کسی بھی قد آور شخصیت کی قدرو
قیمت کا اندازہ اس کے اس جہانِ فانی سے کوچ کر جانے کے بعد ہو تا ہے کیونکہ
اسکی کمی کو اس کے پسماندگان زندگی کے آنے والے امتحانوں اور ٓآزمائشوں میں
ہر آن محسوس کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں جو چیز آسانی سے مل جائے یا پھر جو چیز
دستِ قدرت میں ہو اسکو وہ اہمیت نہیں ملتی جتنی اہمیت اسے ملنی چائیے۔ ہم
معمولاتِ زمانہ میں بعض انسانوں کو وہ اہمیت دینے سے قاصر رہتے ہیں جس کے
وہ حقدار ہو تے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ غیر اہم ہو تے ہیں یا ان میں
صلاحیتوں کا فقدان ہو تا ہے بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہو تی ہے کہ وہ اپنی
سادہ لوحی سے کسی کو اپنی اہمیت کا احساس نہیں دلاتے ۔وہ اپنی ذات کی اہمیت
کو اجاگر کرنے کےلئے مسائل کو پہاڑ بنا کر پیش کرنے کے فن سے آشنا نہیں
ہوتے بلکہ وہ مسائل کو اپنی عقل و دانش اور فہم و فراست سے اتنی آسانی اور
سہو لت سے حل کرتے ہیں کہ وہ انتہائی سادہ اور آسان نظر آنے شروع ہو جاتے
ہیں جس سے ان کی شخصیت عام انسانوں کی طرح نظر آنے لگتی ہے۔ وہ خود کو ما
فو ق لفطرت بنا کر پیش کرنے کی عادت سے بھی عاری ہو تے ہیں ۔یہ سچ ہے کہ
زمانہ ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کامعترف ہو تا ہے لیکن ہم ان کی خداداد
صلاحیتوں کی بدولت انھیں وہ مرتبہ اور مقام عطا نہیں کرتے جو ان کی شخصیت
ہم سے تقاضا کرتی ہے ۔ بحثیتِ مجموعی نہ تو ہم ان کی عظمت کو تسلیم کرنے پر
تیار ہو تے اور نہ ہی ا نھیں غیر معمولی افراد کی فہرست میں جگہ دینے پر
آمادہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنی زندگی میں بڑے سیدھے سادھے اور نمو دو نمائش
سے مبرا ہو تے ہیں ۔فوزیہ وہاب ایک ایسا نام جس نے پچھلے چند سالوں میں ہر
سو اپنی فکر و دانش کے پھول کھلائے اور اس احساس کو قوی کیا کہ انسان اپنے
خونِ جگر سے اپنی افادیت کا لو ہا منوا سکتا ہے اور معمولی ذرائع کے باوجود
اپنی ذات کا گہرا پرتو چھوڑ کر تاریخ کے اوراق میں اپنا اعلی مقا محفوظ کر
سکتا ہے۔ فوزیہ وہاب ان لوگوں کے لئے ایک ایسی روشن مشعل کی طرح ہے جوزمانے
میں اپنی خدا داد صلاحیتوں سے کسی اہم مقام کے تعین کی آرزو رکھتے ہیں اور
پھر وہاں تک رسائی حاصل کرکے رہتے ہیں۔ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی
اس گھریلو خا تون نے جس طرح سے اپنی ذات کا لوہا منوایا وہ انہی کا حصہ تھا
۔ سادہ لوح مگر پر عزم اور دلائل کی کاٹ ایسی کے بڑے بڑے جغادری اس کا
سامنا کرنے سے خوفزدہ رہتے تھے۔وہ اپنے اظہار میں بڑی واضح اور بے باک تھی
کیونکہ اس کا دامن کر پشن،منافقت اوردوغلے پن کی آلودگیوں سے بالکل پاک و
صاف تھا۔وہ فنانس کی پارلیمانی کمیٹی کی چیر پرسن تھی لیکن مجال ہے اس کی
ذات پر کسی نے ایک روپے کی کرپشن کا الزام کبھی لگا یا ہو۔اس زما نے میں جب
کرپشن کے بغیر زندہ رہنا نا ممکنات میں سے ہے اسی گئے گزرے زمانے میں بھی
ناممکنات کو ممکن بنا کر دکھانے والی شخصیت کا نام فوزیہ وہاب ہے جس نے
کرپشن کی بہتی گنگا میں بھی خود کو محفوظ رکھا اور ایمانداری اور دیا نتد
اری کی نئی مثال قائم کر کے عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی۔اس نے دولت کی
چکا چوند سے نہیں بلکہ علم وفن، دانش و حکمت اور فہم و فراست کی قوت سے
معاشرے میں اپنا مقام بنایا جو آنے والی نسلوں کے لئے مینارہَ نور کا کام
دیتا رہے گا۔۔
میں ذاتی طور پر قومی اسمبلی کی ممبر اور پی پی پی کی سابق انفارمیشن
سیکرٹری فوزیہ وہاب کی اچانک موت پر گہرے دکھ اور رنج کا اسیر ہوں ۔ فوزیہ
وہاب کی اچانک رحلت سے مجھے ہر سو غم کی کیفیت چھائی ہو ئی محسوس ہو تی ہے
کیونکہ میری ان کی ذات کے ساتھ بہت سی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں ۔فوزیہ
وہاب بڑی بے باک، نڈر اور با جرات خاتون تھیں ۔ وہ اپنا نکتہ نظر بڑی جرات
اور سچائی کے ساتھ پیش کرتی تھیں۔پی پی پی ان کی رحلت سے ایک سچے ،مخلص اور
نظریاتی قائد سے محروم ہو گئی ہے۔وہ جس طرح سے پی پی پی کا دفاع کرتی تھیں
اس نے انھیں پارٹی میں ایک اعلی مقام عطا کر رکھا تھا۔ان کے پر جوش، جذ
باتی اور بے باک اندازِ خطابت سے کچھ لوگوں کو اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن
جمہوریت کے لئے ان کی عظیم جدو جہد سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ وہ
ایما ندار، سچی اوراعلی کردار کی حامل خا تون تھیں ۔ ان کے مخالفین بھی ان
کے اعلی کردار پر انگلی نہیں اٹھا سکتے تھے۔ ان کی رحلت سے قوم ایک با
کردار سیاست دان سے محروم ہو گئی ہے۔ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی قریبی اور
با اعتماد سا تھی تھیں۔ ان کی اس حیثیت نے ان کے مقام اور وقار میں بے پناہ
اضا فہ کر دیا تھا اور انھوں نے اپنے کردار سے ثابت کیا تھا کہ محترمہ بے
نظیر بھٹو نے ان پر جس طرح اعتماد کا اظہار کیا تھا وہ اس کی مکمل طور پر
اہل تھیں۔ مردوں کے تسلط شدہ معاشرے میں ایک عورت کا اتنا بلند مقام حاصل
کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا اور فوزیہ وہاب نے اپنے کردا و افعال سے
یہ اعلی مقام حاصل کیا تھا۔وہ ایک بڑے علمی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور
علم کا وہ خزانہ ان کی ذات کے اندر بھی محسوس ہو تا تھا۔وہ ایک ترقی پسند
سوچ کی حامل خاتون تھیں جنھیں مذہب پسند حلقے تنقیدی نظر سے دیکھتے تھے۔
ایک زمانے میں شدت پسند مذہبی حلقوں نے ان کے خلاف ایک مہم بھی چلا رکھی
تھی لیکن فوزیہ وہاب ایسے کسی بھی دباﺅ اور دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لاتی
تھیں بلکہ جس بات کو حق اور سچ سمجھتی تھیں اسے پورے یقین اور اعتماد کے
ساتھ پیش کرتی تھیں۔ ان کے دلائل میں اتنی منطق ، گہرائی اور مضبوطی ہو تی
تھی کہ لوگ خو د ہی ان کی جانب کھینچتے چلے جاتے تھے اور ان کے نظریات اور
خیالات کی صداقت پر یقین کرنے لگتے تھے اور ان کی علم دوستی اور سچائی کے
قائل ہو تے چلے جاتے تھے۔۔۔
میرے فوزیہ وہاب کے ساتھ ذاتی روابط تھے۔ مجھے ان کے ساتھ نیاز مندی کا شرف
بھی حاصل تھا اور انھیں کئی بار ملنے اور ان سے سیکھنے کا ا عزاز بھی حاصل
رہاتھا۔ ان سے ہر ملاقات کے بعد میں ان کی شخصیت اور صلاحیتوں کا مزید
معترف ہوتا چلا جاتا تھا ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب (چندسال قبل) اے آر وائی
ٹیلیویژن پر عنیق احمد کا ایک علمی پروگرام چلا کرتا تھا جو مذہب اور
اجتہاد کے موضوع پر ہو ا کرتا تھا اور میں نے اسی پروگرام میں پہلی بار
فوزیہ وہاب کو دیکھا تھا اور اسی دن سے میں ان کی فراست اور دانش کا قائل
ہو گیا تھا ۔ میں ہمیشہ سے اسلام میں اقبال کی ترقی پسند فکر سے متاثر ہوں
اور اسلام میں اجتہاد کا قا ئل ہوں ۔ اقبال وقت کے بدلتے تقا ضو ں کے مطابق
اسلام کی ایسی تعبیر چاہتے تھے جو جدید تقاضوں کا ساتھ دے سکے اور قوم کی
راہنمائی ایسی منزل کی جانب کرسکے جس سے اس کے نوجوان ستاروں پہ کمند ڈالنے
کا قابل ہو سکیں اور سائنسی دنیا میں اپنی افادیت کا لوہا منوا سکیں۔ فوزیہ
وہاب بھی اسی سوچ کی حا مل تھیں لہذا مجھے انھوں نے بڑا متاثر کیا تھا ۔ ان
کا استد لال یہی تھا کہ اسلام ایک زندہ و پائندہ دین ہے جس میں رفعتوں اور
بلندیوں کا سفر ہمیشہ جاری رہے گا اور جدید سوچ ہی ہمیں منزلِ مراد سے
ہمکنار کر سکے گی لہذا یہ کہنا کہ سارے مسائل کا حل فقہ نے صدیوں پہلے
تجویز کردیا تھا صحیح نہیں ہے۔ فقہ نے ہمیں سوچنے سمجھنے کی مضبوط بنیادیں
فراہم کی ہیں جس پر ہم ان کے احسان مند ہیں لیکن ہمیں ہر زمانے میں ابھرتے
مسائل کو اپنی بصیرت فکر اور اجتہاد سے حل کرنا ہے۔ زمانے کے بدلتے تقاضے
ہم سے اجتہاد کا تقا ضا کرتے ہیں اور ہمیں زمانے کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے
اسلام کی روشنی میں ان تمام مسائل کا حل عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق تلاش
کرنا ہو گا۔ہر چیز کو کفر اور حرام کہہ کر جھٹک دینا اسلام کی تعلیمات کے
خلاف ہے ۔اسلام تو علم کے حصول کو انسانیت کی معراج قرار دیتا ہے اور غو رو
فکرکی قدم بقدم دعوت دیتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ حلقوں نے
اسلام میں غورو فکر کو شجرِ ممنو عہ قرار دے کر امت مسلمہ کے زوال کی
بنیادیں رکھنے کا فریضہ سر انجام دینے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے اورسلام کو
ایجادات اور ٹیکنا لوجی سے دور کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ ان کی
سوچ تھی کہ ہمیں جدید علوم کو سیکھنا ہے اور ان کی قوت سے تسخیرِ کائنات کی
جانب بڑھنا ہے تا کہ امامتِ دنیا مسلمانوں کا ایک دفعہ پھر مقدر بن سکے۔ ان
کے یہی خیالات تھے جن سے مذہب پسند طبقے ان سے سخت نالاں رہتے تھے اور ان
پر مختلف قسم کے فتوے جاری کرتے رہتے تھے لیکن وہ اجتہاد اور جدید سوچ کے
اپنے افکار سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹتی تھیں۔انھیں قتل کی دھمکیاں بھی دی
گئیں اور ان کی کردار کشی کرنے کی بھی کوشش کی گئی لیکن وہ اپنے موقف پر
کوہِ گراں بن کر ڈٹ گئیں جس کی وجہ سے مخالفت کی ساری آندھیاں آہستہ آہستہ
خود ہی تھم گئیں۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب فوزیہ وہاب محترمہ بے نظیر
بھٹو کی شہادت(27 دسمبر2007) کے بعد پہلی دفعہ 2008 میں یو اے ای تشریف
لائیں اور ہم نے انھیں 27 دسمبر (محترمہ بے نظیر بھٹو کے یومِ شہادت کے
حوالے سے ) یو اے ای میں منعقدہ پروگرام میں شرکت کی دعوت دی تو انھوں نے
صاف انکار کر دیا۔ وہ کہنے لگی کہ 27 دسمبر والے دن میرے لئے یہ ممکن نہیں
ہے کہ میں کسی پروگرام میں شرکت کر سکوں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے
میں اتنے غم میں ڈوب جاتی ہوں کہ میں دوسروں کے سامنے آ نہیں سکتی۔۷۲ دسمبر
کو میں کچھ بھی کہنے کی حالت میں نہیں ہو تی کیونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی
شہادت کے اس سانحے اور ان کی جدائی کے صدمے کو برداشت کرنا میرے بس میں
نہیں رہتا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ آنسو ﺅں میں
ڈوب گئیں اور پوری محفل کو سوگوار کر دیا۔ان کی فرمائش پر میں نے محترمہ بے
نظیر بھٹو شہید کے لئے لکھی ہوئی اپنی مندرجہ ذیل مشہو رو معروف ر با عی ان
کی نذر کی ۔
طلسمِ ظلمتِ شب ٹوٹا میری للکار سے۔۔۔ قریہ قریہ ہو ہے روشن رسمِ ذو لفقار
سے
میرے دلِ بےتاب میں ایک ہنگامہ ہے بپا۔۔۔ مجھ کو نسبت خاص ہے حیدرِ کرار سے
( طارق حسین بٹ شان)
فوزیہ وہاب کے ایک بیٹے علی وہاب یو اے ای میں رہائش پذ یر ہیں اور میرے
قریبی دوستوں میں شمار ہو تے ہیں۔ان سے میری ملاقات چند سال قبل پی پی پی
کے ایک جلسے میں ہو ئی تھی اوراس دوستی کی بنیاد فوزیہ وہاب کی وہی فکری
قوت تھی جس کی جانب میں نے اوپر اشارہ کیا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ علی وہاب کے
ہاں چند سال قبل بیٹے کی ولادت ہو ئی اور اس کی مبارک باد کے لئے میں نے
فوزیہ وہاب کو فون کیا تو ان سے اپنا تعارف ر با عیوں والا کہہ کر کروایا
تھا ۔ وہ کارکنوں کا بڑا احترام کرتی تھیںاور انھیں عزت و وقار سے نوازتی
تھیں۔ ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے یہ احساس تک نہیں ہو تا کہ ہم ایک بہت بڑی
علمی شخصیت کی محفل میں بیٹھے ہو ئے ہیں ۔وہ ذاتی زندگی میں بڑی حلیم طبع
تھیں اور دوسروں کے احترام پر پختہ یقین رکھتی تھیں۔ان کی خوش لباسی اور
شخصیت کی دلکشی نے بھی ان کی مقبولیت میں ہم کردار ادا کیا تھا۔ چند ہفتے
قبل ایک دفعہ پھر میرے دوست علی وہاب کے ہاں جڑو ا ں بیٹو ں کی ولادت ہو ئی
تھی اور علی وہاب بہت خوش تھا میں نے خدا کی اس بے پایان عنائت پر اسے
مبارک باد دی ۔مجھے کہنے لگا کہ امی جان چند دنوں میں یو اے ای آئیں گی
لہذا وہ جب بھی آئیں گی میں آپ کو خبر کر دوں گا تا کہ آپ ان سے ملاقات کر
سکیں۔ قومی سیاست کی پچیدگیوں کے باعث وہ یہاں تشریف نہ لا سکیں اور پھر
چند ہفتے قبل وہ پتے کے اپریشن کے سلسلے میں ہسپتال میں داخل ہو گئیں جہاں
سے وہ زندہ لوٹ کر واپس نہ آ سکیں اور یوں میری ان سے ملاقات حقیقت کا روپ
اختیار نہ کر سکی جس کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا ۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی جب
میں علی وہاب سے اس کی عظیم ماں کی رحلت پر اظہارِِ افسوس کے لئے جاﺅں گا
تواس سے کیسے افسوس کر پاﺅں گا کیونکہ میرے سارے الفاظ بھی میری اس دلی
کیفیت کا احاطہ نہیں کر سکیں گئے جو فوزیہ وہاب کی رحلت سے مجھ پر طاری
ہیں۔آئے اقبال کے دو اشعار پر آج کے اس کالم کا اختتام کرتے ہیں کیونکہ
علامہ اقبال سے انھیں بڑی گہری محبت تھی ار وہ ان کی فکر سے بڑی متاثر تھیں۔
یہ وہی دو شعر ہیں جو میرے جواں سال بیٹے ذیشان طارق کی قبر کے کتبے پر بھی
کندہ ہیں۔۔۔
ہے یہی میری نما زہے یہی میرا وضو۔۔۔میری نواﺅں میں ہے میرے جگرکا لہو
صحبتِ اہلِ صفا نو رو حضور و سرور۔۔۔سر خوش و پر سوز ہے لالہ لبِ آبجو |