9/11کے بعدافغانستان پر امریکہ
کی چڑھائی پاکستان کے لئے بھی تباہی و بربادی کا سامان لے کر آئی۔ دہشت
گردی کی اس جنگ میں پاکستان کے ماتھے پر فرنٹ لائن مملکت کا تاج سجاکرجب
ہمارے حکمرانوں کی پیٹھ ٹھونکی جارہی تھی اور انہیں مستقبل کے سہانے خوابوں
کا جام پلایا جارہا تھا توکسی کے ذہن کے نہاں گوشے میں بھی یہ بات نہ تھی
کہ ایک دن ماتھے کا یہی جھومر ان کے اپنے ملک کی سلامتی کے درپے ہوجائے گا
۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو شروع ہوئے ایک عشرہ بیت چکا ہے اوراس دوران
فرنٹ لائن اسٹیٹ کی کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں اس کی افواج اور شہریوں کا
لہونہ بکھرا ہو۔ پاکستان کا سارا بدن زخموں سے چور ہے۔ خود کش حملوں، تخریب
کاری کی ورداتوں اور دہشت گردی کی کارروائیوں نے اسے انتہائی کمزور کرکے
رکھ دیا ہے۔ پاکستان جسے امریکہ نے فرنٹ لائن اسٹیٹ کا ”لقب“ عطا کیا تھا،
آج اسی کے ڈرون حملوں کی زد میں ہے۔ امریکی طیارے آئے روز اس کی سرحدوں کی
خلاف ورزی کررہے ہیں۔ ان کی فائرنگ کے نتیجے میں سلالہ کا افسوس ناک واقعہ
پیش آیا جس میں پاک فوج کے 24اہلکار بھی شہید ہوئے۔ اس سے بھی بڑھ کر
امریکی سیلز ایبٹ آباد آپریشن کے بہانے پاکستان کی سا لمیت کو بھی پامال
کرچکے ہیں۔
آج امریکہ کے نزدیک پاکستان کی حیثیت ایک دشمن کی سی ہے۔ جبکہ وہ دہشت گرد
جو اسے ایک آنکھ نہ بھاتے تھے، اس کے دوست بن چکے ہیں بلکہ وہ اپنے ان
دوستوں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرکے انہیں پاکستان کے خلا
ف استعمال کررہا ہے۔ تازہ ترین واقعہ دیر بالا میں پیش آیا جہاں افغان صوبے
کنڑ سے آنے والے دہشت گردوں نے سرحدوں کی نگرانی پر مامور پاک فوج کے
6اہلکاروں کو شہید جبکہ متعدد کو اغوا کرکے افغانستان لے گئے جن کے بارے
میں بھی یہ اطلاعات ہیں کہ انہیں بھی شہید کردیا گیا ہے۔ یہ علاقہ دونوں
ممالک کے درمیان ایک اہم گزرگاہ ہے جس کے پڑوس میں وادی سوات ہے جہاں تین
سال قبل میں پاکستانی افواج نے مقامی طالبان کا کامیابی سے صفایا کیا
تھا۔انٹیلی جنس حلقوں نے اس حملے کا الزام مولوی فضل اللہ کے حامیوں پر
عائد کیا ہے جو سوات میں فوجی آپریشن کے بعد افغانستان فرار ہوگیا تھا۔فوجی
ذرائع کے مطابق سو سے زائد عسکریت پسند سرحد پار اپنے محفوظ ٹھکانوں سے
پاکستان میں داخل ہوئے اور گشت پر مامور فوجیوں پر حملہ کردیا۔ جوابی حملے
میںچودہ شدت پسندوں بھی مارے گئے۔پاکستان نے سرحد پار سے ہونے والی اس
دراندازی پر شدید احتجاج کرتے ہوئے افغان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے
علاقوں میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرے۔
پاک افغان سرحد پر دراندازی کے واقعات تو عام ہیں لیکن سلالہ چیک پوسٹ پر
حملے کے واقعہ کے بعد جس طرح سے دہشت گرد جدید اسلحہ سے لیس ہوکر سینکڑوں
کی تعداد میں پاکستانی پوسٹوں پر حملہ آور ہورہے ہیں لگتا ہے انہیں امریکہ
اور افغان حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ سرحد پار سے ہونے والے ان
حملوں پر پاکستان نے شدیداحتجاج بھی کیا اور امریکی و افغان حکومت کوکنڑ
اور نورستان میںدہشت گردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی کے بارے میں باقاعدہ آگاہ
کیا مگر امریکہ اور کرزئی حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ وہ الٹا
پاکستان کو مورودِ الزام ٹھہراتے رہتے ہیں کہ پاکستان کے علاقے سے دہشت گرد
ان کے علاقوں میں حملہ کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت کیا ہے اس کی تصدیق حالیہ
واقعہ سے ہوجاتی ہے بلکہ طالبان نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ
پاکستانی سیکورٹی فورسز پر حملوں کے لئے افغان سرزمین کو استعمال کررہے
ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان سراج الدین نے میڈیا کے نمائندوں
کوبتایا کہ مولانا فضل اللہ کی زیر قیادت افغانستان سے پاک فورسز پر حملے
کئے جاتے ہیں اور مولانا فضل اللہ کے مالاکنڈ میں شدت پسندوں کے ساتھ مسلسل
رابطے ہیں۔ سراج الدین کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کی قیادت اور جنگجوﺅں
کی بڑی تعداد حالیہ مہینوں میں افغانستان کے سرحدی علاقوں میں منتقل ہوئی
ہے۔ ایک پاکستانی عہدیدار کے مطابق رواں ماہ صدر حامد کرزئی کی انتظامیہ نے
اس بات کی تردید کی تھی کہ افغانستان میں تحریک طالبان کے اڈے ہیں تاہم اب
انہوں نے افغان سرحدی علاقے میں کچھ طالبان کی موجودگی کا اعتراف کیا ہے۔
صدر کرزئی کے مشیر برائے قبائلی امور میر اعظم گجروال کا کہنا ہے کہ پاک
فورسز افغانستان کے شمالی صوبوں کنڑ اور نورستان کے دیہاتوں میں اکثر شیلنگ
کرتی ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں تحریک طالبان کے جنگجو
چھپے ہوئے ہیں۔
یہ بات اسلام آباد کے اس دعوے کی تصدیق کے لئے کافی ہے کہ پاکستانی سرحد کے
قریب افغانستان کا شمالی صوبہ تحریک طالبان پاکستان کے لئے محفوظ پناہ گاہ
ہے۔ پاکستانی حکام کو یقین ہے کہ سوات، باجوڑ اور مہمند میں 2008ءکو ہونے
والے فوجی آپریشن کے دوران تحریک طالبان کے سرکردہ کمانڈرز مولانا فضل
اللہ، مولوی فقیر اور ولی الرحمن سینکڑوں شدت پسندوں کے ہمراہ افغانستان
بھاگ گئے تھے۔ ان دہشت گردوں نے افغانستان جا کر اپنے محفوظ ٹھکانے قائم
کئے اور وہاں سے جس آزادی کے ساتھ وہ پاکستانی افواج پر حملہ آور ہوتے ہیں
لگتا ہے افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز کا کوئی اختیار نہیں اور یا
تو وہ بے بس ہیں یاسب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی خاموش بنی بیٹھی ہیں۔ اس
صورتحال نے پاکستان کو شدید کوفت کا شکار کردیا ہے ۔ جس بے دردی سے طالبان
نے پاکستانی فوجیوں کے سر قلم کئے ہیں اس نے طالبان کے اصل عزائم کے قلعی
بھی کھول دی ہے۔ پاک فوج کے ساتھ ایسا گھناﺅنا کھیل کھیلنے والے اصل میں
پاکستان کے وہ دشمن ہیں جو اسلام کے نام پر معصوم لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ
کر پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور اس ملک اور اس کی مسلح
افواج کو کمزور کررہے ہیں۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ اس مسئلے کو ہر عالمی
پلیٹ فارم پر اجاگر کرے اور امریکہ کو باور کرائے کہ اس سے تعلقات میں مزید
الجھاﺅ پیدا ہوگا ۔ پاکستان کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف بھی اگلے ماہ
افغانستان کا دورہ کررہے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ کرزئی حکومت کے سامنے
دراندازی کے اس مسئلے کواٹھائیں اور انہیں اس کے حل کے لئے اقدامات کرنے پر
زوردیں۔ دوسری اہم بات ان مذہبی جماعتوں سے متعلق ہے جو اس واقعہ پر خاموش
تماشائی بنی نظر آتی ہیں۔ ظلم و جبر پر ان کی خاموشی انتہائی معنی خیز ہے۔ |