ایک چھوٹا سا ملک تھا جس کا نام
”خوشحالستان“ تھا ،وہاں کا بادشاہ بڑا نرم دل تھا اور اپنی رعایا کا ہر طرح
کا خیال رکھتا تھا اور عوام بھی بادشاہ سے خوش تھی اور اس کے ہر حکم کی
تعمیل کرنا فرض سمجھتی تھی اسی لئے ملک میں چہار سو خوشحالی تھی ،چاروں طرف
لہلاتے کھیت اور ہریالی ہی ہریالی تھی ،لوگ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے
،کسی کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں تھی ،وہاں کے لوگ ایک خاندان کی طرح
اتفاق سے رہتے تھے بادشاہ بھی اپنی رعایا کا خیال رکھنے کے لئے رعایا کے
لئے محل کے دروازے کھولے رکھتا تھا، ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشحالستان میں ایک غریب لڑکا بھی رہتا تھا جس کا باپ چرواہا تھا ،لڑکے کا
نام ’شیر دل‘تھا لیکن وہ فطرتاََ کم گو،نرم مزاج اور بزدل واقع ہوا تھا ،اس
کی بزدلی کی وجہ سے لوگ اسے ”شیردل“کی بجائے بزدل پکارا کرتے تھے،جس پر وہ
کڑھتا رہتا تھا لیکن پھر بھی وہ لوگوں کے کام آنے کی کوشش میں لگا رہتا
تھا،ایک دن اس کے محلے میں ایک بوڑھی عورت آئی،بچوں نے اسے تنگ کرنا اور
ستانا شروع کر دیا ،اس پرپتھر پھینکتے ہوئے اس بیچاری کے پیچھے لگ گئے،شیر
دل یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا،اس نے سہمے
ہوئے لہجے میں بچوں کو باز رہنے کو کہا تو بچے بزدل بزدل پکارتے پھر اس
بوڑھی عورت کے پیچھے لگ گئے ،آخر تھک ہار کر بوڑھی عورت گری اور بے ہوش
ہوگئی ،شیر دل گھر سے پانی اور کھانا لے گیا ،اور اس عورت کو ہوش میں لے
آیا،اس کے بعد اس نے اس بوڑھی عورت کو ٹھندا پانی پلایا اور کھانا
کھلایا،بوڑھی عورت ’شیردل‘سے بہت خوش ہوئی ،آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر اسے
دعائیں دیں اور کہا کہ انشاءاللہ بہت جلد تمہارے دن پھر جائیں گے اور ایک
طرف چل دی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح دن گزرتے چلے گئے ’شیر دل‘بھی اس بوڑھی عورت کو بھول گیا اور پھر
سے اپنے کاموں میں مشغول ہوگیا ۔لیکن ساتھ ساتھ وہ اور لوگوں کے کام ثواب
سمجھ کرتا رہا،دن بیتتے چلے گئے”خوشحالستان“میں ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی
نظر آتی تھی اور لوگ مل جل کر ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے انہیں کسی
بھی طرح کی کوئی ٹینشن یا مسئلہ نہیں تھا،پھر ”خوشحالستان“کو کسی دشمن کی
نظر لگ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”خوشحالستان“میں لوگ غائب ہونا شروع ہوئے اور پھر کچھ عرصے بعد کہیں نہ
کہیں سے ان بندوں کی بچی کھچی نعشیں ملنا شروع ہوئیں ،ایسے لگتا تھا کہ کسی
”بلا“نے ان کا خون پی کر ان کے جسموں کو چبایا ہو،رعایا کے ساتھ بادشاہ بھی
پریشان ہو گیا اور مشورہ طے پایا کہ ہر محلے میں کچھ لوگ رات کو پہرہ دیا
کریں گے تاکہ مزید جانی نقصان سے بچا جا سکے ،اسی طرح ایک رات کچھ لوگ پہرہ
دے رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ کہ ایک بہت بڑی ”بلا“جس کی شکل بہت ہیبت
ناک تھی اور جس کی آنکھیں آگ کے شعلے کی طرح چمک رہی تھی جس کے لمبے لمبے
پنجے تھے تیزی سے آئی اور ایک پہرے دارکو اپنے پنجوں میں لپیٹ کر بجلی کی
سی تیزی سے جنگل کی طرف بھاگ گئی ،لوگ اس کے پیچھے بھاگے لیکن وہ انہیں
کہیں نظر نہ آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بادشاہ نے پورے ملک میں منادی کروا دی کہ جو بہادر انسان اس ”خونی بلا“ کو
مارے گا اسے سونے جواہرات سے تول دیا جائے گا،بادشاہ کا اعلان سن کر کئی
بندے جنگل کی طرف گئے لیکن کوئی بھی واپس نہیں آیا ،بادشاہ اپنی رعایا
کیلئے کافی زیادہ پریشان تھا ،ایک دن ”شیر دل“کے باپ نے اسے کہا کہ لوگ یہ
طعنہ دیتے ہیں کہ تیرا بیٹا ویسے تو نیک ہے پر بزدل ہے کیا ایسا نہیں ہو
سکتا کہ تو اس ”خونی بَلا“ کو ٹھکانے لگا کر لوگوں کے منہ بھی بند کر دے اس
سے تجھے ثواب بھی ملے گا اور بادشاہ کی طرف سے انعام بھی۔”شیر دل“فطرتاََ
بزدل ہونے کی وجہ سے پہلے تو کافی پریشان ہوا ،لیکن جب باپ کی طرف دیکھا کہ
وہ اسے امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے تو حامی بھر لی۔شیردل کے باپ نے اسے
ایک تیر کمان اور تلوارکے ساتھ ڈھیر ساری دعائیں دے کر جنگل کی طرف رخصت
کیا تو لوگ حیران بھی ہوئے اور خوش بھی ۔۔کیونکہ ”شیر دل“جس کام میں ہاتھ
ڈالتا تھا وہ کر کے دکھاتا تھا اور انہیں امید تھی کہ ہر بار کی طرح اس بار
بھی شیر دل کامیاب ہوگا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”شیر دل“ اللہ کا نام لے کر جنگل میں داخل ہوا،تو اسے اک جھونپڑی نظر آئی
وہ اس طرف چل دیا ،جب جھونپڑی کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہی بڑھیا عورت ہے
جس کی اس نے اک بار مدد کی تھی بڑھیا نے بھی اسے پہچان لیا،اور شیر دل سے
رات کو جنگل میں آنے کی وجہ پوچھی تو شیر دل نے سارا ماجرا سنا دیاجس پر
بڑھیا نے کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ،آج کی رات میرے پاس ٹھہر جاﺅ
کیونکہ رات کے اندھیرے میں ”جنگلی بَلا“اپنے شکار کی تلاش میں نکلتی ہے اور
دن کو آرام کرتی ہے کیونکہ اسے دن میں کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا،چنانچہ
”شیردل“وہ رات ادھر ہی ٹھہر گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح شیر دل بڑھیا کی بتائی جگہ پر گیا تو دیکھا کہ اک بہت بڑی ’بلا‘ ہے جسے
دیکھتے ہوئے انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن شیر دل کو معلوم تھا کہ
اس وقت”بلا“سو بھی رہی ہے اور اسے دن میں نظر بھی کچھ نہیں آتا،شیر دل اللہ
کا نام لے کر بلا کے نزدیک پہنچا اور پہلے ہی زور دار وار سے بلا کے سر کو
دھڑ سے الگ کر دیا اس وقت ”خونی بَلا“کی ایک دردناک چیخ نکلی جو پورے
”خوشحالستان“میں سنائی دی، لوگ خوشی سے جنگل کی طرف دوڑے تو دیکھا کہ بلا
کا سر الگ پڑا ہے اور اس کا جسم ابھی تک تڑپ رہا ہے ۔’سر‘کے پاس شیر دل خون
آلود تلوار اٹھائے کھڑا ہے لوگوں نے خوشی سے نعرے لگانا شروع کر دئیے اور
”شیردل“کو کندھوں پر اٹھا کر بادشاہ کے محل کی طرف چل دیئے ،بادشاہ نے شیر
دل کو ڈھیر سارے انعامات سے نوازا اور اسے اپنا وزیر بنا لیا،خوشحالستان
میں ایک بار پھر خوشحالی کی لہر دوڑ گئی اور لوگ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے
لگے۔۔
|