(٧) عمر رضی الله عنھ کے زمانے
میں لوگ قحط میں مبتلا ہوے پھر ایک شخص نبی علیھ السلام کی قبر پر آیا اور
عرض کیا یا رسول الله علیھ السلام اپ اپنی امت کے لئے سیرابی مانگیں وہ
ہلاک ہو رہی ہے پھر نبی علیھ السلام اس کے خواب میں آئے اور فرمایا عمر کو
میرا سلام کہو اور اس کو بتاؤ کہ تم سیراب کیے جاؤ گے اور عمر سے کہو
عقلمندی اختیار کرو عقلمندی اختیار کرو پھر وہ آدمی عمر رضی الله عنھ کے
پاس آیا اور خبر دی تو عمر رضی الله عنھ رو پڑے اور فرمایا اے الله میں
کوتاہی نہیں کرتا مگر عاجز ہو جاؤں.(مصنف ابن اب شیبہ رقم ٣٢٠٠٢ )
تحقیق : اس روایت کے دو راویوں پر شدید کلام ہے .
(١) الاعمش : یہ راوی مدلس ہے اور اس نے اس روایت میں تدلیس کی ہے جس کی
وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے .
(٢) مالک دار : یہ راوی مجہول ہے جس کی وجہ سے یہ روایت قابل قبول نہیں ہے
.
اس روایت کی مکمل تحقیق میں نے اپنے مضمون "جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے " میں
بیان کی ہے .جو چاہے دیکھ سکتا ہے .
(٨) جو شخص اپنے گھر سے نماز کے لئے نکلتا ہے اور کہتا ہے " اے الله میں
تجھ سے ان مانگنے والوں کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں جو تجھ سے مانگتے ہیں
اور میں اپنے چلنے کے وسیلے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں اور بے شک میں فخر اور
تکبر سے باہر نہیں نکلا ہوں تو الله اس پر اپنے چہرے کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے
اور اس کے لئے ایک ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں .( سنن ابن ماجہ باب المثنی
الی الصلاه رقم ٧٧٨ ، مسند احمد ٣/ ٢١ ، عمل الیوم الیلہ رقم ٧٥ )
تحقیق : اس روایت میں تین راوی فضیل بن مرزوق عطیہ العوفی اور الورزع بن
نافع ضعیف ہیں ان کے بارے میں محدثین کے اقوال درج ذیل ہیں .
فضیل بن مرزوق : ابن حبان فرماتے ہے اس کی عطیہ العوفی سے روایات من گھڑت
ہیں (میزان الاعتدال ترجمہ ٦٧٧٢ )
اور اس روایت میں اس نے عطیہ العوفی سے روایت کی ہے .
عطیہ العوفی: ابن حجر نے اس کے بارے میں لکھا ہے معروف تابعی ہے مگر حفظ
میں ضعیف اور تدلیس قبیح میں مشہور ہے ( طبقات المدلسین المرتبہ الربعہ ص
٧٨ ) اس کے علاوہ یہ راوی ضعیف بھی ہے اور اس کو ان محدثین نے ضعیف کہا ہے
" ابن القطان ، امام احمد ، سفیان ثوری، ابو حاتم ، امام النسائی، ابن عدی
، امام ابوداود ، ابن حبان ، دار قطنی ، جوزجانی وغیرہ (میزان الاعتدال
ترجمہ ٦١٠٠ ،تہذیب التہذیب ٤٧٦٦ ، تہذیب الکمال ترجمہ ٣٩٥٩ ) اور اس کے
بارے میں یہ موجود ہے کہ یہ کلبی کے پاس بیٹھنے لگا تھا اور وہ مشھور کذاب
تھا اور اس کا نام چھپانے کے لئے یہ ابو سعید کا نام لے کر روایت کرتا تھا
تاکہ یہ گمان ہو کہ ابو سعید سے مراد ابو سعید خدری رضی الله عنھ ہیں(حوالہ
ایضا) اور یہ تدلیس قبیح کہلاتی ہے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر نے بھی
بیان کیا ہے تو یہ راوی ضعیف بھی تھا اور تدلیس قبیح بھی کرتا تھا اس وجہ
سے اس روایت کی یہ سند ضعیف ہے .
الوزع بن نافع : یہ راوی اس روایت کی دوسری سند میں ہے جو ابن السنی نے
اپنی عمل الیوم اللیلہ میں نقل کی ہے اس کے بارے میں محدثین کے اقوال یہ
ہیں .
ابو حاتم فرماتے ہیں "ضعیف الحدیث ہے اور ابو زرعہ فرماتے ہیں یہ بہت زیادہ
ضعیف ہے .(جرح التعدیل ترجمہ ١٥٨٢٦ )
ان تین راویوں کے سبب سے اس روایت کی تمام اسناد ضعیف ہیں اور یہ قابل قبول
نہیں ہے .
(٩) ابو الجوزا بن اوس بن عبدالله سے مروی ہے کہ " اہل مدینہ شدید قحط میں
مبتلا تھے تو انھوں نے اماں عائشہ رضی الله عنہا سے اس کی شکایت کی تو
انھوں نے کہا نبی (صلی الله علیھ وسلم ) کی قبر پر جا کر ایک کھڑکی آسمان
کی طرف کھولو کہ ان کے درمیان میں کوئی چیز حائل نہ ہو راوی کہتے ہیں لوگوں
نے ایسا کیا تو خوب بارش ہوئی .... آخر تک .(سنن دارمی رقم ٩٢ )
تحقیق : اس روایت کے دو راویوں پر کلام ہے .
(١) سعید بن زید : اس راوی کے بارے میں محدثین کے اقوال درج ہیں .
ابو حاتم اور امام النسائی فرماتے ہیں وہ قوی نہیں ہے جوزجانی فرماتے ہیں
اس کی روایت ضعیف ہے یہ حجت کے قابل نہیں ہے ،دارقطنی : ضعیف ہے ، امام
بزار: اس کے حافظہ خراب تھا ،ابن حبان : سچا تھا مگر اپنی روایت میں غلطیاں
اور وہم کرتا تھا یہاں تک اگر یہ اگر منفرد ہو تو اس کی روایت قبول نہیں ہے
.( تہذیب التہذیب ترجمہ ٢٣٨٦ )
اور یہ روایت اسی سند سے منقول ہے اس لئے اس روایت میں یہ راوی منفرد ہے اس
بنا پر اس روایت میں ضعف ہے .
(٢) ابو الجوزا بن اوس بن عبدالله : امام بخاری فرماتے ہے اس کی روایت میں
نظر ہے (میزان الاعتدال ترجمہ ١٢٢٤ ) اور ابن حجر فرماتے ہے " وہ کثرت سے
ارسال کرتا تھا (یعنی درمیان میں راوی چھوڑ دیتا ) (تقریب التہذیب ترجمہ
٦١٩ ) اور فرماتے ہیں " اس نے ابن مسعود اور اماں عائشہ رضی الله عنھما سے
کچھ نہیں سنا ہے اور (امام بخاری ) کے نزدیک اس کی روایت ان سے ضعیف ہے .(
تہذیب التہذیب ترجمہ ٦١٩ ) اور ابن عبدالبر فرماتے ہے ابو الجوزا نے اماں
عائشہ رضی الله عنہا سے کچھ نہیں سنا (اکمل تہذیب الکمال جلد ٢ ص ٢٩٤ ) اور
اس کے بارے میں یہ واضح موجود ہے کہ اس نے اماں عائشہ رضی الله عنہا سے
نہیں سنا اور وہ ایک آدمی کو بات مسائل پوچھنے کے لئے بھیجتا تھا .چنانچہ
امام ابن عبدالبر فرماتے ہے کہ ابو الجوزا کہتے ہیں میں اماں عائشہ رضی
الله عنہا کے پاس ایک شخص کو بھیجتا تھا جو ان سے سوال کرتا تھا (حوالہ
ایضا )
ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ سعید بن زید کی منفرد روایت ضعیف ہوتی ہے
اور ابو الجوزا کا سماع اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت نہیں ہے ان دونو
وجوہات کی بنا پر یہ روایت ضعیف ہے .
(١٠) داود بن صالح روایت کرتے ہیں کہ ایک دن مروان آیا تو اس نے دیکھا ایک
شخص رسول الله کی قبر پر اپنا چہرہ رکھے ہوۓ تھا مروان نے اس کی گردن پکڑی
پھر کہا تم کیا کر رہے ہو وہ آدمی مروان کی طرف متوجہ ہوا مروان نے دیکھا
وہ ابو ایوب رضی الله عنھ تھے انھوں نے فرمایا میں رسول الله صلی الله علیھ
وسلم کے پاس آیا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں .... آخر تک .(طبرانی الکبیر رقم
٣٩٩٩ ،
تحقیق : اس روایت کی اسناد میں تین راوی ضعیف ہیں اور ہم ترتیب وار ان کو
بیان کرتے ہیں .
(١) کثیر بن زید : اس راوی میں کچھ ضعف ہے اوریہ راوی اس روایت کی تمام
اسناد میں موجود ہے اس کے ضعف کے بارے میں اقوال یہ ہیں
یعقوب بن شیبہ : اس کے صا لح ہونے کی وجہ سے اس کے ضعف کو نظرانداز نہیں
کیا جاسکتا .ابو زرعہ : سچا ہے مگر اس میں ضعف ہے .امام النسائی : ضعیف ہے
.(تہذیب التہذیب ترجمہ ٥٨٠١ )
(٢) داود بن صا لح حجازی : امام ذہبی فرماتے ہیں " جانا نہیں جاتا اور اس
سے صرف ولید بن کثیر نے روایت کی ہے (میزان الاعتدال ترجمہ ٢٩٠٤ )
ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام ذہبی نے جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ ایوب
انصاری رضی اللہ عنھ والی روایت ہے اور اس میں ولید بن کثیر نہیں بلکہ کثیر
بن زید ہے (تہذیب التہذیب توجمہ ١٨٥٥) اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ داود بن صا
لح حجازی سے صرف ایک نے روایت کیا اور اس بنا پر یہ راوی مجہول ہے .
(٣) احمد بن رشدین : اس کا نام رشدین بن سعد مفلح ہے اور یہ راوی طبرانی
کبیر الاوسط دونوں کتب میں موجود ہے اس کے بارے میں اقوال درج ہیں .
ابو حاتم: منکر الحدیث ہے اور ثقہ راویوں سے منکر روایات نقل کرتا ہے
.جوزجانی : ضعیف الحدیث ہے . امام النسائی : ضعیف الحدیث ہے . امام دارقطنی
،امام ابوداود ، ابن سعد : ضعیف الحدیث ہے .(تہذیب التہذیب جلد ٣ ص ١٠٣ )
(٤) مطلب بن عبدالله بن حنطب : یہ راوی بھی طبرانی کبیر الاوسط دونوں کتب
میں احمد بن رشدین کے ساتھ موجود ہے اور اس نے ایوب انصاری رضی الله عنھ سے
روایت کی ہے مگر اس کا سماع ان سے ثابت نہیں ہے .
اس راوی کا سماع صرف سلمہ بن الا کوع ، سہل بن سعد انس بن مالک رضی اللہ
عنہم سے ہے یا جو ان سے قریب ہو (جا مع تحصیل ترجمہ ٧٧٤ ) اور سلمہ بن الا
کوع ان سب سے قبل ٧٥ ہجری میں وفات پا گئے .اور ایوب انصاری رضی اللہ عنھ
٥١ ہجری میں وفات پا چکے (تاریخ اسلام ذھبی ص ٢٧ ) تو اس راوی کا ایوب
انصاری رضی اللہ عنھ ملاقات ثابت نہیں ہے اور وہ ان کے دور کا واقعہ بیان
کر رہا ہے یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے .
اس روایات کی تمام اسناد ضعیف ہیں اور ان اسناد میں یہ تمام راوی موجود ہے
جو اس روایت کے حجت ہونے کے درمیان حائل ہیں .
(١١) جس نے میری قبر کی زیارت کی اس پر میری شفاعت واجب ہو گئی .(مجمع
الزوائد ٤ : ٢ ، تلخیص الحبیر ٢: ٢٦٧ ، کشف الخفا ٣: ٣٢٨ ،بیہقی شعب
الایمان ٣: ٤٩ )
اس روایت کے تمام طرق و اسناد ضعیف ہیں ( تلخیص الحبیر ٢: ٢٦٧) بعض اس بنا
پر دھوکہ کھاتے ہیں کہ دارقطنی والی سند میں عبیدالله کا نام غلطی سے شامل
ہو گیا ہے اس کی جگہ بھی عبدالله بن عمری ہے جو ضعیف ہے اور اس بات کو حافظ
ابن حجر نے تلخیص الحبیر میں بیان کیا ہے ( تلخیص الحبیر ٢: ٢٦٧) اور اس کے
دیگر راویوں پر بھی انھوں نے ضعیف کا حکم لگایا ہے ( تلخیص الحبیر ٢: ٢٦٧)
تو اس روایت کے تمام طرق اور اسناد ضعیف ہیں اور اس قابل نہیں ہیں کہ ان پر
اعتبار کیا جا سکے .
(١٢) ابو حرب الھلالی نے بیان کیا : ایک اعرابی نے حج ادا کیا اور پھر مسجد
نبوی صلی الله علیھ وسلم میں آکر نبی صلی الله علیھ وسلم کی قبر پر آیا اور
کہا ... آخر تک .
اس روایت کو تفسیر ابن کثیر نے بلا اسناد نقل کیا ہے اورابو حرب الھلالی سے
بیہقی نے شعب الایمان نے نقل کیا اور اس کی سند میں بہت سے راوی مجہول ہیں
اس کی تحقیق میں نے اپنے مضمون "جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے" میں مدلل بیان کی
ہے .
جاری ہے |