شب برات : اسلام کے فطری نظام کے آئینے میں

کوئی اہم دن ہو یا واقعہ اس کی یاد منائی جاتی ہے، یادگار لمحات تاریخ کا حصہ بن کر محفوظ ہو جاتے ہیں، واقعہ یوں ہے کہ جب کوئی خاص بات ظہور میں آتی ہے تو اس کی یاد اس وقت کے آنے پر ہر ہر سال تازہ کی جاتی ہے۔ یہ ایک فطری معاملہ ہے، اسلام تو فطرت کا دین ہے، اس نے فطری تقاضوں کو ہر ہر جگہ ملحوظ رکھا ہے، اور ان کی تسکین کا پورا پورا سامان کیاہے۔ خوشی کے لمحات، واقعہ یا حادثہ، سانحہ یا تاریخ کا المیہ، انعام و اکرام کا دن،یا نعمت باری کی وصول یابی کا دن، کسی اولوالعزم نبی کا کوئی یادگار لمحہ.... سبھی کو اسلام نے محفوظ رکھا ۔ مثالیں کثیر ہیں؛ حج کے ارکان، قربانی کے ایام.... یوم عاشورہ کی صبح خوں آشام.... معراج کی شبِ گل فام.... روزوں کے ایام.... شبِ قدر کے لمحاتِ پر انعام.... اور شبِ برات کے انوار و برکاتِ رب الانام، یہ یادوں کی بہاریں ہی ہیں، انعامات کی قطاریں ہی ہیں، ایقان و ایمان کی تازگی کے نظارے ہی ہیں، جلوؤں کی رعنائیاں ہیں، تجلیوں کی جلوہ سامانیاں ہیں، نکہتوں کی تابانیاں ہیں، خوش بوؤں کی ضو فشانیاں ہیں۔

اسلام کے فطری لازمے میں لہو و لعب اور غلط روی کا تصور نہیں ہے، شبِ برات رحمت کردگار کے انعامات کی رات ہے، بندوں پر نوازشات کی رات ہے، گناہوں سے مغفرت کی رات ہے، اعمال کے سنوارنے کی رات ہے، صراطِ مستقیم پر استقامت کی رات ہے، اس لیے چاہیے کہ اس کا ادب و احترام ملحوظ رکھیں، تقدس قایم رکھیں.... دوسرے مذاہب میں خاص دنوں کے منانے کا تصور مختلف ہے، وہ غربا کے لہو پر خوشیوں کے محلات تعمیر کر کے اظہارِ مسرت کرتے ہیں، وہ عزتوں کو تار تار کر کے لمحات کے چہرے داغ دار کرتے ہیں.... اور اسلام انسانیت کو سنوار کر خاص ایام منانے کے اصول دیتا ہے.... اس لیے شبِ برا ¿ت کا فلسفہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ اس میں نجات کا مژدہ ہے، بخشش کا سودا ہے، جہنم سے نجات کا پروانہ ہے، رضاے الٰہی کا انعامِ خُسروانہ ہے۔

مُردوں کا خیال
اسلام حقوق کی ادائیگی کو اہمیت دیتا ہے، ہر ایک کا حق ہے، اور ہر ہر حق کے لیے اسلام نے قانون واضح کیے۔ مُردوں کو بھی محروم نہیں چھوڑا۔ شبِ برات میں ایصالِ ثواب کے خصوصی اہتمام کا وہ تصور موجود ہے جس سے مرحومین کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ ان کی قدر و منزلت آشکار ہوتی ہے۔ موت کے بعد رشتے منقطع ہو جاتے ہیں۔ عملِ صالح کا فایدہ ضرور پہنچتا ہے۔ اسی لیے ایصالِ ثواب جیسا مبارک عمل اسلامی سوسائٹی کا معمول رہا ہے۔ اسلامی سوسائٹی میں آخرت کا تصور، حشر و نشر کا تصور ایسے ٹھوس عقیدے ہیں کہ جن کے سبب معاشرتی توازن برقرار رہتا ہے، ظلم کا سر نیچا رہتا ہے، حقوق کا پاس و لحاظ باقی رہتا ہے، زیادتی سے بندہ محفوظ رہتا ہے، کبر و نخوت سے دل سلامت رہتا ہے۔ اور اپنے مرحومین کے لیے نیک اعمال کی انجام دہی کے ذریعے ثواب کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ معلوم ہوا کہ شبِ برات کی برکت سے مُردے بھی فایدہ پاتے ہیں، وہ بھی اس میں شاد ہوتے ہیں۔ اس شب قبرستان جانا عملِ صالح ہے، جس کا فلسفہ بڑی گہرائی رکھتا ہے.... بعض وہ ہیں جو سال بھر گناہوں میں ڈوبے رہتے ہیں۔ حقوق غضب کر لیتے ہیں۔ انسانیت کی قبا تار تار کر دیتے ہیں۔ ظلم کو شعار بنا لیتے ہیں۔ معاشرہ پراگندہ کر دیتے ہیں۔ حرام اپنا لیتے ہیں۔ وہ بھی اس شب قبرستان جاتے اور اپنے مرحومین کو ایصال ثواب کرتے ہیں، تو! انھیں ان کا ضمیر ملامت کرتا ہے۔ کہ تجھے بھی ایک دن قبر میں جانا ہے۔ پیوندِ خاک ہونا ہے۔ حساب دینا ہے۔ کیے کا بدلا پاناہے.... اے سرکش! اے ظالم باز آ.... نادم ہو جا! گناہوں سے توبہ کر لے، اعمال کی اصلاح کر لے، رب کی اطاعت کو اپنا لے، نفس کی شرارتوں سے توبہ کر لے، اور اپنی زندگی کو سنوار لے، مجدد اسلام محدث بریلوی نے جو دعا کی وہ دل کو چھوتی محسوس ہوتی ہے
اللہ اللہ کے نبی سے
فریاد ہے نفس کی بدی سے
اطاعت اور فرماں برداری

اللہ کریم کی اطاعت مومن کا جوہر ہے، مگر آج معاملہ بر عکس ہو گیا، الٰہی یہ کیا ہو گیا، کھاتے ہیں رب کا اور فرماں برداری رب کے دشمنوں کی، دینِ فطرت نے فطرت کو سنوارہ ، باطن کو نکھارا، اطاعتِ الٰہی پر اُبھارا، .... بات آئی اطاعت کی تو قرآن سے استفادہ کرتے ہیں اللہ کریم کا ارشاد ہے، وَلَہ اَسلَمَ مَن فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ طَوعًا وَّکَرھًا وَّاِلَیہِ یُرجَعُونَ (سورة آل عمران:83)”اور اسی کے حضور گردن رکھے ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی سے اور مجبوری سے اور اسی کی طرف پھریں گے“.... جب پوری کاینات اور نظامِ کاینات اطاعت کر رہے ہیں اور اس بنیاد پر پوری کاینات ”مسلم“ ہے اور مسلم کے معنٰی ہی اطاعت کے ہیں تو ہم مسلمان کیوں نفس بدکار کے جھانسے میں آ کر اعمال نامے (Deef) کو گناہوں سے آلودہ کر رہے ہیں ؟ یہ بات تو خلاف عقل ہے، ہم آپ اپنا خسارہ کر رہے ہیں، شبِ برات میں ہمیں اپنے نفس کا محاسبا کر لینا چاہیے اور رب قدیر کی اطاعت اور فرماں برداری کو زندگی کا لازمہ اور افعال کا حصہ بنا لینا چاہیے۔ مفتی اعظم ہند نوری نے فکر کو مہمیز لگائی اور محاسبے کی دعوت دی
عبادت کے یہی دن ہیں بُڑھاپے میں کہاں ہمت
جو کچھ کرنا ہے اب کر لو ابھی نوری جواں تم ہو

عالَم اسلام کی حالت زار
ہمیں شکوہ ہے کہ مصائب و آلام میں گھرے ہیں، جور و ستم کا شکار ہیں، تمدنی و تہذیبی، اخلاقی و فکری طور پر ہم ہراساں کیے جا رہے ہیں، وجہ کیا ہے؟ یہی کہ ہم نے دوسروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے، سب کچھ اسلام کے دامن میں ہے، ہم پھر بھی اغیار کے طریقے اپنا رہے ہیں، یاد رکھیں قوموں کا وقار اس کے اپنے تمدن پر استقامت میں ہے، ہم نے ویسٹرن کلچر کو اپنایا تو ان کے گویا اسیر ہو کر رہ گئے.... یاد آیا ایک صاحبِ دل نے درِ دل پر دستک دی تھی، اسیری کا پیام دیا تھا.... دربارِ نبوی کی اسیری کا، جو اس در کا اسیر ہو جاتا ہے وہ اَن مول ہو جاتا ہے، کوئی باطل قوت اس کا سودا نہیں کر سکتی، اقبال نے سچ کہا تھا
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

شبِ برات کی ساعتیں ہمیں من حیث القوم بے دار کر رہی ہیں.... ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں، ہماری شناخت اسلام ہے، ہم سب ایک بارگاہ میں سرِ نیاز خم کرنے والے ہیں، اور ہماری شناخت آقاے کاینات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سچی محبت ہے.... کیسے ہیں وہ لوگ جو محبوب میں عیب تلاش کیا کرتے ہیں.... یہ کام تو یہود و نصاریٰ کا ہے، تحقیق کی نگاہ ڈال لیجیے، مستشرقین یورپ کی کتابیں چھان ماریے.... ان کی تصانیف میں توہین نبوی کا زہر رچا ملے گا، یہی فکر رشدی میں منتقل ہوئی اور اس کی راہ چلنے والوں میں، اپنے محبوب میں عیب کی تلاش غیر دانش مندانہ کام ہے اسی لیے رُسوائی کے گھڑے میں گرے جاتے ہیں، شبِ برات کی ساعتوں میں ایسے افراد کو سچی توبہ کر لینی چاہیے۔ اور ”مصطفوی“ ہونے کا اظہار کرنا چاہیے کیوں کہ
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دین ہے تو مصطفوی ہے

آج مسلمان پریشاں ہے، لہو ارزاں ہے، فرقہ پرست نازاں ہے، رحمت رُو گرداں ہے سبب اس کا مسلماں کی بے عملی کا توشہ داں ہے، ضروری ہے کہ ہم رب کو راضی کر لیں، تب رحمتوں کے بادل اُٹھیں گے، جھوم کر برسیں گے، گناہوں کے سب داغ دُھلیں گے، غنچے کھلیں گے، مسرتوں کے دیپ جلیں گے، برات و مغفرت کے توشے بٹیں گے، اور من کی دنیا میں اُجالا پھیل جائے گا۔
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 281374 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.