گُذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
کامل علی مجذوب کی آنکھوں کے سحر میں مُبتلا تھا۔ پھر ایک موٹر کار والے نے
زور دار ہارن دیکر اُسے متوجہ کرتے ہُوئے موٹی سی گالی بکتے ہُوئے کہا۔۔
مرنے کا اگر اتنا ہی شوق ہے تو ِکسی دریا میں چھلانگ کیوں نہیں لگادیتے۔ یا
کِسی ٹرین کے سامنے جاکر کھڑے ہُوجاؤ ۔۔۔۔۔ کامل علی نے ہڑبڑا کر دیکھا۔ تو
خُود کو مین رُوڈ کے عین درمیان میں تنہا پایا۔۔۔۔۔ مجذوب کادُور۔ دُور تک
کوئی سراغ نہیں تھا۔ البتہ کامل علی کے دُونوں ہاتھ اُسی کیچڑ سے لتھڑے پڑے
تھے۔ جِس سے ابھی کُچھ ہی لمحے قبل وہ مجذوب کھیل رَہا تھا۔
اَب مزید پڑھیئے۔۔۔
کامل علی نے کار ڈرائیور سے معذرت طلب کرتے ہوئے جونہی رُوڈ کے ایک طرف
ہُونے کی کوشش کی۔ ایک مُوٹر بائیک تیزی سے رُوڈ کے کِنارے سے گُزری جسکی
وجہ سے کامل علی بائیک سے ٹکرا کر گِر پڑا۔ بائیک اگرچہ بڑی رفتار سے گُزر
گئی۔ لیکن کامل علی اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پایا۔ اُور بے اِختیار کامل
علی نے اپنے چہرے کو بچانے کیلئے اپنے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر رکھ لئے۔
ہاتھ چہرے کے نزدیک آنے پر کامل علی کی ناک سے سُوندھی سُوندھی ربڑی کی
خُوشبو ٹکرائی۔
کامل علی کے دِل میں خیال گُزرا کہ شائد بیچارے موٹر بائیک والے کی ٹکرانے
کی وجہ سے ربڑی کی تھیلی گر کر پھٹ چُکی ہے۔۔۔۔کامل علی نے سنبھلنے کے بعد
رُوڈ کے چاروں طرف نِگاہ گُھمائی لیکن یہ کیا۔۔۔۔۔۔ رُوڈ پر ربڑی تُو کُجا
دودھ کا ایک چھینٹا بھی دِکھائی نہیں دے رَہا تھا۔۔۔۔۔۔ حالانکہ ربڑی کی
مِہک ابتک کامل علی کے مسامِ دِماغ کو مہکارہی تھی۔ کامل علی اِسی شش و پنج
میں گرفتار تھا۔۔۔ کہ ایک مکھی کامل علی کی ناک پر آکر بیٹھ گئی۔ کامل علی
نے ایک ہاتھ کی مدد سے جُونہی مکھی کو اُڑانا چاہا۔ پھر وہی ربڑی کی تیز
مہک کامل عُلی کُو مِحسوس ہُوئی۔
کامل علی نے ایک خیال کے تحت جب اپنے کیچڑ سے لتھڑے ہاتھ اپنی ناک کے قریب
کئے تُو کامل علی پر یہ راز آشکارہ ہُوا کہ،، ربڑی کی مہک کہیں اُور سے
نہیں بلکہ۔۔۔۔ اسکے کیچڑ بھرے ہاتھوں سے آرہی ہے۔۔۔ کامل علی نے چاروں جانب
نِگاہ گُھما کرجب اطمینان کرلیا۔ کہ کوئی اُسے نہیں دیکھ رَہا ہے۔ تب اُس
نے احتیاط سے زُبان کی نُوک سے ذرا سی کیچڑ کا ذائقہ چکھا۔۔۔۔۔ کامل علی
تصویر حیرت بنا ہُوا تھا۔۔۔ کیونکہ بظاہر نظر آنے والی کیچڑ درحقیقت
انتہائی شیریں اور لذیز ربڑی کا مزہ دے رہی تھی۔۔۔۔ کامل علی کے ہُونٹ
جُونہی ربڑی کے ذائقے سے روشناس ہُوئے۔ کامل علی نے ندیدوں کی طرح اپنے
ہاتھوں کو چاٹنا شِروع کردیا۔۔۔۔ یہانتک کہ کامل علی نے اپنے ہاتھوں کو
چَاٹ چَاٹ کر بالکل صاف کرنا شروع کر دیا۔۔۔ تبھی کِسی کے لگاتار قہقہوں سے
تمام فِضاٗ گُونج اُٹھی۔ ۔۔۔۔ کامل علی کِھسیانا ہُوکر اِدھر اُدھر دیکھنے
لگا۔۔۔ لیکن انسان تُو انسان کوئی چُڑیا کا بچہ بھی کامل کو دِکھائی نہ
دِیا ۔تمام راستہ ایسے سُنسان پڑا تھا۔ گُویا وہ کِسی مصروف و بَا رُونق
ہائی وے پر موجود نہ ہُو۔۔۔۔ بلکہ موت کی شاہراہ پر کھڑا ہُو ۔ جسکے خُوف
سے یہاں کوئی گُزرنا پسند نہ کرتا ہُو۔
کامل علی مُسلسل آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چہار سُو دیکھ رہا تھا۔ دھیرے دِھیرے
خُوف کی ایک پرت اُسکے بدن پر چھائی جارہی تھی۔۔۔۔ کُچھ لمحوں بعد قہقہے
تَھم گئے۔۔۔ تمام ماحُول پر اِک عجیب سی پُرسراریت طاری تھی۔ ۔۔۔ اچانک
اُسی مجذوب کی آواز کامل علی کے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔ وہ بڑی حِقارت سے کامل
علی سے مُخاطِب تھا۔ ۔۔۔۔بتا اُو بدبخت ۔کیسا مزاہ پایا تُونے اُس غِلاظت
کو کھانے میں۔۔۔۔ ؟ انسان بن جا اُو۔ نامرد۔۔۔ چھوڑ دے گندگی کی طمع۔۔۔۔
ورنہ یُونہی بھوکے کُتے کی طرح گندگی کی تلاش میں اپنی زندگی کا سرمایہ
لُٹاتا رہے گا۔۔۔۔! اُور جب تک تُجھے اِن انمول رتنوں کی قیمت کا اندازہ
ہُوگا۔ تب تلک واپسی کا راہ بند ہُوچُکی ہُوگی تُجھ پر۔۔۔۔۔ ارے اُو
ناہنجار سنبھل جا۔۔۔۔۔ نفرت کی جُوالا مُکھی کو برداشت کے پیمانے سے بدل
ڈال۔ ورنہ یاد رکھ بُہت پچھتائے گا۔۔۔
بابا جی خُدا کیلئےسامنے تو آئیے۔۔۔ کیوں میری جان دِہلائے جا رہے ہیں۔ بس
ایک مرتبہ میرے رُوبرو آجائیں ۔ پھر میں وہی کرونگا جو آپ کہیں گے۔۔۔ کامل
علی نے گِھگیائے ہُوئے لہجے میں فریاد کرتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ کامل علی کے
جملوں کی بازگشت ابھی تھمی بھی نہ تھی کہ ،، وہی مجذوب کامل علی کو دُور
ایک سائہ دار دَرخت سے ٹیک لگائے بیٹھا نظر آیا۔ کامل علی نے فوراً دُوڑ کر
مجذوب کے قدم تھامتے ہُوئے کہا۔ بابا جی نصیحت کیساتھ ساتھ راستہ کا پتہ
بھی تُو بتائیں۔۔۔؟
مجذوب نے اپنی سُرخ سُرخ آنکھوں سے کامل علی گھورتے ہُوئے کہا،، کمبخت کیا
اُس حرامزادے جوگی سے بھی منزل کا پتہ معلوم کرنے گیا تھا تُو ۔۔ ۔؟
نہیں بابا جی وہ تُو بس ایسے ہی اتفاق سے مُلاقات ہُوگئی تھی میری اُس
سے۔۔۔ کامل علی نے نظریں چُراتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔ جھوٹ مت بُول کمبخت مجھ
سے۔۔۔۔ اگرچہ تُجھے محسوس نہیں ہُوتی مگر جب تُو جھوٹ بولتا ہے نا۔ تب تیرے
مُنہ سے بڑی ناقابِل برداشت بدبُو نکلتی ہے۔ جُو تیرے جھوٹ کا پردہ چاک
کردیتی ہے۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ ابھی تُجھ پر میری باتوں کا کُچھ اثر نہیں
ہُونے والا۔ ۔۔ میں بھی ڈھونگ اور سوانگ کرتے کرتے تھک چُکا ہُوں۔ مگر
تُجھے ایک نصیحت کرے بِنا میرا دِل نہیں مانے گا۔۔۔ بس اُس پاکھنڈی سے دُور
ہُوجا۔ اِسی میں تیری بھلائی ہے۔ اِس سے زیادہ کہنے کی مجھے بھی اِجازت
نہیں ہے۔ اتنا کہہ کر وہ مجذوب پھر سے غائب ہُوگیا۔
کامل علی چند لمحے مجذوب کو اِس اُمید پر آوازیں دیتا رہا کہ،، شائد وہ پھر
سے آجائے لیکن کامل کی بار بار دِی جانے والی صدائیں تشنہ کام واپس لُوٹ
آئیں۔ کامل علی نے جوگی کے پاس جانے کے اِرادے کو ملتوی کیا۔ اُور واپس پلٹ
کر شہر کی جانب چلدیا۔ شہر پُہنچنے کے بعد کامل علی نے اُس دیوار کے قریب
ایک خُوش شکل و خُوش لِباس شخص کو دیکھا۔ جو بڑی بے چینی سے اپنی قیمتی کار
سے ٹیک لگائے کِسی کا انتظار کررہا تھا۔
کامل علی نے کُچھ سُوچ کر اُس شخص کو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا،، کیا آپ نے
ابھی یہاں کِسی مجذوب کو دیکھا ہے۔۔۔۔؟ ۔ وُہ نوجوان مجذوب کا تذکرہ سُنتے
ہی ایسے الرٹ ہُوگیا۔ جیسے کِسی کانسٹیل کے سامنے اُسکا افسر اچانک نمودار
ہُوجائے۔۔۔ کیا آپ بابا صابر کے مُتعلق استفسار کررہے ہیں۔۔۔؟ نوجوان نے
نہایت عقیدت و احترام سے بابا صابر کا نام لیتے ہُوئے کامل علی سے سُوال
کیا۔
بھائی نام تُو مجھے معلوم نہیں ہے ۔۔۔ بس اُنہیں پہلی مرتبہ یہیں برائے نام
کپڑے پہِنے۔ دیوار سے باتیں کرتا دیکھا تھا۔ اُنہوں نے کبھی اِتنا موقع ہی
نہیں دِیا کہ اُن سے اُنکا نام معلوم کرپاتا۔ کیونکہ وُہ خُو دہی خُود
بُولے چلے جاتے ہیں۔ مجھے تو سوال کا بھی موقع ہی نہیں دیتے۔۔۔ کامل علی نے
مختصراً کلام کرتے ہُوئے کہا۔
پھر شائد آپ کِسی اُور کی تلاش میں ہیں۔ کیونکہ بابا صابر کو میں نُو ۔ دَس
برس سے جانتا ہُوں۔ مگر وُہ کِسی سے بات نہیں کرتے۔ اگر کبھی بُولتے بھی
ہیں تُو وُہ ایسی زُبان ہُوتی ہے۔ جِسے کوئی سمجھ نہیں پاتا۔ اُس نوجوان نے
کامل کو جواب دیتے ہُوئے کہا۔
صحیح کہتے ہیں آپ۔۔۔ لیکن عجیب اتفاق ہے۔ کہ آپ بھی کِسی اللہ والے کے یہیں
منتظر ہیں۔ اُور میں بھی اِس جگہ کے عِلاوہ اُس مجذوب کو کوئی ٹھکانہ نہیں
جانتا۔ ۔۔۔ لیکن کتنے تعجب کی بات ہے کہ میں اِسی شہر میں رِہتا ہُوں۔ پھر
بھی بابا صابر کی شخصیت اُور اُنکے نام سے ناآشنا ہُوں۔ جبکہ آپ تُو اِس
علاقے کے بھی نہیں لگتے۔کامل نے خُوش اِخلاقی سے جواب دیتے ہُوئے کہا۔
میرے خیال میں آپ نے اُنہیں دیکھا تُو ضرور ہُوگا۔۔۔ بس دھیان نہیں دِیا
ہُوگا۔۔۔ مگر آپ چاہیں تُو میں آپکو بابا صابر کی تصویر دِکھا سکتا ہُوں۔
اُس نوجوان نے اِتنا کہنے کے بعد کامل کی درخواست کا انتظار بھی نہیں کیا۔
اُور پرس نِکال کر تصویر ِڈُھونڈنے میں مشغُول ہُوگیا۔ چند لمحوں بعد اُس
نوجوان نے ایک چھوٹی سی تصویر پرس سے نِکال کر یہ کِہتے ہُوئے کامل علی کی
طرف بڑھائی۔ یہ لیجیئے یہ ہیں ،، صابر بابا۔ آپ بھی زِیارت کرلیجئے۔
کامل علی حیرت سے تصویر دیکھ رہا تھا۔ کیونکہ یہ اُسی مجذوب کی تصویر تھی۔
جُو بار بار کامل علی کو نصیحت کررہا تھا۔ جبکہ اُ س نوجوان کا بیان تھا کہ
بابا صابر نے اُس کےسامنے دس برس میں کبھی زُبان نہیں کھولی۔
(جاری ہے)
اے عشق تیرے صدقے جلنے سے چُھٹے سستے
،، جو آگ بُجھائے گی وہ آگ لگائی ہے ،،
پَلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا |