زندگی (دلوں کو چھوتی ایک کہانی)

’’مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ آپ کو یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ آپ کی بیٹی کو ’’بلڈ کینسر‘‘ ہے۔ اس چھوٹی سی عمر میں اس خطرناک بیماری کا ہونا عجیب تو ہے مگر یہ سچ ہے‘‘۔
ڈاکٹر نے دکھ اور کرب بھری آواز میں ’’کائنات‘‘ کے بابا کو آخر کار یہ کڑوا سچ بتا دیا۔
’’کیا واقعی.!!‘‘ کائنات کے بابا نے اپنے آپ کو بمشکل سنبھالتے ہوئے ڈاکٹر سے ایک بار پھر پوچھنا چاہا، جو کچھ انہوں نے ابھی سنا تھا اس پر انہیں یقین نہیں آرہا تھا۔
’’جی ہاں چوہدری صاحب! واقعی آپ کی بیٹی کو کینسر ہے، تمام رپورٹس دیکھنے کے بعد ہی میں آپ سے اس بارے میں بات کر رہا ہوں‘‘۔ ڈاکٹر نے جواب دیا۔

چوہدری صاحب کو یوں لگا جیسے ڈاکٹر صاحب بات نہ کر رہے ہوں بلکہ ان کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال رہے ہوں، ان کی نم آنکھوں کے سامنے کائنات کا حسین اور معصوم چہرہ آگیا، وہ ان کی اکلوتی اولاد تھی، سب کی آنکھوں کا تارا اور خاندان بھر کی لاڈلی تھی، کوئی اس کی آنکھوں میں جھانکتا تو اسے ان معصوم آنکھوں میں پوری کائنات نظر آتی تھی، پھول سی اس بچی کو ایسی خطرناک بیماری سب کے لئے ایک ’’شاک‘‘ بن گئی، وہ جب سے اسپتال آئی تھی اپنی معصومانہ باتوں سے سب کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا، حالانکہ وہ ابھی صرف سات سال کی تھی، اسے معلوم نہ تھا کہ وہ اتنی خطرناک بیماری کا شکار ہوگئی ہے۔
’’ڈاکٹر صاحب! کتنا وقت ہے میری بچی کے پاس؟‘‘ چوہدری صاحب نے رومال سے اپنی آنکھوں میں آئے آنسوئوں کو صاف کرتے ہوئے پوچھا۔

’’کچھ کہہ نہیں سکتے، ہر ماہ میں دوبار اس کا خون تبدیل کیا جائے گا، اس کی خوراک کی خاص طور پر دیکھ بھال کرنی ہوگی، پھر بھی رپورٹس کے مطابق زیادہ سے زیادہ دو سال تک شاید کائنات ہم سے بچھڑ جائے، یہی خدا کی مرضی ہے اور خدا جو کرتا ہے ہمارے بھلے کے لئے کرتا ہے‘‘۔ ڈاکٹر نے ’’چوہدری صاحب‘‘ کے کندھے تھپتھپاتے ہوئے تسلی دی اور دروازے سے باہر چلا گیا۔

’’بابا چلیں.!! دیکھیں میں اب بالکل ٹھیک ہوگئی ہوں‘‘۔ کائنات نے اپنے بابا کو کمرے میں داخل ہوتا دیکھ کر چہکتے ہوئے کہا۔

ہاں بیٹی، گھر چلتے ہیں، تمہاری امی بھی منتظر ہوں گی، کائنات کے بابا نے اپنے اندر کے درد کو چھپاتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر جواب دیا، یہ سنتے ہی کائنات اسپتال کے بیڈ سے نیچے اتری اور دوڑ کر اپنے بابا کے گلے لگ گئی۔

’’بابا! آپ کتنے اچھے ہیں نا، کیا دنیا کے سارے بابا آپ جیسے ہوتے ہیں؟‘‘ کائنات کے بابا یہ سن کر مسکرا دئیے اور کائنات کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنی گردن ہاں میں ہلادی۔

’’آگئی میری بیٹی‘‘ کائنات کی امی نے کائنات کو گھر میں داخل ہوتے ہوئے دوڑ کر گلے سے لگالیا۔ اب دیکھنا، میری بیٹی بہت جلد ٹھیک ہوجائے گی۔

’’امی جان! میں تو بیمار ہوں ہی نہیں، میں تو بالکل ٹھیک ہوں، آپ لوگ یوں ہی پریشان ہو رہے ہیں‘‘ کائنات نے اپنی امی کے گلے میں اپنی باہوں کو ڈالتے ہوئے کہا۔

’’آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں؟ جب سے کائنات کے ساتھ اسپتال سے آئے ہیں چپ چاپ اور اداس سے ہیں؟ کیا بات ہے؟ کیا چھپا رہے ہیں مجھ سے؟‘‘۔ کائنات کی امی نے آخر کار شام کو چوہدری صاحب کے چہرے پر پریشانی دیکھ کر آخرکار پوچھ ہی لیا۔

’’نہیں میں تو پریشان نہیں، تمہیں یوں ہی محسوس ہو رہا ہے‘‘۔ کائنات کے ابو نے اپنے چہرے پر چھائی مردنی کو زبردستی چھپاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔

’’نہیں کائنات کے ابو! آپ مجھ سے کچھ چھپا رہے ہیں، اب تو یقینی بات ہے آپ کو وہ بات مجھے بتانی ہوگی جو نہیں بتانا چاہ رہے‘‘۔ کائنات کی امی نے ضد کرتے ہوئے کہا۔ ایک انجانے خوف سے ان کا دل دھڑک رہا تھا۔

’’ٹھیک ہے اگر سننا چاہتی ہو تو دل تھام کے سننا، کائنات کو بلڈ کینسر ہے اور وہ ہمارے پاس چند عرصے کی مہمان ہے‘‘۔ کائنات کے ابو نے آخر کار سچ بتلا ہی دیا۔

نہیں ایسا کیسے ہوسکتا ہے وہ ابھی بچی ہے، اسے کیسے اتنی خطرناک بیماری؟۔ کائنات کی امی کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، پل بھر میں ان کو لگا جیسے ان کے جسم میں سے کسی نے روح نکال دی ہو، کائنات ان کی اکلوتی اولاد تھی، وہ بھی کچھ مدت کی مہمان بن کر آئی تھی، وہ زار و قطار رو رہی تھی، آنسو ان کے چہرے کو بھگو رہے تھے، دل کے اندیشے آخر کار سچ ثابت ہوئے تھے، کائنات کے ابو اپنی زوجہ کو یوں روتا دیکھ کر خود بھی صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے اور پتا ہی نہ چلا کب آنکھیں نم ہوگئیں۔

ہنستے بستے گھر میں ایک دم سے خاموشی چھا گئی جہاں کبھی خوشیاں تھیں آج وہاں دکھ، درد نے بسیرا کیا ہوا تھا، دونوں نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا کہ کائنات کو کسی صورت میں اس بیماری کا نہیں بتائیں گے، اس کی دیکھ بھال کریں گے، اور اسے اسے بیماری سے نجات دلا کر رہیں گے، کائنات ہماری زندگی ہے اور ہم اپنی زندگی کی ہر ممکن حفاظت کریں گے۔

دن یونہی گزرنے لگے، کائنات کی صحت دن بدن گرتی جارہی تھی، لیکن وہ پہلے سے زیادہ چہکنے لگی تھی، ایسا لگتا تھا جیسے وہ زندگی سے دور نہیں بلکہ زندگی اس کے قریب آرہی ہو، وہ اپنی معصومانہ باتوں سے سب کا دل موہ لیتی تھی، کچھ دنوں سے وہ محسوس کر رہی تھی کہ اس کے امی، بابا اداس رہنے لگے ہیں، وہ جب اسے مسکراتے دیکھتے ہیں تو نہ جانے کیوں نظریں چرانے لگتے ہیں۔ اس نے کئی بار پوچھا بھی لیکن اس کے ماں باپ ٹال گئے، اس دوران دو بار اس کے جسم کا خون بھی تبدیل کردیا گیا، وہ حیران تھی کہ اچانک یہ سب کیوں؟ اب اسے کوئی پڑھنے بھی نہیں بھیجتا اور وہ سارا دن گھر میں ہی کیوں رہتی ہے؟ یہ سب سوچیں اس کے ذہن میں آتیں لیکن وہ سر جھٹک کر خاموش ہوجاتی۔

اتوار کا دن تھا، شام کے سائے آہستہ آہستہ ہر شے کو اپنے لپیٹ میں لے رہے تھے کہ اچانک کائنات کی درد بھری چیخ سنائی دی، اس کی ناک سے مسلسل خون بہہ رہا تھا، کائنات کے ابو نے جلدی سے ایمبولینس کو بلائی، تھوڑی ہی دیر بعد شام کے گہرے سکوت کو چیرتے ہوئے ایمبولینس آن پہنچی اور اسپتال میں کائنات کو لے جایا گیا۔ ڈاکٹرز نے بڑی مستعدی کے ساتھ کائنات کی دیکھ بھال کرنی شروع کردی، اسے انتہائی نگہداشت وارڈ میں رکھا جا رہا تھا، گھڑی کی مسلسل ٹک ٹک کائنات کی امی کے دل پر ہتھوڑا بن کر برس رہی تھیں، وہ خدا کے حضور مسلسل دعائوں میں مشغول تھیں، اپنی بیٹی کی خیریت و عافیت کے لئے سجدہ ریز تھیں۔

آخر کار ڈاکٹرز نے کائنات کی حالت سنبھل جانے کی خوشخبری سنائی۔ کائنات کے امی ابو نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا، اور اپنی کائنات کے پاس جاکر اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور پیار بھری نظروں سے پھول سی اس بچی کو دیکھنے لگے جو کہ حقیقی معنوں میں ان کی کل کائنات تھی۔

کائنات کی آنکھیں بند تھیں اور وہ آہستہ آہستہ سانس لے رہی تھی، اس کے چہرے پر آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا اور ہاتھ پر سفید پٹیوں میں جکڑی ایک ڈرپ سوئی، اتنی سی عمر میں اتنی تکلیفیں سہنے کے بعد بھی وہ ہار نہیں مان رہی تھی، اتنے میں ڈاکٹر آگیا اور کائنات کی حالت کے بارے میں بتلانے لگا۔

دو دن بعد ہی کائنات کی حالت سنبھل گئی، اسے گھر لے جایا گیا، کائنات ہمیشہ کی طرح ہنسنے مسکرانے لگی، وہی زندگی سے بھرپور معصومانہ باتیں اور حرکتیں، کبھی اپنی امی کے ساتھ کچن میں جاکر اپنے ننھے منے ہاتھوں سے آٹے کا چھوٹا سا پیڑہ بنا کر خوش ہوتی تو کبھی رنگوں والی کتاب میں رنگ بھرنے کی خوشی اس کے چہرے سے چھلکتی تھی۔

بابا! ایک بات پوچھوں آپ سے؟۔ کائنات نے ایک دن اپنے بابا کی گود میں سر رکھتے ہوئے اچانک پوچھا۔

ہاں بیٹا! پوچھو، ایک بات نہیں سو باتیں پوچھو۔ کائنات کے ابو نے لاڈ بھرے انداز میں جواب دیا۔

بابا! ہمارے گھر میں میرے چاچو کیوں نہیں آتے؟، آپ ان سے ناراض ہیں نا؟

کائنات نے پوچھا۔

نہیں بیٹا، وہ تو بس یونہی چھوٹی سی بات ہوگئی تھی، غلطی میری تھی، لیکن آج تم یہ بات کیوں پوچھ رہی ہو؟۔ کائنات کے ابو یہ بات سن کر حیران رہ گئے۔

بابا وہ میں چاہتی ہوں کہ جانے سے پہلے پہلے ایک بار آپ سب کو ہنستا مسکراتا دیکھ لوں۔ کائنات نے سر جھکا کر جواب دیا۔

کیا مطلب! میری بیٹی کہاں جارہی ہے؟ کائنات کے ابو نے مزید حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔

زمین کے نیچے بابا، اور کہاں؟ جہاں ہر ایک کو جانا ہے اور مجھے تو جلدی ہی.۔ کائنات کے ابو نے جلدی سے کائنات کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔

نہیں بیٹا ایسا نہیں کہتے، آپ کہیں نہیں جا رہی۔ کائنات کے ابو نے جلدی سے کہا۔

ارے بابا! آپ تو پریشان ہوگئے، اس میں پریشانی کی کیا بات ہے، میں آپ کی بہادر بیٹی ہوں، میں نے پچھلے دنوں ڈاکٹرز کی سب باتیں سن لیں تھیں جب میں ناک سے خون نکلنے کی وجہ سے اسپتال گئی تھی، آپ سب یہی سمجھ رہے تھے کہ میں سو رہی ہوں لیکن میں جاگ رہی تھی۔ کائنات نے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔

آہ. میری بچی.۔ کائنات کے ابو نے بے اختیار کائنات کو گلے سے لگالیا۔ بابا آپ چاچو جان سے معافی مانگ لیں نا، تاکہ وہ ہمارے گھر آجائیں، مجھے ان کا پیار لینا ہے۔ کائنات نے کہا۔

ٹھیک ہے بیٹا! اتنی جلدی کیا ہے؟ میں انہیں منا لائوں گا۔ کائنات کے ابو نے جواب دیا۔

’’بابا! آپ کے پاس بہت وقت ہوگا میرے پاس بالکل وقت نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں بابا‘‘۔ کائنات نے روہانسی ہوکر کہا۔

میری گڑیا، میری زندگی، میری بچی. ایسا مت کہو، ٹھیک ہے میں آج ہی جاکر تمہارے چاچو کو لے آتا ہوں، لیکن تم ایسا مت کہو، میرا دم گھٹتا ہے۔ کائنات کے ابو نے بڑی مشکل سے آنسوئوں کو ضبط کرتے ہوئے کہا۔

اگلے ہی دن کائنات کے ابو جاکر اپنے روٹھے بھائی کو منا لے آئے، اس کے چاچو اپنی فیملی کے ساتھ کائنات کے گھر آئے، کائنات سب کو اپنے گھر میں دیکھ کر بہت خوش ہوئی، تکلیف اور درد سہتے سہتے کائنات اب بہت کمزور ہوگئی تھی، لیکن وہ ہر دن اپنا ایسے گزارتی جیسے اس کے چاروں طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں۔

کائنات کی بیماری کو گیارہ ماہ گزر چکے تھے، ایک رات وہ اپنے والدین کے کمرے میں گئی، اس کے والدین اسے آتا دیکھ کر مسکرانے لگے، وہ سلام کرکے ان کے پاس بیٹھ گئی۔ امی، بابا. مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔ کائنات نے کہا۔

جی بیٹی کہو نا، ہم سن رہے ہیں۔ کائنات کے والدین نے ایک آواز ہوکر کہا۔

’’امی، بابا. میں جانتی ہوں کہ مجھے آج نہیں تو کل آپ سے بہت دور جانا ہے اور شاید جاتے وقت میں آپ سے کچھ کہہ پائوں گی یا نہیں، اس لئے آج میں آپ سے کچھ کہنے آئی ہوں.

پیارے امی، بابا. میں آپ دونوں سے بہت پیار کرتی ہوں، اور آپ سے بہت خوش ہوں، کاش میں آپ کے ساتھ مزید رہ پاتی، آپ کی خدمت کرتی، آپ نے میری ہر خواہش پوری کی، مجھے پھول کی طرح پالا پوسا، میرے لئے راتوں کو جاگے، شکریہ بابا جان، شکریہ امی جان۔

آپ دونوں کو مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہوگا۔ جب میں چلی جائوں گی تو آپ اداس نہیں ہوں گے اور نہ ہی روئیں گے، ورنہ میں سمجھوں گی کہ کیسی بیٹی ہوں جس نے آپ کو رلایا اور ہاں امی، بابا، ایک بات اور ’’مجھے بھول مت جانا‘‘۔ یہ کہہ کر کائنات پھوٹ پھوٹ کر رو دی، آج وہ پہلی بار جی بھر کے رو رہی تھی، شاید صبر اور ضبط ختم ہوچکا تھا۔ کائنات کی امی اور بابا نے کائنات کو روتے ہوئے اپنی گود میں لے لیا، وہ دونوں کائنات کو پیار کرتے جارہے تھے اور آنکھیں مسلسل بھیگتی جا رہی تھیں۔

اس واقعہ کو چند دن ہی گزرے تھے کہ ایک دن کائنات کی طبیعت بے حد خراب ہوگئی، اسے ایمرجنسی میں ہسپتال لے جایا گیا، اس کا علاج کیا جارہا تھا، لیکن اب کی بار شاید کائنات تھک چکی تھی، اس نے آخری بار دھندلی نگاہوں سے اپنے امی اور بابا کو اپنے پاس کھڑے دیکھا اور آخری ہچکی لی اور یوں کائنات اس کائنات کو چھوڑ کر اگلے جہان نئے سفر پر روانہ ہوگئی، اس کا ننھا منا ہاتھ سرد ہوچکا تھا اور سانسیں تھم سی گئی تھیں، اس کے ہونٹوں پر اب بھی عجیب سی مسکراہٹ تھی جسیے کہہ رہی ہو کہ زندگی کو خوشی سے سر اٹھا کر جیو، دکھ درد سے پریشان ہوکر مسکرانا بھول جانا زندگی نہیں ہے۔ کائنات تو چلی گئی لیکن جاتے جاتے ہمیں بہت کچھ سمجھا گئی۔

شکریہ کائنات، تمہارا شکریہ
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 155085 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More