مرسی کی صدارت اور مصر کا مستقبل

مصر سے دو خبریں ایک ساتھ آئی ہیں۔ پہلی یہ کہ معزول صدر حسنی مبارک قید خانے میں بستر مرگ پر ہیں ۔دوسر ی یہ کہ ڈاکٹر محمد مرسی، جن کوحسنی مبارک نے برسوں جیل میں ڈالے رکھاتھا، ان کی جگہ ملک کے نئے صدر چن لئے گئے ہیں۔ یہ عبرت کا مقام ہے کہ تیس سال سے جو شخص ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تھا، انجام کار و ہ جیل میں ایڑیاںرگڑ رہا ہے اور موت کامنتظر ہے اور گزشتہ 84سال سے دار و رسن پر جو جماعت حق کی گواہی دیتی رہی ، عوام نے اس کے ہی ایک نمائندہ کو منصب صدارت کے لئے چن لیا ہے۔ حیف صد حیف کہ اقتدار پر قابض ہوکر حسنی مبارک اوران کے پیش رو صدور نے فرعون کی تاریخ دوہرائی اور یہ بھول گئے کہ اقتداراللہ کی امانت ہے۔ جس کو مل جائے اس کورعونت میں مبتلا ہوجانے کے بجائے،اسے عوام کی خدمت کا زریعہ سمجھنا چاہئے اور اس کے کندھے احساس ذمہ داری سے جھک جانے چاہیں۔اختیار و اقتدار تو آنی جانی چیز ہے۔ بقول حفیظ میرٹھی:” مل مل جائے، چھن چھن جائے۔“ بیشک اقتدار کے اس الٹ پھیر میں، جو مصر میں نمودار ہوا، اہل قلب و نظر کےلئے بڑا سبق ہے۔ قرآن میں اعلان کیا گیا ہے: ”کہو،یا اللہ! مالک ملک کے ، تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلت دے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے ، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے(انعام 26)۔

یہ اقتدار و عزت یوں ہی نہیں مل جاتا بلکہ اس کو عطا کرنے کا بھی اللہ تعالی نے ایک ضابطہ مقرر کردیا ہے۔ فرمایا: ”اللہ یقینا مظلوموں کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ظلماً نکالے گئے ، صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے کہ” ہمارا رب اللہ ہے“۔ ....اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کریگا جو اللہ کی مدد کریں گے۔....یہ وہ لوگ ہیں جن کو اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰة ادا کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہی ہاتھ میں ہے۔(الحج39۔41)

اللہ کی مدد کرنایہ ہے کہ آدمی حق پر قائم رہے اور جو آزمائش آئے اس کا صبر و شکر کے ساتھ مردانہ وارمقابلہ کرے۔ اخوان کی زرین تاریخ گواہ ہے کہ آزمائش کے سخت ترین امتحانات میں بھی ان کا پائے استقلال متزلزل نہیںہوا۔ حتیٰ کہ ان کے درجنوں قائدین اور کارکنوں کو پھانسی دیدی گئی یا گولیاں ماردی گئیں یا جیلوں میں اذیتیں دے دے کر مرجانے دیا گیا۔ حق کی اس گواہی کے نتیجہ میں اب اجر کا وقت آیا ہے اور اخوان با اختیاری کے قریب پہنچتے نظر آتے ہیں۔ قرآن کی رہنمائی کے مطابق اب ان کا فرض اقامت صلوٰة و ادائے زکوٰة ، بھلائی کی طرف بلانا اور برائی سے روکنا قرار پایا۔ یہاں قیام صلوٰة اور ادائے زکوٰة ایک بلیغ اشارہ ہے اس طرف کے نہ تو حقوق اللہ کی ادائیگی میں کوتاہی برتیں گے اور نہ حقوق العباد کے معاملے میں بے توجہی ہوگی۔ طویل امتحان کے بعد اللہ ان کی مدد کو آیا ہے جو صرف اس لئے نشانہ بنائے جاتے رہے کہ وہ کہتے تھے۔ ”ہمارارب اللہ ہے ، برطانیہ نہیں ہے، ہمارا رہنما خدا ہے ،وہ مادیت پرست مفکرین نہیں ہیںجن کے نظریات ہرروز بدلتے رہتے ہیں اور باطل ہوتے رہتے ہیں۔“ حسن البنا شہید، سید قطب شہید اور شیخ عبدالقادر شہید وغیرہ سے لیکرتاحال اخوان کی تاریخ کی زیر سطح جو رو بہتی ہوئی نظرآتی ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کوئی مالی فائدے یا حصول اقتدار کی تحریک نہیں ہے بلکہ حریت فکر کی تحریک ہے اور اس کا واحد مقصد انسان کو انسان کی اور ایک قوم کو دیگر اقوام کی غلامی سے آزاد کرانا ہے۔

ایک طویل جدوجہد اور حالات کے غیر متوقع تغیر کی بدولت منصب صدارت پراخوان کے ایک رکن کا انتخاب مصر میں ایک خوش آئند تبدیلی کا آغاز ہے۔ لیکن اس کو علامہ خمینی ؒکی رہبری میں ایران کے اسلامی انقلاب یاکمال اتاترک کی قیادت میں خلافت عثمانیہ مخالف انقلاب پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ نظریہ کے اعتبار سے علامہ خمینی ؒاور کمال اتاترک دو متضاد شخصیات ہیں۔دونوںنے جن انقلابات کی رہنمائی کی وہ بھی نتیجہ کے اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ لیکن دونوں قائدین میں ایک پہلو یکساں تھا۔ ان کی قیادت کو کوئی چیلنج کرنے والا نہیں تھا۔ مرسی ان جیسے خوش قسمت نہیں۔ان کی رسائی نہ اتنی دور تک ہے جتنی اتاترک کی تھی اور نہ ان کو عوام کی ایسی غیر متزلزل اور ولولہ انگیزحمایت حاصل جیسی رہبر انقلاب اسلامی علامہ خمینی ؒ کو حاصل تھی۔ڈاکٹر مرسی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ نہ تو اخوان کے قاید اعلا ہیں او ر نہ مصریوں کے بلاشرکت غیرے لیڈر ہیں ۔اصلاً وہ حزب الحریة والعدالة(فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی) کے صدر ہیں اور اسی کے صدارتی امیدوار تھے ۔ اخوان نے ان کی تائید کا اعلان تب کیا جب خود ان کے آفیشیل امیدوارخیرت الشاطر کو نااہل قراردےدیا گیا ۔ہر چند کی مرسی کی پارٹی کو اخوان نے ہی بعض مصالح کی بناءپر 2011میں پارلیمانی الیکشن کے اعلان کے بعد قائم کیا تھا، اور وہ اخوان کے دیرینہ کارکن ہیں، مگر قانوناً ان کی پارٹی الگ ہے۔

ان کو حاصل عوامی تائید و حمایت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ 23 - 24 مئی کو پہلے دورکے صدارتی چناﺅمیں ان کوصرف 24.77فیصد ووٹ ملے تھے۔ جبکہ ان کے قریب ترین حریف معزول صدر مبارک کے آخری وزیر اعظم جنرل احمد شفیق کو 23.66فیصد اور بائیں بازو کے امیدوار حمدین صباحی کو 20.44 فیصد ووٹ ملے تھے۔ گویا ’اسلام پسند‘ مرسی کے مقابلے ’غیر اسلام پسند‘ امیدواروں کو مجموعی طور سے تقریباً18.33فیصد ووٹ زیادہ ملے۔ دوسرے دور میں جب مقابلہ براہ راست جنرل شفیق اور ڈاکٹرمرسی کے درمیان رہ گیا، تب بھی فرق کچھ بہت زیادہ نہیں رہا۔ مرسی کو نصف سے صرف کوئی پونے دو فیصدزیادہ یعنی 51.73 فیصدووٹ ہی ملے جبکہ جنرل شفیق کو 48.27فیصد ووٹ ملے۔ حیرت کی بات یہ ہے دوسرے مرحلے کی پولنگ میں، جب مقابلہ صرف مرسی اور شفیق کے درمیان تھا، عوام میں پہلے جیسے جوش و خروش نظر نہیں آیا۔ کل51.58فیصد رائے دہندگان ہی ووٹ ڈالنے کےلئے نکلے۔

ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ ابھی دسمبر کے پارلیمانی الیکشن میں اخوان کے امیدواروں کومجموعی طور پر 37.5 فیصد ووٹ ملے تھے، لیکن صدارتی الیکشن میںیہ تناسب 24.77 فیصد ہی رہ گیا۔ گویا صرف 15 ماہ میں اخوان حامی رائے دہندگان کی تعداد میں 12.73فیصدکی زبردست تخفیف ہوگئی۔ حیرت ہے کہ اخوان کے تئیں وہ گرم جوشی جو مبارک کی بیدخلی کے فوراً بعد نظر آئی اب نہیں رہی۔ اس کو یہ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اخوان پر اعتماد کرنے والوں کا تناسب 12.73فیصد کم ہوگیا یا یہ کہئے کہ اس کے ارادوں پر شک کرنے والوںکا تناسب اتنا ہی بڑھ گیا۔اخوان کےلئے یہ کوئی خوش کن علامت نہیںہے۔اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔جن پر غور کرنا ہوگا۔

ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اخوان نے پارلیمانی الیکشن کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ صدارتی چناﺅ میں اپنا امیدوار نہیں اتاریں گے۔ لیکن بعد میں اس وعدے کے خلاف کیا۔دوسرے بہت سے رائے دہندگان کو یہ شکایت بھی ہے کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد نو منتخب ممبران نے عوام سے ملنے کے ضرورت نہیں سمجھی جس سے رائے دہندگان میں زبردست بد دلی ہے۔ یہ روش اُس اصول کے منافی ہے جس کا اخوان دم بھرتے ہیں۔ جو بندوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ خدا کا شکر گزار کیونکر ہوسکتا ہے؟ غرض اس ابتدائی کامیابی کے بعد روش میں کچھ جھول ضرور پیدا ہوا ہے۔

اب جب مرسی کی کامیابی یقینی دکھائی دینے لگی تو فوجی کونسل کو یہ کھٹکا ہوا ہوگا کہ پارلیمان میں اکثریت اور صدر کے منصب پر قبضہ کے بعد کہیں اخوان اپنے ان اعلانات کو ، جو اس نے چناﺅ سے پہلے کئے تھے اورسب کو ساتھ لیکر چلنے کا جو وعدے کئے تھے ان سے پھر نہ جائےں۔ اس لئے اس نے یہ چال چلی کہ صدر مبارک کے نامزد آئینی بنچ کے زریعہ پارلیمنٹ کو ہی تحلیل کرادیا اور آئین سازی کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے، نیز صدر کے اختیارات کو بھی محدود کردیا۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے صدر مرسی ایک کمزور صدر ہونگے اور اصل اقتدار فوج کے ہاتھ میں ہی رہیگا جوجولائی 1952کے انقلاب کے بعد سے ہی سیاہ و سپید کی مالک ہے۔

صدر چنے جانے کے بعد محمد مرسی کو فوجی سپریم کونسل کے چیرمین جنرل طنطاوی نے پرجوش مبارکباد پیش کی ۔ جواباً نومنتخب صدرنے بھی اپنے انتخاب کے بعد پہلی تقریر میں پارلیمنٹ توڑے جانے کا شکوہ کرنے کے بجائے ،فوج کی تعریف کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فوری طور سے فوج سے محاذ آرائی کااندیشہ نہیں۔ موجودہ حالات میں یہ ایک اچھی علامت ہے۔ ایک درجہ میں گمان یہ بھی ہے فوج نے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور صدر کے اختیارات کو کم کرنے کے جو اقدامات کئے ہیں ، ان سے اس کا مقصد ان لوگوں کے خدشات کو دور کرناہے ،جو اخوان کے ارادوں پر شک کرتے ہیں۔ فوج میں ایسے عناصر کی کمی نہیں جو اخوان کی دین پرستی سے خار کھاتے ہیں۔ اندیشہ یہ بھی ہوگا کہ ان میں بیچینی نہ پیدا ہوجائے اور سپریم کونسل کا ہی تختہ نہ الٹ دیا جائے۔ بہر حال سب سے بڑا اندیشہ یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اخوان سخت گیر مذہبی حکومت مسلط کرسکتے ہیں جیسا کہ سلفی چاہتے ہیں۔چنانچہ فوج نے ملک کی 75فیصد عوام کو ، جو اخوان کی موئد نہیں، اضطراب سے بچالیا ہے۔ لیکن اندیشہ یہ بھی ہے کہ فوج کہیں جمہوری انقلاب کوہی ناکام نہ کردے؟ بہرحال اس کا صحیح پتہ آئندہ چند روز میں چل جائیگا۔

فوجی کونسل نے یکم جولائی سے پہلے اقتدار منتقل کرنا کا اعلان کیا ہے۔چنانچہ مورسی کی حلف برداری یکم جولائی کو متوقع ہے۔ لیکن پارلیمنٹ اور آئین کی عدم موجودگی میں اس انتقال اقتدار کا کیا مطلب ہوگا؟ ادھر خبر یہ ہے کہ مورسی نے حلف برداری کا انتظار کئے بغیر ہی صدارتی دفتر سے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ تحلیل شدہ پارلیمنٹ کو کس طرح بحال ہواور آئین سازی کس طرح ہو؟ فوری سوال کابینہ اورصدارتی کونسل کی تشکیل کا بھی ہے۔ فوج چاہے گی وزارت دفاع اور پولیس اس کے کنٹرول میں رہے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ جنرل طنطاوی سے کچھ معاملات پر مفاہمت ہوگئی ہے، اس کے بعد ہی پیر کی شام کو مسٹر مرسی نے صدر کے دفتر سے اپنا کام شروع کیا ہے۔اس مرحلے پر ان کو ہر حال میں فوجی کمان کونسل کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا اور سماج کے سبھی طبقات میں اعتماد کی فضا قائم کرنی ہوگی۔ملک میں عیسائیوںکی آبادی تقریبا ً 10فیصد ہے ۔ کیونکہ ان کو یورپی اقوام کی پشت پناہی حاصل ہے اس لئے ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے پالیسی مشیر کے مطابق اس سمت پہلے قدم کے طور پر وہ ایک خاتون کو اور ایک عیسائی کو اپنا نائب صدر مقرر کرنے والے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اپنی پہلی تقریر میں انہوں نے سماج کے سبھی طبقوں کو ساتھ لیکر چلنے کا جو وعدہ کیا ہے وہ کس طرح پورا ہوتا ہے؟ صدارتی کونسل اور کابینہ میں توازن کس طرح قائم کیا جاتا ہے اور ان سب سے ان کو کس حد تک تعاون ملتا ہے؟ ان کو ایسی پالیسیوں پر چلنا ہوگا جن سے عوام کے خدشات جو اسلامی نظام کے بارے میں پائے جاتے ہیں کم ہوں اور اسلامی نظام کی برکات مصری معاشرے میں نظر آئیں۔اس معاملے میں ان کو اصل رہنمائی ترکی کی موجودہ قیادت سے حاصل ہوگی۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کوبحال نہیں کیا گیا تو کیادوبارہ الیکشن ہونگے؟ اگر دوبارہ الیکشن ہوئے توگمان یہی ہے کہ اخوان کو اتنے ووٹ نہیں ملیں گے جتنے گزشتہ سال ملے تھے اور ہوسکتا ہے کہ’اسلام پسند‘ نئی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہ کرسکیں۔ ایسی صورت میں مورسی کےلئے کوئی ایسا فیصلہ لینا ممکن نہیں ہوگا جس کو ’غیر اسلام پسندوں‘ کی تائید حاصل نہ ہو۔ اس مرحلے بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ صرف تالہ کھلا ہے ، دروازہ ابھی بند ہے۔ جمہوریت پسندوں کو انتظار کرنا ہوگا کہ مصرجمہوریت کی راہ پر آگے بڑھتا ہے یا پھر فوج کی گرفت میں چلا جاتا ہے۔اسلام پسندوں کو بھی پوری ہوشمندی کے ساتھ خدمت خلق اور ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ معاشرے میں ان کا اثر رسوخ زائل ہوجائےگا۔ کام اعلانات اور یقین دہانیوں سے نہیں عمل سے چلتا ہے۔ سفارتی حلقوں میں کہا جاتا ہے، جو سنا اس پر نہیں جو دیکھا ہے وہ اصل ہے۔ طنطاوی اور مرسی اس وقت جو کچھ کہہ رہے ہیں،اس کے علی الرغم یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کرتے کیا ہیں؟ اس معاملہ میں اخوان کوخاص طور سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔آئندہ مصر کی نوزائدہ جمہوریت کیا شکل لیتی ہے اس کو بہت کچھ دار مدار اس بات پر ہے اخوان کے قائد اور کارکن اپنے نئے رول میں کیسی ساکھ بناتے ہیں۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180937 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.