گُذشتہ سے پیوستہ۔
تین دِن بعد ایک سہ پہر جب میں اپنے انسٹیٹیوٹ جارہی تھی۔ مجھے راستہ میں
ایک بچے نے ایک سِلپ تھماتے ہُوئے کہا۔ کہ یہ پرچی اختر جمال صاحب نے آپ
کیلئے دی ہے۔ اس سے پیشتر کہ میں کوئی بات کہہ پاتی وہ بچہ وہاں سے رفو چکر
ہُوگیا۔ میں نے یہاں وہاں نظر دوڑائی لیکن مجھے کوئی نظر نہیں آیا۔ میں نے
دھڑکتے دِل کیساتھ وہ سِلپ کھول کر دیکھی۔ تُو اُس پر لکھا تھا۔ کہ مجھے آپ
سے ابھی اور اِسی وقت فوراً مُلاقات کرنی ہے۔ خُدا کے واسطے اِنکار مت
کیجئے گا۔ کیونکہ اِس مُلاقات سے میری زندگی کا فیصلہ جُڑا ہے۔ میں آپکے
انسٹیٹیوٹ کے باہر اپنی بائیک پر موجود ہُوں۔
آپکا اور صِرف آپکا۔۔۔۔ اختر جمال
اب مزید پڑھیئے۔
اگلے چند لمحوں میں سِلپ پھاڑ کر پھینک چُکنے کے بعد میں فیصلہ کرچُکی تھی
کہ مجھے اختر جمال سے مُلاقات کرنی چاہیئے۔ سر آپ مجھے غلط مت سمجھئے گا۔
دراصل اختر جمال کی جسقدر تعریف میری سہیلی نے بیان کی تھی۔ اسکے بعد میرے
دِل ہی میں کیا۔۔۔ کِسی بھی لڑکی کے دِل میں ایسے شخص سے خُوف کا سوال ہی
پیدا نہیں ہُوتا۔ دوسرے وہ میری زندگی کا بُہت جلدمیر کارواں بننے جارہا
تھا۔ اور میں بھی اُس شخص کو شادی سے قبل ایک نظر دیکھنے کی دِل میں شدید
خواہش رکھتی تھی۔ اور میری یہ خواہش شائد انسانی فطرت کے عین مُطابق بھی
تھی۔ وہ اپنے سانسوں کی ردھم کو متناسب بنانے کیلئے ایک لمحے کیلئے رُکی۔
میں اپنے دِل میں اِس انجان لڑکی کیلئے بے پناہ ہمدردی مِحسوس کررہا تھا۔
مجھے بالکل ایسا محسوس ہونے لگا تھا۔ جیسے وہ میرے ہی آنگن میں کھیل کر
جوان ہُوئی ہُو۔ اور اب مجھے گویا سوال کررہی ہُو۔ کہ میں تُو نادان تھی۔۔۔
مگر آپ نے بھی مجھے دلدل میں گرنے سے قبل آگاہی کا درس کیوں نہیں دِیا۔۔۔؟
اُسکا بار بار مجھے سر کہہ کر پُکارنا بھی مجھے گِراں گزر رہا تھا۔ اسلئے
میں نے اُسکی خاموشی کا فائدہ اُٹھاتے ہُوئے کہا کہ،، نتاشہ بِہن آپ مجھے
بار بار سر کہہ کر مُخاطب نہ کریں۔ اگر آپ کا مقصد یقیناً اِس لفظ کے توسل
سے مجھے تعظیم دینا ہی ہُوگا۔ لیکن اغیار کی زُبان سے مجھے اجنبیت کا
اِحساس مُسلسل ستائے جارہا ہے۔ آپ مجھے بھائی کہہ کر مُخاطِب کیوں نہیں
کرتیں۔۔؟ اِس سے جہاں آپکا اعتماد بڑھے گا۔ وہیں مجھے سکون کا اِحساس بھی
مِلے گا۔ اور آپ کے جُملوں سے اپنائیت کی خُوشبو بھی میرے وجود کو مُعطر
کرنے کا باعِث ہُوگی۔
ٹھیک ہے سر ۔۔۔اگر آپکو مجھے بِہن کہنے میں عار مِحسوس نہیں ہُورہا ۔تب
میرے لئے یہ بات سعادت کا باعِث ہُوگی کہ میرا بھی آپ جیسا کوئی بھائی ہُو۔
پھر اُس نے پہلی مرتبہ ہچکچاتے ہُوئے مجھے مُخاطب کرتے ہُوئے اپنی داستان
دُوبارہ شِروع کی۔۔۔۔ عشرت بھائی جب میں اِنسٹیٹوٹ کے نزدیک پُہنچی تب پہلی
مرتبہ میں نے اختر جمال کو دِیکھا۔۔۔ وہ واقعی بُہت خُوبرو شخص تھا۔ چہرے
پر سلیقے سے تراشی ہُوئی داڑھی ، گورے رنگ پر پیشانی کا داغ سُجود ، سر پر
سیاہ گھنے بال لئے وہ جینز اور نیلے رنگ کی شرٹ میں واقعی بُہت حسین لگ رہا
تھا۔
میرے نزدیک پُہنچنے پر اُس نے شائستگی سے مجھ سے بائیک پر بیٹھنے کی
درخواست کی۔ میں نے پہلی مرتبہ اُسکی بڑی بڑی خُوبصورت آنکھوں کی طرف
دِیکھا جو غالِباً رات بھر جاگنے کے باعث اپنے اندر سُرخی سموئے ہُوئے
تھیں۔ میں مزید وہاں کھڑے ہُوکر اپنا تماشہ نہیں بنانا چاہتی تھی۔ پھر میرے
دِل میں کہیں بھی تُو اختر جمال کیلئے خُوف کا کوئی دریچہ تھا۔ اور وہ
عنقریب میرا سائبان بھی تُو بننے والا تھا۔ یہی سُوچ کر میں اُسکی بائیک پر
سوار ہُوگئی۔ البتہ میں دِل ہی دِل میں یہ دُعا ضرور کررہی تھی کہ،، کِسی
اہل مُحلہ کی نظر نہ پڑجائے۔ جسکی وجہ سے میرے کردار اور امی جان کی تربیت
پر اُنگلیاں اُٹھائی جاسکیں لیکن سہ پہر کی دھوپ نے اُس گھڑی سب کی
نِگاہُوں سےمجھ کو سے دُور ہی رکھا۔
وہ مجھے کافی دیر خاموشی سے کراچی کی پُرسکون شاہراوں کی سیر کراتا رہا۔
یہاں تک کہ بائیک ایک ریستوران پر جا کر رُک گئی۔ یہاں بھی اِکا دُکا لوگ
ہی اندر نظر آرہے تھے۔ اگرچہ میرا دِل زُور زُور سے دھڑک رہا تھا لیکن اختر
جمال کی رفاقت میرا حُوصلہ بڑھا رہی تھی۔ ہم دونوں ایک کونے کی ٹیبل پر
بیٹھ گئے۔ وہاں شائد اِس طرح کی ڈیٹس معمول کی بات تھی۔ اسلئے کِسی نے بھی
ہماری جانب بغور نہیں دیکھا۔ کُچھ لمحوں بعد ویٹر نے تازہ جُوس کے دُو گلاس
ہماری ٹیبل پر سجادیئے۔ اختر جمال کی نِگاہیں گاہے بگاہے میرے سراپے کا
چُوری چُوری جائزہ لے رہیں تھیں۔ نجانے اللہ کریم نے عورت کے وجود میں وہ
کونسی طاقت رکھ دی ہے۔ جو ہر عورت کو مرد کی نِگاہوں کا ادراک دے دیتی ہیں
۔ چاہے کوئی مرد لاکھ اپنے اِحساسات کو چُھپانے کی کوشش کرے۔ لیکن اُسکی
نِگاہیں ہر عورت کو یہ راز بتادیتی ہیں۔ کہ وہ اُس خاتون کے بارے میں کیا
سُوچ رہا ہے۔اور میں نے بھی محسوس کرلیا تھا۔ کہ وہ مجھے بے حد پسند کررہا
ہے۔ اور میرے وجود سے اُسکے اعتماد میں اِضافہ ہورہا ہے۔
پھر اختر جمال نے خاموشی کی چادر کو چاک کرتے ہُوئے گُفتگو کی ابتدا کی۔۔۔
نتاشہ میں شائد تُمہیں یہ نا سمجھا پاؤں کہ یہ سب کیسے ممکن ہُوا۔ اور
نجانے کیسے اور کُب میں تُمہاری محبت کا اسیر ہوگیا۔۔۔ لیکن میں اتنا ضرور
بتا سکتا ہُوں کہ اب میں تُمہارے بغیر جی نہیں پاؤنگا۔۔۔
میں نے نتاشہ کی بات منقطع کرتے ہُوئے مُعذرت کی۔ لیکن نتاشہ سسٹر ابھی آپ
نے بتایا تھا کہ وہ آپکی اختر جمال سے پہلی مُلاقات تھی ۔تب وہ مُلاقات سے
پہلے ہی آپ کی مُحبت میں گرفتار کیسے ہُوگیا۔۔۔؟
عشرت بھائی بجا فرمایا آپ نے۔ یہی سوال ایک لمحے کیلئے میرے ذہن میں بھی
پیدا ہُوا تھا۔ مگر ایک تُو میری کچی عُمر اُس پر مستزاد یہ کہ میرے سامنے
ایک شاطر اور عیار مرد اپنی بھولی سی صورت کیساتھ بیٹھا تھا۔ جسکی باتوں
میں نجانے کیسا سحر تھا۔ کہ اگلے ہی لمحے اُسکی باتوں سے میرے ذہن سے یہ
سوال محو ہُوگیا۔ لیکن بعد میں مجھے یہ بات تب سمجھ آگئی تھی جب میں نے
اُسکی دراز میں اپنی سی وی والی تصویر کو دیکھ لیا تھا۔ عشرت بھائی آپ کے
سامنے اپنی تعریف بیان کرتے ہوئے مجھے شرم آرہی ہے۔ مگر میں آپکو اتنا
بتاسکتی ہُوں۔ کہ اتفاق سے میری جسامت اور میرا چہرہ انڈیا کی ایک بُہت
مشہور ایکٹریس اور سابقہ مِس ورلڈ سے ہُو بہو مِلتا ہے۔ شائد میری تصویر
دیکھ کر ہی اختر جمال کے شیطانی ذہن میں مجھے پھانسنے کا آئیڈیا آیا ہُوگا۔
لفظ ،، پھانسنا،، میرے ذہن میں پھانس کی طرح چُبھ کر رِہ گیا ۔ میں سُوچنے
لگا کہ کاش اختر جمال نے نتاشہ سحر کے خُلوص کی قدر کی ہُوتی۔
لیکن آپکو اختر جمال ہُوٹل میں کیوں اور کیا کہنے کیلئے لیکر گیا تھا۔۔ میں
نے اصل مُدعا کی طرف آتے ہُوئے استفسار کیا۔۔۔؟
جی بھائی میں وہی بتانے جارہی تھی۔ اختر جمال نے بتایا تھا۔ کہ اُس کے والد
عالِم دین ہُونے کے باوجود کِسی بھی قیمت پر اپنے قبیلے سے باہر اختر جمال
کی شادی کے لئے رضامند نہیں ہُورہے ہیں۔ اگر امی جان مان جائیں اور سادگی
کیساتھ ہمارا نِکاح کروادیں۔ تب میرے والد مجبوراً کُچھ عرصہ بعد ہی سہی
لیکن اِس شادی پرراضی ہو ہی جائیں گے۔ اور اُنکے پاس ہمیں قبول کرنے کے
علاوہ کوئی چارہ نہیں ہُوگا۔ ویسے بھی میں اُنکی اکلوتی اُولاد ہُوں۔ اور
کوئی کب تک اپنی اولاد سے خفا رِہ سکتا ہے۔
اگرچہ امی جان ایک فیصد بھی اس تمام معاملہ کے حق میں نہیں تھیں۔ بلکہ
اُنہیں تو اس بات پر بھی شدیدغُصہ تھا۔ کہ میں کیوں تنہا جا کر اختر جمال
سے مِلی تھی۔ اُنہوں نے صاف صاف کہہ دِیا تھا کہ ،، میں اختر جمال کو بھول
جاؤں۔ کیونکہ اُنہیں اختر جمال کی باتوں سے خطروں کی مہک آرہی تھی۔ جبکہ
میں کوکھ جلی اختر جمال کے سحر میں ایسی گرفتار ہُوئی تھی کہ مجھے اب نہ
راتوں کو نیند آتی تھی۔ اور نہ ہی مجھے کھانا اچھا لگتا تھا۔ امی کے سخت
رویہ کی وجہ سے میری صحت دِن بدن خراب رہنے لگی تھی۔ کاش میں نے اپنی امی
کا کہا مان لیا ہُوتا۔ تو زندگی کے اِس عذاب سے نہ گُزرنا پڑتا۔ یہ جملہ
کہتے ہُوئے وہ پھر آبدیدہ ہُو گئی تھی۔
جسطرح پُوری دُنیا میں میرا اَمی جان کے سِوا کوئی نہیں تھا۔ اسطرح امی جان
کی کُل کائنات میری تنہا ذات تھی۔ اسلئے بلاآخر اُنہوں نے میری ضد کے آگے
ہتھیار ڈال دیئے اور ایک دِن اَمی جان نے اَختر جمال کو گھر طلب کرلیا۔
شادی کی تمام تقریبات کو اختر جمال نے فرسودہ قرار دیتے ہُوئے پیسے کا ضیاع
ٹہرایا۔ اور اختر جمال نے امی جان سے درخواست کی کہ نِکاح بالکل سادگی سے
کردِیا جائے۔ بلکہ نِکاح خُوان کا بھی آپ ٹینشن نہ لیں۔ کیونکہ میرا ایک
دوست نِکاح خُوان ہے۔ جو ثواب کی نیت سے مُفت نِکاح پڑھا دے گا۔ امی جان نے
چند دِن سوچنے کی مُہلت لیکر اختر جمال کو واپس بھیج دِیا۔
اختر جمال کی شخصیت اگر چہ سامنے والے کو سحر زدہ کرنے کیلئے کافی تھی۔ مگر
اَمی جان کو نجانے کیا بات کھٹک رہی تھی۔ جِس نے اُنکی راتوں کی نیند بھی
چھین لی تھی۔ پھر اُنہوں نے ایک دِن میرے ابو کے ایک وکیل دوست کو گھر پر
مدعو کرلیا۔ جب امی جان نے اُنہیں تمام صورتِ حال سے آگاہ کیا تُو وہ بھی
کُچھ پریشان نظر آنے لگے۔ اور اُنہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہُوئےامی
کو مشورہ دِیا کہ آپ اختر جمال سے کہیں کہ وہ نِکاح خوان کی پریشانی اپنے
سر نہ لے۔ اور باقی معاملات مجھ پر چھوڑ دیں۔ میں اِس نِکاح کا انتظام خُود
کرونگا۔ اور نتاشہ میرے مرحوم دوست کی نشانی ہی نہیں بلکہ یہ بالکل میری
بیٹی کی طرح ہی ہے۔۔
شادی والے دِن ایک سادہ سی تقریب کا انعقاد ہمارے گھر پر کیا گیا تھا۔ شادی
کی تمام تقریبات خُوش اسلوبی سے طے پاگئیں تھیں۔ سوائے دو حادثات کے جسکی
وجہ سے کُچھ وقت کیلئے شادی میں بدمزگی ضرور پیدا ہُوئی تھی۔ اتنا کہہ کر
نتاشہ نے خاموشی اختیار کرلی ۔ مجھے ایسا محسوس ہُوا جیسے وہ اُن حادثات کو
بیان کرنے کیلئے خود میں ہمت جمع کررہی ہُو۔۔۔!
جب خاموشی کا دورانیہ سیکنڈوں سے مِنٹوں کی طرف منتقل ہُونے لگا تب میں نے
بے چینی سے پُوچھا۔۔ سسٹر آپ دو حادثات کا ذکر کر رہی تھیں۔؟
عِشرت بھائی پہلی مرتبہ تو شادی کی تقریب میں تب ہلچل پیدا ہُوئی تھی۔ جب
ایک خاتون نے تقریب کی ابتدا میں میرے ابو کی بِہن ہونے کا دعویٰ کرتے
ہُوئے۔ میری امی جان کو طوائف کہہ کر مُخاطب کیا تھا۔ اُنکا کہنا تھا کہ،،
میری امی جان میری شادی کو ابو کے خاندان والوں سے پوشیدہ اسلئے رکھ رہی
ہیں۔ تاکہ ابو کے خاندان والوں کو یہ معلوم نہ ہُوسکے کہ میری امی شادی کے
نام پر میرا سودا کرنے جارہی ہیں۔ مجھے اُس دِن سے پہلے نہ ہی ابو کے
خاندان کے متعلق معلوم تھا۔ اور نہ ہی امی کی زندگی کے ماضی کی کہانی کا
عِلم تھا۔
وہ تو اللہ بھلا کرے حسام الدین ایڈوکیٹ انکل کا جنہوں نے معاملہ سنبھال
لیا۔ اور کسی نہ کِسی طرح میری پھپو کو مطمئین کرنے کے بعد وہاں سے فارغ
کردیا۔ اُسکے بعد دوسری مرتبہ جمال اختر کے ایک دوست نے شُور شرابا بُلند
کردیا تھا۔ کیونکہ حسام انکل نے میرے حق مِہر کی رقم نِکاح نامہ میں مبلغ
دس لاکھ روپیہ موجل رکھوادِی تھی۔ جِس پر اختر جمال کے دُوست احتجاج کررہے
تھے۔ لیکن انکل نے اُنہیں یہ سمجھا کر مطمئین کردیا تھا۔ کہ یہ رقم صِرف
اِس لئے لکھوائی جارہی ہے۔ تاکہ ہماری بچی کا تحفظ برقرار رہے۔ اگر اختر
جمال کے والدین اِس شادی میں شامِل ہُوجائیں تُو وہ ابھی اِس رقم کے بدلے
صرف ۵ ہزار لکھوانے کیلئے راضی ہیں۔ انکل کی دلیل اور شرط اتنی باوزنی تھی
کہ بلاآخر اخترجمال نے دُوستوں کو سمجھاتے ہُوئے حامی بھرلی۔
انشاءَاللہ عزوجل تیسری قسط میں اس کہانی کا مکمل خلاصہ پیش کرنے کی بھرپور
سعی کرونگا
گُستاخ نہ جَمے کوئی نَسلاں دے وِچ میری
ایس وارثی عشرت دی دُعاوَاں دی خیر ہُو |