گُزشتہ سے پیوستہ۔
کیا آپکو واقعی پنکھوں کی ضرروت نہیں ہے۔ لاغر نوجوان نے گھبراتے ہُوئے
دُوبارہ پُوچھا
بھائی کہہ دیا نا۔ کہ مجھے نہیں چاہیئے۔ اب تُم چلتے پھرتے نظر آؤ شاباش۔
ٹھیک ہے بھائی میں چلا جاتا ہُوں یہاں سے۔ مگر بعد میں میرے مالک سے یہ مت
کہنا کہ میں تُمہارے پاس نہیں آیا تھا۔
تُم جاتے ہُو یہاں سے یا میرے ہاتھوں اپنی جان گنواؤ گے۔ اب اگر تُم ایک
لمحہ بھی یہاں ٹہرے تُو میں تُمہارا سر پھاڑ دُونگا۔ کامل علی نے دہاڑتے
ہُوئے دروازے میں اَٹکی لوہے کی راڈ باہر نِکال لی۔
وہ لاغر نوجوان کامل علی کے ارادے کو بھانپ کر فوراً وہاں سے چل دِیا لیکن
چند قدم دُور جانے کے بعد اُس نے پلٹ کر کامل علی کی طرف دیکھ کر مُسکراتے
ہُوئے کہا ،، بھائی جب تُمہیں نہ ہی پنکھ کی ضرورت تھی۔ اور نہ ہی میری طلب
تھی۔ پھر کِس لئے ایک سو بیس دِن سے اپنی جان ہلکان کئے جارہے تھے۔
اِس سے پہلے کہ کامل علی کُچھ سمجھ پاتا۔ دانہ ثمانی کا موکِل اپنی اصل ہیت
اختیار کر کے فضاؤں میں پرواز کرگیا-
اب مزید پڑھیئے۔
کامِل علی حسرت ویَاس کی تصویر بنا دانہ ثمانی کے موکل کو جاتا دیکھ رَہا
تھا۔ شِدتِ غم سے اُسکا کلیجہ پھٹا جارہا تھا۔ لیکن اُسے اپنی بے بسی اور
بے کسی پر غُصہ آرہا تھا۔ وہ سُوچ رہا تھا کہ یہ کیسا ظُلم ہے۔۔۔۔؟ کہ
اُسکے ایک سُو بیس شب و رُوز کی مِحنت رایئگاں چلی گئی۔ اُسکی کمائی کا پھل
اُسکے سامنے بھی آیا تو کِس طرح کہ وہ اُسے پِہچان بھی نہ سَکا۔ اُور وُہ
کتنے آرام سے اِسے دھوکہ دے کر چلا بھی گیا۔ بلکہ نہیں وُہ تُو اِسکا تمسخر
اُڑا کر چلا گیا تھا۔ گُویا کہنا چاہتا ہُو کہ ،،بچے ہُو ابھی تُم۔ اُور
اِس کھیل کے اصولوں سے بھی ناواقف ہُو۔ پہلے جَانو طرق کھیل کا۔ پھر میدان
میں آنا۔۔۔۔۔۔۔! کامِل علی اِسی کیفیت کے سحر میں حیران و پریشان دروازے کی
چوکھٹ میں کھڑا تھا کہ لکڑی کی کھٹا کھٹ کی آواز نے اُسکا دھیان اپنی جانب
کھینچ لیا۔
کامِل علی نے آواز کی سِمت گردن گھما کر دیکھا تُو۔۔۔۔۔۔ وہی ہِندو بنگالی
بابا اِسکی طرف بڑھا چلا آرہا تھا۔ کامل علی بنگالی بابا کو حیرت سے دیکھ
رَہا تھا۔ کیونکہ رات آدھی سے زیادہ بیت چُکی تھی۔ پہلے دانہ ثمانی کا موکل
آدھی رات میں پنکھوں کی ڈلیوری کرنے آیا تھا۔ حالانکہ کامل علی تُو اُس وقت
غُصہ میں یہ بھی نہیں سُوچ پایا تھا۔ کہ بھلا آدھی رات کو کُون کِسی کو
سُوتے سے جگا کر سودا بیچنے آتا ہے۔ اُور اب یہ بنگالی بابا رات کے ۲ بجے
جھومتا جھامتا چلا آرہا ہے۔ کہیں یہ بھی تُو دانہ ثمانی کے موکِل کا کوئی
نیا بِہرُوپ اور کوئی نیا کھیل نہیں ہے ۔ لیکن اگر یہ وہی ہے تُو اِس مرتبہ
یہ مجھے دھوکہ نہیں دے پائے گا۔
کامِل علی اِنہی سُوچوں میں گُم تھا۔ کہ بنگالی بابا کی بھنچی بھنچی آواز
کامل کے کانوں میں گونجنے لگی۔ مُورکھ۔۔۔ وُہ سوانگ بھر کے تیری سپھلتا کو
اسپھلتا میں بدل کر اُور تیری ساری تپسیا کوبھنگ کر کے تُجھے جُل دے کر
بھاگ چُکا ہے۔ اور تُو ابھی تک انہی وِچاروں میں مست ہے کہ وہ واپس تیرے
پاس چلا آئے گا۔ تیری ذرا سی نادانی نے تُجھے لابھ سے نِراشا کے پتھ کی
یاترا کرادی۔ ارے ڈشٹ ایکبار مجھ سے کہا تو ہُوتا۔۔۔۔ میں تُجھے ایسا گیان
پرابت کرتا۔ کہ کوئی چھل کپھٹ اُسکے کام نہ آتا۔ مگر بھاگیہ کا جو لکھا ہے۔
وُہ تُو سبھی کو بھوگنا پڑتا ہے۔ ارے مورکھ تُو کیا جانے کہ ،، تُونے کیا
کھو دِیا۔ میں نے کئی برس اُسکی آشا میں اپنی جیون کو نرکھ کی طرح گُزارا
ہے۔ مگر اُسنے کبھی اپنی کشن جیوتی (جھلک) کے قابل بھی نہیں جانا مجھے۔
اُور ایک تو جنم جلا ہے۔ جسکے دُوار وہ سُوئم خُود چل کر آگیا۔ مگر تُو
اُسکی سمانتا (پہچان) نہیں کرپایا۔ تُو نہیں جانتا میں نے بھگوان سے تیری
سپھلتا کیلئے کتنی پرارتھنا کی تھی۔ مگر ہائے افسوس وُہ تیرے بھی ہاتھ نہیں
آیا۔ مگر بالک نِراش نہ ہُو۔ کل میرے استھان پر آجانا۔ میں تُجھے ایسے گُر
سِکھاؤں گا۔ کہ پھر کوئی تیرے ساتھ اُلاس و کِھلواڑ نہیں کرپائے گا۔
صبح ناشتے پانی سے فارغ ہُونے کے بعد کامِل علی رات کو بنگالی بابا سے
ہُونے والی گُفتگو کے متعلق سُوچتا رَہا۔ کافی سُوچ بِچار کے بعد کامِل علی
اِسی نتیجے پر پُہنچا کہ اُسے بنگالی بابا کی شاگردی اِختیار کرلینی
چاہیئے۔ اِس سے جہاں اِسکی معلومات میں اِضافہ ہُوگا وہیں بنگالی بابا کے
تجربے سے بھی وُہ مستفید ہُوجائے گا۔
بازار سے گُزرتے ہُوئے ایک نامانوس سی آواز نے کامِل علی کو اپنی جانب
متوجہ کرلیا۔ یہ ایک ننگ دھڑنگ مجذوب سا آدمی تھا۔ جو صرف ایک ہاف پتلون
میں ملبوس تھا۔ وہ مجذوب بظاہر ایک دیوار سے مُخاطب تھا مگر اُس کے جُملے
کی کاٹ سے کامل علی کو یُوں مِحسوس ہُوا جیسے وہ اُسی پر پھبتی کَس رَہا
ہُو۔ کامل علی نے اُس مجذوب کو نظر انداز کرتے ہُوئے اپنا سفر جاری رکھا۔
مگر ابھی وہ چند قدم ہی چلا ہُوگا کہ وہی مجذوب کامل علی کو سامنے ایک
دوسری دیوار سے وہی جُملہ ،، اُو لگائی کے غلام کیوں اپنے دین کو بیچنے چلا
ہے،، کہتا نظر آیا۔ کامِل علی غُصہ کیساتھ ساتھ حیرت زدہ بھی تھا۔۔۔ کہ
ابھی وہ جِس مجذوب کو پیچھے چھوڑ کر آیا ہے۔ وُہ اتنی جلدی اِس سے آگے کِس
طرح پُہنچ گیا ہے۔
کامل علی نے حِقارت سے مجذوب کی جانب نِگاہ اُٹھائی تُو اُسکو یہ دیکھ کر
اُبکائی آنے لگی۔ کہ مجذوب کی ہاف پینٹ گِیلی تھی۔ شائد اُسکا پیشاب نِکل
گیا تھا۔ جو ہاف پینٹ سے نِکل نِکل کر نرم زمین میں جذب ہُورہا تھا۔ مگر
کامل علی کو کراہیت اسلئے محسوس ہُورہی تھی۔ کہ وہ مجذوب اپنے دونوں ہاتھوں
سے اُسی گیلی زمین کی مٹی کیساتھ کھیل رَہا تھا۔ پھر اُسنے ایک اور عجیب
حرکت کی۔۔۔ اُور اُس مجذوب نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اچانک چاٹنا شِروع
کردِیا۔ کامل علی کو اپنی جانب متوجہ دیکھ کر مجذوب نے اپنے پاس آنے کا
اِشارہ کیا۔ کامل علی نے حقارت سے اپنی نظروں کو مجذوب سے پھیرا اُور آگے
بڑھ گیا۔ ایک کُوس کا فاصلہ طے کرنے کے بعد جب کامِل علی شہر سے باہر نِکل
آیا۔ تُو اُسکی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اُسنے دیکھا کہ وہی مجذوب اُس سے
پہلے شہر کی بیرونی شاہراہ پر موجود ہے۔
کِامل علی اب بھی اُس سے نِگاہ پھیر کر گُزر جانا چاہتا تھا۔ مگر اچانک وہ
مجذوب اُسکے مقابل آکر کھڑا ہُوگیا۔ کامِل علی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
کہ وہ کسطرح اِس مجذوب سے اپنا پیچھا چھڑائے۔ یکایک مجذوب کی آنکھیں شُعلے
برسانے لگیں۔ کُچھ ہی لمحوں میں مجذوب کی آنکھوں کی سفیدی سُرخی میں بدلتی
چلی گئی۔ کامل علی کو ایسے محسوس ہُورہا تھا۔ کہ کِسی بھی پل مجذوب کی
آنکھوں سے خُون کی آبشار اُبل پڑے گی۔ کامل علی خُود کو مجذوب کے آگے بےبس
و مسحور پارہا تھا۔ پھر مجذوب کے لب ہِلے اور وہ کامل علی سے گویا ہُوا۔۔۔۔
اُو بے غیرت۔۔۔ کیا تیرے ماں باپ نے تُجھے اِسی دِن کیلئے پالا پُوسا تھا۔
کہ تُو ایک دِن کافر کی چاکری کرے اور اپنے رب کی ناراضگی کو فراموش
کربیٹھے۔ جو پائخانہ تُو کھانے جا رہا ہے۔ اُس سے تُو یہ کیچڑ بھلی ہے۔ لے
چاٹ لے اِسے۔ اُو گندگی کے حریص چاٹ لے اِسے۔ اُو خبیث مُردار کی مُحبت میں
مرے جانے والے چاٹ لے یہ کیچڑ اِس سے پہلے کے پرندے اپنے گھونسلوں میں
پُہنچ جائیں ۔۔۔۔!
کامل علی مجذوب کی آنکھوں کے سحر میں مُبتلا تھا۔ پھر ایک موٹر کار والے نے
زور دار ہارن دیکر اُسے متوجہ کرتے ہُوئے موٹی سی گالی بکتے ہُوئے کہا۔۔
مرنے کا اگر اتنا ہی شوق ہے تو ِکسی دریا میں چھلانگ کیوں نہیں لگادیتے۔ یا
کِسی ٹرین کے سامنے جاکر کھڑے ہُوجاؤ ۔۔۔۔۔ کامل علی نے ہڑابڑا کر دیکھا۔
تو خُود کو میں رُوڈ کے عین درمیان میں تنہا پایا۔۔۔۔۔ مجذوب کادُور۔ دُور
تک کوئی سراغ نہیں تھا۔ البتہ کامل علی کے دُونوں ہاتھ اُسی کیچڑ سے لتھڑے
پڑے تھے۔ جِس سے ابھی کُچھ ہی لمحے قبل وہ مجذوب کھیل رَہا تھا۔
(جاری ہے)
اے عشق تیرے صدقے جلنے سے چُھٹے سستے
،، جو آگ بُجھائے گی وہ آگ لگائی ہے ،،
پَلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا |