امارت شرعی کا قیام
اسلام ایک اجتماعی نظم اور زندگی کا قائل اور داعی ہے اس نے عبادات میں بھی
قدم قدم پر اس کو ملحوظ رکھا ہے،نماز میں جماعت واجب قرار دی گئی ہے، روزہ
کیلئے ایک خاص مہینہ مقرر کیا گیا،زکوٰۃ کو اجتماعی طور پر بیت المال میں
جمع کرنے اور تقسیم کا حکم دیا گیا ہے اور حج کے لئے چند خاص ایام اور
مقامات متعین کر دئیے گئے، جس نے زندگی کے عام مسائل میں اجتماعت اور
مسلمانوں کی جماعتی حیثیت کو اس طرح پیش نظر رکھا ہو کیونکر ممکن ہے کہ وہ
مسلمانوں کو ایک منتشر انبوہ اور بھیڑکی طرح زندگی بسر کرنے کی اجازت
دے،چنانچہ اسلام کے مزاج وروح کے رمز شناس سیدنا عمرفاروق(رض) نے فرمایا:
’’ اسلام جماعت کے بغیر نہیں،نہ جماعت امارت کے بغیر ہے اور نہ امارت اطاعت
کے بغیر۔‘‘﴿جامع لابن عبدالبر:ص۲۶﴾
رسو ل اللہ öنے فرمایا جس نے اطاعت امیر ترک کر دی اور جماعت سے الگ ہو گیا
وہ جاہلیت کی موت مرا.﴿مسلم﴾ بعض روایات میں ہے کہ آدمی کو کوئی صبح و شام
ایسی نہیں گزارنی چاہئے کہ اس کا کوئی امیر نہ ہو ﴿ابن عساکر﴾ چنانچہ رسول
اللہ öکے وصال کے بعد جسدِ اطہر کی تدفین سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ
تعالیٰ عنہم نے امیر کے انتخاب کا فریضہ انجام دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسے ملک میں جہاں مسلمانوں کو سیاسی اقتداراور غلبہ
حاصل نہ ہو امارت کا نظام قائم ہو سکتا ہے اور مسلمان کسی کو اپنا امیر
منتخب کر سکتے ہیں؟
ہمیں اس کا جواب خود حضور öکی حیات طیبہ سے مل جاتا ہے، حضور ö جب تک مکہ
میں رہے ظاہر ہے مسلمان نہ صرف یہ کہ اقتدار اعلیٰ سے محروم تھے بلکہ بہت
عاجز و درماندہ تھے،اس وقت بھی جب حضور ö نے اہل مدینہ سے بیعت لی تو اچھے
اور برے حال میں سمع و طاعت کا عہد لیا اور اس بات کا کہ وہ امیر سے نظم
ونسق کے معاملہ میں جھگڑا نہیں کریں گے۔
’’ان لا ننازع الا مراھلہ‘‘﴿بخاری﴾
فقہائ نے بھی اس کی تصریح کی ہے، ابن نجیم مصری(رح) اور علامہ طحطاوی(رح)
لکھتے ہیں:
’’ وہ مملکتیں جہاں کفار والی ہوں،وہاں جمعہ قائم کرنا درست ہے اور قاضی
مسلمانوں کی باہمی رضامندی سے قاضی ہو جائے گا اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ
اپنے اوپر کسی مسلمان والی کا مطالبہ کریں۔‘‘﴿فتاویٰ الھندیہ:۱،۶۴۱﴾
چنانچہ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ حکومت سے کسی امیر
کے تقررکا مطالبہ کریں یا بطور خود کسی کو امیر منتخب کر لیں، ہندوستان پر
انگریزوں کے قبضہ کے بعد حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی(رح) نے فتویٰ دیا
کہ:
’’اگرکفارکی طرف سے’’ مسلمان والی‘‘ دار الحرب کے کسی مقام میں مقرر ہو تو
اس والی مسلم کی اجازت سے جمعہ قائم کرنا درست ہے ورنہ مسلمانوں کو چاہئے
کہ ایک امین اور دین دار شخص کو خود ہی سردار﴿والی ﴾ مقرر کریں۔‘‘
لہٰذا ہندوستانی مسلمانوں کو اسلامی زندگی بسر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ
امارت شرعی کا نظام قائم کریں اور کسی امیر کے ہاتھ میں اپنا دست بیعت
رکھیں، اگر کل ہند سطح پر اس کا قیام ممکن نہ ہوسکے تو ریاستی سطح پر اس
فریضہ کو انجام دیں افسوس کہ اس اہم ترین فریضہ دینی سے ہم غافل و بے پرواہ
ہیں۔وباللّٰہ التوفیق
قضائ شرعی کا نظام
قرآن مجید نے اپنے اختلافات میں خدااور رسول öکی طرف لوٹنے اور اس کے فیصلے
پر راضی و آمادہ رہنے کو مسلمانوں کا فریضہ قرار دیا ہے، ظاہر ہے اس پر عمل
اسی وقت ممکن ہے جب ایسا نظام قضائ قائم ہو جہاں کتاب و سنت کی روشنی میں
فیصلے کئے جاتے ہوں اور یہ فیصلے ان لوگوں کے ذریعے ہوتے ہوںجوخودبھی
خداورسول öپر ایمان رکھتے ہوں اور دین و شریعت کے قائل ہو ں
چنانچہ اس سلسلہ میں بکثرت فقہی تصریحات موجودہیں۔علامہ ابن ہمام(رح)فرماتے
ہیں:
’’جب ﴿مسلمان﴾ بادشاہ نہ ہواور نہ ایسا شخص ہو جس کا قاضی مقرر کرنا جائز
ہو﴿جیسے بادشاہ کی جانب سے مقرر شدہ والی﴾ جیسا کہ یہی حالت بعض ان ممالک
کی ہے جن پر کفار غالب آگئے ہیں مثلاً بلادمغرب میں قرطبہ، بلنسیہ اور حبشہ.
تو ایسی حالت میں مسلمانوں پر واجب ہے کہ اپنے میں سے کسی ایک پر متفق ہو
کر والی بنالیںجو ان کے لئے قاضی متعین کرے یا خود فیصلے کیا کرے۔‘‘
نظام قضائ کی اہمیت کاسب سے نازک پہلو یہ ہے کہ غیر مسلم جج کا فیصلہ
مسلمانوں کے حق میں معتبر نہیں ہے،اس طرح جو عورتیں سرکاری عدالتوں سے اپنا
نکاح فسخ کرالیں تو چاہے وہ بجائے خود اسلامی قانون کے مطابق ہی کیوں نہ ہو
یہ فیصلے غیر معتبر ہیں، وہ عورت اپنے پہلے شوہر کی زوجیت میں باقی رہتی ہے
اور یہ نکاح نادرست ہوتا ہے نیز اس کے بعد تعلقات معصیت قرار پاتے ہیں،ایسی
خواتین کے لئے اسلامی اور شرعی زندگی کی واحد راہ نظام قضائ کاقیام ہے، اس
طرح ہندوستان میں نافذ’’مسلم پرسنل لائ‘‘ نظام قضائ کے بغیر عملاً غیر
اسلامی ہو جاتا ہے۔
افسوس کہ ہندوستان میں چند ایک ریاستوں کے علاوہ پورے ملک میں اس کافقدان
ہے۔ انا للّٰہ واناالیہ راجعون
ویڈیو تصویروں پر قضائ ویڈیو تصویروں پر تکیہ کرکے کسی مقدمہ کا فیصلہ کرنا
جائز نہیں، قضائ کی بنیادشریعت میں ایسی چیزوں کو بنایا گیا ہے جس میں بہ
حدامکان تلبیس کا اندیشہ نہ ہو، ویڈیو کا معاملہ ایسا نہیں ہے اس میں تحریف
و تلبیس کے کافی مواقع ہیں اور مختلف مناظر کو مصنوعی طریقہ پر ایک دوسرے
سے منسلک کرنے کی گنجائش موجود ہے،فقہائ نے اسی احتیاط کے پیش نظر محض
دستاویزاور تحریرکی بنیادپرفیصلہ کرنے کی اجازت نہیںدی ہے، علامہ شامی(رح)
نقل کرتے ہیں:
’’اشباہ‘‘ میں ہے کہ تحریر پر اعتماد نہیں کیا جائے گا اور نہ وقف کی ان
دستاویزوں پر جن میں گزشتہ قاضیوں کی تحریریں ہوں، لیکن علامہ بیری کہتے
ہیں کہ’’اعتماد‘‘ نہیں کیا جائے گا‘‘ کامطلب ہے کہ قاضی منازعت کے وقت اس
پر فیصلہ نہیں کرے گا اس لئے کہ تحریر میں دھوکہ دہی اور بناوٹ کے کافی
مواقع ہیں۔﴿البحرالرائق:۷،۵ ۵﴾
جس طرح ویڈیو پراعتبار کرکے فیصلہ نہیںکیا جاسکتا، اسی طرح محض ویڈیو میں
کسی واقعہ کو دیکھ کر اس کی صداقت کی گواہی بھی نہیں دی جاسکتی، اس لئے کہ
شہادت نام ہی آنکھوں دیکھی بات کی خبر دینے کا ہے۔ھی اخبارعن مشاھدۃ و عیان
لاعن تخمین وحسبان ﴿ردالمحتار : ۴ ، ۸۰۳﴾
ویڈیو کے ذریعہ بھی کسی واقعہ کے وقوع کا مشاہدہ نہیں ہوتا بلکہ وہ محض اس
کی تصویر کو دیکھتا ہے اور اس کے ذریعہ اندازہ وتخمین ہی کے درجہ میں کسی
بات کے پیش آنے کا گمان کرتا ہے اس لئے ایسی تخمینی چیز کی بنیاد پر گواہی
دینا جائز نہیں۔ |