برجستہ گوئی
ابو الخطاب عمر بن عامر السعدی یہ واقعہ نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے موسیٰ
ہادی کی مدح سرائی میں یہ شعر کہا:
’’آج تک جتنوں نے اپنے قبیلے کی کفالت کی اور جتنوں کو آج تک قبیلہ مضر نے
اپنا حاکم بنایا اے ان سب میں بہتر شخص!‘‘
موسیٰ نے کہا:’’اے ضرور تمند!وہ سب سے بہتر نہیں، سوائے. کس کے ؟
عمر نے سانس لئے بغیر پہلے شعر کے ساتھ دوسرا شعر بھی پڑھ دیا۔
’’سوائے اللہ کے رسول
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے،کیونکہ آپ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ فضیلت حاصل ہے، آپ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
اس فضیلت ہی کی وجہ سے ﴿اے موسیٰ﴾ تو فخر کرتا ہے‘‘۔
موسیٰ اور اس کے ساتھ دیگر حاضرینِ مجلس یہ سمجھے شاید دوسرا شعر پہلے کے
ساتھ ہی ہے،غزل نامے میں دیکھا تو پہلے کے ساتھ دوسرا شعر نہیں تھا، عمر نے
وہ شعر اپنی ذہانت سے برجستہ کہا تھا،چنانچہ اس پر موسیٰ نے عمر بن عامر
السعدی کودگنا انعام دیا۔﴿ابن رشیق: العمدۃ، ۱/۵۶۱﴾
یہ کوئی کمال نہیں
شاعر ابو تمام حبیب بن اوس الطائی﴿مرتب دیوان الحماسہ﴾ کی ذہانت اور برجستہ
گوئی کا عجیب قصہ یہ ہے کہ انہوں نے ابو یعقوب بن اسحاق الکندی کی موجودگی
میں احمد بن معتصم﴿یہ عباسی خلیفہ کے بیٹے ہیں﴾ کی تعریف میں یہ شعر کہا:
’’﴿یہ خلیفہ کا بیٹا﴾ عمرو کی طرح حاتم کی سخاوت،احنف کی بردباری اور ایاس
کی ذہانت میں پیش قدمی کر رہا ہے‘‘
کندی نے کہا:’’تو نے تعریف میں کوئی کمال نہیں کیا، امیر المومنین کے بیٹے
اور مسلمانوں کے ولی عہد کو تو نے عرب کے کمیوں سے تشبیہ دی ہے، یہ لوگ کون
ہیں؟ اور عربوں میں ان کی کیا حیثیت ہے؟ ابو تمام نے تھوڑی دیر سر جھکایا
اور پھر کہا:
۱﴾میں نے خلیفہ کے بیٹے کو جو دوسخااور قوت و طاقت میں اس سے کمترسے جو
تشبیہ دی ہے اسے بری نظر سے نہ دیکھو۔
۲﴾کیونکہ اللہ نے اپنے نور کی مثال چراغداں اور چراغ سے دی ہے جو نورِ
الہٰی سے کمتر ہیں﴿بلکہ اس سے انہیں کوئی نسبت ہی نہیں﴾﴿ابن رشیق: العمدۃ،۱/۹۷۲﴾
سب سے بڑا شاعر کون؟
عبد الملک بن مروان﴿ جواموی خلیفہ ہیں﴾ کے شاہی دربار میں جریر، فرزدق اور
اخطل جمع ہوئے، خلیفہ عبدالملک نے پانچ سودرہم کی ایک تھیلی ان کو دکھائی
اور کہا’’ہر ایک اپنی تعریف میں شعر کہے، جو غالب رہے گا یہ تھیلی اس کو
ملے گی‘‘۔
فرزدق نے ابتدائ کی اور کہا:
میں تریاق ہوں، دیگر شعرائ خارشی اونٹوں کی مانند ہیں اور تریاق میں خارشی
اونٹوں کا علاج ہے۔
اخطل بولے:اگر تم سواری پر رکھے ہوئے مشکیزے ہو تو میں وہ طاعون ہوں جو ایک
لا علاج مرض ہے۔﴿مطلب یہ کہ میں ایسا شاعر ہوں کہ میرا کوئی جواب نہیں﴾
جریر نے یہ شعر کہا:
میں وہ موت ہوں جو تم سب کو فنا کر دے گی، مجھ سے بھاگ کر کوئی نجات نہیں
پا سکتا۔﴿الا زدی:بدائع، ص ۰ ۲﴾
بڑھاپے کی بابت بشار کی ایک خاتون سے گفتگو
ایک خاتون نے بشار سے کہا:’’اگر آپ کی داڑھی اور سر کے بال سیاہ ہوتے تو آپ
کس طرح کے ہوتے؟‘‘ بشار نے کہا’’کیا تجھے معلوم نہیں سفید باز سیاہ کووں سے
زیادہ قیمتی ہوتا ہے؟‘‘
خاتون نے کہا’’آپ کی بات کانوں کو تو بڑی بھلی لگتی ہے لیکن ایسا کون ہوگا
جسے آپ کابڑھاپا دیکھنے میں اسی طرح پسند ہو جیسے آپ کی بات سننے میں اچھی
ہے‘‘ اس کے بعد بشار کہا کرتا تھا ’’مجھے آج تک اس عورت کے سواکسی نے
لاجواب نہیں کیا‘‘﴿الاصفہانی: الاغانی۳/۱۰۲﴾
وہ سب فاطمہ(رض) کی اولاد ہیں
کسی رئیس کی بیٹی پیدا ہوئی، غصہ کی وجہ سے انہوں نے گفتگو ترک کر دی اور
سخت غمزدہ ہوئے، محمدبن مغیث المغربی(رح) نے ان کو خط میں لکھا:
۱﴾ اگر آپ بیٹی کے باپ بنے ہیں تو آپ غم واندوہ کو سینے میں دبا کر غمزدہ
نہ ہوں
۲﴾ کیونکہ نبی ہادی﴿
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ﴾ کی تمام اولاد حضرت فاطمہ(رض) کے دوبیٹوں سے ہے
رئیس کو بر موقع کہی ہوئی یہ بات پسند آئی اور محمد بن مغیث المغربی کو
انعام دیا۔﴿ الصفدی: الوافی، ۵/۸۴﴾
بیٹیوں سے نفرت
ابو حمزۃ الصبی کی بیوی نے جب بیٹی جنم دی تو انہوں نے اپنی بیوی کے خیمے
میں آنا تر ک کر دیا اور اپنے خیمے کے متصل پڑوسی کے گھر میں رات گزارنے
لگے، ایک دن ان کا گذر اپنے خیمے سے ہوا تو ان کی بیوی اپنی بچی کو کھلا
رہی تھی اور کہہ رہی تھی:
۱﴾ ابو حمزہ کو کیا ہو گیا کہ وہ ہمارے پاس نہیں آتے، ہمارے ساتھ والے گھر
میں رہتے ہیں۔
۲﴾وہ اس بات پر ناراض ہیں کہ ہم نے بیٹوں کو کیوں جنم نہیں دیا، بخدا یہ
ہمارے بس میں نہیں ہے۔
۳﴾ہمیں جو ﴿اوپر سے﴾ ملتا ہے ہم صرف وہی لے سکتی ہیں، ہماری مثال.کا
شتکاروں کی زمین کی سی ہے۔
۴﴾ہم وہی اُگا سکتی ہیں جو وہ کاشت کرتے ہیں۔
شیخ ابو حمزہ اشعار سن کر گھر کی جانب چلے، خیمے میں داخل ہوئے اور اپنی
بیوی اور بیٹی کے ماتھے کا بوسہ لیا۔﴿الجاحظ: البیان،۱/۶۸۱﴾
خطوط کا دیوان لکھوانے کے لئے شادی نہیں کرنی
ابو العینائ کہتے ہیں ’’ میں نے ایک عورت کو پیغامِ نکاح بھیجا ، اس نے
مجھے بدصورت سمجھ کر ٹھکرا دیا، میں نے اس کوایک شعرلکھ لکھا:
اگر میری بدصورتی کی وجہ سے مجھ سے نفرت کرتی ہو تو﴿ سن لو﴾ میں ایک روشن
خیال ادیب ہوں، میں کندذہن اور خشک مزاج نہیں ہوں۔
عورت نے جواب دیا:’’ میں نے خطوط کا دیوان لکھوانے کے لئے آپ سے شادی نہیں
کرنی‘‘۔ ﴿ النو یری: نھایۃ الادب، ۲/۲۲﴾
عورتوں کی احسان فراموشی
کہا جاتا ہے کہ اشبیلیہ کے بادشاہ معتمد بن عبارنے ’’رُمَیْکِیّہ ‘‘ نامی
ایک عورت سے شادی کی، دونوں نے خوشی خوشی ایک لمبا عرصہ گذارا جس کی آرزو
ہر انسان اپنے دل میں رکھتا ہے، ایک دن ایسا ہوا کہ’’ رمیکیہ‘‘ نے کچھ
عورتوں کو کیچڑ میں چلتے ہوئے دیکھا، اس کے دل میں بھی اس کی خواہش پیدا
ہوئی، معتمد نے اس کی خواہش پوری کرنے کے احکامات جاری کئے، دیکھتے ہی
دیکھتے محل کے لان میں خوشبودار بوٹیاں کوٹ کر باریک شکل میں پھیلا دی
گئیں،چھلنیاں لگا کر ان پر سے عرق گلاب خوشبودار پھولوںپر چھڑکا گیا اور
اسے ہاتھوں سے گوند کر مکمل کیچڑ کی شکل دیدی گئی، بعد ازیں’’رمیکیہ‘‘ اپنی
ہمجولیوں کے ہمراہ کیچڑ میں اُتری اور چلنے لگی، یہ ایک یادگار دن بن گیا،
ایک دن معتمد کا’’ رمیکیہ‘‘ سے جھگڑاہوگیا اوردونوں ایک دوسرے سے ناراض ہو
گئے،’’رمیکیہ‘‘ نے قسم کھا کر کہا:’’ میں نے تجھ سے کبھی کوئی خیر﴿نیکی،
بھلائی﴾ نہیں دیکھی، معتمد نے کہا:’’ کیچڑکے دن بھی نہیں؟‘‘ ’’رمیکیہ‘‘ کو
شرمندگی ہوئی اور اس نے معتمد سے معذرت کر لی۔﴿البر قوقی: دولۃ النسائ،
ص۵۷۴﴾ |