گُذشتہ سے پیوستہ۔
وہ تو اللہ بھلا کرے حسام الدین ایڈوکیٹ انکل کا جنہوں نے معاملہ سنبھال
لیا۔ اور کسی نہ کِسی طرح میری پھپو کو مطمئین کرنے کے بعد وہاں سے فارغ
کردیا۔ اُسکے بعد دوسری مرتبہ جمال اختر کے ایک دوست نے شُور شرابا بُلند
کردیا تھا۔ کیونکہ حسام انکل نے میرے حق مِہر کی رقم نِکاح نامہ میں مبلغ
دس لاکھ روپیہ موجل رکھوادِی تھی۔ جِس پر اختر جمال کے دُوست احتجاج کررہے
تھے۔ لیکن انکل نے اُنہیں یہ سمجھا کر مطمئین کردیا تھا۔ کہ یہ رقم صِرف
اِس لئے لکھوائی جارہی ہے۔ تاکہ ہماری بچی کا تحفظ برقرار رہے۔ اگر اختر
جمال کے والدین اِس شادی میں شامِل ہُوجائیں تُو وہ ابھی اِس رقم کے بدلے
صرف ۵ ہزار لکھوانے کیلئے راضی ہیں۔ انکل کی دلیل اور شرط اتنی باوزنی تھی
کہ بلاآخر اخترجمال نے دُوستوں کو سمجھاتے ہُوئے حامی بھرلی۔
اب مزید پڑھیئے۔
شادی کے بعد اختر جمال مجھے ایک لگژری اپارٹمنٹ میں لے گئے ۔ یہ ایک نہایت
خُوبصورتی سے سجا ہُوا اپارٹمنٹ تھا۔ ابتدائی چند دِنوں میں ہی اختر جمال
کے چہرے سے اُسکا نِقاب اُترنا شِروع ہُوگیا۔ وہ جِس نے اپنے چہرے پہ علمیت
اور بُردباری کا مُلمع چڑھایا ہُوا تھا۔ مجھے ایک جِنسی اور ذِہنی مریض نظر
آنے لگا تھا۔ اُسے جب میرے جِسم کی ضرورت ہُوتی۔ تب اُسکا لہجہ انتہائی
شیرین ہوجایا کرتا تھا۔ لیکن جونہی اُسکی خواہش پُوری ہوجاتی ۔ وہ مجھ سے
ایسے بیگانگی کا برتاؤ کرتا جیسے میں اُسکی بیوی نہ ہُوں۔ بلکہ پِلاسٹک کا
کوئی کھلونا ہُوں جِس سے کُچھ دیرکھیلنے کے بعد اُسے اب اُسکی ضرورت نہ رہی
ہُو۔ ابتدا کے صِرف چند دِن میرے ساتھ گُزارنے کے بعد وہ اکثر دیر رات کو
گھر سے چلا جایا کرتا۔ اور میں تمام رات خُوف کے عالم میں تنہا اپارٹمنٹ
میں جاگتے گُزار دیتی۔
میرے بار بار کے احتجاج کے جواب میں مجھے اُس نے بتایا کہ چُونکہ اسکے
والدین کو اُسکی شادی کا عِلم نہیں ہے۔ اسلئے جب تک اُسکے گھر والے اِس
شادی کے لئے رضامند نہیں ہُوجاتے ۔ وہ روزانہ رات اپنے والدین کےگھر سے
باہر نہیں گُزار سکتا۔ میں اِس اُمید پر دِن گُزارے جارہی تھی کہ جلد ہی وہ
اپنے والدین کو راضی کرلے گا۔ اور میں بھی جلد اُسکی فیملی کیساتھ رِہنے
لگوں گی۔ پھر بَمشکل ایک ماہ بعد اختر جمال نے مجھ پر واضح کردِیا کہ یہ
گھر بھی اُسکے جِس دُوست کا تھا۔ وہ دُبئی سے پاکستان اپنی فیملی کیساتھ
ایڈجسٹ ہُونے کیلئے واپس آرہا ہے۔ پھر چند دِن بعد ہی اختر جمال مجھے لیکر
نیو کراچی کی ایک نئی بستی میں شفٹ ہُوگئے۔ یہ جگہ اور مُحلہ دیکھ کر مجھے
یُوں مِحسوس ہُونے لگا جیسے میں کِسی مِحل سے کِسی جھونپڑی میں آبسی ہوں۔
لیکن مجھے یہ بھی منظور ہُوجاتا اگر اختر جمال میرے ساتھ رِہتے۔
اختر جمال اپنی رَوش پر قائم تھا۔ کبھی دِن میں آجایا کرتا اور شام تک میرے
ساتھ رِہتا۔ اور کبھی سرِ شام آجایا کرتا اور دیر رات کو اپنے والدین کے
گھر چلاجایا کرتا۔ اس گھر میں نہ ضرورت کا سارا سامان موجود تھا۔ اور نہ ہی
دیواروں پر رنگ و روغن نام کی کوئی شئے ہی موجود تھی۔ البتہ اختر جمال
مہینے بھر کا سودا سلف ضرور لا دِیا کرتا تھا۔ دھیرے دھیرے مجھے یُوں محسوس
ہُونے لگا جیسے میں اختر جمال کی منکوحہ نہیں بلکہ اُسکی داشتہ ہُوں۔ یہ
احساس ہی کیا کم تھا۔ کہ ایک دِن اختر جمال کو نجانے کیسے شادی والے دِن
پھپو کی کہی ہُوئی باتیں یاد آگئیں۔ اُس نے جب مجھ سے استفسار کیا تب میں
نے اُسے صاف صاف بتادِیا کہ میں نہ اُس خاتون کو جانتی ہُوں جو میری پھپو
ہُونے کا دعویٰ کررہی تھیں۔ اور نہ ہی میں اُنکا اَتا پتہ جانتی ہُوں۔
مگر اختر جمال کے تجسس نے اُسے بلا آخر میری پھپو کے گھر حیدرآباد پُہنچا
ہی دِیا۔ وہاں جاکر اُسے معلوم ہُوا کہ میری والدہ جوانی میں طوائف تھیں
اور میرے والد ایک مسجد کے پیش اِمام تھے۔ امی لاہور سے بھاگ کر حیدرآباد
آئیں تھیں اور اِتفاق سے وہ حیدرآباد کے عِلاقے لطیف آباد میں مکین ہُو
گئیں تھیں۔ پھر نجانے وہ کیسے میرے ابا تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئیں۔ اور
ابا نے تمام خاندان کی مُخالفت کے باوجود ایک طوائف سے شادی کرلی۔
یہ تُو وہ باتیں تھیں جو اختر جمال نے مجھ تک پُہنچائی تھی۔ جبکہ میرے
استفسار پر امی جان نے مجھے بعد میں بتایا تھا۔ کہ اُنہیں مُلتان میں کالج
جاتے ہُوئے اَغوا کرلیا گیا تھا۔ اور اُنہیں زبردستی لاھور لیجاکر طوائف
بنا دیا گیا تھا۔ جہاں اُنکے جسم و اِحساسات کو زبردستی پامال کیا جاتا
رہا۔ وہ مسلسل چھ برس تک وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتی رہیں۔ اور بلاآخر ایک
دِن کامیاب ہُوگئیں۔ پہلے اُنکا خیال تھا کہ وہ واپس اپنے گھر مُلتان جائیں
گی۔ لیکن مُلتان پُہنچ کر اُنہیں معلوم ہُوا کہ اُنکے والدین غم اور لوگوں
کے طعنوں کے سبب بُہت پہلے ہی اِس دُنیا سے اپنا ناطہ تُوڑ کر جاچُکے ہیں۔
لوگوں نے امی کے اَغوا کو گھر سے بھاگنے سے تعبیر کیا تھا۔ جسکی وجہ سے
اُنکے والدین کا جینا دوبھر ہُوگیا تھا۔ پھر وہ حیدآباد آگئیں۔ یہاں بھی
مُحلہ کے چند اُوباش لڑکوں کی طرف سے اُنکی تنہائی سے فائدہ اُٹھانے کی
کوشش کی جانے لگی۔ چُونکہ ابو جی کی مُحلہ والوں میں بُہت عزت تھی۔ اسلئے
امی جان نے اُنہیں اپنی تمام پریشانی سے بذریعہ تحریر آگاہ کیا۔
ابو جی نے سُوچا کہ وہ کب تک لوگوں سے اُنکی عزت کا تحفظ کرتے رہیں گے۔
اسلئے اُنہوں نے خُود اُنہیں شادی کی پیشکش کردی۔ مگر امی جان نے انکار
کرتے ہُوئے اُنہیں تمام حقیقت اور اپنے بدنُما ماضی کی تمام داستان ایک خط
میں لکھ کر بھجوادی۔ امی جان کے بقول وہ اُنکی صاف گوئی سے اتنا متاثر
ہُوئے کہ تمام خاندان کی مُخالفت کے باوجود بھی وہ امی جان سے شادی سے باز
نہیں آئے۔ اور لوگ امی جان کو اُنکے ماضی پر طعنہ نہ دیں۔ اسلئے ابو جان
حیدآباد چھوڑ کر کورنگی کراچی چلے آئے تھے۔ جِس کے بعد ابو کے تمام خاندان
والوں نے اُن سے قطع تعلق کرلیا تھا۔
عشرت بھائی اپنی امی جان کا ماضی جان کر میری نظروں میں اُنکی عزت میں میں
مزید اِضافہ ہُوگیا تھا۔ جبکہ اختر جمال اب بات بات پر طوائف زادی کہہ کر
پُکارنے لگا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ اختر جمال صِرف ہفتہ میں دُو دِن میرے ساتھ
گُزارنے لگا۔ وہ تمام دِن انٹرنیٹ پر جنسی فلمیں دیکھتا رِہتا ۔ اور سر شام
میرے جسم کو بھوکے بھیڑیئے کی مانند روند کر واپس لُوٹ جاتا۔ مجھے اختر
جمال اور اپنے جِسم سے بھی گِھن آنے لگی تھی۔ اختر جمال کے رویے کی وجہ سے
اہل مُحلہ میں میری ذات سوالیہ نشان بن کر رِہ گئی تھی۔ لوگ مجھے ایک ویشیا
سمجھنے لگے تھے۔ اگر بات یہاں تک ہی رِہتی تُو میں پھر بھی شائد صبر کا
دامن ہاتھ سے نا چھوڑتی ۔مگر اُس جِنسی مریض نے مجھ پر بھی الزامات لگانے
شروع کردیئے۔ کبھی وہ کہتا کہ ہم ماں بیٹی نے انکل حسام کو اپنے جسموں کا
خراج دیکر اُنکی ہمدردی حاصل کی ہے۔ اور کبھی کہتا کہ ہم اپنے اخراجات
پُورے کرنے کیلئے اہل محلہ کیساتھ ناجائز رِشتہ رکھے ہُوئے تھیں۔ وہ کُونسا
غلیظ الزام ہے جو اُس نے مجھ پر اور میری ماں پر نہیں لگایا۔اِتنا کہنے کے
بعد وہ زار وقطار رُونے لگی۔
میں نے اُسے حُوصلہ دیتے ہُوئے کہا،، نتاشہ بِہن آپ بالکل پرواہ نہ کریں ۔
میری نظروں میں آپ اور آپکی والدہ ماجدہ دونوں ہی پاکباز ہیں۔ اور آپ نے
خُود کہا ہے کہ وہ شخص ذِہنی مریض ہے۔ تُو میری بِہن پاگل انسان کی باتوں
پر افسوس تُو کیا جاسکتا ہے لیکن اپنی زندگی کو رُوگ نہیں لگایا جاسکتا۔
آپکو جو بھی قانونی اور رُوحانی مدد چاہیئے ۔ وہ میں آپکو دینے کیلئے تیار
ہُوں۔ بس مجھے یہ اور بتا دیجئے کہ اختر جمال سے آپکی شادی کو کتنا عرصہ
ہُوچُکا ہے اور کیا آپکی اختر جمال سے کوئی اولاد بھی ہے۔
نتاشہ گلوگیر لہجے میں کہنے لگی۔ عشرت بھائی اختر جمال سے میری شادی ہُوئے
تین برس کا عرصہ گُزر چکا ہے۔ اللہ کریم نے میرے بطنِ گُلستان کو چار سے
زائد مرتبہ ممکنہ اولاد کی کلیوں سے سجایا ہے۔ مگر اِس ظالم انسان نے ہر
مرتبہ اُن کلیوں کو یہ کہہ کر میرے بطن سے نُوچ ڈالا کہ ہم ابھی اُولاد
افورڈ نہیں کرسکتے۔ اور کیا یہ کم بات ہےکہ،، کہ میں تُمہارے بوسیدہ اور
باسی جسم کو کراہت کے باوجودقبول کئے ہُوئے ہُوں۔ بھائی اُس ذلیل انسان کی
یہ باتیں سُن سُن کر کبھی کبھی تو دِل میں خیال آتا ہے کہ اتنے گندے
الزامات سُننے کے باوجود بھی میں زندہ کیوں ہُوں۔۔۔۔؟
نتاشہ بِہن آپ اتنے مُظالم سہہ کر بھی اختر جمال کیساتھ کیوں رِہ رہی
ہیں۔۔۔؟ میں نے نتاشہ سے استفسار کیا تو وُہ کہنے لگی۔ عشرت بھائی ۔ گُذشتہ
دُو برس میں اختر جمال نے میرے چہرے اور جِسم پر اتنی ضربات لگائی ہیں کہ
میرا پُوار وجود مسخ ہُوکر رِہ گیا ہے۔ مجھے اپنے چہرے کی بھی پرواہ نہیں
ہے۔ مگر میرے ساتھ اختر جمال کا جو رویہ رَہا ہے اُس رویے نے مجھے بھی ذہنی
مریضہ بنا کر رکھ دِیا ہے۔ وہ مجھے خُود طلاق اسلئے نہیں دیتا کہ اُسے مجھے
دس لاکھ روپیہ دینے پڑیں گے۔ اور میں خُود طلاق اسلئے نہیں لیتی کہ،، میری
ظاہری حالت دیکھ کر مجھے کُون اپنائے گا۔ جِس مُعاشرے میں خُوش شِکل کنواری
لڑکیاں رِشتے کے انتظار میں اپنے بالوں میں چاندی سجا لیتی ہُوں۔ وہاں مجھ
جیسی مطلقہ عورت جسکے چہرے کے نقوش بے شُمار زخموں سے دھندلا گئے ہُوں۔
کُون اپنائے گا۔۔۔۔؟
میں نے اُسے حُوصلہ دیتے ہُوئے کہا۔ کہ وہ اب مزید پریشان نہ ہُو۔ کیونکہ
اب اُسکا ایک بھائی بھی اُسکے ساتھ اِس جنگ میں شریک ہے۔ اور میں اُسے بُہت
جلد اُسکا قانونی اور شرعی حق دِلوا کر رَہونگا۔
فون لائن منقطع کرنے کے بعد نجانے کتنی ہی دیر میں آنکھوں کو خُشک کرتے
ہُوئے سوچتا رہا۔ کہ نتاشہ سحر کو تُو میں انشاءَ اللہ انصاف دِلا کر ہی
دَم لُونگا۔ لیکن ہمارے اِس مُعاشرے میں نجانے کتنی ہی نتاشہ سحر موجود
ہُوں گی۔ جو والدین یا اپنی پسند کے سبب ایسے بیشمار اختر جمالوں کی درندگی
کا روزانہ شِکار ہُوتی ہُونگی۔ اور ظُلم و جبر نے اُنکی قوتِ گویائی کو سلب
کرلیا ہُوگا۔ اور کتنی ہی ایسی بچیاں ہونگی جنکو حالات نے نتاشہ سحر کی طرح
یہ سوچنے پر مجبور کردِیا ہُوگا۔ کہ وہ منکوحہ ہیں یا کوئی داشتہ۔۔۔۔؟ |