حکومت نے نیٹو رسد کو 221 روز تک
بند رکھنے کے بعد بالآخر گھٹنے ٹیک دیے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بحالی کا
اعلان پاکستانی وزیرخارجہ سے پہلے واشنگٹن میں ان کی امریکی ہم منصب نے کیا۔
حکومتی حلقے ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ امریکا نے پاکستان سے معافی مانگ لی ہے
جب کہ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے اس معافی کا پول
کھولتے ہوئے واضح کیا کہ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اپنی پاکستانی
ہم منصب کو فون کرکے صرف ”سوری“ ہے اور سوری کا مطلب بھی دونوں ملکوں کے
نقصان پر اظہار افسوس ہے۔ ایک امریکی اخبار نے بھی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے
کہا کہ ”سوری“ کا مطلب معافی نہیں، پاکستان غلط فہمی کا شکار ہوگیا۔
پاکستان نے گزشتہ سال نومبر میں سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے ایک حملے کے بعد
اس کی رسد کے راستے بند کردئے تھے، پاکستانی حکومت یہ معاملہ پارلیمنٹ میں
لے گئی۔ تفصیلی بحث کے بعد پارلیمنٹ نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ ڈرون حملوں کی
بندش اور سلالہ واقعے پر واشنگٹن کی غیر مشروط معافی کے بغیر پاکستان نیٹو
سپلائی لائن بحال نہ کرے۔
حکومت پارلیمنٹ کی بالادستی کا نعرہ تو لگاتی ہے، لیکن جب بھی قومی سلامتی
اور عوامی مفاد کے فیصلوں کا وقت آتا ہے وہ خود ہی پارلیمنٹ کو بائی پاس
کرتی ہے۔ قومی زندگی کے لیے اہم فیصلے کابینہ کی دفاعی کمیٹی کی منظوری سے
بھی حتمی قرار نہیں پاتے، بلکہ انہیں پارلیمنٹ سے بھی منظور کرانا ضروری
ہوتا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ نیٹو رسدکی بندش کا معاملہ پاکستان کے اس اصولی
موقف کی وجہ سے لٹکا ہوا تھا کہ امریکاسلالہ چیک پوسٹ پر حملے کی غیر مشروط
اور اعلانیہ معافی مانگے۔ حکومت نے پارلیمنٹ سے منظوری تو دور کی بات
ہے،اپنی کابینہ کو بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اگر یہی
تماشا لگانا تھا تو پھر 7 ماہ تک یہ ڈراما کیوں رچایا گیا؟
امریکا نے واضح طور پر کہا ہے کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے لیے کوئی نیا
معاہدہ نہیں ہوا۔ گویا پاکستانی حکومت پرانی تنخواہ پر ہی راضی ہوگئی ہے ۔
امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان سے سپلائی بندش
کے باعث گزشتہ 6 ماہ کے دوران امریکا کو مجموعی طور پر 2 ارب 10 کروڑ ڈالر
کا نقصان اٹھانا پڑا۔
واضح رہے کہ نیٹو سپلائی پاکستان کے راستے افغانستان بھیجنے کے لیے 2 روٹ
ہیں۔ پہلا روٹ کراچی سے حیدرآباد، مورو، سکھر، شکارپور، جیک آباد، سبی،
کوئٹہ، چمن سے ہوتا ہوا قندھار کی طرف جاتا ہے۔ دوسرا راستہ کراچی سے
حیدرآباد، سکھر، صادق آباد،ترنڈہ، میانوالی، راولپنڈی، اٹک، پشاور سے ہوتا
ہوا طور خم بارڈر سے جلال آباد اور کابل تک ہے۔ وفاقی وزارت داخلہ کی جانب
سے طور خم بارڈر پر سیکورٹی خدشات کا اظہارکیا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے لندن میں حالیہ ملاقات کے دوران
صدر زرداری کو یقین دلایا تھا کہ کراچی بندرگاہ آنے والے نیٹو کنٹینروں کی
ایم کیو ایم کے رضا کار حفاظت کریں گے۔ حکومت کی دوسری اتحادی جماعت عوامی
نیشنل پارٹی بھی خاصی پر جوش دکھائی دیتی ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیر
اطلاعات میاں افتخار حسین نے نیٹو کارگو کی حفاظت کے لیے خصوصی حفاظتی
اقدامات کا اعلان کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نیٹو سپلائی سے ملنے والی
امداد میں خیبر پختونخوا کا بھی حصہ ہوگا۔
جہاں تک پارلیمنٹ کی شرائط کی بات ہے تو معافی کے متعلق ہم ذکر کرچکے کہ
جلد بازی میں کیے گئے حکومتی فیصلے نے پوری قوم کے سرشرم اور ندامت سے
جھکادیے ہیں۔ دوسری شرط ڈرون حملوں کی تھی تو اس بابت وفاقی وزیر اطلاعات و
نشریات قمرزمان کائرہ کا ماننا تھا کہ ہم امریکا کو قائل کریں گے کہ ڈرون
حملے ملکی سلامتی کے خلاف ہیں۔
امریکا نے 6 جولائی کو وزیرستان کے علاقہ دتہ خیل میں میزائلوں کی بارش کر
کے 21 پاکستانیوں کی شہادت کے ذریعے اپنے عزائم کا اظہار کردیا ہے کہ وہ
آیندہ بھی پاکستان کی سلامتی و خود مختاری کی دھجیاں اڑاتا رہے گا۔
پارلیمنٹ کی بالادستی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اب چُپ کیوںہیں؟ امریکی غلامی
کا طوق پہننے والے حکمرانوں کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے؟
برطانوی ادارے نے خود اعتراف کیا ہے کہ 2004ءسے اب تک ڈرون حملوں میں 3
ہزار کے قریب افراد مارے جاچکے ہیں، جن میں 200 بچے بھی امریکی درندگی کی
بھینٹ چڑھے۔
تسلیم کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے لیے پاکستان پر پوری دنیا کا دباﺅ تھا
لیکن اگر بحال کرنی ہی تھی تو ”کچھ لو اور کچھ دو“ کے اصول کے تحت کرتے۔ کم
ازکم ڈرون حملوں پر تو معاہدہ کرسکتے تھے۔ لیکن یہاں تو اس سلسلے میں سرے
سے کوئی باقاعدہ اور تحریری دستاویز ہی سامنے نہیں لائی گئی۔
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن یہ کہہ کر خود کو بری الذمہ قرار
نہیں دے سکتے کہ پارلیمنٹ کے اندر اپنا کردار ادا کرچکے، اب دفاع پاکستان
کونسل سپلائی بحالی کی مزاحمت کرے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب کون سی پارلیمنٹ
کی بات کررہے ہیں، جسے اس حوالے سے اعتماد میں ہی نہیں لیا گیا؟ کیا ربڑ
اسٹیمپ پارلیمنٹ کے اندر کردار ادا کرنے سے جے یو آئی بری الذمہ ہوگئی؟
دفاع پاکستان کونسل کا بھی اب امتحان شروع ہوگیا ہے۔ نیٹو سپلائی کی بندش
کے دوران دفاع کونسل کے قائدین نے جو دعوے کیے تھے اب قوم ان کی تکمیل کی
منتظر ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جے یو آئی، اہل سنت والجماعت سمیت تمام دینی
و مذہبی جماعتیں اس موقع پر متحد ہوکر طاغوتی طاقتوں کی سازشوںکا ڈٹ کر
مقابلہ کرتیں۔
یہاں ہم مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کا بھی ذکر کرتے چلیں کہ جب
بھی ملک و قوم پر نازک وقت آتا ہے تو میاں صاحب باہر چلے جاتے ہیں۔ جس روز
نیٹو سپلائی کی بحالی کا اعلان ہونا تھا عین اس روز میاں نواز شریف لندن
چلے گئے۔ صرف لندن سے مذمتی بیان جاری کرکے کوئی بری الذمہ نہیں ہوجاتا۔ اس
سے قبل 3 پاکستانیوں کے امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے وقت بھی وہ ملک
سے چلے گئے تھے، اس کے علاوہ بھی ایسے کئی مواقع آئے جب انہوں نے بیرون ملک
راہ فرار ڈھونڈی۔ ان کے اس طرح کے اقدامات اور رویے سے شکوک و شبہات میں
اضافہ ہورہا ہے۔ پھر لوگ ”فرینڈلی اپوزیشن“ کے طعنے نہیں دیں گے اور کیا
کہیں گے؟
|