طویل جد وجہد کے بعد مصرمیں ایک
بار پھر خوشی کاموسم لوٹ آیاہے۔شہر شہر ،قریہ قریہ جشن ہے ۔گلی گلی ،گھر
گھر عید کا سماں ہے ۔ہر مصری اپنے منتخب شدہ نئے لیڈر کے گیت گا رہا
ہے۔مصریوں کو جہاں حسنی مبارک جیسے طویل المیعاد قابض آمر سے خلاصی کی خوشی
ہے تو وہیں قربانیوں کی جماعت الاخوان المسلمون کے عظیم لیڈروںاورمخلص
کارکنوں کی فتح پر بھی مطمئن ہیں ۔اخوان سے مصری عوام کو بڑی توقعات وابستہ
ہیں۔اس امید کی اصل وجہ اخوان کی مصری عوام کے لئے دی جانے والی قربانیاں
اور ان کے مجروح دلوں کے وہ درد بھی شامل ہیںجو وہ لوگ اپنی عوام کے لیے
رکھتے ہیں ۔اخوان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والے ان خاموش کارکنوں میںسے
ایک نام نجلاءعلی محمود کا ہے ۔جس کا نام آج کل ملکی و بین الاقوامی میڈیا
کا موضوع سخن بنا ہوا ہے ۔نجلاء،مرسی کی اہلیہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی
تنظیم کے لیے بے شمار قربانیاںدینے والی ایک عظیم کارکن بھی ہے ۔اس عظیم
خاتون نے صدارتی محل میں رہنے سے صاف انکار کرتے ہوئے اپنی قوم سے کہا کہ
”مجھے صدار تی محل میں رہنے کی آرزو نہیں ۔میں اپنے گھر میں ہی رہوں گی ۔“
اسی طرح انہوں نے قو م سے کہا ہے کہ ”مجھے خاتون اول نہ کہیں بلکہ مجھے ام
احمد کے نام سے پکاریں۔ یہ نام مجھے زیادہ پسند ہے۔“ایک عام مصری خاتون سے
صدر کی اہلیہ اور خاتون اول کہلانے تک ایک لمبا سفر ہے ۔جس میں مختلف
مشکلات اور آزمائشیں ،قید و بند کی صعوبتیں اور پر کھٹن حالات کا سامنا
کرنا بھی شامل ہے ۔ان تمام مراحل سے گزرکر 50سالہ برقعہ پوش خاتون نجلاءعلی
سے ام احمد بن گئی ۔
نجلاءعلی 1962ءمیں قاہرہ کے مضافاتی علاقے عین الشمس میں پیدا ہوئی
۔ابتدائی تعلیم مصر میں حا صل کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے لاس اینجلس
امریکا چلی گئی ۔امریکا میں تعلیم اعلی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اخوان
کے لیے بھی کام کرتی تھی ۔وہاں کے مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی سربراہ رہی
ہیں۔امریکی مسلمانوں کے لیے ترجمان کی حیثیت سے کام کیا ۔اس کے علاوہ اپنی
تنظیم کی ایک ذیلی شاخ کے تحت مصری عوام کے لیے ایک خیراتی و فلاحی پروگرام
کا حصہ بھی بنی۔اس کے علاوہ اپنی عوام کے لئے کیے جانے والے کئی دیگر فلاحی
کاموں میں بھی حصہ لیا۔شعبہ تعلیم میں ان کی گراں قدر خدمات ،مصر کی تعلیمی
ترقی میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ محمودمرسی کے ان امریکی ریا ستوں
کے دورے کے دوران پہلی مرتبہ وہ اپنے خالہ زاد مرسی سے ملی۔ مورسی ان دنوں
انجینئرنگ کے اسٹوڈنٹس تھے۔بعد ازاں دونوںخاندانوں کی رضا مندی کے بعد ان
دونوں کی شادی طے کر دی گئی۔1979ءمیں دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے
۔دونو ں میا ں بیوی نے ایک چھوٹا ساگھر کرایہ پر لےااور اس میں اپناگزر بسر
شروع کیا ۔نجلاءچار بیٹوں اور ایک بیٹی کی ماں ہے ۔ خاتون اول بننے سے پہلے
نجلاءجس طرح پردے کی پاپند تھی اب بھی اسی طرح نقاب اوڑھنے کی سختی سے
پاپندی کرتی ہے۔وہ اصولوں اور قواعد و ضوابط کی سختی پابند ی کرتی ہے۔اسی
تناظر میں ان کا کہنا ہے کہ ہم میاں بیوی اپنے بچوںکے ساتھ پہلے اخوان کے
کارکنوںکی حیثیت سے رہتے ہیں پھر ماں باپ کی حیثیت سے ۔اسی طرح ایک
انٹرویودیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہنے لگی کہ ”میں اس بات پر بہت
خوشی محسوس کر رہی ہوں کہ میرا اور میرے بچوں کا آئیڈیل ان کا باپ ڈاکٹر
مرسی ہے ۔
خاتون اول بننے کے ساتھ ہی نجلاءنے مصری عوام کے سامنے ایک ماں کی حیثیت سے
تاریخی کردار ادا کیا۔انہوں نے حسنی مبارک کی حسیناؤں سوزانے مبارک اور
جہان السعادات کے نقش قدم پر چلنے سے قطعی طور پر انکار کیا۔انہوں نے ملک
کو تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کر دیا تھا۔مغربی طرزتعلیم کی اعلٰی ڈگری
یافتہ عوام دشمن حسینائیں کس طرح عوامی خزانوں پر ہاتھ صاف کرتی تھی یہ بات
بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔لا کھوں میں سوتی اور کروڑوں میں جاگتی تھیں ،
فیشن اور نت نئے لباسوں کی دلدادہ تھیں،ہمہ وقت بناؤ سنگھاراور قیمتی
زیورات ا ور جواہر سے اپنی مصنوعی حسن کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی تھی
۔آئے روز سرکاری خرچے پر یورپی ممالک کا طواف ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی
۔عوام اور مصری باشندوں کے لیے ان کے دلوں میں محبت،شفقت کے ساتھ رحم نام
کی بھی کوئی چیز نہیں تھی ۔حسنی مبارک کا اپنی عوام کی نظروں میں نا
پسندیدہ ترین شخص بننے میں چند دیگر عوامل کے ساتھ ان حسین دوشیزاؤں کی لوٹ
مار ،عوام دشمنی اور شا ہ خر چیوں کا بھی بڑا عمل دخل ہیں ۔
نجلاءبہت سمجھدار،عقلمند اور دور اندیش خا تون ہیں ۔وہ بھی ان کے اس لوٹ
مار اور عوام کُش فلسفہ کو اپنا سکتی تھی ۔لیکن وہ معاملہ کی تہ تک پہنچ کر
اس کے منطقی انجام اوراس سے رونما ہونے والے برے اثرا ت کو بھانپ گئی تھی
۔فرصت میں غم زدہ اور دکھی عوام کے حق کی خاطر اپنی خواہشات کو قربان کر کے
عوام کی خوشی کو دوبالا کر دیا ہے ۔اور سچ یہ ہے کہ نجلاءعلی آ نے والے
حکمرانوں ،ان کی بیگمات اور تمام اسلامی ممالک کے سربراہان کے بیگمات کے
لیے درس عبرت ہے وہ بھی ام احمد کی تقلید کریں جنہوں نے خاتون اول کی بجائے
ام احمد اور قصر سلطانی میں رہنے کی بجائے اپنے پرانے گھر میں رہنے کی تمنا
کااظہار کیا یقینا ایسے ہی لوگ قیادت وسیادت کے حقدار ہیں۔ |