اے میری قوم ۔ استغفر اللہ

ان دنوں وطن عزیز پاکستان، ان گنت مصائب و مشکلات سے دوچار ہے۔عوام الناس ہوں یا حکمران طبقہ،سب پریشان ہیں۔ایک مسئلے سے نکلتے ہیں تو دوسرے مسئلے میں پھنس جاتے ہیں ۔ راستہ کدھر ہے؟ یوں لگتا ہے کہ الجھے ہوئے دھاگوں کا ایک گچھا ہے جس کا سرا کہیں کھو گیا ہے۔ ایک طرف مہنگائی نے بھوک کا شکنجہ کس دیا ہے تو دوسری طرف لوڈ شیڈنگ نے زندگی اجیرن کردی ہے۔ اسلامی معاشرہ و تمدن ایک سہانا خواب بن کر رہ گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ڈرون حملوں، بم دھماکوں، اور خود کش حملوں نے امن و امان کو عنقا کردیا ہے۔ وطن کا یہ حال ہوگیا ہے کہ
جو کل تک تھے مرغزار، آج ہیں وہ خارزار
جلی ہے جو شاخ شاخ تو اجڑ گیا ہے آشیاں
چمن ہوا ہے دھول دھول، ہیں ہر طرف آگے ببول
بریدہ پیرہن ہے گل، کلی کلی ہے نوحہ خواں
ہوائیں تند و تیز ہیں، فضائیں شعلہ ریز ہیں
عجیب اضطراب ہے ، گھٹا گھٹا سا ہے سماں

یہ وقت ہے ٹھہر کے سوچنے کا، غور و فکر کرنے کا ، اپنے اعمال کا جائزہ لینے کا۔ یہ محاسبہ اگر کھلی آنکھوں سے ہو تو ایک ادنیٰ درجے کا مسلمان بھی یہ جان سکتا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر ہزار ماﺅں سے زیادہ محبت کرنے ولارب ہم سے ناراض ہے، خفا ہے، اس کا غضب ہمارے سروں پر بس گرنے ہی کو ہے۔
اے میری قوم! استغفراللہ

آﺅ توبہ کرلیں، معافی مانگ کے خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں اور اعتراف کرلیں کہ ہاں ہم گناہ گار ہیں اور یہ ہمارے گناہوں کا وبال ہے!

آﺅ ہم سب اپنے ہاتھوں میں قرآن لیں اور اس کو کھول کے پڑھیں کہ ہمارا رب ہم سے کیا چاہتا ہے ؟؟ بحیثیت نفسی و بحیثیت اجتماعی، ہم نے وہ سیدھا راستہ کہاں گم کردیا ہے جو ہمیں منزل تک پہنچانے کا ضامن تھا؟
سورہ البقرہ کا ترجمہ پڑھیں۔ ارشاد الہیٰ ہے:
پھر ذرا یاد کرو ۔ ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے بے گھر کرنا، تم نے اس کا اقرار کیا تھا، تم خود اس پر گواہ ہو ، مگر آج وہی تم ہو کہ اپنے بھائی بندوں کا قتل کرتے ہو، اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بے خانماں کردیتے ہو، ظلم و زیادتی کے ساتھ ان کے خلاف جتھے بندیاں کرتے ہو اور جب وہ لڑائی میں پکڑے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں تو ان کی رہائی کے لیے فدیہ کا لین دین کرتے ہو، حالانکہ انہیں گھروں سے نکالنا ہی سرے سے تم پر حرام تھا ۔ تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہوکر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیئے جائیں ؟ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کررہے ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا کی زندگی خرید لی ہے، لہٰذا نہ ان کی سزا میں کوئی تخفیف ہوگی اور نہ انہیں کوئی مدد پہنچ سکے گی۔ (البقرہ 80-84)

وطن بھی ایک امانت ہے یہ ملک خداداد جو ہمیں اس وعدے پر ملا تھا کہ ہم یہاں پر خلافت راشدہ کی طرز پر اسلامی ریاست بنائیں گے، یہ وعدہ ہم نے خدا سے کیا تھا ، اس عہد کی تجدید کی صورت اب سوچنی ہوگی۔ ملت کفر سے اتحاد کو توڑنا ہوگا اور ملت اسلامیہ سے جوڑنا ہوگا۔ ایک سابق وفاقی وزیر امریکہ سے اتحاد کی دلیل اکثر ٹی وی چینلز پر یوں بیان کرتے ہیں کہ
” ڈاہڈے اگے زور نہیں ہوندا!“

زرا وہ بھی قرآن پاک کی سورہ ابراہیم پڑھ کر دیکھیں ۔ ترجمہ
” اور جب یہ لوگ اکٹھے اللہ کے سامنے بے نقاب ہوں گے تو اس وقت ان میں سے جو دنیا میں کمزور تھے، وہ ان لوگوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کہیں گے ، دنیا میں ہم تمہارے تابع تھے۔ اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لئے بھی کچھ کرسکتے ہو؟ وہ جواب دیں گے اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمہیں بھی دکھا دیتے ۔ اب تو یکساں ہے خوہ ہم جزع فزع کریں یا صبر ، بہر حال ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں ، اور جب یہ فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا۔ میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں، میں نے اس کے سوا کچھ نہین کیا کہ اپنے راستے کی طرف تمہیں دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کیا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ کو ہی ملامت کرو۔ یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری ، اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا، میں اس سے بری الذمہ ہوں ۔ ایسے ظالموں کے لیے تو دردناک عذاب ہے۔( سورہ ابراہیم 21-22)

معاذ اللہ ! یا رب العالمین ہمیں ہلاکت میں نہ ڈال اور ہمیں اپنے غضب سے ہلاک نہ کرنااور ہمیں اس سے پہلے ہی عافیت دے دینا! حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ایک گناہ گار امتی کی توبہ کا واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ کے زمانے میں بنی اسرائیل ایک بار قحط میں مبتلا ہوگئے( بارش نہ ہونے کے سبب) تو لوگوں نے آپؑ سے دعا کرنے کو کہا۔ آپؑ ستر ہزار افراد کے ساتھ صحرا میں گئے اور بارش کے لیے دعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی طرف وحی بھیجی اور فرمایا :
”تم اب بھی میرے لئے مکرم و محترم ہو لیکن تم میں سے ایک شخص ہے جو چالیس سا ل سے گناہ کرکے مجھے للکار رہا ہے، لوگوں میں اعلان کردوکہ وہ خطا کار بندہ تم میں سے نکل جائے، اس کی وجہ سے میں نے بارش روک رکھی ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کھڑے ہوکر اعلان کیا: اے گناہ کار بندے تم چالیس سال سے گناہ کرکے اپنے رب کے غضب کو للکار رہے ہو، فوراً ہماری صفوں سے نکل جاﺅ ، تیری وجہ سے ہم بارش سے محروم ہیں!

گناہ گار بندہ کھڑا ہوا اور اِ دھر اُدھر دیکھا، اسے کوئی بھی باہر نکلنے ولا نظر نہ آیا، اس نے جان لیا کہ اس کا نکلنا مطلوب ہے۔ اس نے اپنے دل میں کہا اگرمیں ہجوم سے باہر جاتا ہوں تو سارے بنی اسرائیل کے سامنے رسوا ہونا پڑے گااور اگر ان کے درمیان بیٹھا رہوں تو میری وجہ سے لوگ بارش سے محروم رہیں گے، یہ خیال آتے ہی اس نے اپنا سر چادر سے ڈھانپ لیا اور اپنے کرتوتوں پر نادم ہوکر کہا” میرے معبود، میرے مالک! میں نے چالیس سال تیری نافرمانی کی اور تونے مجھے مہلت عطا کی اب میں تیرے حضور توبہ کرتے ہوئے حاضر ہوا ہوں ، مجھے قبول فرمالے“

اس نے اپنی دعا مکمل بھی نہ کی تھی کہ سفید رنگ کی ایک بدلی ظاہر ہوئی اور اتنی بارش ہوئی کہ گویا مشکیزوں کے منہ کھول دیئے گئے ہوں۔ حضرت موسیٰؑ نے عرض کی ” اے ہمارے مالک و معبود ابھی ہم میں سے باہر تو کوئی نہیں نکلا، بارش کیسے برسی؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :” اے موسیٰ جس شخص کی وجہ سے محروم رکھا ہوا تھا ، اس کی ( توبہ کی ) وجہ سے عطا بھی کی ہے۔!

حضرت موسیٰؑ نے عرض کی ” الٰہی وہ بندہ مجھے بھی دکھا “۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” اے موسیٰ جب وہ بندہ میرا نافرمان تھا تب بھی میں نے اسے رسوا نہ کِیا، کیا اب اسے رسوا کروں گا جب وہ میرا اطاعت گزار بندہ بن گیا ہے ( کتاب التوابین )

سبحان اللہ ، اے مالک کائنات مجھ کو اور ہم سب اہلیان پاکستان کو توبة النصوح کرنے کی توفیق عطا فرما ہم واقعی گناہ کار ہیں، فرض نمازمیں بھی غفلت والے، وعدہ کرکے بھلانے والے، ہم نے کافروں سے اتحاد کیا اور افغانستان کے خلاف اپنی زمینیں اور فضائیں ان کے لئے کھول دیں، اپنے فوجی اڈے بھی انہیں دے ڈالے جنہوں نے ڈیزی کٹر بموں اور کیمائی ہتھیار استعمال کرکے سویلین آبادی کو کھنڈارت میں بدل دیا۔ ہم نے اپنے ہم وطنوں ( ڈاکٹر عافیہ ) کو بھی ڈالر لے کر امریکہ کے حوالے کردیا، ہم نے بھارت سے دوستی کرکے تجارتی معاہدے کیے جس بھارت نے پاکستان کی شہہ رگ کو اپنے خونی دانتوں میںدبوچ رکھا ہے۔ہم نے بھارت سے آزادی حاصل کی مگر بنی اسرائیل کی طرح دولت کے بچھڑے کی پوجا کرنے لگے، آج وہی دھن، وہی زر گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ الٰہی یہ زر کا لالچ ہمارے دلوں سے نکل دے اور پاکستان کی لوٹی گئی دولت، بیرونی بینکوں ،سے واپس قومی خزنے میں لوٹا دے۔ہم نے میڈیا سے مسحور ہوکر کفرکا کلچر اپنا لیا ہے اور اپنی حیا دار تہذیب کو چھوڑ دیا تو قدرت نے بھی ہمارے عیبوں کی پردہ پوشی کرنا چھوڑ دی، الٰہی بے شک ہم نے حدود آرڈی نینس جیسے قوانین بنا کے تیری مقرر کردہ حدود کو توڑا ہے ، بسنت جیسے ہندووانہ تہوار کو اپنا کے تیرے غصے کو بھڑکایا ہے مالک ہمیں ہلاک نہ کرنا، ہم پر توبہ کے دروازے بند کرنا، ہمارے دلوں پر مہر نہ لگانا، یا اللہ ہمیں معافی دینا، ہم سب اہلیان پاکستان کو روز آٓخرت کی رسوائیوں سے بچا لینا، اے رب العالمین ! آپ ہی کا تو ارشاد ہے کہ
”اے میرے بندوں ، جنہوں نے ( گناہ کرکے ) اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاﺅ، یقیناً اللہ بخش دیتا ہے سارے گناہوں، بلاشبہ وہی سب بخشنے والا ہے، رحم فرمانے والا ہے۔

یا للہ پاکستان پر رحم فرما!

ہمیں توبہ توبہ کرنے اور اشک ندامت بہانے کی توفیق دے۔ ( آمین یا رب العالمین )
بڑی تیزی سے طوفان حوادث
ہماری سمت ہی کیوں بڑھ رہا ہے؟
سبب شائد ہے بد اعمالیو کا
سمندر کا جو پارہ چڑھ رہا ہے!