کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب ان کی
زبان سے کوئی بات نکل جائے تو پھر گردن تن سے جدا تو ہوسکتی مگر وہ اپنی
بات سے پیچھے نہیں ہٹے گے خواہ ان کی یہ بات کتنی عجیب اور مضائقہ خیز ہو
وجہ یہ کہ اب بات ان کی ضد اورا نانیت کی ہے اگر وہ اپنی بات سے رجوع کرلیں
گے تو انہیں لوگوں کے آگے شرمسار ہونا پڑے یہ سوچ کر وہ حق بات کو دلائل سے
جاننے کے باوجود بھی حق کی طرف مائل نہیں ہوتے بلکہ ہٹ دھرمی سے اپنے موقف
پر قائم و دائم رہتے ہیں اور جب ان کے سامنے دلائل پیچ کیے جاتے ہیں تو بے
تکے جوابات دیکر اپنے کمزور موقف پر اڑے رہتے ہیں
بالکل ایسے ہی کچھ حضرات ہیں جو استمدا د اولیاء اور وسلیہ بعد الممات کو
ناجائز کہتے ہیں اگر موقعہ مل جائے تو شرک کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے بس
موقعہ محل دکھتے ہیں اور پھر وہاں اسی مناسبت سے کلام کرتے ہیں
اور جب ان سے ناجائز ہونے کی دلیل مانگی جائے تو کہتے ہیں کیونکہ صحابہ نے
اس طرح وسیلہ نہیں مانگالہذا اس طور پر وسیلہ مانگنا ناجائز
یہ اتنے نابلد ہیں کہ انہیں یہ ہی نہیں معلوم کہ وسیلہ بعد الممات کوئی فرض
و واجب نہیں تھا کہ صحابہ پر لازم ہوتا کہ وہ اس طرح وسیلہ مانگے ورنہ
گناہگار ہوں تو جب یہ واجب نہیں تو صحابہ کا اس کو پنا نا ضروری بھی نہیں
اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ کوئی قاعدہ نہیں ہے کہ جس عمل کو
کسی صحابی نے نہیں کیا تو اس عمل کو کرنا ہی ناجائز ہو ایسا کوئی شریعت میں
اصول نہیں ہے ۔
اگر بات ایسی ہوتی تو پھر قرآن پاک پر ظاہری اعراب کس صحابی نے لگوائے ۔
اسماء الرجال پر کتب کس صحابی نے مدون فرمائی
اصول حدیث کس صحابی نے ترتیب فرمائے
ختم بخاری کس صحابی نے کرائی وغیرہ وغیرہ اور سب سے بڑھ کر تو یہ بات کو جو
لوگ یہ کہتے ہیں کہ صحابی کا عمل بتا و ہم کسی عالم وغیرہ کی بات نہیں
مانیں گے ان کی تشریحات کا ہمیں قابل قبول نہیں کیونکہ وہ صحابی کے عمل کے
خلاف ہیں معاذاللہ میں ان سے پوچھتا ہوں احادیث میں تو مساجد کو مزین کرنے
کو برا فرمایا اور اس کو قرب قیامت کی علامت فرمایا اور صحابہ نے کبھی
مساجد کو مزین بھی نہیں فرمایا
تو جواب دو کیوں اپنی مساجدوں کو مزین کرتے ہو کس صحابی نے اس طرح مساجد کو
مزین کرنے کا حکم دیا عوام کو دھوکہ مت دو اب جواب دو؟ جب یہ سب ناجائز
نہیں تو پھر وسیلہ بعد الممات کے ناجائز ہونے پر کیا دلیل ہے
کیونکہ کسی چیز کو حرام کہنے کے لئے دلیل قطعی کی حاجت ہوتی ہے جو کہ قطعی
الدلالتہ و قطعی الثبوت ہو کسی طرح کا احتمال رکھنے والی نص نہ ہو اور اگر
مکروہ تحریمی کہیں تو پھر اس کے لیے قطعی الدلالتہ ،ظنی الثبوت یاظنی
الدلالتہ ، قطعی الثبوت نص کی ضرورت ہوتی ہے لہذا اسی کوئی نص پیش کردیں
تاکہ اس کو ہم بھی ناجائز کہیں کیونکہ ہمارے پاس نہ صرف علماء کے اقوال و
افعال ہیں بلکہ صحیح حدیث بھی اس پر موجود ہیں ان شاء اللہ اس پر آگے کلام
کریں گے
تو اب جو صرف صحابی کے عمل کو دیکھتے ہیں اور حدیث کے ظاہری معنی کو دیکھتے
ہیں تو وہ تو گمراہ ہوجاتے ہیں
اور جو لوگ احادیث طیبات کو محدثین و اکابر علماء کی تشریحات سے سمجھتے ہیں
تو ان کو ان احادیث کے مفاہیم سمجھ آجاتے ہیں اور صراط مستقیم پر رہتے ہیں
اور وسواس ان کے دلوں میں نہیں پھٹکتے تو علماء کبار و محدثین نے اس حدیث
کی بھی قرآن و احادیث کی روشنی میں تشریح فرمادی کہ یہاں ممانعت سے مراد یہ
ہے کہ جو لوگ مساجد بناکر فخر کریں گے نیز اور بھی اس کی تشریحات ہیں لیکن
یہاں یہ موضوع نہیں ہے اس لئے بیان نہیں کیں
اب ہمیں تو تشریحات مل گئیں ہیں آپ حضرات کس وجہ سے مساجد خوبصورت بناتے ہو؟
اور میں نے ان حضرات کے اندر یہ صفت دیکھی ہے کہ جب ان کو بتا یا جائے کہ
فلاں محدث نے ایسا کیا یا اس پر عمل کیا تو کہتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے حجت
نہیں اور یہ کام کرنا ناجائز ہے یا شرک ہے مگر پھر میں انہیں لوگوں کو
دوبارہ دیکھتا ہو تو پریشان ہو جاتو ہوں کہ وہی لوگ جو کچھ دیر پہلے یہ کہہ
رہے تھے کہ یہ عمل ناجائز ہے یا شرک ہے اور جس نے بھی یہ عمل کیا وہ ناجائز
کو کرنے والا ہوا یا شرک کہا تو وہ مشرک ہوا اب اسی ناجائز کام کو کرنے
والی شخصیت کی کتاب کو بڑے ادب کے ساتھ پڑھ رہے ہیں اس کے حوالے دے رہے ہیں
اس کو اس شخصیت کو اس طرح پیش کر رہے ہین جیسے کہ وہ اللہ کے نیک بندے ہیں
تو سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اگر اس شخصیت نے ان کے نزدیک ناجائز یا شرک کا
کام کیا تو اب وہ اللہ کے نیک بندے کیوں رہے ان کی کتابیں معتبر کیوں رہیں
اور کے حوالے کیوں دیتے ہو ان کے اس عمل کو ہم کیا نام دیں ؟
کہ کچھ دیر پہلے کچھ کہا اور تھوڑی دیر بعد کچھ عمل کیا ؟
بہرحال میں اب مزید کیا لکھوں کیوں کہ فرق تو آنے والا ہے نہیں بہرحال میں
اب ان پر لکھنے کے بجائے اپنے ایک ساتھی طارق میاں کے کالم پر تبصرہ کرنا
چاہوں گا کہ انہوں نے وسیلہ کی احادیث کے راویوں کے ضعف کی نشاندہی کی تھی
۔
ویسے طارق جی ایک بات عرض کردوں کہ بالفرض محال بر تقدیر تنزل آپ کی یہ بات
مان بھی لی جائے کہ وسیلہ کی تمام احادیث ضعیف ہیں پھر بھی بات تو یہ ہے کہ
ہمارے پاس اپنے موقف پر حدیث ضعیف ہی سہی آپ نے وسیلہ بعد الممات کے ناجائز
ہونے پر ایک ضعیف حدیث تک بھی پیش نہیں کی ہمارے پاس تو کئی ہیں ؟
اوریہ بات بھی قابل غور ہے کہ کسی بھی محدث نے کسی موقع پر وسیلہ بعدالممات
اور استمداد کے شرک ہونے کو نہیں لکھا ؟کیا تمام محدثین و مفسرین اتنے بے
خبر اور لاعلم تھے کہ ناجائز اور شرک کی تعلیم کو فروغ دے رہے تھے ؟ چلو دو
چار سے بھول ہوئی کوئی ایک تو رد لکھتاکسی نے بھی رد نہیں کیا آخر کیوں ؟
امام دارمی ، ابو الجوزاء اوس بن عبد اللہ سے صحیح اسناد کے ساتھ روایت
کرتے ہیں کہ
حدثنا أبو النعمان ثنا سعید بن زید ثنا عمرو بن مالک النکری حدثنا أبو
الجوزاء أوس بن عبد اللہ قال : قحط أہل المدینۃ قحطا شدیدا فشکوا إلی عائشۃ
فقالت انظروا قبر النبی صلی اللہ علیہ و سلم فاجعلوا منہ کووا إلی السماء
حتی لا یکون بینہ وبین السماء سقف قال ففعلوا فمطرنا مطرا حتی نبت العشب
وسمنت الإبل حتی تفتقت من الشحم فسمی عام الفتق
قال حسین سلیم أسد : رجالہ ثقات وہو موقوف علی عائشۃ
مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلاء ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ سے شکایت کی
آپ نے فرمایا کہ حضور کی قبر مبارک کے پاس کھڑے ہوجاو اور اس سے ایک کھڑکی
آسمان کی طرف اس طر ح کھولو کہ قبر انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ
حائل نہ ہو راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی کیا پس بہت بارش ہوئی حتی کہ
خوب سبزہ اگ گیا اور اتنے موٹے ہوگئے کہ ایسا لگتا تھا کہ چربی سے پھٹ پڑیں
گے ۔لہذا اس سال کا نام عام الفتق (سبزہ و کشادگی کا سال) رکھ دیا گیا
حوالہ جات
الشفاء۔الخصائص الکبری۔مناہل الصفطفی فی تخریج احادیث الشفاء میں اس روایت
کو ذکر کرنے کے بعد لکھا کہ ابن ابی اسامہ نے اپنی مسند میں بکر بن عبد
اللہ مزنی اور بزار نے اپنی مسند میں عبد اللہ بن مسعود سے صحیح اسناد کے
ساتھ یہ روایت بیان کی ہے اور اس بات کی تائید علامہ خفاجی اور ملا علی
قاری نے الشفاء کی شرح میں کی ہے
ابن جوزی نے اس روایت کو الوفاء باحوال المصطفی میں اور علامہ تقی الدین
سبکی نے یہ حدیث شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام میں بکر بن عبداللہ سے
روایت کی اور احمد بن عبد الہادی نے الصارم المنکی میں کہا کہ اس کی اسناد
صحیح ہیں اور بکر ثقہ تابعین میں سے ہے
ابو نعمان عارم
کانام محمد بن الفضل سدوسی ہے
امام ذہبی میزان الاعتدال میں کہتے ہیں کہ یہ امام بخاری کا شیخ اور حدیثیں
یاد رکھنے والا انتہائی راست باز تھا لیکن عمر کے آخر
میں مختلط ہوگیا تھا۔
و قال الدارقطنی: تغیر بآخرۃ ، و ما ظہر لہ بعد اختلاطہ حدیث منکر ، و ہو
ثقۃ .
قرأت بخط الذہبی : لم یقدر ابن حبان أن یسوق لہ حدیثا منکرا ، و القول فیہ
ما قال الدارقطنی .
وقد أنکر صاحب المیزان قول ابن حبان ہذا ونسبہ إلی التخسیف والتہویر وقال
لم یقدر ابن حبان أن یسوق لہ حدیثا منکرا فأین ما زعم.
امام ذہبی لکھتے ہیں کہ امام دار قطنی کہتے ہیں کہ وہ عمر کے آخر حصہ میں
مختلط ہوگیا تھا لیکن اختلاط کے بعد اس کسے کوئی منکر حدیث اس سے ظاہر نہیں
ہوئی اور وہ ثقہ راوی ہے اور ابن حبان کا یہ کہنا کہ ابو نعمان کی اختلاط
کے بعد کئی مناکیر احادیث واقع ہوئی ہیں اس کا مام ذہبی نے رد فرمایا اور
لکھا کہ امام ابن حبان ابو نعمان کے مختلط ہوجانے کے بعد ایک منکر حدیث
بطور حوالہ کے پیش کرنے سے قاصر رہے
حافظ عراقی نے التقیید والایضا ح میں امام ذہبی کے اس قول کا اقرار کیا ہے
اور امام ذہبی نے الکاشف میں اس کی یہ وضاحت فرمائی کہ تغیر موت سے پہلے
واقع ہوا مگر پھر اس نے حدیث روایت نہیں کی ۔
اس لئے
سعید بن ابوالحسن بصری
امام ذہبی الکاشف میں لکھتے ہیں کہ سعید بن زید پر ضعف کا الزام لگانا درست
نہیں کیونکہ امام مسلم نے اس سے روایات لی ہیں اور ابن معین نے اس کو ثقہ
کہا ہے
حاافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں
قال البخاری : حدثنا مسلم قال : حدثنا سعید بن زید أبو الحسن صدوق ، حافظ .
امام بخاری نے کہا کہ مسلم بن ابراہیم نے ہم سے بیا ن کیا کہ سعید بن زید
ابو الحسن صدوق اور حافظ ہے
و قال عباس الدوری ، عن یحیی بن معین : ثقۃ .
امام عباس دوری نے ابن معین سے روایت کیا کہ سعید بن زید ثقہ راوی ہے
و قال العجلی : بصری ثقۃ .
امام عجلی نے اس کو بصرہ کا ثقہ راوی بتلایاہے
و قال أبو زرعۃ : سمعت سلیمان بن حرب یقول : حدثنا سعید بن زید ، و کان ثقۃ
.
و قال أبو جعفر الدارمی : حدثنا حبان بن ہلال حدثنا سعید بن زید ، و کان
حافظا
صدوقا .
ابو زرعہ نے کہا کہ میں سلیمان بن حرب کوسنا کہ وہ فرمارہے تھے کہ سعید بن
زید نے ہم کو حدیث بیان کی اور وہ ثقہ تھا
ابو جعفر دارمی نے کہا کہ حبان بن ھلال نے فرمایا کہ سعید بن زید حافظ تھا
ابن سعد نے اس کو ثقہ راوی کہا
عمرو بن مالک نکری
و قال المزی :
ذکرہ ابن حبان فی کتاب " الثقات " ، و قال : مات سنۃ تسع و عشرین و مءۃ .
روی لہ البخاری فی " أفعال العباد " و الأربعۃ .
عمرو بن مالک نکری کو حافظ ابن حبان نے ثقات میں شمار فرمایا ہے
اسی طرح امام ذہبی نے بھی ثقہ ہونے کی طرف اشارہ فرمایا
علامہ ناصر الدین البانی انہوں نے اپنی کتاب تعلیق علی فضل الصلوۃ علی
النبی صفحہ ۸۸ پر لکھا کہ عمرو بن مالک نکری ثقہ ہے جیسا کہ امام ذہبی نے
کہا اور سلسلۃالاحادیث الصحیحہ جلد ۵ صفحہ ۶۰۸ پر اس کو ثقہ کہا ہے
ابو الجوزاء
قال أبو حاتم : ثقۃ رضی .
و قال البزار : بصری ثقۃ مأمون .
و ذکرہ ابن حبان فی " الثقات " . کان عابدا فاضلا .
ابو حاتم ، امام بزار نے ابو الجوزاء کو ثقہ فرمایا اور ابن حبان نے اس کو
ثقہ راویوں میں شمار فرمایا
فہذہ الکلمۃ من البخاری لیس فیہا جرح لذات الرجل، لما تقدم، نیؤکدہ: أنہ
قال فی أبی خداشزیاد بن الربیع الیحمدی
1685): " فی إسنادہ نظر "، ومع ذلک فقد احتج بہ فی " صحیحہ ".
انظر " الکامل " 3: 1052، و " المیزان " 2 2937).
امام بخاری کاابو الجوزاء کے لئے یہ فرمانا کہ اس کی اسناد میں نظر ہے یہ
کلمات کسی شخص کی جرح کے لئے نہیں ہیں کہ امام بخاری نے أبی خداشزیاد بن
الربیع الیحمدی کے بارے میں بھی کہا کہ اس کی اسناد میں نظر ہے اس کے
باوجود اپنی کتاب بخاری میں اس سے دلیل پکڑی ہے
فہذا ظاہرہ أنہ لم یشافہہا ، لکن لا مانع من جواز کونہ توجہ إلیہا بعد ذلک
فشافہہا ، علی مذہب مسلم فی إمکان اللقاء
امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں
پس یہ اس کا ظاہر ہے کہ اس نے حضرت عائشہ سے بالمشافہ ملاقات نہیں کی لیکن
یہ بات اس چیز کے جواز میں مانع نہیں ہے کہ اس نے اس کے بعد حضرتت عائشہ سے
ملاقات نہ کی ہو پس اس نے حضرت عائشہ سے امام مسلم کے مذہب پر ملاقات کے
امکان پربالمشافہ ملاقات کی ہے
اور امام مسلم نے ابوالجوزاء کی روایت کو مسلم میں لیا بھی ہے جو کہ اس بات
کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ یہ چقہ راوی تھا نیز اس کے علاوہ بھی دیگر صحاح
ستہ کے محدثین نے اس کی روایت کو لیا ہے ۔
وقال فی جامع الأصول: أبوالجوزاء سمع من عائشۃ، فارتفعت العلۃ رأساً.
جامع الاصول میں ہے کہ ابو الجوزاء نے حضرت عائشہ سے سماع کیا ہے پس وہ علت
مرتفع ہوگئی
اس بحث سے یہ ثابت ہوا کہ یہ حدیث درست ہے اور قابل حجت ہے اور اور اس کے
راوی صحیح ہیں۔
اب مجھے معلوم ہے کہ بعض حضرات کو یہ باتیں ہضم نہیں ہونگی وہ اس پر بھی
نکتہ چینی کریں گے اور کہیں گے کہ جناب ان راویوں کو فلاں جگہ ضعیف کہا گیا
ہے فلا ں جگہ یہ کہا گیا ہے وغیرہ وغیرہ
اب چونکہ ان کا کام ہے لوگوں پر شرک کا فتوی دینے کا اور لگوں کو گمراہ
کہنے کا لہذا یہ ان محدثین کے بارے میں ان ثقہ (سچا ) ہونے کو نہیں لیں گے
بلکہ یہ وہ قول لیں گے کہ جس سے ان محدثین کو جھوٹا یا کذاب یا ضعیف کہا
جائے کیونکہ انہیں تو اسی میں مزہ آتا ہے کاش کبھی تو مسلمانوں کی سچائی
اور دیانت داری والے قول کو لے لیں
اب میرا ان سے سوال یہ ہے کہ جب راویوں کے بارے میں علماء اصولیین کا
اختلاف ہے راویوں کی جرح و تعدیل میں اختلاف ہے تو تم تو صرف صحابی کے قول
کو لیتے ہو یا پھر قرون ثلاثہ کے اصحاب کی تو تم ان کے ہی اقوال ہمیشہ لیا
کرو بعد کے علماء کے اقوال کیوں لیتے ہو ابن حجر اور ابن عدی کونسے قرون
ثلاثہ کے ہیں
اور یہ بتاو کہ جن لوگوں پر جرح کرو وہ قرون ثلاثہ سے نہیں ہونے چاہیے
کیونکہ قرون ثلاثہ کے لوگوں کی بات تو تمہارے نردیک حجت ہے وہ قابل بھروسہ
بندے ہیں اب یہ مت فرمائے گا کہ جناب قرون ثلاثہ کے تمام لوگوں کے لئے یہ
فرمان نہیں ہے اس دور میں یزید بھی تو تھا ۔ تو بھائی جان عرض ہے کہ آپ کی
بات درست ہے کہ تمام لوگوں کے لئے یہ بات نہیں ہے مگر جو اس وقت کے محدث
اور حافظ کہلانے والے حضرات تھے تو کیا یہ بھی اس خیر میں شامل نہیں تو پھر
کون بچے گا؟
اور یہ بھی ذرا بتا دینا کہ کیا تم لوگوں کے سارے عقائد قطعی الدلالتہ و
قطعی الثبوت ہیں ؟ |