گاڑی چولستان کے آگ برساتے صحرا
کے ایک خشک ٹوبے کے کنارے رکی، چند قدم کے فاصلے سے پیاس سے بے سدھ تیتر کا
جوڑا صحرا کی جانب بھاگا، کسی نے ان کو پکڑنے کی تجویز بھی دی، حقیقت یہی
ہے کہ جوڑا شدت پیاس کی وجہ سے اڑان بھرنے کے قابل بھی نہ تھا، چولستان میں
گرمیوں میں ’ٹوبہ‘زندگی کا استعارہ ہوتا ہے، بشرطیکہ اس میں پانی ہو۔ ٹوبہ
کے چاروں اطراف میں کئی ایکڑ تک پھیلا جانوروں کا فضلہ اس بات کا ثبوت تھا
کہ چند ماہ قبل تک یہاں زندگی کے آثار تھے،مگر جب یہاںپانی نہ رہا تو زندگی
بھی روٹھ کر کسی اور منزل کی جانب سفر کرگئی۔ چولستان کے روہیلے، اونٹ اور
گائیں اللہ تعالیٰ کی کئی نعمتوں سے مالا مال ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ
سیکڑوں میل کے بے سمت راستوںمیں یہ لوگ بھٹکتے بہت کم ہیں، جانوروں کو بھی
ٹوبوں کے رستے معلوم ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ خود بخود ہی ٹوبوں کی جانب سفر
کرتے ، اپنی پیاس بجھاتے اور بعض اوقات رات وہیں بسر کرکے اگلی صبح پھر
تلاش رزق کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ تیتر کا جوڑا بھی اسی فطرت سے آشنا تھا۔
منظر تو دوسرا بھی معمولی تھا، مگر دیکھنے والوں کی آنکھیں ڈبڈباگئیں، خشک
ٹوبے کے کنارے ایک مریل سے درخت کے نیچے اگی جھاڑی پر بیٹھے چھوٹے سے پرندے
کی پیاس کے مارے بے بسی سے کھلی چونچ دیکھ کر مسافر لرز گئے، تجویز ہواکہ
ان کو پانی پلایا جائے، مگر کوئی ایسا برتن نہیں تھا، جس میں پانی ڈال کر
ان کے سامنے رکھا جاتا ، پانی بوتل میں تھا، اگر پانی زمین پر انڈیلتے ہیں
تو چند سیکنڈ میں اسے صحرا کی پیاسی ریت جذب کرجائے گی، ٹوبہ میں پانی کھڑا
رہنے کی وجہ سے زمین سخت ہوجاتی ہے، ایک فٹ لمبی اور چھ انچ چوڑی زمین
کھودی گئی، ایک آدھ لٹر پانی اس میں ڈالا گیا، اس کے بعد کا منظر ناقابل
فراموش ہے، مسافروں نے دیکھا کہ وہ منے منے سے پرندے کہ بھوک پیاس نے جن کو
ہڈیوں اور پروں کا ڈھانچہ بنادیا ہے، پانی پر ایسے گرے جیسے شکاری کی گولی
لگنے سے پرندہ گرتا ہے، پہلے ایک اترا ، پھر دوسرا ، تیسرا ، یوں آٹھ دس
پرندے پیاس بجھانے لگے، اور چند ہی سیکنڈ میں واپس درختوں کی شاخوں میں
کھیلنے لگے، ان کی آواز کا سادہ سلیس مفہوم یہی تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا
شکر ادا کررہے ہیں اور مسافروں کو دعادے رہے ہیں۔
یہ ٹوبوں کی کہانی نہایت سادہ ہے، صحرائی ٹیلوں میں نشیبی جگہ پر پانی
اکٹھا ہوجاتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے پہاڑی علاقوں میں جھیل معرض وجود میں
آتی ہے۔ ان ٹوبوں کے راستے خود جانور ہی تلاش کرلیتے ہیں، ٹوبے مویشیوں کے
پانی پینے کا قدرتی ذریعہ ہے جو صدیوں سے رائج ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے یہ
ہوا کہ چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے کروڑوں روپے لگا کر تقریباًً ڈھائی سو
کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائی، آٹھ دس کلومیٹر کے فاصلے پر پانی کے حوض
بنائے ، جہاں انسانوں اور چھوٹے بڑے جانوروں کے پانی پینے کے الگ بندوبست
تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ صدیوں سے رائج طریقہ متروک ہوتا گیا، ٹوبے صفائی نہ
ہونے کی وجہ سے زمین کے برابر آگئے، اب وہاں بارش کی صورت میں معمولی پانی
کھڑا ہوتا ہے، جو چند روز میں ختم ہوجاتا ہے، پائپ لائن کی سہولت چولستان
کے محدود علاقے کو میسر ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ چولستان میں بسنے والے انسان اور جانور پانی کی بوند
بوند کو ترس رہے ہیں، بارش نہیں ہوئی، ہوبھی جائے تو ٹوبے پانی محفوظ کرنے
کے قابل نہیں ہیں، پائپ لائن میں پانی ندارد، اگر کبھی کوئی احتجاج وغیرہ
سامنے آجائے تو ایک دفعہ لائن کھل جاتی ہے، پھر بند ہوجاتی ہے۔ مسافروں نے
بچشم خود جگہ جگہ مردہ گائیوں کے ڈھانچے دیکھے ہیں، یہ تو راستوں میں تھے ،
سیکڑوں میل پھیلے چولستان میں ان کا شمار کیونکر ممکن ہے؟ حکومت پنجاب جہاں
چولستان کی ترقی اور بہبود کے لئے ہزاروں ایکڑ زمین سرمایہ کاروں میں تقسیم
کرنا چاہتی تھی اور چولستان میں جہاں لاکھوں روپے کی مالیت کے سٹیڈیم بنا
کر روپیہ ضائع کیا گیا ہے وہاں ضرورت ان ٹوبوں کی صفائی کی تھی، وہاں ضرورت
پائپ لائن کو چالو کرنے کی ہے۔ کیا پنجاب کے وزیراعلیٰ پانی کی بوند بوند
کو ترسنے والے انسانوں اور جانوروں کے بارے میں سوچنے کے لئے بھی کچھ وقت
نکالیں گے، یا یہ لوگ اور ان کے جانور بے بسی سے یونہی مرتے رہیں گے؟؟ |