پاکستان کے آئین کے آرٹیکل19کی
تعریف کے مطابق عوام کو اطلاعات تک رسائی کا حق حاصل نہ تھا۔1993ءمیں سپریم
کورٹ نے یہ قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل19میں عوام کا اطلاعات حاصل کرنے کا
حق بھی شامل ہے۔ ’ایشیئن ڈویلپمنٹ بنک ‘کے زور دینے پر سابق صدر پرویز مشرف
نے 2002ءمیں ”فریڈم آف انفارمیشن آرڈیننس“جاری کیا۔ تاہم ’سٹیک ہولڈرز ‘ کے
دلچسپی کے بغیراس آرڈیننس کے رولز 2004ءمیں جاری کئے گئے ۔سول سوسائٹی کی
طرف سے اس سلسلے میں ’ماڈل رولز‘ کے نفاذ کا مطالبہ کیا جاتا رہا لیکن ایسا
نہ ہوا۔صحافیوں اور سول سوسائٹی کے مطابق یہ قانون مکمل طور پر لاگو نہیں
اور نہ ہی پبلک دستاویزات تک رسائی دی گئی ۔2004ءمیں حکمران جماعت نے
اپوزیشن کی طرف سے آزادی اطلاعات سے متعلق جامع قانون بنانے کے بل پیش کرنے
کو ناکام بنا دیا۔ 18ترمیم 2010ءکے آرٹیکل 19-A کے تحت اطلاعات تک رسائی کو
شہریوں کا ّئینی حق قرار دیاگیا۔آئین کے آرٹیکل 19-Aکے مطابق ہر شہری کو
شہری اہمیت کے حامل امور میں اطلاعات حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔
اب پاکستان میں نافذ’رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2010ئ‘ آزادی اطلاعات کا قانون
نافذ ہے کہ ہر شہری کو معلوم کرنے کا حق حاصل ہے کہ حکومت شہریوں کے پیسوں
سے کیا کر رہی ہے۔ایکٹ کے تحت کسی پبلک ریکارڈ کی فراہمی سے انکار نہیں کیا
جائے گا۔ایکٹ تحت ’رائٹ ٹو انفارمیشن‘ کو آئینی حق قرار دیا گیا ہے۔تمام
سرکاری ریکارڈ کو پبلک ریکارڈ قرار دیا گیا ہے۔’ڈی کلاسیفائیڈ‘ ، بیس سال
کے بعد پبلک ریکارڈ بن جائیں گی۔صرف وہ دستاویزات طلب نہیں کی جا سکتیں،بنک
کمپنیاں،مالیاتی ادارے سے کسٹمرز کے اکاﺅنٹ سے متعلق،ڈیفنس فورسز ،تنصیبات
ونیشنل سیکورٹی جیسے امور۔ پرسنل پرائیویسی سے متعلق کسی انفرادی سطح پہ ،افرادی
سطح پہ دی گئی دستاویزات۔اس ایکٹ کا نفاذ تمام پاکستان پہ محیط ہے۔تاہم
ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ ملک میں اس ایکٹ پر کس حد تک عمل ہو رہا ہے۔عوام
کو تو یہی معلوم ہے اور ہمارے ملک کی پریکٹس بھی یہی ہے کہ قانون از خود
حرکت میں آنے کے بجائے اعلی ترین شخصیات کے ایکشن لینے پر ہی حرکت میں آتا
ہے۔
میں اس بات کا حامی ہوں کہ پاکستان کے کسی بھی قانون کو آزاد کشمیر میں
نافذ کرنے سے پہلے آزاد کشمیر کی مخصوص ریاستی حیثیت کو پیش نظر رکھنا
ضروری ہے۔ایسا کوئی بھی ایکٹ آزاد کشمیر میں نافذنہیں کرنا چاہئے جس سے
آزاد کشمیرکی انفرادی حیثیت متاثر ہوتی ہو یا کشمیریوں کے حقوق،تحریک آزادی
سے متعلق ان پر کوئی قدغن لگائی جائے۔ ”رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ2010 ئ“ کا
نفاذ آزاد کشمیر میں بہت ضروری ہو گیا ہے خصوصا اس صورت حال میں کہ آزاد
کشمیر اپنے مقامی اختیارات سے محروم ہوتا جا رہا ہے،کرپشن کی سرسبز چراہ
گاہ بن چکا ہے، تعمیر و ترقی کے منصوبے کرپشن اور اقرباءپروری کے ذرائع بن
چکے ہیں۔سرکاری کاغذوں کے اعداد و شمار میں تو عوام کے دن بدل جانے کی نوید
سنائی جاتی ہے لیکن اس سلسلے میں زمینی حقائق سرکاری دعوے کو غلط ثابت کر
دیتے ہیں۔آزاد کشمیر کے عوام کو بھی یہ حق حاصل ہونا چاہئے کہ انہیںمعلوم
ہو کہ حکومت شہریوں کے پیسوں سے کیا کر رہی ہے،اور ریاستی شہریوں کو پبلک
دستاویزات تک رسائی کا حق حاصل ہو۔
آزاد کشمیر حکومت کے لاءڈیپارٹمنٹ کے مطابق ”رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ
2010ئ“آزاد کشمیر میں نافذ نہیں ہے۔آزاد کشمیر کے سیکرٹری لاءجناب ادریس
تبسم کا کہنا ہے کے پروسیجرل لاءتو پاکستان کی طرح آزاد کشمیر میں بھی
اپناتے ہوئے اختیار کیا جاتا ہے اور اس میں ہونے والی ترامیم بھی شاملکی
جاتی ہیں ۔اس کے علاوہ مخصوص موضوعات سے متعلق کوئی بھی ایکٹ آزاد کشمیر کے
متعلقہ محکمے کی تحریک پر اپناتے ہوئے اختیار کیا جاتا ہے۔
حیرت انگیز بات ہے کہ اب تک آزاد کشمیر میں ”رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ “ نافذ
کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ریاستی عوام کو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ
سیاسی نمائندے،پبلک سرونٹ ،ان کے حقوق،مفاد کے نام پر مراعات و تعیشات سے
مستفید ہو رہے ہیں جبکہ عوام کو بنیادی سہولیات بھی حاصل نہیں ہیں۔آزاد
کشمیر میں زلزلے سے پہلے اور بعد میں ترقیاتی
،منصوبوں،منظوریوںمیںرشوت،کمیشن وغیرہ ،ترقیاتی و بحالی کے منصوبوں
میںکرپشن،ان سب کے بارے میں شہریوں کو اطلاعات تک رسائی کا حق حاصل ہونا
جمہوری سسٹم ہونے کی لازمی شرط ہے۔
ہماری رائے میں سیاسی حکومت کی طرف سے آزاد کشمیر میں ”رائٹ ٹو انفارمیشن
ایکٹ “ لاگو نہ کرنے کی صورتحال میں یہ چیف سیکرٹری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ
وہ محکمہ قانون،اسمبلی سیکرٹریٹ اور محکمہ تعلقات عامہ کی ’کوآرڈینیشن‘ سے
آزاد کشمیر میں ”رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ “ کانفاذ عمل میں لانے کی ہدایت
جاری کریں۔ سیاسی حکومت تو ایسے جائز ناجائز ”افیئرز“ میں مصروف ہے کہ وہ
عوام کے باالعموم مفاد کو پیش نظر رکھنے کے بجائے اپنی معیاد حکومت میں
اپنا جائز و ناجائز حصہ سمیٹنے میں مصروف عمل ہے۔جس حکومت کے دور میں محکمہ
اطلاعات کو فنڈز و وسائل مہیا نہ کر کے ریاستی اخبارات و صحافی معاشی موت
کے گھاٹ اتارے جاتے ہوں ،اس حکومت سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ عوام کو
اطلاعات تک رسائی کا حق دینے کے لئے یہ ایکٹ نافذ کرے گی۔ لہذا آزاد کشمیر
میں اس ایکٹ کے نفاذ کے لئے وفاق کے نمائندے کے طور پر چیف سیکرٹری صاحب کو
ہی تحریک کرنی چاہئے، کیو نکہ عوامی مفاد پر مبنی یہ ایکٹ تمام پاکستان میں
لاگو ہے اور آزاد کشمیر کے علاقہ کی مخصوص حیثیت اور مقامی صورتحال اس بات
کا تقاضہ کرتی ہے کہ ”رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ2010ئ“ آزاد کشمیر میں فوری
طور پر نافذ کیا جائے۔ |