دانشمندانہ سوچ

آخرِ کار خدا خدا کر کے وہ لمحہ بھی آ پہنچا جس میں حکومتِ پاکستان نے نیٹو بحالی کا انتہائی مشکل فیصلہ کر ڈالا ۔ کچھ مذہبی حلقوں کو یہ فیصلہ قابلِ قبول نہیں ہے کیونکہ انکی زندگی کا واحد مقصد افرا تفری اور انارکی پھیلا نا ہو تا ہے تاکہ انکی اسلام پسندی کا بھرم رہ جائے اور انکی جہادی سوچ کی ترویج کےلئے راہیں کشادہ رہیں ۔انھیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ملکی معا ملات کتنی مشکلات کا شکار ہیں۔ دنیا کی ساری مہذب اور ترقی یافتہ اقوام ایک جانب کھڑی ہیں اور پاکستان رنگ کی دوسری جانب گلوزپہن کر ان ساری اقوام سے دو دو ہاتھ کرنے کےلئے پر تو رہا ہے ۔ باکسنگ بڑا خطرناک کھیل ہے اور اس میں بعض اوقات جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑ جاتے ہیں۔باز وﺅ ں میں طاقت ہو تو باکسنگ کا مزہ ہی نرالا ہوتا ہے لیکن اگر کسی بیمار کو رنگ میں اتار دیا جائے تو پھر اسکی جو درگت بنے گی وہ سب کو پتہ ہے ۔پاکستان کو اس وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں دھشت گردی اور کمزور معیشت سرِ فہرست ہیں۔ امن و امان کی بگڑتی ہو ئی صورتِ حال اسی دھشت گردی کی بدولت ہے جسے مذہبی جنونیوں نے پاکستان پر مسلط کر رکھا ہے۔ اگر دھشت گردی پر قابو پا لیا جائے تو امن و امان کا مسئلہ چٹکیوں میں حل ہو جائےگا۔ علیحدگی کے رحجانات ایک اور بڑی حقیقت ہیں جس نے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میںلے رکھا ہے۔ بھارتی پشت پناہی اور امریکی ڈپلومیسی اس علیحدگی پسندی میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں روز لاشیں گرا ئی جا رہی ہیں اور لاشیں گرانے والے کوئی غیر نہیں اپنے ہی ہم وطن ہیں۔ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ وہ آزادی چاہتے ہیں اور جب تک بلوچ آزادی کی نعمت سے سرفراز نہیں ہو جاتے یہ جنگ جاری رہےگی۔بھارتی اور امریکی لابی بلوچیوں کو اسلحے اور فوجی سازو سامان سے لاد بھی رہی ہے تا کہ ان کی یہ جدو جہد دھیمی نہ پڑنے پائے۔ چند ماہ قبل امریکی سینٹ میں آزاد بلوچستان کے قیام کی باز گشت بھی اسی تناظر میں تھی ۔حکومتِ پاکستان کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ ان نامساعد حالات میںان ملک دشمن سرگرمیوں سے کیسے نبرد آزما ہو۔ اپوز یشن اور مذہبی جماعتیں ہر روز جلسے، جلوسوں اور ہنگاموں سے حکومت کو بیک فٹ پر کھیلنے پر مجبور کر رہی ہیں ۔ اپو زیشن کی اولین ترجیح اقتدار کا حصول ہے اور حکومت عوامی دباﺅ کے پیشِ نظر بڑے فیصلوں سے گریزاں نظر آرہی ہے لیکن پانی سر سے گزر جانے کے بعد اسے کو ئی بڑا فیصلہ بہر حا ل کرنا تھا اور اس نے نیٹو سپلائی کی بحالی کا فیصلہ کر کے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے ۔ حکو مت پر بہت سے دباﺅ ہو تے ہیں جو کہ اپوزیشن کو نظر نہیں آتے کیونکہ وہ عالمی سیاست میں ان دباﺅں سے گزری نہیں ہوتی اور سے یہ احساس نہیں ہوتا کہ ریاست کی بقا کے تقاضے کیا ہو تے ہیںاور ریاست کو دباﺅ میں زندہ ر کھنے کےلئے کون سی حکمتِ عملی اختیار کرنی پڑتی ہے ۔ بڑی قیادت کا یہی کمال ہو تا ہے کہ اسے عالمی دباﺅ پر عوام کو قائل کرنا ہو تا ہے اور ریاستی مجبوریوں کے پیشِ نظر ایسے فیصلے کرنے ہو تے ہیں جن سے ریاست کی بقا پر کوئی حرف نہ آسکے۔۔

نیٹو سپلائی کھلنے کے بعد جنھیں شک تھا اب ان کو بھی یقین آگیا ہو گا کہ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے اور اس سے فی الحا ل ٹکر لیناممکن نہیں ہے ۔سات ماہ تک نیٹو سپلائی کو بند ر کھنا معمولی بات نہیں تھی لیکن موجودہ حکومت نے ایسا کر کے دکھا یااور اب قومی مفادات کے پیشِ نظر اسکی بحالی کا فیصلہ ہو گیا ہے جو حکومت کی شاندار حکمت عملی کو ظاہر کرتا ہے۔ 26 نومبر 2011 کو سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد پی پی پی کی حکومت نے نیٹوسپلائی کو بند کرنے کا جو جرات مندانہ فیصلہ کیا اور پھر اس فیصلے پر سات ماہ تک ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی رہ گئی جو یہ ہ دکھانے کےلئے کافی ہے کہ وہ عوامی جذ بات کا خیال رکھتی ہے اور ان کی خواہشوں اور امنگوں کو اہمیت دیتی ہے۔ اس نے سات ماہ تک امریکہ بہادر کو خوب گھسیٹا ، اسے ترلوں تک لے آئے اور ان کی کھٹیا کھڑی کر دی اور ساتھ ہی ساتھ امریکی دباﺅ کا سامنا بھی کرتے رہے اور ثابت قدم رہے ا لیکن ہر شہ کی حد ہو تی ہے لہذا پاکستان بھی سات ماہ تک بلی چوہے کا کھیل کھیلنے کے بعد نیٹو سپلائی کو کھولنے پر آمادہ ہو گیاکیونکہ امریکہ اپنی حلیف نیٹو کے ساتھ مل کر پاکستان کےلئے بہت سی مشکلات کھڑی کرنے کی راہ پر جانے کا فیصلہ کرنے والا تھا ۔ بھارت پاکستا ن کو بمبئی حملوں میں پھا نسنے کےلئے بے چین ہے اور اس کےلئے وہ امریکہ کی جانب دیکھ رہا ہے لیکن امریکہ اسے ابھی تک دامن نہیں پکڑوا رہا جسکی وجہ سے بھا رت کی خوابیدہ خوا ہشوں پر بر گ و بار نہیں آرہا۔حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھر پور ایکشن کی تیاری اور پھر پاکستانی طالبان کی پشت پناہی ہمیں ایسی صورتِ حال میں دھکیل سکتی تھی جس سے نبرد آزما ہو نا ہمارے بس میں نہ ہو تا اور ریاست کی بقا اور استحکام پر گہرے بادل چھا جاتے۔امریکی ۲ مئی کو ایبٹ آباد اپریشن کر کے اسامہ بن لادن کو قتل کر کے ساتھ لے گئے تو پاکستان نے کیا کر لیا تھا اور اگر امریکہ اس دفعہ بھی حقانی نیٹ روک کی سر گرمیوں اور القاعدہ کی قیادت کے پاکستان میں رو پوشی کو بہانہ بنا کر پاکستان پر یلغار کر دیتا تو پھر ہم اپنے تحفظ اور بچاﺅ کےلئے کس کا دروازہ کھٹکھٹا تے ؟ جانبازی بڑا خوبصورت لفظ ہے لیکن ریاستیں جذباتیت پر نہیں چلتیں بلکہ عقل و دانش اور تحمل سے اپنے بچاﺅ اور حفا ظت کا فیصلہ کرتی ہیں۔ 26 نومبر کو سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کےلئے پاکستان نے بھر پور احتجاج کر کے امریکہ کو معافی مانگنے پر مجبور کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اپنی عز ت و ناموس کو ہر شہ پر فوقیت دیتا ہے لیکن سلالہ چیک پوسٹ پر دنیا رک نہیں جاتی۔قومیں سانحات کے بعد ٹھہر نہیں جاتیںبلکہ ا پنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے بعد آگے کا سفر جاری رکھتی ہیں اور یہی ساری دنیا کا دستور ہے اور یہی پا کستان نے بھی کیا ہے۔ابھی تک تو ہم ڈرون حملوں کو بھی نہیں ر کوا سکے لہذا یہ کہنا کہ نیٹو سپلائی پر امریکی ردِ عمل کو ہم برداشت کر لیں گئے صحیح نہیں ہے ۔فرنس آئل کی کمی کی وجہ سے انرجی اور بجلی کا پورا نظام ٹھپ ہو رہا ہے لیکن پھر بھی جنونی بضد ہیں کہ ہم امریکہ سے ٹکر لے کر اسے شکست دیں گئے ۔ حکومت ریاست کے استحکام کی خاطر اہم اقدامات کرتی ہے تو یہی عناصر اسکی بلا جواز مخالفت کر کے مزید مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ یاد رکھئے پاکستان کی فوجی اور جنگی صلا حتیں اس سطح پر نہیں ہیں کہ ہم امریکہ سے ٹکر لے سکیں۔ہم ڈرون حملوں پر احتجاج تو ضرور کرتے ہیں لیکن اسے روکنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ ڈرون حملے لگا تار ہو رہے ہیں اور پاکستان اسے بحالتِ مجبوری برداشت کر رہا ہے ۔ میری ذاتی رائے ہے کہ ڈرون حملے اگر دھشت گردوں کے خلاف ہیں تو انھیں پاکستانی حکومت کی زیرِ ِنگرانی ہونا چائیے تا کہ ان حملوں میں صرف دھشت گردوں کو نشانہ بنا یا جا سکے اور نہتے معصوم اور بے گناہ شہری اس کا نشانہ نہ بن سکیں۔ انسانی جان قابلِ تکریم ہے اور اسکی تکریم کو مٹانے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جا سکتی چاہے وہ ا مریکہ ہو یا دنیا کا کوئی اور ملک۔انسانیت کی تکریم اور اس کی حر مت کا یقینی بنا ناریاستی ذمہ داری ہے اور ریاست کو اسے ہر قیمت پر یقینی بنا ہو گا۔

اگر معاملہ صرف امریکہ کے ساتھ ہو تا تو بات دوسری تھی لیکن اس وقت تو دنیا کی 49 ترقی یافتہ اقوام ہیں جنہوں نے نیٹو سپلائی کی بحالی کےلئے پاکستان پر دباﺅ ڈالا ہوا تھا۔پاکستان کو نہ چاہتے ہو ئے بھی اس کو بحال کرنا پڑنا تھا کیونکہ ایسا کرنا اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کا بھی تقاضا تھا اور پھر پاکستان کی تجارت اور روا بط بھی انہی مما لک کے ساتھ زیادہ ہیں ۔دریا میں رہنا لیکن مگر مچھ سے بیر کے مصداق ان سب سے ٹکر لینا ممکن نہیں تھا اور ٹکر اﺅ سے پاکستانی مفادات کے تحفظ کی بجائے ان مفادات کو نقصان پہنچنے کا شدید احتمال تھا لہذا دانشمندی کا تقاضا تھا کہ امریکہ اور نیٹو اقوام کو یہ احساس د لا یا جاتا کہ سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری پر حملہ ہے جسے پاکستانی قوم برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ حکومتی اصرار کی وجہ ہے کہ نیٹو اقوام کو پاکستان کو یہ یقین دلانا پڑا کہ وہ اس طرح کی کاروائی دوبارہ نہیں کریں گئے جس سے پاکستانیوں کے دلی جذبات مجروح ہوتے ہوں ۔عز ت و ناموس ہمیشہ سے قوموں کی پہچان ہوا کرتی ہے اور اس کااظہار کرنا بہت ضروری ہو تا ہے۔سات ماہ تک امریکہ کو گھمن گھیریا ں دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی حکومت ملکی تقدس اور وقار پر انتہائی جذباتی ہے اور کسی کو بھی پاکستان کے وقار کو مجروح کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی ۔ ہم نے تو ایک ٹیلیفوں کال پر خود ساختہ کمانڈو کو زمین پر لیٹتے ہو ئے بھی دیکھا ہے لہذا پی پی پی حکومت کا سات ماہ تک نیٹو سپلائی روکنا پاکستانی قیادت کی جراتمندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے سات ماہ تک قومی وقار اور احترام کی سر بلندی کا علم بلند کئے رکھا تھا اور امریکہ کو اس بات پر مجبور کیا تھا کہ وہ پاکستانی عوام سے اپنے اس شرمناک فعل پر معافی مانگے کیونکہ پاکستانی قوم معافی سے کم کسی بات پر بھی راضی نہیں ہو سکتے۔ امریکہ نے معافی کا اظہار کر کے پاکستانی عوام کے جذبات کا جو احترام کیا ہے اس نے پاکستانی قوم کے جذبات اور بدلے کی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔یہ ایک مشکل مرحلہ تھا لیکن پاکستانی حکومت نے جس دانشمندی سے عوامی جذبات کی ترجمانی کی ہے پاکستانی عوام اس پر حکومت کے اقدامات کی حمائت کرتے ہیں اور پی پی پی کی عوامی سوچ کے ساتھ کھڑے ہیں کیونکہ اس نے پاکستان کی عز ت و وقار کو جھکنے نہیں دیا۔۔

دفاعِ پاکستان کونسل جس میں مذہبی عنا صر کی اکثریت ہے اس فیصلے کے خلاف لانگ مارچ کا فیصلہ کرچکی ہے حا لانکہ ان کے اپنے دورِ حکومت میں نیٹو سپلائی بڑے دھڑلے سے جاری و ساری تھی ۔ اس وقت نہ تو نیٹو سپلائی اسلام کے خلاف تھی اور نہ ہی پاکستانی مفادات کے خلاف تھی۔ مال پانی بن رہا تھا لہذا سب کچھ جا ئز تھا۔ مذہبی پیشوائیت کی یہی قلا بازیاں ہیں جن کی وجہ سے عوام ان کی باتوںکا یقین نہیں کرتے اور ا نھیں انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔عوام کو سوچنا ہو گا کہ وہ چیز جو کل جائز تھی آج ناجائز کیسے ہو گئی ؟اور پھر سوال جائز اور ناجا ئز کا بھی نہیں ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ان مذہبی جماعتوں کو پی پی پی سے خدا واسطے کا بیر ہے لہذا انھیں اس حکومت کی مخالفت کےلئے کوئی ایشو چائیے تا کہ وہ اس ایشو پر اپنی سیاست کر سکیں۔پاکستان پیپلز پارٹی جنگی جنونیت کا نہیں بلکہ امن و آشتی اور رواداری کی علمبردار جماعت ہے لہذا وہ دنیا کے ساتھ جنگی جنونیت کو بڑھاوا نہیں دینا چا ہتی۔ اسے اپنی کمزوریوں اور طاقت کا علم ہے اور وہ اسی بنیاد پر فیصلے کر رہی ہے ۔ موجودہ حکومت ٹکراﺅ کی پالیسی نہیں بلکہ اپنے دوستوں کے ساتھ باہمی مشاورت اور احترام کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ امریکہ کی معافی کے بعد معا ملا ت کو آگے بڑھانا ایک دانشمندانہ سوچ ہے اور ریاست کی خوشخالی اور استحکام کےلئے انتہائی اہم ہے۔ پوری قوم کو حکومتی فیصلوں کا ساتھ دینا چائیے تا کہ امریکہ اور نیٹو کے ساتھ باہمی روابط سے پاکستانی معیشت اور تجارت میں تیزی آ سکے اور یہ اقدامات پا کستان میں غر بت اور بے روزگاری کے خاتمے کی نوید بن سکیں۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 449831 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.