حکومت پاکستان و آزاد کشمیر کے درمیان اختیارات کا تنازعہ اور (سی پی ڈی آر)کا کردار

اختیارات میں عدم توازن کا مسئلہ ہر دور میں ، ہر ملک و ریاست میں رہا ہے اور انہی اختیارات کے تنازعات پر بے شمار قوموں میں اندرونی و بیرونی جنگیں بھی ہوتی رہی ہیںاور بڑی بڑی سلطنتیں بھی انہی اختیارات کے تنازعات کی وجہ سے الٹتی اور بنتی رہی ہیں ۔یہی تنازعات پوری دنیا کی طرح پاکستان و آزاد کشمیر میں بھی عام ہیں ۔گزشتہ کچھ سالوں سے کشمیریوں کی جانب سے ایک آواز بلند کی جارہی کہ کشمیریوں کے پاس اختیارات نہ ہونے کے برابرہیں ،لیکن ان اختیارات کا تفصیلی طور پر بہت کم لوگوںکو علم ہے کہ آزاد حکومت اور عوام کے کون کون سے حقوق پر قبضہ کیا گیا ہے ۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کے درمیان ہونے والے اختیارات کے تنازع کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج ہر کشمیری یہ آواز اٹھا رہا ہے کہ ان کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں ،ان کے اختیارات پاکستانی حکومت نے محدود کر رکھے ہیں۔

28جون کو اسی تنازع پر مکالمہ کرنے کیلئے راولاکوٹ میں ایک کانفرنس کروائی گئی جس کا انعقاد ایک غیر سرکاری تنظیم سنٹرل فار پیس ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمز (سی پی ڈی آر)نے کیا تھا س سے پہلے بھی تین کانفرنسز اسلام آباد ، مظفر آباد اور میرپورمیں منعقد کروائی گئیں۔ ان کانفرنسز میںسابق صدور، وزراءاعظم،موجودہ وزراءاور اسمبلی ممبران،سابق ریٹائیرڈ ججز،بیوروکریٹس،سیاسی جماعتوں کے سربراہان وذمہ داران ،وکلائ،سول سوسائیٹی کے نمائیندگان،تجزیہ نگارو دیگر اہم شعبوں کے ایسے لوگ شامل ہیں جو معاشرے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد خواتین کی بھی شامل رہی ہے ۔

(سی پی ڈی آر ) کی طرف سے منعقدہ چار میں سے دو کانفرنسز مظفر آباد اور راولاکوٹ میں جانے کا موقع ملا گو کہ مظفر آباد میں تاخیر سے پہنچنے پر کانفرنس کی مکمل غرض و غائیت سے واقفیت نہ سکی تھی لیکن راولاکوٹ میں ہونے والی کانفرنس میں وہ کمی بھی پوری ہو گئی ۔ ان کانفرنسز کے بعد آزاد جموں وکشمیر میں پاکستانی حکومت کے اختیارات کے حوالے سے جومصدقہ معلومات پہنچی ہیںوہ مکمل دیانت داری سے قارئین تک پہنچانا صحافتی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ایک کشمیری ہونے کے ناطے اہم ذمہ داری ہے ۔حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت کے مابین مروجہ آئینی ،مالیاتی اور انتظامی انتظامات کا جائیزہ کے نام سے سی پی ڈی آر کی کاوشوں سے پرنٹ شدہ مواداور کانفرنس میں شریک زعماءکی گفتگو سے جو معلومات ملی وہ مختصراًیہ ہیں ۔آزاد کشمیر حکومت کے تمام اختیارات پاکستان کی حکومت کے ہاتھ میں ہوتے ہیں یہاں تک کہ صدر و وزیر اعظم آزاد کشمیر کی تقرری بھی پاکستان کی حکومت کرتی ہے ،آزاد کشمیر کا بجٹ بھی پاکستان کی طرف سے دیا جاتا ہے جس کو آزاد کشمیر کی اسمبلی رسمی بحث و مباحثے کے بعد منظور کر دیتی ہے ،یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کو کنٹرول کرنے کیلئے کشمیر کونسل قائم کی گئی جس کا سربراہ پاکستانی آئین کے مطابق وزیر اعظم پاکستان ہوتا ہے ،آزاد کشمیر کے دفاع ،سکیورٹی ،کرنسی اور خارجہ امور کا کنٹرول بھی پاکستانی حکومت کے پاس ہے 74ءمیں جو ایکٹ پاس کیا گیا(یہ ایک الگ موضوع ہے کہ یہ ایکٹ کیسے منظور کروایا گیا اور اس میں کس کا کتنا کردار تھا) 74ءکا ایکٹ منظور کروا کر آزاد کشمیر حکومت کو لونڈھی کی مانند بنا دیا گیا ،اس ایکٹ کے تحت 52مختلف شعبوں میں آزادجموں و کشمیر کی حکومت سے اختیارات لے کر آزاد جموں و کشمیر کونسل کو دے دیئے گئے ان اختیارات میں ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر جیسا اہم اختیار بھی شامل ہے ان کے علاوہ اس منحوس ایکٹ میں آزاد کشمیر سے بجلی و پانی پیدا کرنے کے اختیارات ،سیاحت ،آبادی کی منصو بہ بندی ،بینکنگ انشورنس،سٹاک ایکسچینج اور مستقبل کی منڈیاں ،تجارتی ادارے ،ٹیلی مواصلات ،،معا شی ربط کیلئے منصوبہ بندی ،ہائی ویز،کان کنی،تیل وگیس ،صنعتوں کی ترقی اور اخبارات کی اشاعت کا اجازت نامہ بھی پاکستانی ادارے کشمیر کونسل سے لینا بھی لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے ۔حکومت پاکستان نے آزادکشمیر حکومت کے اختیارات یہاں تک ہی محدود نہیں کر رکھے بلکہ آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر حکومت کی آمدنی کے بڑے ذرائع انکم ٹیکس سمیت دیگر بہت سے ٹیکس جمع کرنے کا اختیار بھی پاکستانی ادارے کشمیر کونسل کو حاصل ہو گیا۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ و ہائی کورٹ کے ججز کا تقرر, چیف الیکشن کمشنراور آڈیٹر جنرل کی تقرری کے اختیارات بھی چیئرمین کشمیر کونسل (وزیر اعظم پاکستان )کو دے دیا گیا ۔اس لیے تمام بنیادی اختیارات پاکستانی (کشمیر کونسل )کو سونپ دیئے گئے جس سے آزاد جموں و کشمیر کی اندرونی خودمختاری اور حیثیت تقریباً ختم ہو کر رہ گئی ہے ۔

جس ادارے نے ان اختیارات اور تنازعات کے حل کے حوالے سے کا وشیں شرو ع کی ہوئی ہیں اس ادارے کا مختصراً تعارف کروا دینا بھی ضروری ہے ،سی پی ڈی آر (CPDR) ایک غیر سرکاری ،غیر سیاسی ،غیر منافع بخش ،مقامی سول سوسائیٹی کی تنظیم ہے جس کا مقصد امن،مکالمے اور مفاہمت کے ذریعے تنازعات کا حل ،معاشی ومعاشرتی ترقی اور ضروری اصلاحات کو فروغ دینا ہے ۔سی ڈی آر پی قیام 2010ءمیں سوسائٹیز ایکٹ برائے 1860 ء(ایکٹ XXI برائے 1860 )تحت عمل حکومت سے منظور شدہ ہے ،یہ تنظیم مخصوص ،میمورنڈم آف ایسوسی ایشن کی حامل ہے ۔سی پی ڈی آر کے زیر اہتمام راولاکوٹ میں جو مکالمہ کیا گیا اس میں یہ مطالبات کہ کشمیر کونسل و وزارت امور کشمیر کو فی الفور ختم کیا جائے،پاکستان میں مقیم مہاجرین کیلئے مختص نشستوں اور ملازمتوں میں کو ٹہ ختم کیا جائے،فوری طور پر ایکٹ 74ءمیں ضروری ترامیم کی جائیں ،ججز کے تقرر کا اختیار آزاد حکومت کو دیا جائے،آزاد کشمیر کی معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کیلئے منگلا ،نیلم جہلم ،دیامر سمیت دیگر پراجیکٹس کی ملکیت، بینکنگ سیکٹرسمیت ریوینیو کے تمام ذرائع آزاد حکومت کے حوالے کیے جائیں،کشمیریوں کے ٹیکس سے اسلام آباد میں سینکڑوں گھر اور سرکاری دفاتر بنانا آئین کے منافی ہے ایسے اقدامات کے خلاف آزاد حکومت قانونی کاروائی کیلئے علیٰ عدلیہ کے پاس جائے، ا ٓزاد کشمیر میں ججوں کی تقرری کیلئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی جائے، لینٹ آفیسران کو کم کیا جائے اور ان کے اختیارات محدود کیے جائیں،آزاد حکومت قانون ساز اسمبلی کو مکمل بااختیار کیا جائے ،کشمیر کونسل کے چیئرمین کا انتخاب وﺅٹنگ سے کیا جائے اور کونسل کا مرکزی سیکریٹریٹ مظفر آباد میں بنایا جائے ،مکالمہ میں بتایا گیا کہ پاکستان کا آئین اس بات کی اجازات نہیں دیتا کہ حکومت پاکستان کشمیر یوں پر زبردستی حکمرانی کرے ، آزاد کشمیر میں سیاسی لیڈر شپ کو آئین و قانون سازی کرنے کیلئے بنیادی تربیت مہیا کی جائے ۔

سی پی ڈی آر کے زیر اہتمام کانفرنسز میں آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت ،وکلاءبرادری ،سول سوسائیٹی نے متفقہ طور پرموجودہ نافذ العمل آئین 74ءمیں بنیادی تبدیلیاں کرکے آزاد کشمیر حکومت کو ایک بااختیار حکومت بنانے کا مطالبہ کیا ہے تا کہ آزاد حکومت آزادی کے ساتھ ساتھ اپنا حکومتی نظام بہتر طریقے سے چلا سکے ،آزادکشمیر کونسل اور وزارت امور کشمیر کے موجودہ انتظامی اختیارات کو ختم کیا جائے اور ان اختیارات کو صرف اس حد تک رکھا جائے اس کے ذریعے دونوں کے درمیان رابطہ کا بہتر طریقہ موجود ہو، آزادالیکشن کمیشن کی تشکیل کے ساتھ پاکستان میں مقیم کشمیریوں کی سیٹوں میں واضح کمی کی جائے کیونکہ حکومت پاکستان مہاجرین کی ان سیٹوں کی وجہ سے آزاد کشمیر کی حکومت پر ڈائیریکٹ اثر انداز ہو تی ہے ۔غیر سرکاری تنظیم سنٹر فار پیس ڈویلپمنٹ اینڈ یفارمز (سی پی ڈی آر)کے زیر اہتمام آزاد جموں و کشمیر و پاکستان کی حکومتوں کے مابین آئینی ،مالیاتی اور انتظامی انتظامات کے موضوع پر شائع کردہ رپورٹ پر راولاکوٹ میں منعقدہ مکالمہ سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس (ر)بشارت شیخ نے کہا کہ ایکٹ 74ءمیں فوری طور پر بنیادی ترامیم کی جائیں کیونکہ یہ ایکٹ آزاد کشمیر کے شہریوں کے حقوق غضب کرنے کا باعث بن رہا ہے ،یہ ایکٹ ایک غیر جمہوری و غیر شفاف نظام حکومت قائم کیے ہوئے ہے انہوں نے کہا کہ کشمیر کونسل کے ذریعے اسمبلی ممبران کے ہاتھ باندھ دیئے گئے ہیں آخر کب تک کشمیری اسمبلی ممبران اور عوام پائی پائی کیلئے محتاج رہیں گے انہوں نے کہاکشمیر کونسل کے اختیارات محض آزاد کشمیر و پاکستان کے مابین رابطہ کار کے ہونا چاہیے کانفرنس سے چیئرمین (سی پی ڈی آر ) طارق مسعود نے ان کانفرنسزکے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر میں گڈ گورننس کیلئے ماحول کو ساز گار کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے کیونکہ جب تک آزاد کشمیر میں گڈ گورننس نہیں ہو گی تب تک آزاد کشمیر کے دیگر حصوں تک ہماری رسائی ممکن نہ ہو گی انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر میں میرٹ کی پامالی عام ہوچکی ہے فنانس ،ہیلتھ سمیت دیگربیشتر منسٹریوں میں چپڑاسی کی بھرتی کرنے کیلئے بھی کشمیر کونسل والوں کی منتیں کرنی پڑتی ہیں انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کے آئین و قانون کی کوئی وقعت نہیں ہے اس صورت حال سے نکلنے کیلئے میڈیا ،وکلاءاور سول سوسائیٹی کو مشترکہ طور پر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے اسی جدوجہد کیلئے یہ پلیٹ فارم(سی پی ڈی آر)بنایا گیا ہے ذولفقار احمد عباسی صدر (سی پی ڈی آر)نے آزاد کشمیر کی معیشت کو فوکس کرتے ہوئے کہا کہ اگلے پانچ برسوں میں لاکھوں مزید نوجوان فارغ التحصیل ہو جائیں گے ان کو روزگار مہیا کرنے کیلئے کسی بھی سابقہ و موجودہ حکومتوں یا سیاسی جماعتوں کے پاس منصوبہ بندی موجود نہیں ہے انہوں نے کہا کہ سابقہ و موجودہ حکومتوں کی غلط پالیسوں کی وجہ سے صرف میرپور میںہی سینکڑوں صنعتی یونٹس بند ہو چکے ہیں انہوں نے آزاد کشمیر میں قائم قومی بنکوںپر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بنک آزاد کشمیر سے صرف بھاری زرمبادلہ حاصل کرتے ہیں لیکن آزاد کشمیر کے شہریوں کو ایک لاکھ روپے تک قرض بھی آسان شرائط پر نہیں دیاجاتا کیونکہ ان کے پاس بہانہ ہوتا ہے کہ آزاد کشمیر کے شہریوں کو قرض دینے کیلئے انہیں قانونی پیچیدگی کا سامنا ہے انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ جس میں قدرتی وسائل اور بیرون ملک موجود کشمیریوں کا بھاری زرمبادلہ شامل ہے کا ایک بڑا حصہ کشمیریوں کی سہولت کیلئے رکھا جائے ایگزیکٹو ڈائیریکٹر (سی پی ڈی آر) ارشاد محمود نے کہا کہ ہم نے آزاد کشمیر کے تینوں ڈویثرن سمیت اسلام آباد میں کانفرنسز کروا کر جائیزہ لیا ہے جس سے ہمیں اندازہ ہوا ہے کہ آزاد کشمیر میں مکمل اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہے کہ اب تک آزاد کشمیر میں اچھی حق حکمرانی قائم نہیں کی جاسکی اور 74ءکے ایکٹ کے بعد اب اس میں عوامی تعاون سے اسمبلی ممبران کو بڑے پیمانے پر ترامیم کرنا ضروری ہو چکا ہے انہوں نے کہا کہ عوام اپنے نمائندوں کی کارکردگی سے مایوس ہو چکے ہیں اسی لیے (سی پی ڈی آر)نے عوام بلخصوص سول سوسائیٹی میں اہم کردار ادا کرنے والوں سے رابطے کیے ہیں جبکہ سیاستدانوں،سابقہ حکومتی ،بیوروکریسٹس و عدلیہ کے ذمہ داروں کوبھی رائے دہی میں مکمل شامل کیا گیا ہے تا کہ مل کر اتفاق سے کوششیں کی جائیں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا اور عدالتیں آزاد ہو گئیں آئین میںترامیم کے ذریعے صوبوں نے اپنا اپنا حق لے لیا جبکہ ہمارے ہاں المیہ ہے کہ کسی نے توجہ تک نہ دی انہوں نے کہا کہ ہم اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کر رہے ہیں اگلے مرحلوں میں آزاد کشمیر کے اسمبلی ممبران سمیت پاکستان و آزاد کشمیر میں اثر انداز ہونے والے اہم عناصر سے ملاقات کی جائی گی اور اس پلیٹ فارم سے انہیں تجاویز دی جائیں گیانہوں نے کہا کہ ہم خود آئین میں ترامیم کرنے کا حق نہیں رکھتے لیکن اسمبلی ممبران کی مناسب تربیت سازی کے ذریعے ان سے آئین میں ضروری تبدیلاں کروائی جاسکتی ہیں انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں مہذب قوموں کی بہتری کیلئے مختلف این جی اوز عوامی رائے لیتے ہوئے قانون سازی کروانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں اسی طرز پر ہم بھی سول سوسائیٹی کے ساتھ مل کر کراس پارٹی کی صورت مین اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کیلئے ہمیں عوام و سول سوسائیٹی کے مکمل ساتھ کی ضرورت ہے ۔سابق وزیر حکومت و آزاد کشمیر مسلم لیگ ن کے مرکزی نائب صدر طاہر انور خان نے کہا کہ کشمیر کونسل کے ممبران کے انتخاب کا طریقہ کار انتہائی غیر مناسب ہے اس کونسل میں لوگ بھاری رقوم خرچ کر کہ ممبر بنتے ہیں اور ممبر بننے کے بعد اپنے مفادات حاصل کر تے ہیں انہوں نے کشمیر کونسل کے چیئرمین کیلئے وﺅٹنگ کے طریقہ کار کو اپنانے کو کہا انہوں نے کہا کہ غیر سنجیدہ اور ان پڑھ لوگوں کے بجائے کشمیر کونسل کے ممبران کیلئے کشمیری ہونے کے ساتھ ساتھ ٹاپ کلاس لیڈر شپ کو یہاں پر لانے کا کہا انہوں نے کہا کہ پہلے صرف منی لانڈرنگ کی کسی سامنے آتے تھے اب واٹر لانڈرنگ بھی ہو رہی ہے ،انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں بیٹھے کلرک ہمارے اسمبلی ممبران کے ناخدا بنے ہوئے ہیں جو ہم ارے لیے شرم کا مقام ہو نا چاہیے ،انہوں نے کہا کہ جب ہم کشمیری خود ٹھیک ہو جائیں گے تب سب ہی سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے ،سابق چیئرمین جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سردار صغیر خان نے کہا کہ ایکٹ 74ئمیں کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر اسمبلی کے الیکشن لڑنے کیلئے الحاق پاکستان کی شق پر دستخط لازمی قرار دیئے گئے ہیں جو کشمیریوں کے ساتھ ظلم و نا انصافی ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ 4اکتوبر 1947ءکو قائم کی گئی انقلابی حکومت کو بحال کیا جائے ۔مسلم کانفرنس کے ڈویثرنل صدر ڈاکٹر حلیم خان نے کہا کہ آزاد کشمیر اسمبلی مضبوط کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن کے تقرر کا اختیار آزاد حکومت کو دیا جائے انہوں نے کشمیریوں کی منزل پاکستان کو قرار دیا اور کہا کہ ہم کسی بھی صورت پاکستان سے الگ نہیں ہو سکتے ،سابق مشیر حکومت و پی پی پی پونچھ کے ضلعی صدر عظیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ (سی پی ڈی آر)نے یہ ایک اہم قدم اٹھایا ہے ہم حکومت میں ہوتے ہوئے بھی ان کے اقدامات کی مکمل تائید کرتے ہیں کینکہ حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا انہوں نے کہا کہ کشمیر کونسل کی موجودہ ہیت کو دیکھتے ہوئے خود بھی شرم محسوس ہوتی ہے تاہم کرنسی ،داخلہ و کارجہ کا کنٹرول وفاق کے پاس ہونا ضروری ہے جے کے پی این پی کے رہنماءسردار شمشاد ایڈووکیٹ نے کہا کہ ملک کے اندر کرپشن و لا قانونیت کینسر کی طرح سرایت کر چکے ہیں اب انقلاب ہی ایک واحد راستہ ہے جو تبدیلی لا سکتا ہے انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر میں لیڈر شپ کبھی نطر ہی نہیں آئی یہ سب لوگ تنخواہ دار ہیں ،حبیب حسین شاہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ آج ایسے لوگ تبدیلی کی بات کرتے ہیں جو کل تک اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں ہیں انہوں نے کہا کہ وﺅٹ کا حق دلانے کیلئے ماریں کھا کر جیلیں ہم جاتے رہے لیکن آج اس کاکریڈٹ اور لوگ لے رہے ہیں ،قوم پرست طالب علم رہنماءقیصر خان نے کہا کہ ہم کشمیریوں کو اپنی پہچان مقبول بٹ کے وارث کے طور پر کروانی چاہیے انہوں نے سی پی آر ڈی سے مطالبہ کیا کہ جن تنظیموں کو یو این او نے بلیک لسٹ کر رکھا ہے ان کو آزاد کشمیر کے اندر کام کرنے سے روکنے کیلئے بھی اقدامات کیے جائیں اس موقع پرسابق بانی چیئرمین پی ڈی اے سردار عبدالخالق ایڈووکیٹ ،معروف تجزیہ نگار اعجاز صدیقی ،قوم پرست رہنماءقدیر خان،منیر قریشی،کاشان مسعود،داکٹر ظفر حسین ظفر،وقاص کھوسہ اور دیگر نے خطاب کیا ۔

سی پی ڈی آرجیسی غیر سرکاری تنظیم کا آزاد کشمیر و پاکستان کے درمیان آپسی معاملات میں ا س حد تک دلچسپی لیناور اس کیلئے مخلصانہ کوششیں قابل تعریف ہے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ کشمیریوں کو ان کے تمام جائز حقوق دینے کیلئے حکمت عملی وضع کرے اور آزاد جموں وکشمیر کونسل کو دیئے گئے قانون سازی ،انتظامی امور اور ٹیکس عائد کرنے کے جملہ اختیارات آزاد حکومت کو دیئے جائیں تاکہ آزاد کشمیر کے عوام اپنے تمام تر حقوق وسائل کا بہتر استعمال کرتے ہوئے اپنی ریاست جموں و کشمیر کیلئے خود فیصلے کرتے ہوئے ترقی کر سکیں ۔سی پی ڈی آر کے منتظمین کو بھی چاہیے اپنی پالیسیوں پر برقرار رہتے ہوئے وسیع تر بنیادوں پر مخلصانہ کام کیا جائے اسطرح کام کرنے سے انہیں سول سوسائٹی سے بہت سپورٹ ملے گی او ر ریاست بھر سے نیا ٹیلنٹ سامنے آنے میں مدد مل سکے گی ۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 59230 views Columnist/Writer.. View More