حیرت انگیز خبر

میں صبح اُٹھ کر اللہ کے فضل و کرم سے نماز پڑھتاہوں ،حسبِ توفیق قران کی تلاوت کرتاہوں لیکن اک بات مجھے پریشان کیے چلے جارہی تھی یار مجھے رونا کیوں نہیں آتا ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ جتنارونا تھابچپن میں رولیا،سنتے آرہے ہیں کہ فلاں قران کی فلاں آیت پڑھتاتو تڑپ کا گر جاتا،فلاں قران کی خوفِ خداوالی آیت پڑھ کر فوت ہوگیا،فلاں کے سیل اشک رواں ہوگئے ،یارظہورچکر کیاہے ۔تیرے آنسو ختم تو نہیں ہوگئے ۔لیکن جب کسی غم و ملال میں آنکھیں چھلک گئیں تو پتا چلا آنسو تو کافی حد تک سٹور ہیں ۔سوچ بچار کے بعد پتاچلا۔غبار آلوددل کی نرمی ختم ہوگئی ہے ۔سمجھتے ہو تاثیرپانے کی سکت نہیں ،پڑھتے ہو سلیقہ فیض لینے کا نہیں آتا ۔چنانچہ اپنے دل کی اس پیاس کو بجھانے اور آپ کو بھی یہ فکر دینے کے خداراہ قران کی روح کو پانے کی کوشش کریں ،ایسا پائیں جیسا کہ ہمارے اسلاف نے پایا۔تو پڑھیے یہ حکایت اور اسے اپنے لیے قابل ِ عمل و قابل تقلید بنالیجیے ۔

تصوف کی کتابوں میں ملتاہے کہ ایک نیک طینت اللہ عزوجل کے پاکباز بندے حضرت ابن سماک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـــیْہ ایک مرتبہ صالح مری رحمۃ اللہ کے پاس تشریف لے گئے ،صالح مری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ہمارے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا:اپنے یہاں کے عبادت گزار وں کی عجیب اور حیرت انگیز چیزوں میں سے کچھ دکھاؤ۔میں انہیں محلے کے ایک گھر کے پاس لے گیا ۔ہم اجازت لے کر اندر داخل ہو ئے ۔کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کھجور کے پتوں سے کچھ چیزیں بنا رہا تھا ۔ میں نے اس کے سامنے یہ آیت مبارکہ پڑھی:إِذِ الْأَغْلَالُ فِی أَعْنَاقِہِمْ وَالسَّلَاسِلُ یُسْحَبُونَOفِی الْحَمِیمِ ثُمَّ فِی النَّارِ یُسْجَرُون (المومن: ٧١،٧٢پارہ ٢٤)تو اس نے ایک چیخ ماری اور غش کھا کر گر پڑا۔ چنانچہ ہم اسے اسی حالت میں چھوڑ کر اس کے پاس سے نکل گئے۔پھر ہم دوسرے کے پاس پہنچے اوراس کے سامنے بھی میں نے یہی آیت مبارکہ پڑھی تو اس نے ایک چیخ ماری اور غش کھا کر گر پڑا۔پھر ہم تیسرے کے پاس پہنچے اور اس سے اندر آنے کی اجازت مانگی تواس نے کہا:اگر تم ہمیں ہمارے رب سے غافل نہ کروتوداخل ہو سکتے ہو۔ میں نے اس کے سامنے یہ آیت مبارکہ پڑھی:ذَلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِی وَخَافَ وَعِیدِ (ابراہیم:١٤پارہ ١٣)اس نے بھی ایک چیخ ماری اوراس کے نتھنوں سے خون نکلنے لگا اور وہ اپنے خون میں تڑپنے لگا حتی کہ اس کی حرکت رک گئی۔ہم اسے اسی حالت میں چھوڑ کر چلے گئے۔ میں نے حضرت ابن سماک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـــیْہ کو چھ آدمیوں کے پاس پھرایا ہم ان میں سے ہر ایک کو حالت ِ غشی میں چھوڑ کر چلے جاتے ۔پھر میں ان کو ساتویں کے پاس لے کر آیا اور ان سے اجازت مانگی تو گھر کے اندر سے ایک عورت نے دروازے کے پیچھے سے کہا:آجاؤ! چنانچہ ہم اندر داخل ہو گئے کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بہت بوڑھا شخص مصلے پر بیٹھا ہوا ہے ہم نے اسے سلام کیا لیکن اسے ہمارے سلام کا پتہ نہ چلا ۔میں نے بلند آواز سے کہا :سنو! کل لوگوں نے ایک جگہ کھڑا ہونا ہے۔ بوڑھے نے کہا :تجھ پر افسوس ہے ! کس کے سامنے کھڑا ہونا ہے؟ پھر وہ حیرت میں پڑگیا،اس کا منہ کھلا کا کھلارہ گیا اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور کمزور سی آواز کے سا تھ اوہ اوہ کرنے لگا حتی کہ یہ آواز بھی ختم ہو گئی اس کی بیوی نے کہا:آپ حضرات تشریف لے جائیے اس وقت آپ لوگ ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔(صالح مری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـــیْہ کہتے ہیں) پھر اس کے بعد جب میں نے لوگوں سے ان سب کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ تین کو افاقہ ہو گیا تھا اور تین اپنے رب سے جا ملے تھے جب کہ بو ڑھا شخص تین دن تک اسی حالت میں مبہوت و حیران رہا حتی کہ اس نے کوئی فرض نما زبھی ادا نہ کی اور تین دن بعد اصلی حالت پر آیا۔

محترم قارئین :میراآپ سے یہ سوال ہے کہ یہ سب کیا ہے ؟یہ سب کیسے ممکن ہوا؟یہ فضل وکمال کے مرتبے کیسے ملے ؟ضرور سوچیے گاجب جواب مل جائے تو اس پرعمل کی کوشش بھی کیجیے گا۔اپنی آراء سے ضرور نوازیے گاکیا معلومات لکھے گئے کالم پر آپ کے اصلاحی کلمات میری اور آپ کی بخشش کا ذریعہ بن جائیں ۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 594247 views i am scholar.serve the humainbeing... View More