ذخیرہ اندوزی کی ممانعت

عَنْ مَعْمَرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْعَدَوِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَحْتَكِرُ إِلَّا خَاطِئٌ(مسلم شریف ۔ترمذی شریف)
ترجمہ:حضرت معمر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”احتکار نہیں کرتا مگر گناہ گار۔“
الْمُحْتَكِرُ مَلْعُونٌ (کنزالعمال)
ترجمہ : ”ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے ۔“

ان دونوں حدیثوں کا مطلب یہ ہے کہ” احتکار“ کرنا گناہ ہے ۔احتکار “کے معنی ہیں کہ” کسی چیز کی ذخیرہ اندوزی اس نیت سے کرنا کہ میں اس وقت اس کونکالوں گا جب بازار میں اس کی قلت بہت زیادہ ہوجائےگی ،اور اس کی وجہ سے میں لوگوں سے زیادہ قیمت وصول کرسکوں گا ۔“اس کو احتکاراور ذخیرہ اندوزی کہتے ہیں ۔یہ ذخیرہ اندوزی انسان کی ضرورت کی اشیاء میں بھی ہوتی ہے اور جانوروں کے کھانے کی اشیاء میں بھی ہوتی ہے ۔اور ذخیرہ اندوزی کرنے سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اس لیے آپ ﷺ نےذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت بھی فرمائی ہے ۔

اس پر تو تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء میں ذخیرہ اندوزی جائز نہیں ہے ۔

لیکن کھانے پینے کے علاوہ دوسری اشیاء میں ذخیرہ اندوزی جائز ہے یا نہیں ؟اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔

حضرت امام ابو حنیفہ ؒ اور حضرت امام شافعی ؒ کے نزدیک غذائی اجناس کے علاوہ دوسری اشیاء میں ذخیرہ اندوزی جائز ہے ۔اس لیے کہ لغت میں” احتکار “ کا لفظ غذائی اجناس کی ذخیرہ اندوزی پر دلالت کرتاہے ۔دوسری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی ”احتکار“ کا لفظ دلالت نہیں کرتا ۔اس لیے صرف کھانے پینے کی چیزوں میں ذخیرہ اندوزی ناجائز ہوگی ۔

حضرت امام ابویوسف ؒ کے نزدیک ذخیرہ اندوزی ہر ضرورت کی چیز میں ناجائز ہے ۔اس لیے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں ذخیرہ اندوزی کی ممانعت کی جو” علت“ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کو اس چیز کی ضرورت ہے مگر ذخیرہ اندوز اس کی منہ مانگی رقم وصول کرنے کی خاطر اپنے گودام میں ذخیرہ کیے ہوئے ہے۔لہذا یہ ”علت“ جس طرح کھانے پینے کی چیزوں میں ہے ویسےہی دوسری اشیاء میں بھی ہے ۔اس لیے تمام ضروریات کی اشیاء میں ذخیرہ اندوزی ناجائز ہے ۔

واضح رہے کہ” ذخیرہ اندوزی“ کی ممانعت اس وقتہے جب اس کی”ذخیرہ اندوزی“ کی وجہ سے عوام کو ”ضرر“پہنچے ،عوام کو اس چیز کی ضرورت ہو مگر ذخیرہ اندوز اس کو فروخت کرنے کے لیے بازا ر میں نہ لائے۔لیکن اگر اس شخص کی” ذخیرہ اندوزی“ سے عوام کو” ضرر“ نہیں پہنچ رہا ،بلکہ چیز کی بازار میں فراوانی ہے تو اس صورت میں” ذخیرہ اندوزی“ کرنے کی ممانعت نہیں ہے ۔اور اس پرکوئی” گناہ “نہیں ہے ۔گناہ اس وقت ہے جب لوگ ضرورت مند ہوں اور ذخیرہ اندوز مہنگائی پیدا کرنے کے لیے” ذخیرہ اندوزی “کررہا ہو۔
Ghazi Abdul Rehman Qasmi
About the Author: Ghazi Abdul Rehman Qasmi Read More Articles by Ghazi Abdul Rehman Qasmi: 5 Articles with 21367 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.