حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ رشک کرنا صرف دوہی آدمیوں کے ساتھ جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے
ساتھ جسے اللہ نے مال دیا اور اسے حق اور مناسب جگہوں میں خرچ کرنے کی
توفیق دی۔ دوسرے اس شخص کے ساتھ جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت ( عقل سلیم ، علم
قرآن وحدیث ) دی اور وہ اپنی حکمت کے مطابق حق فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو
اس کی تعلیم دیتا ہے۔
سوال نمبر ۱: بینک میں رکھے مال کی زکوۃ کے نام پر جو کٹوتی ہوتی ہے کیا اس
سے زکوۃ ادا ہو جاتی ہے
جواب :چونکہ مالک کی اجازت کے بغیر بینک کا عملہ زکوۃ کی کٹوتی کرتا ہے اور
بینکوں میں صحیح مصارف پر درست طریقہ سے زکوۃ ادا کرنے کا معاملہ بھی نہیں
ہے لہذا اس طور پر اس مال کی زکوۃ ادا نہیں ہوتی
سوال نمبر۲: کپڑوں کا کارخانہ ہے جس میں تقریبا دس لاکھ کی مشینیں اور دیگر
آلات ہیں تو کیا ان کی بھی قیمت ملا کر زکوۃ اد ا کی جائے گی ۔
جواب :زکوۃ مال نامی پر لازم ہوتی ہے اور مال نامی تین قسم کے اموال کو
کہتے ہیں
۱۔سونا،چاندی اور جو اس کی جنس سے ہو یعنی کرنسی نوٹ اور بونڈ وغیرہ
۲۔مال تجارت
۳۔سائمہ جانور یعنی چرائے کے جانور
اس کے علاوہ علاوہ جو مال بھی ہو اس پر زکوۃ نہیں لہذا مشینوں اور آلات پر
زکوۃ نہیں کہ یہ مال نامی نہیں اب اگر کوئی اس کو مال تجارت میں شمار کرنا
چاہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہوگی
کیونکہ مال تجارت کے ضمرے میں کونسامال آتا ہے اس کو بھی سمجھ لیجئے
ہر وہ مال کہ جس کو اپنی ملک سے نکال کر نفع حاصل کیاجائے وہ مال تجارت
ہوتا ہے ۔ یعنی کسی شئے کو فروخت کرنا تجارت ہے ۔
اور ہر وہ مال جس کو اپنی ملک پر باقی رکھ کر اس سے نفع حاصل کیا جائے وہ
مال تجارت کے ضمرے میں نہیں ہے جیسے کرایہ کا مکان کہ اس کو اپنی ملک پر
باقی رکھ کر اس کی آمدنی سے نفع اٹھا یا جاتا ہے اسی طرح فیکٹری یا
کارخانوں میں لگی مشینریوں کو اپنی ملک پر باقی رکھ کر نفع حاصل کیا جاتا
ہے لہذا فیکٹری میں موجود مشینری او ر آلات پر زکوۃ نہیں لیکن جو فیکٹری
اور کارخانہ میں کپڑا موجود ہوتا ہے اس کو اپنی ملک پر باقی رکھ نفع نہیں
اٹھا جاتا بلکہ اس کو اپنی ملک سے خارج کر کے نفع اٹھایا جاتا ہے یعنی
کارخانے والے کپڑے بنا کر اس کو مارکیٹ میں فروخت کردیتے ہیں لہذا کپڑا اس
صورت میں مال تجارت میں سے ہے تو ان کپڑوں کی کل مالیت کا چالیسواں حصہ
بطور زکوۃ سال کے آخر میں دیای ہوگا
نیز وہ فیکٹریاں کہ جو مشینریوں اور آلات کو بناکر فروخت کرتی ہیں انہیں
فروخت کرنے والی مشنریوں کی زکوۃ دینی ہوگی کیونکہ انہیں یہ اپنی ملک پر
باقی نہیں رکھتے بلکہ بیچ کر نفع حاصل کرتے ہیں لہذا یہ صورت مال تجارت کی
ہے اور جن آلات و مشینریوں سے آلات و مشینریاں بناتے ہیں ان مشینریوں کی
زکوۃ نہیں ہے ۔
سوال نمبر۳: میرا رینٹ اے کار کام ہے تو ان گاڑیوں سے میری کمائی ہے تو کیا
ان کی بھی زکوۃ دینی ہوگی
جواب: کیونکہ یہ گاڑیاں بیچنے کی نیت سے نہیں خریدی جاتی ہیں اور نہ ہی یہ
مال نامی میں سے ہے
) یعنی سونا،چاندی کرنسی نوٹ اور بونڈ وغیرہ ،مال تجارت ،سائمہ جانور یعنی
چرائے کے جانور(
لہذ اگاڑیوں پر زکوۃ نہیں ہوگی ہاں البتہ ان کی آمدنی اگر ساڑھے باون تولہ
چاندی کی رقم کو پہنچ جائے اور اس رقم پر سال بھی گزر جائے تو اس رقم کی
زکوۃ دینی ہوگی ۔
سوال نمبر۴ : کسی ہسپتال میں مریضوں کے لئے زکوۃ کے پیسے جمع کر کے اگر
کوئی مشین رکھ دی جائے اور غریبوں سے اس مشین کے چارجز نہیں لئے جائیں گے
تو کیا زکوۃ ادا ہوجائے گی
جواب: زکوۃ ادا کرنے کے لئے تملیک کا پایا جاناضروری ہے یعنی شرعی فقیر اس
زکوۃ کے مال پر قبضہ بھی کرلے اگر فقط اباحت ہو یا تملیک نہ پائی جائے تو
زکوۃ ادا نہیں ہوگی
تو صورت مذکورہ میں کسی شرعی فقیر کو اس مشین کا مالک نہیں بنایا جارہا ہے
لہذا اس طرح زکوۃ ادا نہیں ہوگی ۔
ہاں اگر کسی جگہ ہسپتال میں کسی مشین کی سخت ضرورت ہو اور بغیر زکوۃ کے مال
کے کام نہ بن پڑے تو پھر زکوۃ کے مال سے مشین خریدنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی
شرعی فقیر کو وہ زکوۃ کی رقم دے دی جائے اور اس کو اس مال کا مالک بنا دیا
جائے پھر وہ شخص وہ مال ہسپتال انتظامیہ کو تحفۃ دیدے۔
سوال نمبر۵:بچیوں کی شادی کے لئے رکھے زیور کا کیا حکم ہے کیا ان کی بھی
زکوۃ دینی ہوگی
جواب :اگر تو وہ زیورات تحفۃ بچوں کی ملک کردیے اور وہ بچے نابالغ ہوں تو
اس صورت میں ان زیورات کی زکوۃ نہیں دینی ہوگی کیونکہ اب یہ مال اس نابالغ
کا شمار ہوگا اور نابالغ پر زکوۃ فرض نہیں ۔
نیز اب اس مال کو خرچ بھی نہیں کرسکتے کہ اب یہ بچوں کی امانت والدین کے
پاس ہے
اور اگر صرف دل میں ارادہ ہے کہ یہ زیورات میں اپنے بچوں کو دوں گی یا زبان
سے یہ الفاظ ادا کیے کہ ان زیورات سے بچوں کی شادی کروں گی تواس صورت میں
یہ تحفۃ بچوں کی ملک نہ ہوا اب بھی یہ زیورات ماں یا باپ ہی کی ملک ہے لہذا
سال مکمل ہونے پر اس مال کی زکوۃ دینی ہوگی ۔
والسلام مع الاکرام
ابو السعد مفتی محمد بلال رضا قادری |