ارے بھائی جس کسی کو بھی دیکھو
یہی شور کرتا ہے کہ سگریٹ نوشی صحت کے لئے مضر ہے جبکہ مملکت پاکستان میں
یہ کاروبار عروج پر بھی ہے۔یہ باتیں تو اپنی جگہ پرہیں جنہیں کچھ لوگ مانتے
ہیں کچھ نہیں مانتے لیکن قوم کے سب سے باشعور اور عقل مند طبقہ سے تعلق
رکھنے والے لوگ جنہیں سائنسدان کہ کر بلاتے ہیں نے ایک نیا انکشاف کیا ہے
کہ ایک بڑے شہرکی فضا میں سانس لینا ایک پیکٹ سگریٹ پینے کے برابر ہے۔ میرے
نزدیک تو اس سے بڑھ کر خوشخبری کی بات کچھ نہیں لیکن نہ جانے کیوں میرے شہر
کے باسی اس خبر سے گھبرائے پھرتے ہیں جبکہ یہاں تو مشہور ضرب المثل یاد آتا
ہے کہ (لینا ایک نہ دینے دو) روپیہ ایک نہیں لگتا اور پینے کو ملتا ہے
سگریٹ کا پورا پیکٹ ۔ لیکن کوئلے میں پڑے ہیرے کی قدر تو کوئی جواہری ہی
بتا سکتا ہے نہ۔جو لوگ سگریٹ نوشی کرتے ہیں اُنکو تو صرف ایک ہی برانڈ نصیب
ہوتا ہے لیکن صاحبانِ شوروغل سے کوئی یہ تو پوچھے کہ انکو تو مملکت میں
موجود ہر برانڈ کا ذائقہ چکھنے کوملتا ہے۔قابل رحم ہیں وہ دیہات کے باشندے
جو اس نعمت سے محروم ہیں جنہیں میرے ملک میں موجود کافی سارے برانڈزکی لذّت
سے ابھی تک نہ آشنائی ہے۔ حالانکہ سگریٹ ایک گدھے اور آگ کے شعلے کے درمیان
ایک مضبوط تعلق قائم کر کے کھلا پیغام دے رہا ہے کہ جس طرح میرا انجام راکھ
ہے ٹھیک اسی طرح میں اپنے پینے والے کو بھی راکھ میں ملا دیتی ہوں۔ میرے
ایک عزیز دوست مرزا ابرار بیگ سے جب میں نے یہ پوچھا کہ مرزا صاحب سگریٹ
پینا کم کیسے کیا جا سکتا ہے تو انہوں نے انتہائی سنجیدگی سے جواب دیا کہ
سگریٹ پینے والے کی ڈبی سے چند سگریٹ نکال لو تو کچھ سگریٹ تو کم ہو ہی
جائیں گے۔دوسری طرف سگریٹ نوشی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ سگریٹ
نہیں پیتے وہ آپ کے سامنے منہ کھولنے سے نہ صرف پرہیز کرتے ہیں بلکہ ڈرتے
ہیں۔ہماری گورنمنٹ آئے روز دھواں چھوڑنے والے رکشے اور گاڑیوں کا چالان
کرنے کا حکم تو صادر فرماتی نظر آتی ہے لیکن نہ جانے کیوں دھواں چھوڑتے
انسانوں کا چالان کرنے کے لئے کوئی الگ مخلوق نازل ہوگی۔میں اپنی بالکونی
میں چارپائی بچھائے لیٹا ہوا تھا کہ میرے قابل دوست اور قادرالکلام
شاعر،کالمسٹ کونسل آف پاکستان کے صدر جناب ایم اے تبسّم صاحب تشریف لائے
اور بعد سلام میں نے بغیر کسی با ضابطہ گفتگوکا آغاز کرنے کی بجائے اُن سے
پوچھا کہ تبسّم صاحب سگریٹ ختم کیسے کیا جا سکتا ہے تو محترم نے فوراََ
جواب دیا کہ گیلانی بھائی سگریٹ ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ لمبے لمبے
کش لگائے جائیں۔ انہوں نے ایک مشورہ یہ بھی دیا کہ نئی نسل کو سگریٹ نوشی
سے بیزار کرنے کا بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ سگریٹ نوشی کو نصاب کا حصہ بنا
دیا جائے۔ نوجوانانِ مملکت صرف اور صرف نوشی کے چکر میں سگریٹ بھی نہیں
چھوڑ پا رہے ہیں۔یہ چوسنی منہ میں لے کر سگریٹ پینے والا سوچتا ہے کہ میں
اِسے چوس رہا ہوں جبکہ در حقیقت یہ سگریٹ پینے والے کو چوس رہی ہوتی ہے۔
اور یہ نوجوان اپنی سٹائلش لائف کو چار چاند لگانے کے چکر میں سگریٹ کے
پیکٹ کے پیکٹ جلا دیتے ہیں اور من ہی من میں پنپنے والی بہت سی شیطانی
امنگوں کو پورا کرنے کی خاطر خیالات کی ہیروئن پانے کے لئے ہیروئن کی پڑیا
تک استعمال کر جاتے ہیں اور خود سوزی کا ایسا کرتب پیش کرتے ہیں کہ دنیا
دامنِ حیرت میں یو ں گُم ہوجاتی ہے جیسے کنویں میں سُوئی۔آئے دیکھتے ہیں کہ
دامنِ تاریخ میں اس آگ کے شوق کا آغاز کیسے ہوا اور اس کو کیا مقام حاصل
ہوا۔ مغل بادشاہ اکبر کے دور میں شاہی طبیب کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ شہزادوں
کی عمریں کیسے کم کی جا سکتی ہیں تو ظلِ الٰہی کے حُکم کی تعمیل میں حقہ کا
نسخہ پیش کیا گیا اور دربار میں بیٹھنے والے ہر درباری پر حقہ پینہ فرض کر
دیا گیا۔جو شہزادہ تخت کے قریب پہنچتا بادشا ہ کے تیور دیکھ کر دربار کے
ملازم چلم سنوار کر حقہ پیش کرتے اور بہت سے ولی عہد تخت تک پہنچنے سے پہلے
ہی حقے کے دھویں میں”ولی“ ہو گئے اور سنگِ مر مر کے مرقد میں حقہ سمیت
رہائش پزیر ہیں۔یہ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی اگر آپ اس پھونکنی میں سر
پھنسانا پسند فرمائیں تو آپ کی مرضی۔ بہر صورت تمباکو نوشی شوقِ شاہانہ بن
کر ہمارے معاشرے کو برباد کر رہی ہے۔درج بالا تحریر میں جو تصویر پیش کی وہ
ایک ایسے ستم رسیدہ ، الم کشیدہ،مظلوم ،بے سہارا اور ایسی زنجیر میں جکڑے
جوان کی ہے جو خو د کو بڑے شوق سے ان تمام مصائب میں مبتلا کر کے فخر محسوس
کرتا ہے۔ تو یہ ایک نوجوان کی تصویر ہے جس کی حالت یہ ہے کہ جسم عریاں،پا
برہنہ، لیکن خونخوار کُتے کی طرح خود کو سگریٹ کی آگ میں دھکیل کر معطمئن
نظر آتاہے۔دکھ تو میری قوم کے اُن بچوں کو دیکھ کر ہوتا ہے جو ان لوگوں کے
چھوڑے ہوئے دھویں سے پیدا ہوتے ہی کینسر ،پھیپھڑے اور سانس جیسی مہلک
بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ |