گُزشتہ سے پوستہ۔
حسان صاحب نے کاغذ پر ایک سرسری نِگاہ ڈالنے کے بعد وہ کاغذ تِہہ کرنے کے
بعد اپنی ڈائری میں رکھتے ہُوئے فرقان سے فرمایا،، اگر میرا اندازہ ٹھیک ہے
تُو سمجھ لُو کہ تُمہارے اِمتحان کے دِِِن انشاءاللہ عزوجل بُہت جلد ختم
ہُونے کو ہیں۔ بس اللہ کریم کرم فرمائے۔ اور یہ وہی شہریار مجددی ہُو جو
میں سمجھ رَہا ہُوں۔۔۔۔ نام تُو وہی ہے۔ لیکن یہ دُبئی کے بجائے پاکستان
میں کیا کررہا ہے۔ بس یہ مُعمہ حل ہُونا باقی ہے۔ اور اگر یہ وہی شہریار
مجددی ہے تو ابتک میری نظروں سے کیوں اُوجھل ہے۔۔۔۔۔؟
اَب مزید پڑھیئے۔
حسان صاحب نے فرقان کو تاکید کی۔ وہ جلد از جلد شہریار مجددی سے رابطہ کرے
اور اُس کے ساتھ ہماری نِشست کا اہتمام کرے۔مزید کچھ گفتگو کے بعد یہ مجلس
برخاست ہُوگئی۔
حسان صاحب کے گھر سے واپس آنے کے بعد دُو دِن تک فرقان اپنے مسائل میں ایسا
گِھرا کہ اُسے حَسان صاحب کی ہِدایات یاد ہی نہ رہیں۔ جُوں جُوں وقت گُزرتا
جارہا تھا۔ مسائل بڑھتے ہی جارہے تھے۔ بچوں کے اسکول ، ٹیوشن کی فیسیں ،
یوٹیلٹی بِلز ، مکان کا کرایہ، اور تمام گھریلو اِخراجات کیلئے رقم کی
ضرورت تھی۔ لیکن فرقان کی جیب ہنوز خالی تھی۔ ایسے وقت میں کہ جب چہار جانب
سے فرقان پر مایوسی کے بادل اُمنڈتے چلے آرہے تھے۔ اور کوئی تدبیر سُجھائی
نہیں دے رہی تھی۔ فرقان کی بیگم نے اُسکی ہمت بندھاتے ہُوئے اُسکی گُود میں
اپنا تمام زیور لاکر ڈال دیا۔
اِس تمام زیور میں وہ چار خُوبصورت کنگن بھی موجود تھے۔ جو شادی کی رات
فرقان نے بیگم کو بڑے چاؤ سے پہنائے تھے۔ اور امی کی طرف سے دیا جانے والا
وہ خاندانی ہار بھی دِکھائی دے رَہا تھا جو امَّاں کو دادی کی طرف سے مِلا
تھا۔ فرقان نے وہ تمام زیور واپس کرتے ہُوئے کہا۔ کہ،، میں کہیں سے قرض
حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہُوں۔ لیکن بیگم نے سمجھایا کہ،، ماں باپ اور تمام
محبت کرنے والے اپنے بچیوں کو زیورات سے صرف اِس لئے آراستہ نہیں کرتے کہ
،، وہ صرف اُنہیں پہن کر حسین نظر آئیں ۔ بلکہ اِس لئے بھی دیتے ہیں کہ،،
اگر خُدانخواستہ کبھی بُرا وقت آجائے تو اِنہیں بیچ کر سخت حالات کا
مُقابلہ کیا جاسکے۔ کافی بحث کے بعد فرقان نے ہتھیار ڈالتے ہُوئے امی کے
ہار کے علاوہ تمام زیور لے لیا۔ تمام زیورات بیچ کر ۱۲ لاکھ روپیہ سے کُچھ
زائد رقم حاصِل ہُوگئی۔ جسکی وجہ سے فرقان کو اطمینان ہُوگیا کہ کم از کم
ایک برس کا عرصہ اطمینان سے گُزر جائے گا۔ جب تک روزگار کا کوئی خاطر خُواہ
انتظام بھی ہُو ہی جائے گا۔
فرقان اِن تمام معاملات میں اُلجھا ہُوا تھا۔ کہ حسان صاحب کی کال آگئی۔
اور جب اُنہوں نے شہریار مجددی سے ہُونے والی ٹیلیفونک گفتگو سے متعلق
استفسار کیا تُو فرقان نے شرمندگی سے صاف صاف تمام حقیقت بتادی جسکی وجہ سے
وہ شہریار مجددی سے گفتگو نہیں کرپایا تھا۔ حسان صاحب کو زیورات بیچے جانے
کا جب معلوم ہُوا ۔ تو اُنہوں نے دُکھ اور ناراضگی کا اِظہار کرتے ہُوئے
کہا۔ فرقان وہ بُہت نیک سیرت بچی ہے۔ اور وہ صرف تُمہاری بیگم نہیں ہے۔
بلکہ ہماری بھی بیٹی جیسی ہے۔ آپ نے ہم سے بڑی بیگانگی برتی۔ اگر آپ اپنی
پریشانی کا اِطہار زیور بیچنے سے قبل ہم سے کردیتے تو اُس بیچاری کے زیورات
بیچنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اتنی رقم تو ہم بھی آپکو قرض حسنہ کے طور پر دے
سکتے تھے۔۔۔۔!
فرقان نے جب شہریار مجددی کو کال مِلانے کی کوشش شروع کی تب بُہت مشکل کے
بعد اُسکی کال مِلی۔ کیونکہ کافی مرتبہ موبائیل بِزی ٹون کیساتھ فرقان کا
استقبال کرتا رہا۔ جسکی وجہ سے فرقان نے اندازہ لگایا کہ موصوف انتہائی
مصروف شخصیت ہیں۔ سلام کے بعد جب فرقان نے اپنا تعارف کراتے ہُوئے بتایا کہ
اُس کے پاس زمین کا وہ مطلوبہ ٹکرا موجود ہے۔ جسکی اُنہیں تلاش ہے۔ تو
شہریار مجددی نے معذرت کرتے ہُوئے بتایا کہ وہ آجکل بُہت مصروف ہے۔ اور
پراپرٹی کی لین دین وہ ڈائریکٹ نہیں کرتا بلکہ اُسکا منیجر کرتا ہے۔ اسلئے
آپکو جِس بروکر نے آفر کی ہے۔ آپ اُسی کی معرفت میرے مینیجر سے مُلاقات
کرلیں۔ اِس سے پہلے کہ شہریار لائن ڈسکنیکٹ کردیتا۔ فرقان نے استفسار کرتے
ہُوئے کہا،، کیا آپ پروفیسر حسان صاحب کو جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
شام کو فرقان، حسان صاحب کے مکان پر بیٹھا اُنہیں بتارہا تھا۔ کہ کسطرح
شہریار مجددی اُس کے ساتھ سرد مہری کے ساتھ پیش آرہا تھا۔ اور قریب تھا کہ
وہ لائن ڈسکنیکٹ کردیتا۔ لیکن جیسے ہی اُس نے آپکا نام سُنا۔ اُسکا نہ صرف
رویہ بدل گیا۔ بلکہ وہ اپنی گفتگو سے کافی شرمسار نظر آرہا تھا۔
شہریار مجددی نے آٹھ بجے کا ٹائم دیا تھا۔ لیکن وہ پندرہ منٹ پہلے ہی پُہنچ
گیا تھا۔ حسان صاحب پر نظر پڑتے ہی وہ،، اُستاذِ محترم کہتے ہی نمناک
آنکھوں سے حسان صاحب کی طرف دست بوسی کیلئے لپکا۔ لیکن حسان صاحب نے کھڑے
ہُوکر اُسے اپنے سینے سے بھینچ کر لگالیا۔
حَسان صاحب کے شکوے پر شہریار مجددی نے بھیگی پلکوں کیساتھ اپنے جُرم کا
عتراف کرتے ہُوئے کہا۔ اُستاذِ من واقعی میں آپکا مجرم ہُوں کہ ایک ہفتے سے
آپکے شہر میں موجود ہُونے کے باوجود آپکی زیارت کا شرف حاصِل نہیں کرپایا۔
جسکا مجھے بھی بُہت افسوس ہے۔ حسان صاحب نے شہریار مجددی کی آمد پر کھانے
کا انتطام کیا تھا۔ دوران ضیافت حسان صاحب نے فرقان کا تعارف یہ کہہ کر
شہریار سے کروایا کہ،، یُوں سمجھ لو کہ آج سے فرقان تُمہارا اُستاد بھائی
نہیں۔ بلکہ تُمہارے اُستاد کا بُہت چہیتا بیٹا بھی ہے۔
شہریار نے حسان صاحب کے مزید استفسار پر بتایا کہ وہ عنقریب دُبئی سے
پاکستان سیٹل ہُو رہا ہے۔ جسکی تیاری کیلئے وہ چند روز کیلئے پاکستان آیا
تھا۔ تاکہ وہ یہاں ایک پیپر مِل لگا کر باقی ماندہ زندگی اپنے وطن عزیز میں
آرام سے گُزار سکے۔
شہریار میاں یہ پیپر مِل کتنی رقم کا پروجیکٹ ہے۔۔۔؟ حسان صاحب نے لُقمہ
بناتے ہُوئے سوال کیا۔
بروکر نے بتایا ہے کہ شہر میں زمین کا مطلوبہ ٹکڑا چھ سے آٹھ کروڑ کے
درمیان مِل جائے گا۔ جبکہ منیجر بتارہا تھا۔ زمین پر عمارت بنانے کیلئے دو
کروڑ کی رقم کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ ابتدائی طور پر پانچ کروڑ روپیہ
سے کاروبار شروع ہُوجائے گا۔ پھر جیسے جیسے منافع ہوتا چلا جائے گا۔
کاروبار بھی پھیلتا چلا جائے گا۔ میں تمام معاملات کی جانچ پڑتال کرچُکا
ہُوں۔ اسلئے میں بھی منیجر کی رائے سے متفق ہُوں۔ شہریار مجددی نے کھانے کے
بعد ہاتھ صاف کرتے ہُوئے بتایا۔
شہریار میاں کیا ایسا ممکن نہیں کہ آپ جو چھ سے آٹھ کروڑ روپیہ زمین کی
خریداری میں لگا رہے ہیں۔ وہ رقم کہیں اور انویسٹ کردیں۔ اور کوئی دوسرا
شخص اپنی زمین دیکر آپکا شراکت دار بن جائے۔۔۔؟ حسان میاں نے تجویز دیتے
ہُوئے سوال کیا۔
شہریار مجددی نے کُچھ لمحے سوچتے ہُوئے کہا۔حضرت ممکن تو ہے۔ اور مجھے یہ
بھی یقین ہے۔ کہ جب آپ کہہ رہے ہیں تو یقیناً میرے لئے اسمیں دُنیا اور
آخرت کی بھلائی بھی ضرور ہُوگی۔ لیکن اگر آپ کُچھ مزید تفصیلات بتادیں۔ تو
اسکے ممکنہ پیش آنے والے معاملات پر بھی غُور کیا جاسکتا ہے
بیٹا شہریار تُمہیں تو معلوم ہی ہے کہ اللہ کریم نے سودی معاملات کو ناپسند
کرتے ہُوئے سورہ بقرہ میں آیت نمبر ۲۷۵ تا ۲۷۹ تک ارشاد فرمایا ہے کہ: وہ
جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر، جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ
جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو اس لئے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو
سود ہی کے مانند ہے ، اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود،۔ تو
جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے
لے چکا، اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اَب ایسی حرکت کرے گا تو وہ
دوزخی ہے وہ اس میں مدتو ں رہیں گے۔ اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا
ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکرا بڑا گنہگار۔
بیشک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی ان
کا نیگ (انعام) ان کے رب کے پاس ہے ، اور نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو، نہ کچھ
غم۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر
مسلمان ہو۔
پھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کر لو اللہ اور اللہ کے رسول سے لڑائی کا اور
اگر تم توبہ کرو تو اپنا اصل مال لے لو نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ نہ تمہیں
نقصان ہو۔
یہ تمام احکامات اور اللہ کریم کی رضا اور ناراضگی کا فرمان تُمہارے اِس
دینی بھائی فرقان نے جان لیا ہے۔ جسکی وجہ سے اسکے دِل میں سُود سے بیزاری
پیدا ہوگئی۔جسکا انعام یہ ضرور پاکر رہے گا۔ لیکن اسکا ایک دوست نعمان جو
اِسکا کاروباری پارٹنر بھی تھا ۔نہیں جان پایا اور وہ ضدی طبیعت کی وجہ سے
جاننا بھی نہیں چاہتا۔ لَہذا فرقان نے اُس سے جُدائی اِختیار کرلی۔ جسکی
وجہ سے تُمہارا یہ دینی بھائی عارضی طور پر دُنیاوی آزمائش میں مُبتلا
ہُوگیا ہے۔ اسکے بعد حسان صاحب نے مُختصراً فرقان اور نعمان کی تمام رُوداد
شہریار مجددی کو سُنا ڈالی۔
تمام واقعات جان کر شہریار مجددی نے رشک بھری نِگاہوں سے فرقان کو دیکھتے
ہُوئے کہا،، فرقان میرے بھائی تُم نہایت عظیم ہُو۔ جس نے حسان صاحب کی صحبت
میں رِہ کر خُدا کی رضا و نافرمانی کی معرفت حاصِل کرلی۔ آج سے تُم اس
لڑائی میں تنہا نہیں ہُو۔ میں ایک حقیقی بھائی کی طرح تمہارے شانہ بشانہ
چلنے کو اپنے لئے اعزاز سمجھوں گا۔ میں آج اِسی وقت اپنے قابل احترام بُزرگ
کے رُوبرو تُمہارے ساتھ اپنی پارٹنر شپ کا اعلان کرتا ہُوں۔ اِس تمام
پروجیکٹ میں آپ میرے نصف حِصہ کے شراکت دار ہیں۔ میں کل ہی اپنے منیجر کی
مُلاقات تُم سے کروادُونگا۔ جسکے فوری بعد آپ اپنی جگہ پر کنسٹریکشن شروع
کروادیجئے گا۔
حَسان صاحب نے شہریار مجددی کی فراخدلانہ پیشکش کے بعد اپنے دونوں ہاتھ
بُلند فرمادیئے اور بُہت دیر تک دونوں کی خیر و بھلائی کیلئے انتہائی رِقت
سے دُعا مانگتے رہے۔
(جاری ہے)
مُحترم قارئین کرام بار بار اپنی طبیعت کی ناسازی کے ذکر سے طبیعت میں نا
شُکری کا احساس پیدا ہُوتا ہے اسلئے مزید کُچھ نہیں کہوں گا سوائے اِسکے
کہ،، آپ سب سے دُعاؤں کیلئے ملتمس ہُوں۔
پلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا |