اِسلام نے
کسی مرحلہ پر بھی اِنتہاء پسندی کی حوصلہ اَفزائی نہیں کی، بلکہ اِس کے
برعکس اِسلام کی فطری تعلیمات نے ہمیشہ ذہنِ اِنسانی میں شعور و آگہی کے
اَن گنت چراغ روشن کر کے اُسے خیر و شر میں تمیز کا ہنر بخشا ہے۔ اِسلام نے
اپنے پیروکاروں کو سائنسی علوم کے حصول کا درس دیتے ہوئے ہمیشہ اِعتدال کی
راہ دِکھا ئی ہے۔ اِسلام نے اِس کارخانہئ قدرت میں اِنسانی فطرت اور نفسیات
کے مطابق اِنسان کو اَحکامات اور ضابطوں کا ایک پورا نظام دِیا ہے اور اُس
کے ظاہر و باطن کے تضادات کو مٹا کر اُسے اپنے نصبُ العین کی سچائی کا شعور
عطا کیا ہے۔
محترم قارئین اگر آپ ماضی کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو یہ حقیقت اپنی
جملہ توانائیوں کے ساتھ ہمارے ذِہن پر روشن اور واضح ہوتی ہے کہ آفاق
(universe) اور اَنفس (human life) کی رہگزر فکر و نظر کے اَن گنت چراغوں
سے منوّر ہے۔ غور و خوض اور تفکر و تدبر حکمِ خداوندی ہے، کیونکہ تفکر کے
بغیر سوچ کے دروازے نہیں کھلتے اور اگر یہ دروازے مقفّل رہیں تو تاریخ کا
سفر گویا رُک جاتا ہے اور اِرتقائے نسلِ اِنسانی کی تاریخ اندھیروں میں گم
ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں نے اپنے سفر کی اِبتدائی صدیوں میں تفکر و تدبر کے
ذرِیعہ سائنسی علوم میں نہ صرف بیش بہا اِضافے کئے بلکہ اِنسان کو قرآنی
اَحکامات کی روشنی میں تسخیرِ کائنات کی ترغیب بھی دی۔ چنانچہ اُس دَور میں
بعض حیران کن اِیجادات بھی عمل میں آئیں اور سائنسی علوم کو اَیسی ٹھوس
بنیادیں فراہم ہوئیں جن پر آگے چل کر جدید سائنسی علوم کی بنیاد رکھی گئی۔
قران مجید جو منبع علم و ااگاہی ہے جس میں ہر خشک و ترکا علم موجودہے اس نے
وہ وہ سائنسی دریچے کھولے کہ آج سائنس کی اساس اسلام دکھائی دیتاہے ۔آئیے
قران ہی سے عرض کرتے ہیں اپنے علم کے دروازے ہمارے لیے کشادہ فرما:
إِنَّمَا یَخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء ُ.(فاطر، 35 : 28)
ترجمہ :اللہ سے تو اُس کے بندوں میں سے علم والے ہی ڈرتے ہیں (جو صاحبِ
بصیرت ہیں)۔
قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ
إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِO(الزمر، 39 : 9)
ترجمہ :آپ فرما دیجئے کہ علم والے اور بے علم کہیں برابر ہوتے ہیں! تحقیق
سوچتے وُہی ہیں جو صاحبِ عقل ہیںo
وَالَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ(المجادلہ، 58 : 11)
اور جنہیں علم عطا کیا گیا ہے (اﷲ) اُن لوگوں کے درجے بلند کرے گا۔
وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِینَO(الاعراف، 7 : 199)
ترجمہ :اور جاہلوں سے کنارہ کشی اِختیار کر لیںo
وَمَا یَذَّکَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الْأَلْبَابِO(آل عمران، 3 : 7)
اور نصیحت صرف اہلِ دانش ہی کو نصیب ہوتی ہےo
وَقُل رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًاO(طہٰ، 20 : 114)
ترجمہ :اور آپ (ربّ کے حضور یہ) عرض کریں کہ اَے میرے رب! مجھے علم میں اور
بڑھا دےo
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَO(العلق، 96 : 1)
ترجمہ:(اے حبیب!) اپنے ربّ کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیئے جس نے (ہر
چیز کو) پیدا فرمایاo
فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَO(النحل، 16 :
43)
ترجمہ :سو تم اہلِ ذِکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہوo
کائنات میں غوروفکر کی ترغیب
إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ
وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِی تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنفَعُ
النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّہُ مِنَ السَّمَاء ِ مِن مَّاء ٍ فَأَحْیَا بِہِ
الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیہَا مِن کُلِّ دَآبَّۃٍ وَتَصْرِیفِ
الرِّیَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَیْنَ السَّمَاء ِ وَالأَرْضِ
لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَO(البقرہ، 2 : 164)
ترجمہ :بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دِن کی گردش میں اور
اُن جہازوں (اور کشتیوں) میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں
اُٹھا کر چلتی ہیں اور اُس (بارش) کے پانی میں جسے اللہ آسمان کی طرف سے
اُتارتا ہے، پھر اُس کے ذریعے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے،
(وہ زمین) جس میں اُس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں اور ہواؤں کے رُخ
بدلنے میں اور اُس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکمِ الٰہی کا)
پابند (ہو کر چلتا) ہے (اِن میں) عقلمندوں کے لئے (قدرتِ الٰہیہ کی بہت سی)
نشانیاں ہیںo
إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ
وَالنَّہَارِ لَآیَاتٍ لِّأُوْلِی الْأَلْبَابِO الَّذِینَ یَذْکُرُونَ
اللّہَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَی جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِی
خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذَا بَاطِلاً
سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِO(آل عمران، 3 : 190، 191)
ترجمہ :بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ
سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیںo یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا
نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا اَدب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے)
اپنی کروَٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی
تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں (پھر
اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہو کر پکار اُٹھتے ہیں : ) اَے ہمارے رب! تو نے
یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔ تو (سب کوتاہیوں اور
مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لےo
إِنَّ فِی اخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَمَا خَلَقَ اللّہُ فِی
السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَّقُونَO(یونس، 10 : 6)
ترجمہ :بیشک رات اور دِن کے بدلتے رہنے میں اور اُن (جملہ) چیزوں میں جو
اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا فرمائی ہیں اُن لوگوں کے لئے نشانیاں
ہیں جو تقویٰ رکھتے ہیںo
وَہُوَ الَّذِی مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِیہَا رَوَاسِیَ وَأَنْہَارًا
وَمِن کُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِیہَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی
اللَّیْلَ النَّہَارَ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَO
وَفِی الْأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ
وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَغَیْرُ صِنْوَانٍ یُسْقَی بِمَاء ِ وَاحِدٍ
وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلَی بَعْضٍ فِی الْأُکُلِ إِنَّ فِی ذَلِکَ
لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَO(الرعد، 13 : 3، 4)
ترجمہ :اور وُہی ہے جس نے (گولائی کے باوُجود) زمین کو پھیلایا اور اُس میں
پہاڑ اور دریا بنائے اور ہر قسم کے پھلوں میں (بھی) اُس نے دو دو (جنسوں کے)
جوڑے بنائے، (وُہی) رات سے دِن کو ڈھانک لیتا ہے، بیشک اِس میں تفکر کرنے
والے کے لئے (بہت) نشانیاں ہیںo اور زمین میں (مختلف قسم کے) قطعات ہیں جو
ایک دُوسرے کے قریب ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیتیاں ہیں اور
کھجور کے درخت ہیں جھنڈدار اور بغیرجھنڈ کے، اُن (سب) کو ایک ہی پانی سے
سیراب کیا جاتا ہے اور (اُس کے باوُجود) ہم ذائقہ میں بعض کو بعض پر فضیلت
بخشتے ہیں۔ بیشک اِس میں عقلمندوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیںo
ہُوَ الَّذِی أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً لَّکُم مِّنْہُ شَرَابٌ
وَمِنْہُ شَجَرٌ فِیہِ تُسِیمُونَO یُنبِتُ لَکُم بِہِ الزَّرْعَ
وَالزَّیْتُونَ وَالنَّخِیلَ وَالْأَعْنَابَ وَمِن کُلِّ الثَّمَرَاتِ إِنَّ
فِی ذَلِکَ لَآیَۃً لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَO(النحل، 16 : 10، 11)
ترجمہ :وُہی ہے جس نے تمہارے لئے آسمان کی جانب سے پانی اُتارا، اُس میں سے
(کچھ) پینے کا ہے اور اُسی میں سے (کچھ) شجرکاری کا ہے (جس سے نباتات، سبزے
اور چراگاہیں اُگتی ہیں) جن میں تم (اپنے مویشی) چراتے ہوo اُسی پانی سے
تمہارے لئے کھیت اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل (اور
میوے) اُگاتا ہے۔ بیشک اِس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے نشانی ہےo
جی قارئین کرام :کیا کہتے ہیں آپ اسلام نے کس قدر وضاحت کے ساتھ سائنس کو
پیش کیاہے ۔مطالعہ کو اپنا معمول بنالیں پھر دیکھیں کہ کیسے کیسے عقدے
کھلتے ہیں ۔بارہا دیکھا گیا کہ ہم بڑے سکوں سے کہ دیتے ہیں مجھے کیا پتہ یہ
کیسے ہوا؟ایسا ہرگز نہ کریں بلکہ آپ علم کی چلتی پھرتی لائیبریری بن جائیں
اور دوسروں کو بتائیں کہ یہ ایساہوا۔ |