گُذشتہ سے پیوستہ
اُس دِن جب نرگس کے ابَّا میرے آفس آئے تھے۔ تب وہ بُہت غصے میں تھے۔ میں
نے اُنہیں بُہت سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر وہ نہیں مانے تھے۔ میرا خیال
تھا کہ دوسری مُلاقات میں اُنہیں قائل کرلونگا۔ لیکن اُنہوں نے جاتے جاتے
مجھے سے ایک جُملہ کہا تھا۔ جسکی وجہ سے میں بُہت پریشان ہُوگیا تھا۔ اور
تُمہیں فوراً اپنے پاس لے آیا تھا۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک مہینے میں
سادگی سے نرگس کی شادی کا اِرادہ رکھتے ہیں۔ اور اگر کامل یا کِسی اور شخص
نے اِس شادی میں مُداخلت کی کوشش کی تو وہ اُسے قتل کرنے سے بھی باز نہیں
آئیں گے۔ اور اُس ضدی شخص نے ایسا ہی کیا جیسا کہ اُس نے کہا تھا۔ یہاں سے
جانے کے ٹھیک ایک ماہ بعد اُس نے اپنی بیٹی کا نِکاح اُس سے دُگنی عُمر کے
آدمی کیساتھ کردیا تھا۔ بعد میں مجھے ایک کاروباری دُوست سےمعلوم ہوا تھا۔
کہ وہ ادھیڑ عُمر کا آدمی پہلے سے ہی شادی شُدہ تھا۔ ارشد نے تُمہیں جو سزا
دی سُو دی۔ لیکن اُس نے اپنی بیٹی کو کِس بات کی سزا دی یہ مجھے آج تک سمجھ
نہیں آیا۔
اُستادعبدالرشید نے کامل کو اپنا سر تھامے زَمین پر ڈھیر ہوتا دیکھ کر اپنی
گُفتگو روک کر کامل کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن تب تک کامل کھردرے فرش پر
ڈھیر ہُوچُکا تھا۔
اب مزید پڑھیئے۔
ان تمام واقعات نے کامِل کی زندگی کو یکسر بدل ڈالا تھا۔ نرگس کی شادی کی
اطلاع پر ابتدا میں کامل کا خیال تھا کہ اُسے اب اپنی بے مقصد زندگی کا
خاتمہ کرلینا چاہیئے۔ لیکن پھر سَروشِ غیب سے کِسی نے اُسے راہ سُجائی اور
اُس نے اپنا ارادہ بدلتے ہُوئے سُوچا کہ ،، وہ کیوں اپنی زندگی کا خاتمہ
کرے۔۔۔؟ اور وہ کیوں ظالم سماج کے آگے سِپر ڈالے۔۔۔؟ اور وہ کیوں نہ اُن
لوگوں سے انتقام لیکر اُنکی زندگی کو مُشکل بناڈالے کہ جنہوں نے ہمیشہ
اُسکی زندگی سے خوشیوں کو دُور کیے رکھا۔ جو ہمیشہ اُسے غم دیکر راحت
مِحسوس کرتے رہے ہیں۔ آخر کیا جُرم تھا میرا جو چاچا ارشد نے مجھے اسقدر
سخت سزا کا مُستحق سمجھا کہ مجھ سے جینے کا آسرا ہی چھین ڈالا۔ اُسکے دِل
میں اُمڈتے انتقامی جذبات نے اُس کے دِل میں خُود کُشی کی اُبھرتی خُواہش
کو سرد کر ڈالا۔ لیکن انتقام لینے کیلئے طاقت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جِسے
حاصِل کرنے کیلئے کامل دِن رات پلاننگ کررہا تھا۔اُستاد عبدالرشید نے کئی
مرتبہ کوشش کی کہ کامل واپس اُنکے پاس لُوٹ آئے۔ لیکن کامل نے مُعذرت کرتے
ہُوئے نوکری کو ہمیشہ کیلئے خیر آباد کہہ دِیا تھا۔ اور اُستاد کے لاکھ
سمجھانے کے باوجود بھی وہ واپس اَماں کے گھر چلا آیا تھا۔ البتہ حیرت انگیز
بات یہ تھی کہ چاچا ارشد اپنا مکان بیچ کر دوسرے مُحلے میں شِفٹ ہُوچُکے
تھے۔
پہلے اُس نے سُوچا کہ طاقت حاصِل کرنے کیلئے اُسے کِسی سیاسی تنظیم میں
شمولیت حاصل کرلینی چاہیئے۔ لیکن دِماغ نے سمجھایا کہ اِس کیلئے بُہت وقت
درکار ہُوگا۔ پھر اُسکے دِل میں خیال سمایا کہ کیوں نہ وہ ڈاکوؤں کیساتھ
روابط پیدا کرے۔ لیکن پھر دِماغ نے سمجھایا کہ اسمیں خُود اُسکی جان کو
خطرات لاحق ہُوجائیں گے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ انتقام سے قبل ہی وہ خُود
کِسی پُولیس والے کی گُولی کا نِشانہ بن جائے۔ کامل کئی دِنوں سے پریشان
اِس سوچ میں گُھلا جارہا تھا۔ کہ ،، کیا وہ کبھی بھی چاچا ارشد سے انتقام
نہیں لے پائے گا۔۔۔؟ کہ،، اچانک ایک دِن سر راہ چلتے ہُوئے اُسکی نِگاہ
دیوار پر لکھی تحریر پر پڑی۔ یہ کسی بنگالی عامل کی جانب سے اشتہار تھا۔
جِس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ صرف ایک مُلاقات میں دُنیا کے کِسی بھی
ناممکن مسئلے کو ممکن بناسکتا ہے۔
کامل علی نے اشتہار پر لکھے ایڈریس کو اپنے ذہن میں مِحفوظ کرتے ہُوئے
سُوچا ہُوسکتا ہے یہ عامل ہی اُسکی کوئی مدد کردے۔ دوسرے دِن وہ بنگالی
عامِل کے ڈیرے پر جاپُہنچا۔ یہ ایک خستہ حال مکان تھا۔ جسکے ہر ایک گوشے سے
ویرانی اور وحشت ٹپک رہی تھی۔ کامل علی نے دروازے پر دستک دیتے ہُوئے
سُوچا۔ جو شخص اپنے حالات ٹھیک نہیں کرسکتا۔ کیا وہ میری مدد کرپائے گا۔
کُچھ لمحوں کے انتظار کے بعد ایک ننگ دھڑنگ بچہ مکان سے برآمد ہُوا جِس نے
کامل علی کا مُدعا جان کر اندر سے اجازت ملنے پر اُسے بیٹھک کے ٹُوٹے پھوٹے
فرش پر بیٹھنے کا اِشارہ کیا اور اندرونی دروازے سے دوبارہ گھر میں داخل
ہُوگیا۔
مزید چند لمحوں کے انتظار کے بعد پچاس برس کا ایک دھان پان سا آدمی جِسم پر
لنگوٹی باندھے۔ تمام جِسم پر چنبیلی کا تیل اور ماتھے پر سیندور لگائے گھر
کے اندرونی دروازے سے بیٹھک میں نمودار ہُوا۔ کامِل علی نے بنگالی بابا کو
دیکھتے ہی اندازہ لگالیا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتا
ہے۔ لفظ بنگال بھی شائد اُس نے اپنی شخصیت کو پرسرار بنانے کیلئے استعمال
کیا تھا۔ کامل علی نے ایک لمحے میں اُسکا سرسری سا جائزہ لیکر جونہی لب وا
کرنے کی کوشش کی بنگالی بابا نے اُسے خاموش رہنے کا اِشارہ کرتے ہُوئے کہا۔
اپنی بپتا اُسے بیان کرنا جو بے خبر ہُو۔ جو بھی آشا تیرے ہردے (دِل)میں ہے
مجھے اُن تمام شَبدوں کا آوشے گیان پرابت ہے۔ تو اُس مورکھ سے انتقام لینا
چاہتا ہے نا جس نے تُجھ سے تیری ناری کو چھین لیا ہے۔۔۔؟
کامل علی ہکا بکا اُس بنگالی جادوگر کو دیکھ سُوچ رَہا تھا۔ کہ وہ بالکل
صحیح جگہ پہنچ گیا ہے۔ کیوں کہ یہ بابا تُو دِل کی بات بھی جانتا ہے۔ یہ
ضرور چاچا ارشد کو سزا دینے میں میری مدد کرے گا۔۔۔ کامل علی اپنے خیالات
کو لفظوں کے قالب میں ڈھالنے کو سُوچ ہی رہا تھا۔ کہ ایک مرتبہ پھر بنگالی
بابا کی آواز سے کمرہ گُونجنے لگا۔ بالک بیاکل اور نِراش نہ ہُو۔ ہم آوشےِ
تیری سہایتا کریں گے۔ لیکن بالک ہم نے یہ گیان بڑی سخت تپسیا اور اپنا تمام
جیون کڑی دُھوپ میں گُزار کر اِسے حاصِل کیا ہے۔ ہم تیری اِچھا پوری کریں
گے مگر بدلے میں تُجھے بھی کُچھ لکشمی ہمیں دینی ہُوگی۔
بابا جی آپ جب سب جانتے ہیں۔ تُو آپکو یہ بھی معلوم ہُوگا کہ میرے پاس
روپیہ پیسہ بالکل بھی نہیں ہے۔ کامل علی نے بنگالی بابا کو مُخاطِب کرتے
ہُوئے کہا۔
رُوپیہ پیسہ نہیں ہے تُو کیا ہُوا مکان تو ہے نا تیرے پاس بالک۔۔۔۔؟ بنگالی
بابا نے ایک مرتبہ پھر اپنے عِلم کا اِظہار کرتے ہُوئے کہا۔۔
بابا جی مکان تو ہے مگر وہ میری اَمَّاں کی میرے پاس آخری نِشانی ہے۔ جِس
کے ہر ایک کُونے سے مجھے اَمَّاں کی مہک آتی ہے ۔ کامل علی نے بے بسی سے
بنگالی بابا کی طرف دیکھتے ہُوئے کہا۔
پھر تو میرا سمے خراب نہ کر۔ ایک طرف اُس ڈشٹ سے انتقام بھی لینا چاہتا ہے۔
اور دوسری طرف مایا کی مُحبت میں بھی گرفتار ہے مُورکھ۔ جا چلا جا یہاں سے۔
اس سے پہلے کہ مجھے کرود (غصہ) آجائے جب لکشمی کا انتظام ہُوجائے تب میرے
پاس ایک لاکھ روپیہ لیکر آجانا۔ پھر دیکھنا کہ میں کِس طرح اُس پاپی کا ناش
کرتا ہُوں اتنا کہہ کر بنگالی بابا نے اپنی دھوتی کو سنبھالا اور واپس گھر
میں چلا گیا۔
کامل علی کِسی بھی صورت میں اَمَّاں کے گھر سے ہاتھ دھونا نہیں چاہتا تھا۔
مگر چاچا ارشد سے انتقام لینا بھی ضروری تھا۔ اور بنگالی بابا پکا پروفیشنل
بندہ نِکلا تھا۔ جِس نے تھوڑے نا بُہت پُورے ایک لاکھ کا مُطالبہ کرڈالا
تھا۔ کافی سُوچ بِچار کے بعد کامل اِس نتیجے پر پُہنچا کہ اُسے رقم کے
حُصول کیلئے اُستاد عبدالرشید سے مدد مانگنی چاہیئے۔ کیوں کہ اِس بھری
دُنیا میں ایک وہی واحد شخص تھا جو کامل سے بے لوث مُحبت رکھتا تھا۔
اُستاد عبدالرشید نے ایک لاکھ روپیہ قرض دینے کیلئے کامل پر شرط عائد کی
تھی کہ پہلے کامل کو بتانا ہُوگا۔ کہ اُسے آخر ایسی کونسی ضرورت پیش آگئی
ہے۔ جِس کیلئے کامل کو یکمشت ایک لاکھ رُوپیہ چاہیئے۔ کامل علی کافی دیر تک
ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔ لیکن جب اُسے یقین ہُوگیا کہ اُستاد کو سچائی
بتائے بغیر گُزارہ نہیں ہے۔ تُو اُس نے اُستاد کو سب کُچھ سچ سچ بتادیا۔
کامل کی زُبانی تمام رُوداد سُننے کے بعد اُستاد نے اپنا سر تھام لیا۔ اور
کامل پر برہم ہُوتے ہُوئے اُسے سمجھانے لگا کہ وہ چاچا ارشد کی دُشمنی کا
خیال اپنے دِل سے نِکال دے۔ ورنہ مجھے خُدشہ ہے اسطرح کے پاکھنڈی جادوگروں
کے چکر میں ایکدِن نا صرف اپنے مکان سے ہاتھ دُھو بیٹھے گا۔ بلکہ کِسی دِن
اپنا ایمان بھی ضائع کر بیٹھے گا۔۔۔ اُستاد کے سمجھانے اور برہم ہُونے کے
باوجود کامل علی اِس بات پر مُصِر تھا۔ کہ بنگالی بابا اگرچہ بنگال کا
ہِندو ہے لیکن وہ بُہت بڑا گیانی ہے۔ جِس نے کامل سے ایک بھی بات نہیں
پُوچھی۔ اور کامِل کے دِل کا احوال بھی جان لیا۔۔۔۔
ارے بے وقوف۔ اُس نے تیرے دِل کا حال نہیں جانا۔ بلکہ تیرے دِماغ کو پڑھ کر
تیرے سوالوں کا جواب دیکر تُجھ پر اپنے عِلم کی دھاک بِٹھانے کی کُوشش کی
ہے۔ اور تیری باتوں سے صاف معلوم ہُورہا ہے کہ وہ اسمیں کافی حد تک کامیاب
رہا ہے۔ حالانکہ یہ کوئی کمال کی بات ہے اور نہ آج کے زمانے میں کوئی عجوبہ
ہے۔ کِسی بھی مذہب و مِلت سے تعلق رکھنے والا انسان اِس علم کو مستقل مزاجی
اور ذِہنی یکسوئی کی بدولت حاصِل کرسکتا ہے۔ میں زیادہ دُور نہیں جاتا یہ
ہنر تُو میرے ایک پیر بھائی شریف کو بھی ذکر الہی کی بدولت ایک مُدت سے
حاصِل ہے۔ وہ اکثر ہمارا ذہن پڑھ کر ہمیں حیران کر دِیا کرتا ہے۔ اور تُو
اتنی سی بات پر ایک کافر کا شیدائی ہُوگیا۔ جِس نے اس علم کو حاصل کرنے
کیلئے نجانے کون کونسے راستے اختیار کئے ہُونگے۔
جب کہ میرے مُرشد فرماتے ہیں۔ کہ اللہ والوں سے مُحبت اُنکی کرامات کے باعث
نہیں ہُونی چاہیئے ۔ بلکہ اُنکی اطاعت الہی اور سُنت و شریعت پر استقامت کے
سبب ہُونی چاہیئے۔ کہ ذِہن کو پڑھنے کی طاقت تو شیاطین کے پاس بھی موجود
ہُوتی ہے۔ اور بعض بدمذہب عامِل انہی شیاطین جنات کو عملیات کے ذریعے قابو
کرکے بھی دوسروں کے دِماغ کو پڑھ لیتے ہیں ۔ یا شیطانی جنات کِسی کے بھی
ہمزاد سے وہ راز معلوم کرلیتے ہیں۔ جِنہیں بسا اوقات انسان ایک دوسرے سے
چُھپائے پھرتے ہیں۔ اور بعض جادوگر تو ان خرافات کے سبب اتنے طاقتور
ہُوجاتے ہیں۔ کہ وہ ہَوا میں اُڑ کر اور پانی پر چل کر بھی لوگوں کو حیران
و پریشان کردیتے ہیں۔ جبکہ بندہ مومن کی فراست کا یہ عالم ہے کہ وہ اللہ
کریم کے نُور سے دیکھتا ہے۔ جسکے سبب اُسکی نِگاہ بیک وقت پاتال کا بھی
مُشاہدہ کررہی ہُوتی ہے اور لُوح محفوظ بھی جسکی نِگاہ سے مخفی نہیں رِہتا۔
کامل گھر جاتے ہُوئے سُوچ رہا تھا کہ اچھا ہُوا میں نے اُستاد سے جھوٹ بُول
کر رقم حاصِل نہیں کی ورنہ اِس بات کی کیا ضمانت تھی کہ وہ جادوگر اس سے
رقم لیکر اِس کا کام بھی ضرور کردیتا۔ اگر وہ رقم لیکر ڈکار بھی جاتا تو
کون اُس عامِل جادوگر کے مُنہ لگنے کی حِماقت کرسکتا تھا۔
رات کو گھر پر لیٹے لیٹے کامل کو اُس کتاب کا خیال آیا جِس کے ذریعہ مولوی
رمضان صاحب نے کامل کی سکتے کی کیفیت کو تُوڑا تھا۔ کامل اُٹھ کر اُس کتاب
کو تلاش کرنے لگا۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد کامل نے اس کتاب کو ڈھونڈ نِکالا
جسکے ذریعہ سے وہ ایک مرتبہ پہلے بھی نفع حاصِل کرچُکا تھا۔
یہ وظائف و عملیات کی ایک ضحیم کتاب تھی۔ جسکے صفحات بوسیدہ ہُوچُکے تھے۔
اور کافی صفحات شکستگی کے باعث پھٹ بھی چُکے تھے۔ کامل نے ایک صاف کپڑے کی
مدد سے اُسکی گِرد کو جھاڑا اور پھر پاؤں دراز کرکے احتیاط سے مضامین کو
پڑھنے لگا۔ اِس کتاب میں ایک سے بڑھ کر ایک حکمت کے نسخے درج تھے۔ جبکہ ایک
مکمل باب جنات اور ہمزاد کو قابو کرنے کے طریقے اور عزیمت سے بھرا پڑا تھا۔
جبکہ ایک باب بُہت سے جِسمانی امراض کے روحانی علاج سے متعلق تھا۔ کامل علی
نے فہرست دیکھ کر چند مضامین کے صفحات نمبر اپنے ذہن میں محفوظ کرتے ہُوئے
کتاب کا مُطالعہ شروع کردیا۔
اُس نے سب سے پہلے جِس مضمون کا انتخاب کیا۔وہ انسانی نظروں سے پُوشیدہ
ہُونے کا عمل تھا۔ جوں جُوں کامل علی مضمون پڑھتا چلا جارہا تھا۔ اُسکا شوق
اور خُون کی حِدت بھی بڑھتی چلی جارہی تھی۔ لیکن مضمون کے آخر میں اِس عمل
کی مہینوں پر مُحیط مُدت اور اُسکی سخت ترین شرائظ دیکھ کر اُسکے جذبوں پر
ڈھیروں برف پڑگئی۔
لیکن دوسرے مضمون ،، دانہ ثمانی ،، کے مُطالعے نے پھر اسکے شوق کو مہمیز
دی۔ اس عمل کی جہاں مدت صرف چالیس دِن تھی۔ وہیں اسکی شرائط بھی پہلے عمل
کے مُقابلے میں اُسے کچھ سہل نظر آئی۔ جبکہ اسکے فوائد بھی اُسے پہلے عمل
کی نسبت کُچھ زیادہ مِحسوس ہُوئے۔ وہ رات بھر بڑے اشتیاق سے کتاب کے
مُطالعہ میں گُم رہا۔ لیکن نیند کی وادیوں میں کھونے سے قبل کامل علی دانہ
ثمانی کے موکل کو حاصِل کرنے کا پُختہ ارداہ کرچُکا تھا۔
(جاری ہے)
اے عشق تیرے صدقے جلنے سے چُھٹے سستے
،، جو آگ بُجھائے گی وہ آگ لگائی ہے ،،
میرے ہاتھ میں قلم ہے میرے ذِہن میں اُجالا
مجھے کیا دَبا سکے گا کوئی ظُلمتوں کا پالا
پَلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا |